گورننس… دواہم ترین لیڈروں کا موازنہ
عملی طور پر کرپشن کے خاتمے کے لیے انھوں نے کوئی مخلصانہ کوشش نہیں کی۔
کل اسلام آباد میں ایک دوست کے ہاں سول اور عسکری اداروں کے چند ریٹائرڈ افسران جمع تھے، دو باتوں پر سبھی متفق تھے، ایک یہ کہ وزیرِاعظم عمران خان صاحب نے کرپشن کے نعرے کو صرف سیاسی مفاد کے لیے استعمال کیا ہے، عملی طور پر کرپشن کے خاتمے کے لیے انھوں نے کوئی مخلصانہ کوشش نہیں کی۔ دوسرا یہ کہ وہ مرکز یا اپنے زیرِ اختیار صوبوں میں اچھی گورننس دینے میں ناکام رہے ہیں۔
شرکاء مجھ سے پوچھتے رہے کہ آپ نے کافی عرصہ پنجاب میں سروس کی ہے اور عمران خان بھی آپ کے بارے میں بارہا توصیفی کلمات کہتے رہے ہیں، آپ گورننس میں قائدِایوان عمران خان اور قائدِحزبِ اختلاف شہباز شریف کا مقابلہ کس طرح کرتے ہیں؟ میں نے کہا کہ ذاتی طور پر مجھے شہباز شریف صاحب سے گلے شکوے بھی ہیںجب کہ خان صاحب نے درجنوں بار راقم کے بارے میں کلمۂ خیر کہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ شہباز شریف کی گورننس عمران خان سے کئی گنا بہتر تھی۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ خان صاحب کا دور بُری گورننس کے طور پر یاد رکھا جائیگا۔ سب سے اہم بات حکومت کی موجودگی کا احساس اور ڈر ہے، شہباز شریف کا دور دراز علاقوں میں بھی ڈر محسوس ہوتا تھا، اب حکومت کا ڈر ختم ہوچکا ہے، وزیرِاعلیٰ کی موجودگی میں وزیر کا بھائی قتل ہورہا ہے اور پنجاب اسمبلی کے ممبران کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اُن کاکام نہ کرنے والے والے سرکاری افسر کو چھ ماہ قید کی سزا دے سکیں گے۔
گورننس جانچنے کا بنیادی پیمانہ تقرریوں اور تبادلوں کا طریقۂ کار ہے، شہباز شریف سے بہت سی باتوں پر اختلاف رکھنے والے بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے دور میں افسروں کی تقرری ان کی ایمانداری اور پیشہ ورانہ اہلیت دیکھ کر کی جاتی تھی، کرپٹ اور بدنام افسرسفارشوں کے باوجود فیلڈ پوسٹنگ سے محروم رہے جب کہ ایماندار افسروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا۔
میں نے پنجاب میں اپنی پوری سروس کے دوران یہ کبھی نہیں سنا کہ وزیرِاعلیٰ شہباز شریف نے کسی افسر کو تعینات کرنے کے بعد یہ ہدایات دی ہوں کہ وہاں جاکر ہماری پارٹی کے ایم پی ایز اور ایم این ایز کا خیال رکھنا اور انھیں خوش رکھنا۔
1997-99 کے دور میں کبھی یہ نہیں ہواکہ ممبرانِ اسمبلی کے کام نہ کرنے پر کسی ڈی سی یا ایس ایس پی کا تبادلہ کردیا گیا ہوبلکہ یہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کسی ضلع کے تمام ممبرانِ اسمبلی نے اکٹھے ہوکر وزیرِاعلیٰ سے کسی پولیس افسر یا ڈپٹی کمشنر کو ہٹانے کی درخواست کی جس پر شہباز شریف نے مختلف ذرائع سے متعلقہ افسر کی integrityکے بارے میں معلومات حاصل کیں اور جب یہ معلوم ہوگیا کہ متعلقہ افسر سو فیصد ایماندار ہے تو ضلع کے تمام ممبران کے کہنے پر بھی متعلقہ افسر کو تبدیل نہ کیا گیا ۔ بلاشبہ شہباز شریف صاحب ایماندار افسر وں کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے جس سے صوبے میں دیانتدار افسروں کی حوصلہ افزائی ہوئی اور ان کا مورال بلند ہوا۔
اس کے برعکس عمران خان صاحب (سب جانتے ہیں کہ صوبۂ پنجاب کو وزیرِاعظم صاحب خود کنٹرول کرتے ہیں اور خود ہی چلاتے ہیں) کے دور میں اہم ترین عہدوں پر انتہائی مشکوک شہرت کے افسروں کو تعینات کیا گیا اور تعیناتی کا Criteria بھی افسر کی ایمانداری نہیں حکومتی پارٹی سے وفاداری ہے۔ سیاسی ضروریات پوری کرنے والے انتہائی بدنام افسر منظورِ نظر ہیں۔ اگر کوئی افسر حکمران جماعت کے ہارے ہوئے امیدواروں کے ناجائز کام نہ کرنے کی گستاخی کر بیٹھتا ہے تو اسے فوراً ہٹادیا جاتا ہے۔
ایماندار افسروں کے لیے غیر جانبدار رہنا ناممکن بنادیا گیا ہے۔ باخبر صحافیوں نے کئی بار اخبارات میں افسروں کے نام لکھ کر بتایا ہے کہ فلاں فلاں ضلع کے ڈپٹی کمشنر اتنے کروڑ دے کر لگے ہیں مگرکوئی ذمے دار شخص ان رپورٹوں کی تردید نہیں کرسکا، پیسے کون لے رہا ہے اور کون تعیناتیاں کررہا ہے، یقینا یہ سب کچھ وزیرِاعظم کے علم میں ہوگا ۔
شہباز شریف کے دور میں بھی پی ٹی آئی یا دوسری اپوزیشن پارٹیوں کے کئی لوگ حکمرانوں کے خلاف بڑی سخت تقریریں کیا کرتے تھے، مگر وزیرِاعلیٰ نے کبھی کسی کو گرفتار کرنے یا کسی کے خلاف پرچہ درج کرنے کا حکم نہیں دیا۔ اپوزیشن کے کئی اہم رہنماؤںکے خلاف ذاتیجھگڑوںکے کئی کیس بھی زیرِتفتیش رہے، مگر شہباز شریف نے تفتیشی افسران کو ہمیشہ تفتیش میرٹ اور انصاف کے مطابق کرنے کی ہدایت کی۔
موجودہ حکومت کے اعلیٰ حکام سیاسی مخالفین کے خلاف ہر روز جھوٹے کیس بنانے اور انھیں گرفتار کرنے کی ہدایات دیتے ہیں اور اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ سیاسی مقاصد کے لیے پولیس اور ایف آئی اے کا بدترین استعمال کیا جارہا ہے۔
انتہائی دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ عمران خان حکومت نے فیلڈ میں کام کرنے والے دیانتدار افسروں سے غیرجانبداری کا جوہر چھین لیا ہے اور انھیں پی ٹی آئی کے نمایندوں کا ذاتی ملازم بننے پر مجبور کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ با ضمیر افسر اب فیلڈ میں تعینات ہونے سے گریز کرتے ہیں۔
اکاؤنٹیبلٹی نام کی کوئی چیز نہیں ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ یہ دَور کرپٹ افسروں کے لیے سنہری دَور ہے۔صحت، تعلیم اور انفرااسٹرکچرمیں لائی جانے والی غیر معمولی بہتری کا ذکر بعد میں کرونگا صرف امن وامان کی بہتری اور جرائم کی روک تھام کے لیے شہباز شریف نے جو initiatives لیے اور جو ادارے قائم کیے اس طرح کا کوئی ادارہ عمران خان صاحب کی حکومت مرکز میں یا کسی صوبے میں قائم نہیں کرسکی ۔
