یہ زندگی دینے کی سزا ہے

اپنی جان جوکھم میں ڈالنے والی پولیو ٹیم پھر نشانہ


رقیہ اقبال January 27, 2014
اپنی جان جوکھم میں ڈالنے والی پولیو ٹیم پھر نشانہ۔ فوٹو: فائل

21 جنوری کو کراچی میں ایک بار پھر پولیو مہم نشانہ بنی۔۔۔ دہشت گردوں کے ایک ہی وار میں دو خواتین سمیت تین قیمتی جانیں چلی گئیں۔۔۔ یعنی قیام امن کے لیے جاری کئی ماہ سے جاری اہدافی کارروائیوں سے بھی کچھ فرق نہیں پڑا۔

انسداد پولیو مہم کے دوسرے روز قیوم آباد کے علاقے میں موٹر سائیکل سوار ملزمان نے گولیاں برسائیں اور فرار ہو گئے۔ محض 250 روپے یومیہ کے عوض اپنی روزی کے لیے اس پُرخطر راہ کا چنائو کرنے والوں نے ایک بار پھر اس کی بھاری قیمت چُکائی۔ جاں بحق ہونے والے 22 سالہ فہد خلیل ولد خلیل احمد، 25 سالہ انیتا زوجہ ظفر اور 28 سالہ اکبری خاتون زوجہ جمن خان ٹائون ہیلتھ آفس کورنگی کے ملازمین تھے۔ 22 سالہ فہد غیر شادی شدہ تھا اور گھر میں سب سے چھوٹا تھا۔ 25 سالہ انیتا زوجہ ظفر لسبیلہ کی رہائشی تھی۔ مقتولہ کے والد نے بتایا کہ انیتا گزشتہ ایک برس سے محکمہ صحت سے منسلک تھی، جب کہ وہ 3 بچوں کی ماں تھی۔ واقعے میں جاں بحق دوسری رضا کار اکبری خاتون اورنگی ٹائون کے سیکٹر ساڑھے گیارہ میں قریشی مارکیٹ کی رہائشی تھی اور اس کے چار بچے ہیں۔

افسوس ناک واقعے کے بعد انسداد پولیو مہم کو موخر کر دیا گیا۔ امن وامان کی خراب صورت حال کے پیش نظر پہلے ہی یہ مہم کراچی کی 15 یونین کونسل میں شروع نہیں کی جا سکی تھی۔ مہم کے رضا کاروں کے تحفظ کے لیے تیار کی گئی حفاظتی حکمت عملی میں قیوم آباد کا علاقہ غیر حساس علاقہ تھا، اس کے باوجود اس مقام پر کارروائی سے سیکورٹی معلومات پر ایک بار پھر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ اس سے قبل کراچی میں انسداد پولیو مہم کے رضا کاروں پر گڈاپ ٹائون، قائد آباد، سہراب گوٹھ، گلشن معمار اور دیگر علاقوں میں حملے کیے گئے تھے۔ پولیس کے مطابق مہم کے آغاز سے قبل سیکیورٹی پلان مرتب کیا گیا تھا۔ جس میں ہر ٹیم کو سیکیورٹی فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا، اس ضمن میں شہر کے 50 مقامات کو حساس قرار دیا گیا تھا، لیکن اس میں قیوم آباد شامل نہیں تھا۔ حکام کی زیادہ توجہ قائد آباد، سہراب گوٹھ سمیت ان علاقوں پر تھی جہاں ماضی میں حملے ہو چکے تھے ۔

سال رواںکی پہلی قومی انسداد پولیومہم دہشت گردی کا نشانہ بننے کے بعد پاکستان میں پولیو رضاکاروں کی سلامتی کے خطرات مزید شدید ہو گئے ہیں۔ لیڈیز ہیلتھ ورکرزایمپلائزایسوسی ایشن کی صدر حلیمہ لغاری کا کہنا ہے کہ ''انسداد پولیو مہم کے دوران 90 فی صد لیڈیز ہیلتھ ورکرز حصہ لیتی ہیں، مہم اب خطرناک ہو گئی ہے، جس میں ہمیں اپنی جانوں کا نذرانہ بھی دینا پڑ رہا ہے۔ معصوم غریب خواتین انسداد پولیو مہم میں کب تک اپنی جانیں گنواتی رہیں گی۔ تین دن تک گھرگھر جا کر بچوں کو پولیو وائرس سے بچائو کے حفاظتی قطرے پلا نے کے ایک ہفتے بعد ساڑھے سات سو روپے معاوضہ ملتا ہے۔ مہم کے دوران متعدد بار سیکیورٹی خدشات سے متعلقہ حکام کو آگاہ کیا گیا، لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوتی اور اب تک کراچی میں 5خواتین سمیت 9پولیو رضا کار دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔''

