پاک امریکا اسٹرٹیجک مذاکرات
امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور پاکستانی وزیر اعظم کے مشیر برائے سلامتی وخارجہ امور سرتاج عزیز آج واشنگٹن ڈی سی میں...
امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور پاکستانی وزیر اعظم کے مشیر برائے سلامتی وخارجہ امور سرتاج عزیز آج واشنگٹن ڈی سی میں پاک امریکا اسٹرٹیجک مذاکرات کا آغاز کررہے ہیں۔ وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف کا اکتوبر میں دورہ واشنگٹن ، امریکی وزیر خارجہ کیری کا اگست میں دورہ اسلام آباد اور پاک امریکا اسٹرٹیجک مذاکرات کی تجدید نو ہمارے دوطرفہ تعلقات کی اہمیت اور وسعت کی غمازی کرتے ہیں۔
گزشتہ اگست میں وزیر خارجہ کیری نے پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کے فروغ کے لیے امریکا کے مصمم عزم کے بارے میں بات کی تھی۔ اسٹرٹیجک ڈائیلاگ اس عزم کا بین ثبوت ہے اور یہ قومی سلامتی، تجارت اور توانائی ایسے باہمی ترجیحات کے لیے کی جانے والی مشترکہ کوششوں کو ادارہ جاتی سطح پر مربوط بنانے کے موقع کا بھی عکاس ہے۔وزیر خارجہ کیری ہمارے اشتراک کار کے عرصہ دراز سے علمبردارہیں۔ انھوں نے انہانسڈ پارٹنر شپ ود پاکستان ایکٹ ۲۰۰۹ء ، جو کہ عام طورپر کیر ی لوگر برمن بل کے نام سے موسوم ہے ،کے معاون مصنف ہیں، جس کے ذریعہ پاکستان کو کئی ارب ڈالر کی فنڈنگ فراہم کی گئی تاکہ توانائی کے ڈھانچے، سڑکوں ،اسکولوں ، صحت عامہ کی سہولیات تعمیر کی جائیں اور روزگارکے مواقع پیدا کیے جائیں۔تاہم یہ بھرپور ترقیاتی اعانت ہمارے عزم کا محض ایک جزو ہے جیسا کہ وزیر خارجہ کیری نے اگست میں کہا تھا کہ امریکا اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ ہمارے تعلقات جامع ہوں۔
آج ہونے والے اسٹرٹیجک ڈائیلاگ ہمارے ملکوں کے لیے ایک موقع فراہم کرتے ہیں کہ ہم اْن کلیدی موضوعات کا جائزہ لیں جوامریکا اور پاکستان کے مفادات پر اثراندازہوتے ہیں ،مثال کے طورپر علاقائی استحکام، انسداد دہشت گردی ، معاشی ترقی اور توانائی۔اگرچہ ہمارے اشتراک کار میں بسا اوقات تناؤ کی کیفیت طاری ہوئی ہے لیکن اس کی بنیاد مضبوط ہے اور یہ امن وآشتی، سلامتی اور دونوں ملکوں کے خوش حال مستقبل کے دیرپا مشترکہ تصور پر استوارہے۔ اس نصب العین کے لیے ہم اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کے لائحہ عمل کے اندر رہتے ہوئے مندرجہ بالا شعبوں میں اپنی کوششوں پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں تاکہ اس اہم تعلق کو آگے بڑھایا جائے۔
توانائی کے شعبہ میں سرمایہ کاری اور اقتصادی ترقی، توانائی کی کمی سے زیادہ کوئی مسئلہ پاکستانیوں کو متاثر نہیں کررہا۔ بجلی کی روز مرہ کی لوڈشیڈنگ اور گیس کی قلت ملک بھر میں خاندانوں اور کاروبار کو متاثر کرتی ہیں۔ یہ ایک دیرینہ مسئلہ ہے اور امریکا نے مدد کرنے کا تہیہ کررکھا ہے۔
