تحفظ پاکستان ترمیمی آرڈیننس کا نفاذ
صدر پاکستان نے تحفظ پاکستان (ترمیمی) آرڈیننس نافذ کرنے کی منظوری دے دی ہے جس کے ذریعے گمشدہ اور لاپتہ افراد کے ...
ISLAMABAD:
صدر پاکستان نے تحفظ پاکستان (ترمیمی) آرڈیننس نافذ کرنے کی منظوری دے دی ہے جس کے ذریعے گمشدہ اور لاپتہ افراد کے معاملے کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں، اس آرڈیننس میں 7 نئی ترمیمات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ آرڈیننس کے ذریعے متحارب جنگجو پاکستان دشمن عناصر کی تشریح ان الفاظ میں کی گئی ہے کہ ''جو شخص پاکستان، پاکستانی شہریوں، مسلح افواج، سول فورسز یا ان کے معاونین کے خلاف ہتھیار بند ہوکر لڑے گا، دھمکی دے گا یا اسی طرح کا کوئی دوسرا اقدام کرے گا، متحارب پاکستان دشمن قرار پائے گا''۔
اس آرڈیننس کا مقصد ملک دشمن عناصر کے خلاف آپریشن کو موثر اور خصوصی عدالتوں کو مزید بااختیار بنانا ہے۔ اس آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کے زیر تحویل (لاپتہ) افراد قانون کے نفاذ کے روز سے زیر حراست تصور کیے جائیں گے۔ قیاس کیا جا رہا ہے کہ اس قانون سے ملکی سالمیت و بقا اور قومی یکجہتی کے حوالے سے درپیش خطرات سے نبرد آزما ہونے میں مدد ملے گی اور فوج اور حساس اداروں کے بحالی کے مراکز کو استثنیٰ حاصل ہوجائے گا اور ان میں رکھے گئے افراد کو زیر حراست تصور کیا جائے گا، قومی مفادات کے خلاف کام کرنے والوں کو آیندہ حراستی مراکز میں لانے کے لیے معاملات کو خفیہ رکھنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ایجنسیاں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے گمشدہ اور لاپتہ افراد کے بارے میں اور ان پر عائد الزامات اور تفتیش کے بارے میں بلا خوف و خطر بتا سکیں گے۔ اس قانون سے جبری گمشدگیوں اور شدت پسندی میں نمایاں کمی واقع ہوگی اور ایسے واقعات و سرگرمیوں میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دلانے میں مدد ملے گی۔ اس آرڈیننس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ لاپتہ افراد قانونی حراست میں شمار ہوں گے، ان پر عائد الزامات پر باقاعدہ مقدمات کا آغاز ہوسکے گا، لاپتہ افراد کے لواحقین بھی مطمئن ہوں گے کہ ان کے افراد کے خلاف کارروائی قانونی حدود کے اندر رہتے ہوئے ہوگی۔
عوامی حلقوں میں نئے قانون سے متعلق تحفظات پائے جاتے ہیں، جب اس نئے قانون پر بحث ہوگی تو سیاسی، سماجی اور انسانی حقوق کی تنظیموں اور قانونی حلقوں سے بھی شدید اعتراضات سامنے آنے کی توقعات ہیں۔ لاپتہ افراد کے ورثا کی تنظیم اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے وکلا نے تحفظ پاکستان آرڈیننس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لاپتہ افراد سے متعلق تنظیم ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئر پرسن آمنہ مسعود نے اس قانون کو غیر قانونی اقدامات کو قانونی شکل دینے کی کوششیں قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جن لوگوں کے ساتھ اب تک ظلم و زیادتیاں ہوئی ہیں انھیں جائز قرار دے دیا جائے۔ ملک میں جاری دہشت گردی، قتل و غارت گری، بھتہ خوری اور معصوم شہریوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد کی ہلاکتوں کا جو لامتناہی سلسلہ جاری ہے اس میں غیر معمولی قسم کے اقدامات اٹھانا تو وقت کی اہم ضرورت ہے لیکن ایسے اقدامات کرتے وقت اس پہلو کو خاص طور پر مدنظر رکھنا چاہیے کہ ایسے اقدامات سے مثبت نتائج کے ساتھ ایسے منفی نتائج تو مرتب نہیں ہوں گے، جو اس کی افادیت کو ہی ختم کردیں۔
اس قانون کے تحت اداروں کو کسی بھی شہری کو 90 دن یا زائد مدت کے لیے اپنی تحویل میں رکھنے کا اختیار بڑا خطرناک نظر آتا ہے جو انسانی آزادی اور آئین کے برخلاف نظر آتا ہے، محض شبہ کی بنیاد پر کسی شخص کو حراست میں رکھنا عام شہریوں میں عدم احساس تحفظ کا باعث بنے گا، جسے انسانی حقوق کی تنظیمیں اور عدالتیں باآسانی تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہوں گی۔ بعض لاپتہ و گمشدہ افراد برسہا برس سے ایجنسیوں کی تحویل میں ہیں اگر انھیں اس قانون کے اجرا کے بعد زیر حراست ظاہر کیا جاتا ہے تو ان کی پچھلی حراست یا قید جائز و قانونی قرار پائے گی؟ اگر نہیں تو انھیں اس عرصہ غیر قانونی حراست میں رکھنے والے قصور وار قرار پائیں گے؟ ان میں بہت سے افراد ایسے الزامات کے تحت قید ہوں گے جن کی سزا جرم ثابت ہونے کی صورت میں اتنی مدت کی نہیں ہوگی جتنی وہ اب تک حراست میں کاٹ چکے ہیں۔
قانون کے تحت قید کا عرصہ سزا کے عرصے سے منہا کردیا جاتا ہے تو کیا ایسے لوگوں کو یہ ادارے فوری طور پر رہا کرنے پر رضامند ہوجائیں گے؟ یا پھر ان کی حراست ظاہر کرنے سے گریزاں رہیں گے؟ اگر اس قانون کے نفاذ کے بعد بھی لاپتہ افراد سامنے نہیں آئے تو غلط فہمیاں مزید بڑھیں گے۔ جیساکہ بلوچستان میں قوم پرست اور علیحدگی پسند عناصر الزام لگاتے رہے ہیں کہ ان کے افراد کو حراست میں لے کر قتل کیا جا رہا ہے یا ان کی لاشیں مسخ کرکے پھینک دی جاتی ہیں۔ آئین کا آرٹیکل 8(2) بھی قدغن لگاتا ہے کہ The state shall not make any law which takes away or abridge the right so conferred and any law make in contravention of this clause shall, to the extent of such contravention, be void.
آئین میں بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے، خاص طور پر شخصی آزادی کی ضمانت قید و حراست اور ماضی بہ موثر قانون اور سزا (Retrospective Punishment) عدالت اس پہلو کا بہ نظر غائر جائزہ لے گی۔ حکومت کو اس قانون میں پائے جانے والے سقم اور ابہام (ambiguties) کو دور کرنا چاہیے تاکہ کوئی ادارہ کسی شہری کے بنیادی انسانی حقوق کو پامال کرنے کی خاطر اس کو بطور ہتھیار استعمال نہ کرسکے بلاشبہ غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اختیارات کا استعمال کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ جاتا لیکن اختیارات کے ناجائز استعمال پر بھی قدغن و رکاوٹ ہونی چاہیے، کیونکہ اخلاقی انحطاط کا شکار ہمارا معاشرہ اور اس کے ادارے اتنی اعلیٰ اقدار کے حامل اور پابند نہیں ہیں کہ وہ اپنے اختیارات سے تجاوز نہ کریں۔
صدر پاکستان نے تحفظ پاکستان (ترمیمی) آرڈیننس نافذ کرنے کی منظوری دے دی ہے جس کے ذریعے گمشدہ اور لاپتہ افراد کے معاملے کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں، اس آرڈیننس میں 7 نئی ترمیمات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ آرڈیننس کے ذریعے متحارب جنگجو پاکستان دشمن عناصر کی تشریح ان الفاظ میں کی گئی ہے کہ ''جو شخص پاکستان، پاکستانی شہریوں، مسلح افواج، سول فورسز یا ان کے معاونین کے خلاف ہتھیار بند ہوکر لڑے گا، دھمکی دے گا یا اسی طرح کا کوئی دوسرا اقدام کرے گا، متحارب پاکستان دشمن قرار پائے گا''۔
اس آرڈیننس کا مقصد ملک دشمن عناصر کے خلاف آپریشن کو موثر اور خصوصی عدالتوں کو مزید بااختیار بنانا ہے۔ اس آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کے زیر تحویل (لاپتہ) افراد قانون کے نفاذ کے روز سے زیر حراست تصور کیے جائیں گے۔ قیاس کیا جا رہا ہے کہ اس قانون سے ملکی سالمیت و بقا اور قومی یکجہتی کے حوالے سے درپیش خطرات سے نبرد آزما ہونے میں مدد ملے گی اور فوج اور حساس اداروں کے بحالی کے مراکز کو استثنیٰ حاصل ہوجائے گا اور ان میں رکھے گئے افراد کو زیر حراست تصور کیا جائے گا، قومی مفادات کے خلاف کام کرنے والوں کو آیندہ حراستی مراکز میں لانے کے لیے معاملات کو خفیہ رکھنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ایجنسیاں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے گمشدہ اور لاپتہ افراد کے بارے میں اور ان پر عائد الزامات اور تفتیش کے بارے میں بلا خوف و خطر بتا سکیں گے۔ اس قانون سے جبری گمشدگیوں اور شدت پسندی میں نمایاں کمی واقع ہوگی اور ایسے واقعات و سرگرمیوں میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دلانے میں مدد ملے گی۔ اس آرڈیننس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ لاپتہ افراد قانونی حراست میں شمار ہوں گے، ان پر عائد الزامات پر باقاعدہ مقدمات کا آغاز ہوسکے گا، لاپتہ افراد کے لواحقین بھی مطمئن ہوں گے کہ ان کے افراد کے خلاف کارروائی قانونی حدود کے اندر رہتے ہوئے ہوگی۔
عوامی حلقوں میں نئے قانون سے متعلق تحفظات پائے جاتے ہیں، جب اس نئے قانون پر بحث ہوگی تو سیاسی، سماجی اور انسانی حقوق کی تنظیموں اور قانونی حلقوں سے بھی شدید اعتراضات سامنے آنے کی توقعات ہیں۔ لاپتہ افراد کے ورثا کی تنظیم اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے وکلا نے تحفظ پاکستان آرڈیننس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لاپتہ افراد سے متعلق تنظیم ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئر پرسن آمنہ مسعود نے اس قانون کو غیر قانونی اقدامات کو قانونی شکل دینے کی کوششیں قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جن لوگوں کے ساتھ اب تک ظلم و زیادتیاں ہوئی ہیں انھیں جائز قرار دے دیا جائے۔ ملک میں جاری دہشت گردی، قتل و غارت گری، بھتہ خوری اور معصوم شہریوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد کی ہلاکتوں کا جو لامتناہی سلسلہ جاری ہے اس میں غیر معمولی قسم کے اقدامات اٹھانا تو وقت کی اہم ضرورت ہے لیکن ایسے اقدامات کرتے وقت اس پہلو کو خاص طور پر مدنظر رکھنا چاہیے کہ ایسے اقدامات سے مثبت نتائج کے ساتھ ایسے منفی نتائج تو مرتب نہیں ہوں گے، جو اس کی افادیت کو ہی ختم کردیں۔
اس قانون کے تحت اداروں کو کسی بھی شہری کو 90 دن یا زائد مدت کے لیے اپنی تحویل میں رکھنے کا اختیار بڑا خطرناک نظر آتا ہے جو انسانی آزادی اور آئین کے برخلاف نظر آتا ہے، محض شبہ کی بنیاد پر کسی شخص کو حراست میں رکھنا عام شہریوں میں عدم احساس تحفظ کا باعث بنے گا، جسے انسانی حقوق کی تنظیمیں اور عدالتیں باآسانی تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہوں گی۔ بعض لاپتہ و گمشدہ افراد برسہا برس سے ایجنسیوں کی تحویل میں ہیں اگر انھیں اس قانون کے اجرا کے بعد زیر حراست ظاہر کیا جاتا ہے تو ان کی پچھلی حراست یا قید جائز و قانونی قرار پائے گی؟ اگر نہیں تو انھیں اس عرصہ غیر قانونی حراست میں رکھنے والے قصور وار قرار پائیں گے؟ ان میں بہت سے افراد ایسے الزامات کے تحت قید ہوں گے جن کی سزا جرم ثابت ہونے کی صورت میں اتنی مدت کی نہیں ہوگی جتنی وہ اب تک حراست میں کاٹ چکے ہیں۔
قانون کے تحت قید کا عرصہ سزا کے عرصے سے منہا کردیا جاتا ہے تو کیا ایسے لوگوں کو یہ ادارے فوری طور پر رہا کرنے پر رضامند ہوجائیں گے؟ یا پھر ان کی حراست ظاہر کرنے سے گریزاں رہیں گے؟ اگر اس قانون کے نفاذ کے بعد بھی لاپتہ افراد سامنے نہیں آئے تو غلط فہمیاں مزید بڑھیں گے۔ جیساکہ بلوچستان میں قوم پرست اور علیحدگی پسند عناصر الزام لگاتے رہے ہیں کہ ان کے افراد کو حراست میں لے کر قتل کیا جا رہا ہے یا ان کی لاشیں مسخ کرکے پھینک دی جاتی ہیں۔ آئین کا آرٹیکل 8(2) بھی قدغن لگاتا ہے کہ The state shall not make any law which takes away or abridge the right so conferred and any law make in contravention of this clause shall, to the extent of such contravention, be void.
آئین میں بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے، خاص طور پر شخصی آزادی کی ضمانت قید و حراست اور ماضی بہ موثر قانون اور سزا (Retrospective Punishment) عدالت اس پہلو کا بہ نظر غائر جائزہ لے گی۔ حکومت کو اس قانون میں پائے جانے والے سقم اور ابہام (ambiguties) کو دور کرنا چاہیے تاکہ کوئی ادارہ کسی شہری کے بنیادی انسانی حقوق کو پامال کرنے کی خاطر اس کو بطور ہتھیار استعمال نہ کرسکے بلاشبہ غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اختیارات کا استعمال کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ جاتا لیکن اختیارات کے ناجائز استعمال پر بھی قدغن و رکاوٹ ہونی چاہیے، کیونکہ اخلاقی انحطاط کا شکار ہمارا معاشرہ اور اس کے ادارے اتنی اعلیٰ اقدار کے حامل اور پابند نہیں ہیں کہ وہ اپنے اختیارات سے تجاوز نہ کریں۔