ووٹ کی عزت کیوں نہ کرائی جاسکی

ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے ماضی کو بھول کر اب آگے بڑھنا چاہیے۔

m_saeedarain@hotmail.com

ملک کے تین بار وزیر اعظم رہنے والے میاں نواز شریف نے تیسری بار عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد پہلی بار ووٹ کو عزت دو کا جو نعرہ بلند کیا تھا اس کی کوئی اور سیاسی جماعت حامی ہو یا نہ ہو مگر ملک کے عوام کی اکثریت ضرور اس کی حامی ہے اور جمہوریت کی خواہش رکھنے والا ہر شخص ووٹ کی عزت کا حامی ہے اور چاہتا ہے کہ وہ ووٹ دینے میں مکمل آزاد ہو اور وہ جسے ووٹ دے وہ اگر سب سے زیادہ ووٹ لے تو اسے ہی کامیاب ہونا چاہیے کیونکہ یہی جمہوریت ہے۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ملک کی حکمران تحریک انصاف کو دوسری ایم کیو ایم قرار دیا ہے اور اس پر آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات میں دھاندلی اور پیسہ چلانے کا الزام لگایا ہے اور ملک گیر پی ٹی آئی کو کراچی کے شہری علاقوں تک محدود رہنے والی ایم کیو ایم سے تشبیہ دی ہے جس پر اس کے مخالفین 2013 تک زبردست دھاندلی کے ذریعے کامیاب ہونے کا الزام دیا کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ ایم کیو ایم کے زیر اثر علاقوں میں منصفانہ انتخابات ہو جائیں تاکہ ایم کیو ایم کی عوامی مقبولیت کا جھوٹا پول کھل سکے۔

2018 کے انتخابات 1988 جیسے ہی جماعتی بنیاد پر تھے مگر ایم کیو ایم کو اس میں شکست ہوئی اور اس کی جگہ پی ٹی آئی کراچی کی نمایندہ جماعت بن کر سامنے آئی مگر یہ کیسے آئی اس کا سب کو اور خصوصاً ایم کیو ایم کو پتا ہے مگر مجبور ہے اور حقائق جانتے ہوئے بھی سچ بولنے سے اس لیے قاصر ہے کہ وہ بھی 30 سالوں میں پی ٹی آئی کی طرح کامیاب ہوا کرتی تھی۔

کراچی میں پی ٹی آئی کبھی ایم کیو ایم کی طرح مقبول نہیں رہی اور نہ اس پر ایم کیو ایم کی طرح دھاندلی سے کامیابی حاصل کرنے کا الزام ہے مگر پھر اسے ایم کیو ایم کی جگہ لایا گیا۔ ایم کیو ایم کی شکست کی وجہ اس کی اپنے قائد سے علیحدگی بھی ہوسکتی ہے مگر سب کو پتا ہے کہ جنرل ضیا کے دور میں اسے بھی جماعت اسلامی اور جے یو پی کے خلاف بنوایا گیا تھا۔

پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار بھٹو خود جنرل ایوب کے اہم وزیر تھے اور جنرل جیلانی نے جنرل ضیا الحق کے دور میں میاں نواز شریف کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنایا تھا جنھیں بعد میں بالاتروں نے غلام مصطفیٰ جتوئی کی جگہ پہلی بار وزیر اعظم بنوایا تھا۔ جنرل ضیا الحق کی کابینہ میں جماعت اسلامی، جے یو آئی اور نوابزادہ نصراللہ خان کی پی ڈی پی نے کچھ عرصہ وزارتیں لی تھیں اور بالاتروں کے ہاتھوں استعمال ہو کر فوجی حکومت چھوڑ گئی تھیں۔ بھٹو صاحب فوجی صدر ایوب خان سے اختلاف کے باعث وزارت سے فارغ ہوئے تھے اور سقوط ڈھاکہ کے بعد بالاتروں کی مجبوری بنے اور سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنائے گئے تھے۔

اس سے قبل انھوں نے ہی جنرل یحییٰ خان کی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہیں ہونے دیا تھا اور اکثریتی عوامی لیگ کو ملنے والے ووٹوں کو عزت نہیں لینے دی تھی اور ملک دولخت ہونے کے بعد وزیر اعظم بنے تھے۔ 1977 کے انتخابات میں بھٹو حکومت کی دھاندلی کے خلاف تحریک چلا کر سیاسی رہنماؤں نے مارشل لا کی راہ ہموار کی تھی اور بھٹو صاحب نے اپنے اقتدار کے لیے اسلامی جمہوری اتحاد کے رہنماؤں کے ساتھ وہی سخت رویہ اختیار کیا تھا جو آج کل وزیر اعظم عمران خان نے اختیار کر رکھا ہے، جس سے جمہوریت پھر خطرے میں ہے۔


جنرل پرویز مشرف کے عمران خان بہت حامی تھے اور انھوں نے جنرل پرویز مشرف کے ریفرنڈم میں ساتھ وزیر اعظم بننے کے لیے دیا تھا۔ 2002 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے چوہدریوں، شیخ رشید اور پیپلز پارٹی کے اہم رہنماؤں نے جنرل پرویز مشرف کی بنوائی گئی مسلم لیگ (ق) کی حکومت بنوائی تھی اور اپنی اپنی پارٹیوں کو چھوڑ دیا تھا۔ مارچ 2018 میں آصف زرداری اور عمران خان نے راتوں رات بلوچستان میں بنائی جانے والی پارٹی باپ کا چیئرمین سینیٹ منتخب کرایا تھا اور آصف زرداری نے فخریہ طور پر بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم کروائی تھی۔ نئی پارٹی باپ کو بالاتروں کی حمایت حاصل تھی۔