۲۰۰۹ء سے اب تک امریکی منصوبوں کے ذریعہ نیشنل گرڈ میں ایک ہزار سے زیادہ میگا واٹ کا اضافہ کرکے لگ بھگ ایک کروڑ ساٹھ لاکھ لوگوں کو بجلی فراہم کی گئی ہے۔گومل زام ڈیم کے منصوبہ سے، جس میں امریکا نے حکومت پاکستان کی اعانت کی ہے ،تیس ہزار کاشت کار خاندانوں کو آب پاشی کے لیے پانی اور جنوبی وزیرستان کے ۵۲ دیہات کو پہلی بار بجلی میسرآئے گی۔ جہاں یہ منصوبے فوری ضروریات کو پوراکرتے ہیں ،وہیں توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے متنوع اور پائیدار حل تلاش کرنا بھی ناگزیر ہیں۔ توانائی کے متعلق ورکنگ گروپ ،جس کا اجلاس نومبر میں ہوا تھا اور توانائی کے تجارتی وفد جس نے ہیوسٹن کا دورہ کیا تھا تاکہ نجی شعبہ میں توانائی کے لیے سرمایہ کاری کو تلاش کیا جائے ،اہم اقدامات تھے جن کا مطمع نظر اشتراک کار کو فروغ دینا، پاکستان کے اندرون ملک گیس ، پن بجلی اور دوبارہ قابل استعمال توانائی کے وسائل کو ترقی دینا تھا۔ "کاسا ۱۰۰۰ "بجلی کی ترسیل کے منصوبہ ، جس کے لیے امریکا ڈیڑھ کروڑ ڈالر کی امداد فراہم کر رہا ہے اور ٹاپی پائپ لائن منصوبہ سے توانائی کے علاقائی جال بچھ جائیں گے اور اس سے پاکستان کو بہت فائدہ ہوگا۔
اقتصادی ترقی ، تعلیم اور صحت عامہ کے منصوبے بھی پاکستان کے معاشی امکانات کو بروئے کار لانے کے لیے اہم ہیں اور یہ دونوں ممالک کا مشترکہ نصب العین ہے۔ امریکا نے آٹھ سو اسکولوں کی تعمیر یا تزئین و آرائش ، بارہ ہزار طالب علموں کو ملکی جامعات میں تعلیم کے لیے وظائف ، سیکڑوں کلومیٹرطویل سڑکوں کی تعمیر، روزگارکے نئے مواقع اور کاشت کاروں اور چھوٹے کاروباروںکو وسعت دینے کے لیے امداد فراہم کی ہے۔
تجارت و سرمایہ کاری: امریکا پاکستان کی برآمدات کی سب سے بڑی منڈی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں مزید خاطر خواہ اضافے کا امکان موجود ہے۔کاروباری تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے دونوں ممالک نے جون میں پاکستان نجی سرمایہ کاری منصوبے کا آغاز کیا۔یہ منصوبہ پاکستان کی چھوٹی سے درمیانی سطح کے کاروبار میں نجی و سرکاری سرمایہ کے ذریعے ۱۰۰ ملین ڈالرکی برابری کی بنیاد پر سرمایہ کاری کرے گا۔
اکتوبر میں وزیر اعظم نواز شریف اور صدر اوبامہ کے درمیان ملاقات کے بعد امریکا اور پاکستان نے آیندہ پانچ برسوں کے دوران تجارت و سرمایہ کاری کو بڑھانے کے مشترکہ مقصد کے لیے باہمی حکمت عملی تیار کرنے کا اعلان کیا۔مارچ میں تجارت وسرمایہ کاری لائحہ عمل معاہدہ(ٹیفا) کا منعقد ہونے والا اجلاس تجارت و سرمایہ کاری میں اضافے کے لیے لائحہ عمل تشکیل دینے میں مدد دیگا۔اپریل میں دوطرفہ معاشی و مالیاتی ورکنگ گروپ پاکستان میں سرمایہ کاری کو مائل کرنے کے لیے اصلاحات کی نشاندہی اور سرمایہ کاری میں بہتری کے لیے ساز گار ماحول بنانے میں مدد دے گا۔
علاقائی استحکام:اب جب کہ انٹرنیشنل سیکیورٹی اسسٹنس فورس افغانستان میں فوجوں میں کمی کی تیاری کر رہی ہے، خطے میں دیرپا امن کوفروغ دینے کے لیے امریکا اور پاکستان کے درمیان قریبی رابطہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا۔