1997 میں شہباز شریف صاحب پہلی بار وزیرِاعلیٰ منتخب ہوئے، تو اُس وقت پنجاب میں سنگین جرائم کی لہر آئی ہوئی تھی اور فرقہ وارانہ دہشت گردی عروج پر تھی۔ انسپکٹر جنرل پولیس نے اور لاہور پولیس کے سربراہ کی حیثیت سے راقم نے وزیرِاعلیٰ شہباز شریف صاحب کوبتایا کہ انتہائی تربیت یافتہ اور خطرناک مجرموں سے تھانہ پولیس کا روایتی ہتھیاروں کے ساتھ نپٹنا ممکن نہیں ہے، اس کے لیے انتہائی اعلیٰ معیار کی تربیت یافتہ پولیس کی ضرورت ہے۔ وزیرِاعلیٰ نے فوراً اتفاق کیا اور چند مہینوں میں ایلیٹ ٹریننگ اسکول بیدیاں لاہور کے نام سے انتہائی اعلیٰ معیار کا ادارہ وجود میں آگیا۔ جہاں آرمی کے ایس ایس جی کے افسران بطور انسٹرکٹر تعینات کیے گئے اور پورے صوبے سے منتخب شدہ نوجوان افسروں کو بہترین تربیت دی گئی ۔
تربیت کے بعد انھیں نئی گاڑیاں اور بہترین اسلحہ دیکر تمام اضلاع میں تعینات کردیا گیا۔ بعد میں مجھے خود بھی ایلیٹ فورس پنجاب کا سربراہ بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ میں کئی بار کہہ چکا ہوں کہ آج بھی پنجاب کو محفوظ بنانے میں سب سے زیادہ کردار ایلیٹ فورس کا ہے۔
ملک بدری کے بعد شہباز شریف صاحب 2008 میں پھر پنجاب کے وزیرِاعلیٰ بنے، تب مجھے گوجرانوالہ ڈویژن کی کمانڈ سونپی گئی۔ پولیس افسروں نے تفتیش کے ناقص معیار کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ اکیسویں صدی میں بھیForansic Evideance حاصل کرنے کا انتہائی غیر معیاری اوردقیانوسی انتظام ہے، وزیرِاعلیٰ شہباز شریف معقول تجویز سنتے بھی تھے اور اس پر عمل بھی کرتے تھے۔
پولیس افسروں نے اپنی تشویش وزیرِاعلیٰ تک پہنچائی تو وہ بات کی تہہ تک پہنچ گئے اور پھر ایک سال کے اندر اندر ''پنجاب فورینزک سائنس ایجنسی'' کے نام سے ایک ایسا شاندار ادارہ قائم ہوا جسے دیکھ کر دوسرے صوبوں کے پولیس افسران بھی حیران و ششدرہ گئے ، یہ ایشیاء کی سب سے اعلیٰ فورینزک سائنس لیباریٹری ہے اور تمام صوبوں کی پولیس فورسز ڈی این اے کیسز اور دوسرے اہم ٹیسٹ اِسی لیباریٹری سے کراتی ہیں۔
ملک میں ٹیررازم بڑھا تو اس کے تدارک کے لیے اقدامات اٹھانے کی ضرورت پیش آئی، کوئی اور وزیرِاعلیٰ ہوتا تو روایتی قسم کے حربوں سے کام چلانے کی کوشش کرتا، مگر شہباز شریف صاحب نے اربوں روپیہ لگا کر عالمی معیار کا اسٹیٹ آف دی آرٹ کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (CTD) بنادیا۔ پورے جنوبی ایشیا میں اتنے اعلیٰ معیار کا کوئی اور ادارہ نہیں ہے، اِس ادارے میں آج بھی اُس دور کے مہیا کردہ جدید Equipment کی مدد سے اہم ترین کیسوں کا سراغ لگایا جارہا ہے اور مجرمان گرفتار ہورہے ہیں۔