جنرل ایوب خان نے اپنے اقتدار کے لیے کنونشن مسلم لیگ بنائی تھی جس میں اس وقت کے اہم سیاستدان شامل تھے اور محترمہ فاطمہ جناح کو ہروانے میں سیاستدانوں نے فوجی صدر کا ساتھ دیا تھا اور ان کی حکومت میں بھی شامل تھے۔ ملک کی کوئی فوجی حکومت ایسی نہیں رہی جس میں اس وقت کے اہم سیاستدان اپنے مفاد کے لیے بالاتروں کے شریک اقتدار نہ رہے ہوں۔

ہر فوجی دور میں سیاستدان ان کے حامی اور بالاتروں کی طرف سے ووٹوں کی پامالی میں جب سیاستدان ہمیشہ ہمیشہ پیش رہے ہوں تو ووٹ کو عزت کیسے ملتی۔ ایک دوسرے کی مخالفت میں بے نظیر اور نواز شریف نے مدت اقتدار پوری نہ ہونے دی۔ بے نظیر نے جنرل پرویز مشرف سے این آر او لیا اور پونے دو سال پہلے جنرل قمر جاوید باجوہ کی بطور آرمی چیف 3سالہ توسیع پارلیمنٹ کے ذریعے تینوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی، ایم کیو ایم، (ق) لیگ وغیرہ نے خود کرائی تھی۔

سیاسی طور پر جن پر ووٹوں کو عزت نہ دینے اور من پسند لوگوں کو کامیاب کرانے کا الزام دیا جاتا ہے ان سے ہی کامیاب کرانے کے لیے رابطہ کرکے کامیابی حاصل کی جاتی ہے۔ مفاہمت کے حامی خواجہ آصف خود اس کا واضح ثبوت ہیں۔ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے ایک دوسرے کی حکومتیں ختم کرانے کے لیے خود بالاتروں کی مدد حاصل کی تھی اور پانچ سال کے لیے منتخب کی گئی سیاسی حکومتوں کا قبل از وقت خاتمہ کرا کرعوام کے دیے گئے ووٹوں کو عزت دلائی تھی۔ اپنی اپنی غیر قانونی حرکات اور کرپشن بچانے کے لیے سیاستدانوں نے کس دور میں بالاتروں کی مدد حاصل نہیں کی تھی۔

جنرل پرویز مشرف کو دس سال تک وردی میں منتخب کرانے کا اعلان کیا غیر آئینی طور پر مقرر ڈپٹی وزیر اعظم نے نہیں کیا تھا اور ان کی پارٹی ہمیشہ بالاتروں کی کیا حمایت نہیں کرتی رہی۔ صدر غلام اسحاق سے جان چھڑانے کے لیے کیا وزیر اعظم نواز شریف نے بالاتروں کو مداخلت کا موقعہ خود نہیں دیا تھا۔ دو فوجی صدور کو ریفرنڈم کے ذریعے وردی میں کیا عمران خان اور نواز شریف نے منتخب نہیں کرایا تھا ،یہ سب کو پتا ہے۔

ووٹوں کو عزت خود سیاستدانوں نے دی ہوتی تو انھیں ووٹ کو عزت دینے کا مطالبہ آج نہ کرنا پڑتا۔ آئین پر خود عمل کرا کر اگر سیاسی حکومتیں ملک میں بلدیاتی انتخابات وقت پر کراتی رہتیں تو 3 فوجی ادوار میں بلدیاتی انتخابات چھ بار کرانے کا ریکارڈ فوجی حکمرانوں کو حاصل نہ ہوتا۔ سب کو اپنی اپنی غلطیاں تسلیم کرکے اپنے کیے کی معافی عوام سے مانگنی اور آئین پر عمل اور اپنی اپنی حدود میں رہنے کا سچا عہد کرنا چاہیے تب ہی ملک میں عوام کے ووٹوں کو عزت مل سکے گی۔ اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کا یہ اعتراف قابل تعریف و تقلید ہے کہ ہم سب سے غلطیاں ہوئی ہیں اور ہم سب استعمال ہوئے ہیں، ہمیں اپنی ذاتی انا کو ختم کرنا ہوگا۔

ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے ماضی کو بھول کر اب آگے بڑھنا چاہیے۔ میاں نواز شریف کو بھی اپنی غلطیوں اور ماضی سے سبق نہ سیکھنے کا اعتراف کرنا چاہیے کیونکہ ان کی تینوں حکومتیں ان ہی کی وجہ سے ختم ہوئیں جو انھیں اقتدار میں لائے تھے۔ وہ کیسے برداشت کرتے کہ ان ہی کی پیداوار انھیں آنکھیں دکھائے۔ زیادہ غلطیاں سیاستدانوں کی ہیں جو اپنے مفاد کے لیے خود ہی استعمال ہوئے اور اب انھیں اداروں کے آئینی حدود میں رہنے کا خیال آیا ہے۔ آئینی حدود میں سب کا رہنا آئینی تقاضا ہے اس لیے مذاکرات مزاحمت سے زیادہ اہم ہیں اور اسی طرح سب کے درمیان مفاہمت ممکن ہوسکے گی۔
Load Next Story