 photo Pic2_zps996d50a0.jpg

اس سے قبل بھی کراچی میں کئی بار خواتین اس مہم کے دوران اپنی جانیں دے چکی ہیں۔ 18 دسمبر 2012ء کوپہلی بار پولیو رضا کاروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا، جس میں قائد آباد کی فہمیدہ اور مدیحہ اسی دن اورنگی ٹاؤن کی نسیم اختر ، بلدیہ ٹاؤن کی کینز سمیت ایک پولیو ورکر بھی دہشت گردی کا نشانہ بنے، جب کہ اسی دن پشاور میں ایک اور پولیو رضا کار فرزانہ کو بھی دہشت گردوں نے نشانہ بنایا۔ اس سے قبل گڈاپ کے علاقے سہراب گوٹھ میں بھی ایک رضا کار ڈاکٹر اسحاق کاکڑ کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔ کراچی میں 20 جنوری سے شروع کی جانے والی انسداد پولیومہم کے دوسرے دن پولیو رضاکارخواتین انیتا، اکبری اور فہد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، جس کے بعد شہر کے دیگر محفوظ علاقوں میں بھی پولیو مہم جاری رکھنے پر سوالیہ نشان پڑ گیا ہے۔

ہر بار کی طرح اس بار بھی مذمت، احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا، لیکن عملاً اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر معاشرے کے لیے جدوجہد کرنے والی ان خواتین کی جانیں بچانے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدام نظر نہیں آرہا۔ الٹا پولیس حکام کی جانب سے متاثرہ ٹیم پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ وقت سے پہلے نکل گئی۔ پولیس کے مطابق انہیں 11 بجے نکلنا تھا لیکن وہ 10 بجے ہی فیلڈ میں پہنچ گئی۔ جس کی وجہ سے یہ واقعہ رونما ہوا۔ پولیس کا موقف ہے کہ علاقے کی دیگر پولیو ٹیموں کے ساتھ پولیس اہلکار موجود تھے۔ وزیراعلا سندھ سید قائم علی شاہ نے جاں بحق رضا کاروں کے ورثا کو فی کس 5 لاکھ روپے دینے کا اعلان بھی کیا، انھوں نے کہا کہ پولیو ٹیم پر حملے کرنے والے انسانیت کے دشمن ہیں جن کو ہر صورت میں بخشا نہیں جائے گا۔

معمولی معاوضوں کے عوض اپنی زندگی دائو پر لگانے والی ایک بار پھر اپنی جان سے گزر گئیں اور پھر اپنے پیچھے سماج کے باشعور لوگوں کے لیے یہ سوال چھوڑ گئیں کہ کیا دوسروں کو زندگیاں دینے کی یہی سزا ہے۔ وہ ضرور اس کا معاوضہ پا رہی تھیں، مگر وہ گھر سے نکلیں تو دوسروں کے بچوں کے لیے تھیں۔ آج دوسروں کے بچوں کو عمر بھر کی معذوری سے بچانے کی جستجو میں وہ اپنے کم سن بچوں کو ماں کی جدائی جیسے کرب ناک دکھ دے گئیں۔ کیا بیانات، معاوضے اور نوٹس، تحقیقات اور رپورٹ طلب کرنا کافی ہے؟ کیا دم توڑتی زندگیوں کو سانسیں دینے والوں کا یوں ہی دن دیہاڑے دم نکلتا رہے گا۔۔۔ آخر اور کتنی زندگیاں۔۔۔۔ آخر کب تک۔۔۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں