صدا بہ صحرا

انسان اور حیوان میں کیا فرق ہے؟ ہوسکتا ہے کہ بنیادی طور پر کوئی خاص فرق نہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ جزئیات کے...


راؤ سیف الزماں January 26, 2014

انسان اور حیوان میں کیا فرق ہے؟ ہوسکتا ہے کہ بنیادی طور پر کوئی خاص فرق نہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ جزئیات کے مطالعے میں ایک کشادہ خلیج کا احساس ہونے لگے۔ پھر یہ بات بھی غیر اغلب نہیں کہ فرق و تفریق کے اس مسئلے پر میں اور آپ متفق نہ ہوں اور معاملہ مناظرے کا رنگ اختیار کرکے اس قدر طول کھینچے کہ قابل دست اندازی پولیس قرار پائے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ مجھے ابھی ابھی ایک ایسا نکتہ سوجھا ہے جس پر میں اور آپ بخوبی متفق ہوسکتے ہیں۔ ویسے خدانخواستہ اگر اتفاق کا مسئلہ امر محال نظر آئے تو دوسری صورت تو ہے۔

نکتہ یہ ہے کہ انسان کے برعکس حیوان میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ زندگی کے طویل ترین لمحات بغیر کوئی آواز اپنے حلق سے نکالے، بڑے اطمینان سے گزار سکتاہے۔ گویا ایک اونٹ کی مثال لیجیے اور اس کی تسلیم و رضا کا تصور کیجیے جب یہ دو ہی لقموں کے بعد بڑے اطمینان سے گھنٹوں بغیر کلام کیے محض رسماً ہونٹ ہلاتا رہتاہے۔ مجھے سابق صدر پرویز مشرف کی ایک سے کہیں زیادہ تقاریر کے متن حفظ ہیں۔ حرف بہ حرف ان کی تقاریر جو آہن کی زنجیر یعنی آہنی زنجیر کی مانند تھیں، دوران گفتگو بار بار ان کا مکا لہرانا، سیاچن کی چوٹی پر دوران معائنہ ان کا ٹی ٹی نکال کر فائر کرنا اور سگار پیتے ہوئے دوران انٹرویو ہمیشہ یہ کہنا کہ پاکستان میں اب الیکشن، سیاست، تجارت، ترقی سب کچھ دو شخصیات کے بغیر ہوگا اور وہ ہیں (1) نواز شریف (2) بینظیر بھٹو۔

ان کا 8سالہ دور اقتدار، ترقی، تنزلی، قید، رہائی، لیکن بلند بانگ دعوئوں سے بھرپور تھا۔ جس میں قدم قدم پر وہ ہمیں دعوے کرتے دکھائی دیے۔ جس میں اس سعیٔ لا حاصل کا رنگ ہمیشہ غالب رہا کہ وہ تا حیات ملک کے صدر رہیں۔ کوئی ایسی آئینی ترمیم ہوجائے، کوئی ایسا چیف جسٹس کرسی پر بیٹھا ہو، کوئی ایسی پارلیمنٹ وجود رکھتی ہو جو بس ان کے اقتدار کا سلسلہ دراز کرنے کا سبب ہو اور اس کے لیے بلا شبہ انھوںنے وہ سب کچھ کیا جو وہ کرسکتے تھے۔ آئینی ترامیم بھی کی گئیں، سیاسی جماعت کی تشکیل بھی ہوئی، ایمرجنسی کا نفاذ بھی ہوا اور بالآخر وہ رخصت بھی ہوئے۔ جو فطرت کا ایک دائمی فیصلہ ہے جو وقت اور قدرت کے انصاف کی ضرورت ہے اور اب وہ قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔ مقدمات کا سامنا کررہے ہیں، بیمار ہیں اور ملک سے رخصت ہونے کے لیے بہت بیتاب دکھائی دیتے ہیں۔ وہ آہنی لفظ اب خس وخاشاک ہیں، وہ بھاری بھرکم ارادے اور ان سے پیدا شدہ خواہشات سب ہوا ہوگئے۔ میں اس نقطے پر آپ کو کچھ مزید قائل کروںگا کہ حیوان بہ نسبت انسان خاموش رہ کر کس قدر عافیت میں ہیں۔