کس کس ادارے کا ذکر کروںکالم کی جگہ محدود ہے ، سیف سٹی پروجیکٹ ایک اور کامیاب منصوبہ ہے جس کے تحت پنجاب کے بڑے بڑے شہروں میں کیمرے نصب کیے گئے، جن کی مدد سے بڑے اہم کیسوں میں مجرموں کی نشاندہی ہوئی اور انھیں گرفتار کرنے میں مدد ملی ۔ بلاشبہ اس پراجیکٹ نے بھی شہروں کو محفوظ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
موجودہ وزیرِداخلہ آدھا وقت غیر متعلقہ موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں اور باقی وقت وزیرِاعظم کی تعریف کرتے رہتے ہیں، مگر ان سے پوچھا جائے کہ اسلام آباد میں کیمرے کب نصب ہوںگے تووہ جواب دیتے ہیں، ''ساری شریف فیملی جیل میں جائیگی''۔ کیا وزیرِاعظم عمران خان صاحب اپنے تمام تر وعدوں اور بے تحاشا پراپیگنڈے کے باوجود بتاسکتے ہیں کہ کیا اس نوعیت کا اور اس معیار کا کوئی ایک بھی ادارہ وہ کے پی، اسلام آباد یا اب پنجاب میں قائم کرسکے ہیں؟
جواب ناں میں ہے، کیونکہ انھیں اپنے سیاسی مخالفین کو بُرا بھلا کہنے اور انھیں اندر کرانے سے فرصت ہی کہاں ہے! اب آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ شہباز شریف کے ساتھ جو سلوک کیا جارہا ہے، وہ انصاف ہے یا زیادتی ہے؟ سب نے بیک زبان کہا، یہ سراسر زیادتی ہے اور یہ زیادتی اس لیے کرائی جارہی ہے تاکہ متبادل اور بہتر لیڈر جیل میں رہے اور کسی کو نظر نہ آئے۔ آخر میں ایک ریٹائرڈ ملٹری افسر نے کہا ''مگر شہباز شریف کو کمزور بیان نہیں دینے چاہئیں بلکہ پوری جرأ ت اور ہمت کے ساتھ اپوزیشن کی قیادت کرنی چاہیے۔''
شرکاء مجھ سے پوچھتے رہے کہ آپ نے کافی عرصہ پنجاب میں سروس کی ہے اور عمران خان بھی آپ کے بارے میں بارہا توصیفی کلمات کہتے رہے ہیں، آپ گورننس میں قائدِایوان عمران خان اور قائدِحزبِ اختلاف شہباز شریف کا مقابلہ کس طرح کرتے ہیں؟ میں نے کہا کہ ذاتی طور پر مجھے شہباز شریف صاحب سے گلے شکوے بھی ہیںجب کہ خان صاحب نے درجنوں بار راقم کے بارے میں کلمۂ خیر کہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ شہباز شریف کی گورننس عمران خان سے کئی گنا بہتر تھی۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ خان صاحب کا دور بُری گورننس کے طور پر یاد رکھا جائیگا۔ سب سے اہم بات حکومت کی موجودگی کا احساس اور ڈر ہے، شہباز شریف کا دور دراز علاقوں میں بھی ڈر محسوس ہوتا تھا، اب حکومت کا ڈر ختم ہوچکا ہے، وزیرِاعلیٰ کی موجودگی میں وزیر کا بھائی قتل ہورہا ہے اور پنجاب اسمبلی کے ممبران کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اُن کاکام نہ کرنے والے والے سرکاری افسر کو چھ ماہ قید کی سزا دے سکیں گے۔
گورننس جانچنے کا بنیادی پیمانہ تقرریوں اور تبادلوں کا طریقۂ کار ہے، شہباز شریف سے بہت سی باتوں پر اختلاف رکھنے والے بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے دور میں افسروں کی تقرری ان کی ایمانداری اور پیشہ ورانہ اہلیت دیکھ کر کی جاتی تھی، کرپٹ اور بدنام افسرسفارشوں کے باوجود فیلڈ پوسٹنگ سے محروم رہے جب کہ ایماندار افسروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا۔
میں نے پنجاب میں اپنی پوری سروس کے دوران یہ کبھی نہیں سنا کہ وزیرِاعلیٰ شہباز شریف نے کسی افسر کو تعینات کرنے کے بعد یہ ہدایات دی ہوں کہ وہاں جاکر ہماری پارٹی کے ایم پی ایز اور ایم این ایز کا خیال رکھنا اور انھیں خوش رکھنا۔
1997-99 کے دور میں کبھی یہ نہیں ہواکہ ممبرانِ اسمبلی کے کام نہ کرنے پر کسی ڈی سی یا ایس ایس پی کا تبادلہ کردیا گیا ہوبلکہ یہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کسی ضلع کے تمام ممبرانِ اسمبلی نے اکٹھے ہوکر وزیرِاعلیٰ سے کسی پولیس افسر یا ڈپٹی کمشنر کو ہٹانے کی درخواست کی جس پر شہباز شریف نے مختلف ذرائع سے متعلقہ افسر کی integrityکے بارے میں معلومات حاصل کیں اور جب یہ معلوم ہوگیا کہ متعلقہ افسر سو فیصد ایماندار ہے تو ضلع کے تمام ممبران کے کہنے پر بھی متعلقہ افسر کو تبدیل نہ کیا گیا ۔ بلاشبہ شہباز شریف صاحب ایماندار افسر وں کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے جس سے صوبے میں دیانتدار افسروں کی حوصلہ افزائی ہوئی اور ان کا مورال بلند ہوا۔
اس کے برعکس عمران خان صاحب (سب جانتے ہیں کہ صوبۂ پنجاب کو وزیرِاعظم صاحب خود کنٹرول کرتے ہیں اور خود ہی چلاتے ہیں) کے دور میں اہم ترین عہدوں پر انتہائی مشکوک شہرت کے افسروں کو تعینات کیا گیا اور تعیناتی کا Criteria بھی افسر کی ایمانداری نہیں حکومتی پارٹی سے وفاداری ہے۔ سیاسی ضروریات پوری کرنے والے انتہائی بدنام افسر منظورِ نظر ہیں۔ اگر کوئی افسر حکمران جماعت کے ہارے ہوئے امیدواروں کے ناجائز کام نہ کرنے کی گستاخی کر بیٹھتا ہے تو اسے فوراً ہٹادیا جاتا ہے۔
ایماندار افسروں کے لیے غیر جانبدار رہنا ناممکن بنادیا گیا ہے۔ باخبر صحافیوں نے کئی بار اخبارات میں افسروں کے نام لکھ کر بتایا ہے کہ فلاں فلاں ضلع کے ڈپٹی کمشنر اتنے کروڑ دے کر لگے ہیں مگرکوئی ذمے دار شخص ان رپورٹوں کی تردید نہیں کرسکا، پیسے کون لے رہا ہے اور کون تعیناتیاں کررہا ہے، یقینا یہ سب کچھ وزیرِاعظم کے علم میں ہوگا ۔
شہباز شریف کے دور میں بھی پی ٹی آئی یا دوسری اپوزیشن پارٹیوں کے کئی لوگ حکمرانوں کے خلاف بڑی سخت تقریریں کیا کرتے تھے، مگر وزیرِاعلیٰ نے کبھی کسی کو گرفتار کرنے یا کسی کے خلاف پرچہ درج کرنے کا حکم نہیں دیا۔ اپوزیشن کے کئی اہم رہنماؤںکے خلاف ذاتیجھگڑوںکے کئی کیس بھی زیرِتفتیش رہے، مگر شہباز شریف نے تفتیشی افسران کو ہمیشہ تفتیش میرٹ اور انصاف کے مطابق کرنے کی ہدایت کی۔
موجودہ حکومت کے اعلیٰ حکام سیاسی مخالفین کے خلاف ہر روز جھوٹے کیس بنانے اور انھیں گرفتار کرنے کی ہدایات دیتے ہیں اور اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ سیاسی مقاصد کے لیے پولیس اور ایف آئی اے کا بدترین استعمال کیا جارہا ہے۔
انتہائی دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ عمران خان حکومت نے فیلڈ میں کام کرنے والے دیانتدار افسروں سے غیرجانبداری کا جوہر چھین لیا ہے اور انھیں پی ٹی آئی کے نمایندوں کا ذاتی ملازم بننے پر مجبور کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ با ضمیر افسر اب فیلڈ میں تعینات ہونے سے گریز کرتے ہیں۔
اکاؤنٹیبلٹی نام کی کوئی چیز نہیں ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ یہ دَور کرپٹ افسروں کے لیے سنہری دَور ہے۔صحت، تعلیم اور انفرااسٹرکچرمیں لائی جانے والی غیر معمولی بہتری کا ذکر بعد میں کرونگا صرف امن وامان کی بہتری اور جرائم کی روک تھام کے لیے شہباز شریف نے جو initiatives لیے اور جو ادارے قائم کیے اس طرح کا کوئی ادارہ عمران خان صاحب کی حکومت مرکز میں یا کسی صوبے میں قائم نہیں کرسکی ۔
1997 میں شہباز شریف صاحب پہلی بار وزیرِاعلیٰ منتخب ہوئے، تو اُس وقت پنجاب میں سنگین جرائم کی لہر آئی ہوئی تھی اور فرقہ وارانہ دہشت گردی عروج پر تھی۔ انسپکٹر جنرل پولیس نے اور لاہور پولیس کے سربراہ کی حیثیت سے راقم نے وزیرِاعلیٰ شہباز شریف صاحب کوبتایا کہ انتہائی تربیت یافتہ اور خطرناک مجرموں سے تھانہ پولیس کا روایتی ہتھیاروں کے ساتھ نپٹنا ممکن نہیں ہے، اس کے لیے انتہائی اعلیٰ معیار کی تربیت یافتہ پولیس کی ضرورت ہے۔ وزیرِاعلیٰ نے فوراً اتفاق کیا اور چند مہینوں میں ایلیٹ ٹریننگ اسکول بیدیاں لاہور کے نام سے انتہائی اعلیٰ معیار کا ادارہ وجود میں آگیا۔ جہاں آرمی کے ایس ایس جی کے افسران بطور انسٹرکٹر تعینات کیے گئے اور پورے صوبے سے منتخب شدہ نوجوان افسروں کو بہترین تربیت دی گئی ۔
تربیت کے بعد انھیں نئی گاڑیاں اور بہترین اسلحہ دیکر تمام اضلاع میں تعینات کردیا گیا۔ بعد میں مجھے خود بھی ایلیٹ فورس پنجاب کا سربراہ بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ میں کئی بار کہہ چکا ہوں کہ آج بھی پنجاب کو محفوظ بنانے میں سب سے زیادہ کردار ایلیٹ فورس کا ہے۔
ملک بدری کے بعد شہباز شریف صاحب 2008 میں پھر پنجاب کے وزیرِاعلیٰ بنے، تب مجھے گوجرانوالہ ڈویژن کی کمانڈ سونپی گئی۔ پولیس افسروں نے تفتیش کے ناقص معیار کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ اکیسویں صدی میں بھیForansic Evideance حاصل کرنے کا انتہائی غیر معیاری اوردقیانوسی انتظام ہے، وزیرِاعلیٰ شہباز شریف معقول تجویز سنتے بھی تھے اور اس پر عمل بھی کرتے تھے۔
پولیس افسروں نے اپنی تشویش وزیرِاعلیٰ تک پہنچائی تو وہ بات کی تہہ تک پہنچ گئے اور پھر ایک سال کے اندر اندر ''پنجاب فورینزک سائنس ایجنسی'' کے نام سے ایک ایسا شاندار ادارہ قائم ہوا جسے دیکھ کر دوسرے صوبوں کے پولیس افسران بھی حیران و ششدرہ گئے ، یہ ایشیاء کی سب سے اعلیٰ فورینزک سائنس لیباریٹری ہے اور تمام صوبوں کی پولیس فورسز ڈی این اے کیسز اور دوسرے اہم ٹیسٹ اِسی لیباریٹری سے کراتی ہیں۔
ملک میں ٹیررازم بڑھا تو اس کے تدارک کے لیے اقدامات اٹھانے کی ضرورت پیش آئی، کوئی اور وزیرِاعلیٰ ہوتا تو روایتی قسم کے حربوں سے کام چلانے کی کوشش کرتا، مگر شہباز شریف صاحب نے اربوں روپیہ لگا کر عالمی معیار کا اسٹیٹ آف دی آرٹ کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (CTD) بنادیا۔ پورے جنوبی ایشیا میں اتنے اعلیٰ معیار کا کوئی اور ادارہ نہیں ہے، اِس ادارے میں آج بھی اُس دور کے مہیا کردہ جدید Equipment کی مدد سے اہم ترین کیسوں کا سراغ لگایا جارہا ہے اور مجرمان گرفتار ہورہے ہیں۔
کس کس ادارے کا ذکر کروںکالم کی جگہ محدود ہے ، سیف سٹی پروجیکٹ ایک اور کامیاب منصوبہ ہے جس کے تحت پنجاب کے بڑے بڑے شہروں میں کیمرے نصب کیے گئے، جن کی مدد سے بڑے اہم کیسوں میں مجرموں کی نشاندہی ہوئی اور انھیں گرفتار کرنے میں مدد ملی ۔ بلاشبہ اس پراجیکٹ نے بھی شہروں کو محفوظ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
موجودہ وزیرِداخلہ آدھا وقت غیر متعلقہ موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں اور باقی وقت وزیرِاعظم کی تعریف کرتے رہتے ہیں، مگر ان سے پوچھا جائے کہ اسلام آباد میں کیمرے کب نصب ہوںگے تووہ جواب دیتے ہیں، ''ساری شریف فیملی جیل میں جائیگی''۔ کیا وزیرِاعظم عمران خان صاحب اپنے تمام تر وعدوں اور بے تحاشا پراپیگنڈے کے باوجود بتاسکتے ہیں کہ کیا اس نوعیت کا اور اس معیار کا کوئی ایک بھی ادارہ وہ کے پی، اسلام آباد یا اب پنجاب میں قائم کرسکے ہیں؟
جواب ناں میں ہے، کیونکہ انھیں اپنے سیاسی مخالفین کو بُرا بھلا کہنے اور انھیں اندر کرانے سے فرصت ہی کہاں ہے! اب آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ شہباز شریف کے ساتھ جو سلوک کیا جارہا ہے، وہ انصاف ہے یا زیادتی ہے؟ سب نے بیک زبان کہا، یہ سراسر زیادتی ہے اور یہ زیادتی اس لیے کرائی جارہی ہے تاکہ متبادل اور بہتر لیڈر جیل میں رہے اور کسی کو نظر نہ آئے۔ آخر میں ایک ریٹائرڈ ملٹری افسر نے کہا ''مگر شہباز شریف کو کمزور بیان نہیں دینے چاہئیں بلکہ پوری جرأ ت اور ہمت کے ساتھ اپوزیشن کی قیادت کرنی چاہیے۔''