امریکا پاکستان کی افغانستان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے اور افغان قیادت میں امن عمل کے لیے کی گئی افغان کوششوں کی اعانت کی قدر کرتا ہے اور امریکا ۲۰۱۴ ء کے بعد افغان فوج کی تربیت اور انھیں لیس کرنے کے حوالے سے پرعزم ہے۔
انسداد دہشت گردی:گزشتہ دہائی کے دوران ہزاروں پاکستانی دہشت گردانہ حملوں میں جاں بحق ہوئے اور دنیا کا کوئی ملک پاکستان سے زیادہ دہشت گردی کا درد نہیں محسوس کر سکتا۔ہمارے دونوں ملکوں کو القاعدہ، لشکر طیبہ،تحریک طالبان پاکستان ، افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک ایسی دہشت گرد تنظیموں سے مشترکہ خطرات کا سامنا ہے۔امریکا حکومت پاکستان کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوششوں میں معاونت فراہم کر رہا ہے۔اگرچہ ہم افغانستان میں طالبان کو مفاہمتی عمل میں شریک کرنے کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں ،ہم ان گروہوں پر دباؤ قائم رکھے ہوئے ہیں جو تشدد کے ذریعے اپنا ایجنڈا دوسروں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔سرحد پار عسکریت پسندی دونوں ریاستوں کے لیے خطرہ ہے جس کے سد باب کے لیے وسیع تر تعاون اورسرحد پر مضبوط اقدامات کی ضرورت ہے۔ امریکا انتہا پسندانہ تشدد کے خاتمے کے لیے اعانت فراہم کرنے پر تیار ہے جس کا پاکستان کو آئے دن سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اسٹرٹیجک مذاکرات باہمی سطح پر مفید اقدامات کے لیے جامع ایجنڈا کی تیاری کا اہم موقع ہے۔لیکن ہمیں اپنے آپ کو اس سطح تک محدود نہیں رکھنا چاہیے۔یہ صرف سرکاری حکام کا کام نہیں بلکہ اس میں تاجروں،اساتذہ اور عام شہریوں کی شرکت بھی ضروری ہے۔
گزشتہ اگست میں وزیر خارجہ کیری نے پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کے فروغ کے لیے امریکا کے مصمم عزم کے بارے میں بات کی تھی۔ اسٹرٹیجک ڈائیلاگ اس عزم کا بین ثبوت ہے اور یہ قومی سلامتی، تجارت اور توانائی ایسے باہمی ترجیحات کے لیے کی جانے والی مشترکہ کوششوں کو ادارہ جاتی سطح پر مربوط بنانے کے موقع کا بھی عکاس ہے۔وزیر خارجہ کیری ہمارے اشتراک کار کے عرصہ دراز سے علمبردارہیں۔ انھوں نے انہانسڈ پارٹنر شپ ود پاکستان ایکٹ ۲۰۰۹ء ، جو کہ عام طورپر کیر ی لوگر برمن بل کے نام سے موسوم ہے ،کے معاون مصنف ہیں، جس کے ذریعہ پاکستان کو کئی ارب ڈالر کی فنڈنگ فراہم کی گئی تاکہ توانائی کے ڈھانچے، سڑکوں ،اسکولوں ، صحت عامہ کی سہولیات تعمیر کی جائیں اور روزگارکے مواقع پیدا کیے جائیں۔تاہم یہ بھرپور ترقیاتی اعانت ہمارے عزم کا محض ایک جزو ہے جیسا کہ وزیر خارجہ کیری نے اگست میں کہا تھا کہ امریکا اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ ہمارے تعلقات جامع ہوں۔
آج ہونے والے اسٹرٹیجک ڈائیلاگ ہمارے ملکوں کے لیے ایک موقع فراہم کرتے ہیں کہ ہم اْن کلیدی موضوعات کا جائزہ لیں جوامریکا اور پاکستان کے مفادات پر اثراندازہوتے ہیں ،مثال کے طورپر علاقائی استحکام، انسداد دہشت گردی ، معاشی ترقی اور توانائی۔اگرچہ ہمارے اشتراک کار میں بسا اوقات تناؤ کی کیفیت طاری ہوئی ہے لیکن اس کی بنیاد مضبوط ہے اور یہ امن وآشتی، سلامتی اور دونوں ملکوں کے خوش حال مستقبل کے دیرپا مشترکہ تصور پر استوارہے۔ اس نصب العین کے لیے ہم اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کے لائحہ عمل کے اندر رہتے ہوئے مندرجہ بالا شعبوں میں اپنی کوششوں پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں تاکہ اس اہم تعلق کو آگے بڑھایا جائے۔
توانائی کے شعبہ میں سرمایہ کاری اور اقتصادی ترقی، توانائی کی کمی سے زیادہ کوئی مسئلہ پاکستانیوں کو متاثر نہیں کررہا۔ بجلی کی روز مرہ کی لوڈشیڈنگ اور گیس کی قلت ملک بھر میں خاندانوں اور کاروبار کو متاثر کرتی ہیں۔ یہ ایک دیرینہ مسئلہ ہے اور امریکا نے مدد کرنے کا تہیہ کررکھا ہے۔
۲۰۰۹ء سے اب تک امریکی منصوبوں کے ذریعہ نیشنل گرڈ میں ایک ہزار سے زیادہ میگا واٹ کا اضافہ کرکے لگ بھگ ایک کروڑ ساٹھ لاکھ لوگوں کو بجلی فراہم کی گئی ہے۔گومل زام ڈیم کے منصوبہ سے، جس میں امریکا نے حکومت پاکستان کی اعانت کی ہے ،تیس ہزار کاشت کار خاندانوں کو آب پاشی کے لیے پانی اور جنوبی وزیرستان کے ۵۲ دیہات کو پہلی بار بجلی میسرآئے گی۔ جہاں یہ منصوبے فوری ضروریات کو پوراکرتے ہیں ،وہیں توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے متنوع اور پائیدار حل تلاش کرنا بھی ناگزیر ہیں۔ توانائی کے متعلق ورکنگ گروپ ،جس کا اجلاس نومبر میں ہوا تھا اور توانائی کے تجارتی وفد جس نے ہیوسٹن کا دورہ کیا تھا تاکہ نجی شعبہ میں توانائی کے لیے سرمایہ کاری کو تلاش کیا جائے ،اہم اقدامات تھے جن کا مطمع نظر اشتراک کار کو فروغ دینا، پاکستان کے اندرون ملک گیس ، پن بجلی اور دوبارہ قابل استعمال توانائی کے وسائل کو ترقی دینا تھا۔ "کاسا ۱۰۰۰ "بجلی کی ترسیل کے منصوبہ ، جس کے لیے امریکا ڈیڑھ کروڑ ڈالر کی امداد فراہم کر رہا ہے اور ٹاپی پائپ لائن منصوبہ سے توانائی کے علاقائی جال بچھ جائیں گے اور اس سے پاکستان کو بہت فائدہ ہوگا۔
اقتصادی ترقی ، تعلیم اور صحت عامہ کے منصوبے بھی پاکستان کے معاشی امکانات کو بروئے کار لانے کے لیے اہم ہیں اور یہ دونوں ممالک کا مشترکہ نصب العین ہے۔ امریکا نے آٹھ سو اسکولوں کی تعمیر یا تزئین و آرائش ، بارہ ہزار طالب علموں کو ملکی جامعات میں تعلیم کے لیے وظائف ، سیکڑوں کلومیٹرطویل سڑکوں کی تعمیر، روزگارکے نئے مواقع اور کاشت کاروں اور چھوٹے کاروباروںکو وسعت دینے کے لیے امداد فراہم کی ہے۔
تجارت و سرمایہ کاری: امریکا پاکستان کی برآمدات کی سب سے بڑی منڈی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں مزید خاطر خواہ اضافے کا امکان موجود ہے۔کاروباری تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے دونوں ممالک نے جون میں پاکستان نجی سرمایہ کاری منصوبے کا آغاز کیا۔یہ منصوبہ پاکستان کی چھوٹی سے درمیانی سطح کے کاروبار میں نجی و سرکاری سرمایہ کے ذریعے ۱۰۰ ملین ڈالرکی برابری کی بنیاد پر سرمایہ کاری کرے گا۔
اکتوبر میں وزیر اعظم نواز شریف اور صدر اوبامہ کے درمیان ملاقات کے بعد امریکا اور پاکستان نے آیندہ پانچ برسوں کے دوران تجارت و سرمایہ کاری کو بڑھانے کے مشترکہ مقصد کے لیے باہمی حکمت عملی تیار کرنے کا اعلان کیا۔مارچ میں تجارت وسرمایہ کاری لائحہ عمل معاہدہ(ٹیفا) کا منعقد ہونے والا اجلاس تجارت و سرمایہ کاری میں اضافے کے لیے لائحہ عمل تشکیل دینے میں مدد دیگا۔اپریل میں دوطرفہ معاشی و مالیاتی ورکنگ گروپ پاکستان میں سرمایہ کاری کو مائل کرنے کے لیے اصلاحات کی نشاندہی اور سرمایہ کاری میں بہتری کے لیے ساز گار ماحول بنانے میں مدد دے گا۔
علاقائی استحکام:اب جب کہ انٹرنیشنل سیکیورٹی اسسٹنس فورس افغانستان میں فوجوں میں کمی کی تیاری کر رہی ہے، خطے میں دیرپا امن کوفروغ دینے کے لیے امریکا اور پاکستان کے درمیان قریبی رابطہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا۔
امریکا پاکستان کی افغانستان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے اور افغان قیادت میں امن عمل کے لیے کی گئی افغان کوششوں کی اعانت کی قدر کرتا ہے اور امریکا ۲۰۱۴ ء کے بعد افغان فوج کی تربیت اور انھیں لیس کرنے کے حوالے سے پرعزم ہے۔
انسداد دہشت گردی:گزشتہ دہائی کے دوران ہزاروں پاکستانی دہشت گردانہ حملوں میں جاں بحق ہوئے اور دنیا کا کوئی ملک پاکستان سے زیادہ دہشت گردی کا درد نہیں محسوس کر سکتا۔ہمارے دونوں ملکوں کو القاعدہ، لشکر طیبہ،تحریک طالبان پاکستان ، افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک ایسی دہشت گرد تنظیموں سے مشترکہ خطرات کا سامنا ہے۔امریکا حکومت پاکستان کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوششوں میں معاونت فراہم کر رہا ہے۔اگرچہ ہم افغانستان میں طالبان کو مفاہمتی عمل میں شریک کرنے کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں ،ہم ان گروہوں پر دباؤ قائم رکھے ہوئے ہیں جو تشدد کے ذریعے اپنا ایجنڈا دوسروں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔سرحد پار عسکریت پسندی دونوں ریاستوں کے لیے خطرہ ہے جس کے سد باب کے لیے وسیع تر تعاون اورسرحد پر مضبوط اقدامات کی ضرورت ہے۔ امریکا انتہا پسندانہ تشدد کے خاتمے کے لیے اعانت فراہم کرنے پر تیار ہے جس کا پاکستان کو آئے دن سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اسٹرٹیجک مذاکرات باہمی سطح پر مفید اقدامات کے لیے جامع ایجنڈا کی تیاری کا اہم موقع ہے۔لیکن ہمیں اپنے آپ کو اس سطح تک محدود نہیں رکھنا چاہیے۔یہ صرف سرکاری حکام کا کام نہیں بلکہ اس میں تاجروں،اساتذہ اور عام شہریوں کی شرکت بھی ضروری ہے۔