صحافیوں پر حملے در اصل ایک پوری قوم اور اس کی آزادی پر ہیں، کیوںکہ صحافی معاشرے کا یا طرز معاشرت کا سب سے مضبوط ستون ہیں جو آپ کو احساس دلاتے ہیں کہ آپ کی حیثیت اور حقیقت اہل عالم میں کیا ہے، جو یا تو آپ کے سماج کا ناقد ہیں یا مقلد۔

لیکن معاشرتی قدروں کے انزال یا کمال کے بہترین مخبر ہیں۔ لہٰذا سپاہی کی شہادت اس ادارے کا نقصان ہے جب کہ صحافی کی شہادت ایک پورے سماج کی موت ہے۔ لہٰذا اسے محض خبر کی طرح پڑھنے کے بجائے ہمیں بحیثیت قوم احتجاج کرنا چاہیے، ان قاتلوں کی گرفتاری کے لیے جو ہمیں ملی اس ادھوری سی آزادی کو پھر سے قید وبند کے ان زندانوں کے سپرد کردینا چاہتے ہیں۔ جہاں صرف خاموشی ہوگی، جہاں حیوان رہتے ہوںگے جو زندہ تو ہوںگے لیکن بولتے نہیں ہوںگے۔

میں نے اپنے گزشتہ کالموں میں طالبان سے حکومتی مذاکرات پر اپنے خیالات کا یا اندیشوں کا اظہار یہ کہہ کر کیا تھا کہ طالبان صرف تعلیم ہی سے نہیں اس بنیادی تعلیم سے بھی محروم ہیں جو قدرت ایک نومولود بچے کو بھی پیدا ہوتے ہی عطا کردیتی ہے کیوںکہ ایک مخصوص اور از خود وضع کردہ ماحول نے اور ایک خود ساختہ فہم نے ان سے بہت کچھ چھین لیا ہے جو عام طور پر ایک بالکل عام سے انسان کو بھی حاصل ہوتا ہے۔ جب وہ اپنے جیسے انسانوں کے ساتھ ان طے کردہ اصولوں کے تحت رہ رہا ہوتا ہے جو انسانوں سے کہیں زیادہ فطرت کے تخلیق کردہ ہیں یا جنھیں شعور مرتب کرتا ہے۔ لہٰذا تعلیم سے محرومی نے طالبان کو اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ وہ تحمل سے کوئی بات سن سکیں۔ سکون سے کسی نقطے پر غور کرسکیں یا کم از کم خود اپنے، اپنے بال بچوں کے مستقبل کے بارے میں غور و فکر کرسکیں کہ ان کا کیا ہوگا۔ وہ آخری منزل کیا ہے جس کے لیے وہ لڑرہے ہیں۔

بلا دریغ معصوم اور بے گناہ لوگوں حتیٰ کہ بچوں تک کا قتل عام کررہے ہیں۔ حکومت وقت کو طالبان سے مذاکرات کرتے ہوئے بہت کچھ اپنے ذہن میں رکھنا ہوگا کیوں کہ علم بہترین دوستی کو ہی جنم نہیں دیتا بلکہ بد ترین دشمنی کا خاتمہ بھی اسی سے ممکن ہے۔ جو بد قسمتی سے طالبان کے پاس نہیں ہے۔ لہٰذا مذاکرات ابتدا ہی سے مشکل کا شکار ہیں۔ ابھی بات چیت کا آغاز بھی نہیں ہوپاتا کہ درجنوں اہلکار ماردیے جاتے ہیں جیسے کہ بنوں میں 22سے زیادہ اہلکاروں کو ایک بم دھماکے میں شہید کردیا گیا یا کسی جنرل کو شہید کردیا جاتا ہے۔ استفسار کرنے پر یہ عجیب منطق سامنے آتی ہے کہ ابھی مذاکرات شروع نہیں ہوئے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ گھٹنی کون جاکر طالبان کے گلے میں باندھے گا کہ بھائیو! مذاکرات سے قبل صلح سے پہلے اس کا ماحول بھی تو بنایا جاتا ہے۔ مذاکرات جنگ لڑتے لڑتے نہیں کیے جاسکتے۔ اس کے لیے رک کر ایک میز کے کنارے بیٹھنا ہوتاہے۔ اﷲ حکومت پر رحم فرمائے، قوم پر رحم فرمائے۔ آمین

پاکستان کو ایشین ٹائیگر کہتے کہتے تمام معدنی وسائل کی جنت گردانتے گردانتے ایٹمی قوت مانتے مانتے، وزیر تجارت کہنے لگے کہ بھارت سے بجلی خریدنے کی راہ اب تقریباً ہموار ہوچکی ہے۔ جس کے بعد ہم اس قابل ہو جائیںگے کہ اس سال ملک میں 18گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی، ایک اور خبر کے مطابق LNG گیس کی در آمد کے بعد گیس کی لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ کم ہوسکے گا لیکن پانی؟

محترم وزیر تجارت ان دنوں آپ جہاں تشریف رکھتے ہیں ان سے سندھ طاس معاہدے کی پابندی کا معاملہ اٹھانے کی اشد ضرورت ہے، وہ جس کی صریحاً خلاف ورزی کررہے ہیں۔ وہ آپ کی زمینوں کو صحرا بنادینے پر تلے ہیں اور یاد رکھیے گا کہ پانی امپورٹ نہیں ہوتا ۔ یا ممکن ہے کہ مستقبل میں ہوسکے اور یہ امر قطعی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ بھارت اپنی تقسیم کو کبھی نہیں بھولا، ان سے ہر موقعے پر بہترین فائدہ اٹھا کر آپ کو بد ترین محرومی اور نقصان سے دو چار کیا ہے۔

معاصر اخبار کے ایک کالم نگار نے ایک ٹی وی پروگرام میں دوران گفتگو موجودہ جمہوریت کو شرمندگی سے تعبیر کرتے ہوئے اصل جمہوریت کی خواہش ظاہر کی، نواز شریف حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے عمران خان اور علامہ طاہر القادری کو اپنی اپنی جگہ لائق اور قابل قرار دیا۔

میں ان سے یہ عرض کرنے کی جسارت ضرور کروںگا کہ محترمی! جمہوریت اب فرض ہے یا حقیقی؟ باعث شرمندگی ہے یا باعث فخر۔ آپ اس کے لیے شبھ شبھ اس لیے بولیں کہ یہ ہمیں برسہا برس کے بعد نصیب ہوتی ہے۔ کیوںکہ بیچ میں 10سے 12 سال کا اماوس آجاتاہے، دوئم آپ کے ذاتی مالی حالات اگر بہتر ہیں تو باقی سب بھی گٹر میں نہیں رہ رہے۔ سوئم کون کون لائق ہے؟ اور کتنے نالائق ہیں اس کا اعلانیہ اظہار بھی نہیں ہونا چاہیے۔ اگر آپ قوم کی اصلاح چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ قوم میں اپنے حقوق کے لیے بیداری پیدا ہوجائے تو ﷲ اس میں معقول لفظوں کا استعمال کیجیے آپ کا اندازہ ایک ذرا سا تبدیل ہوجائے تو ہم آپ کو سننے کے لیے تیار ہیں۔

''جمی ہے دیر سے کمرے میں غیبتوں کی نشست

فضا میں گرد ہے ماحول میں کدورت ہے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں