آنٹی نہ کہو۔۔۔
یہ انداز تخاطب خواتین پر گراں کیوں گزرتا ہے؟
خواتین جس طرح اپنے لیے بننا سنورنا ضروری سمجھتی ہیں، وہیں ان کی یہ خواہش بھی ہوتی ہے کہ وہ کم عمر نظر آئیں۔
اس لیے ہم دیکھ سکتے ہیں، کہ جب بھی کسی خاتون کی کم عمری کا پہلو نکلے تو کم عمر سمجھی جانے والی خاتون نہایت خوشی کا اظہار کرتی ہیں۔ دوسری طرف ہمارا معاشرہ جس طرح مغربی تقلید کی طرف جا رہا ہے۔ اسی طرح مختلف رشتوں کو بھی وہیں سے مستعار لیے گئے نام دیے جانے لگے ہیں۔ ایسے ہی ایک رشتے کا نام ''آنٹی'' ہے۔ مگر یہ لفظ سننا اکثر خواتین کے لیے کسی برے لفظ سے کم نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سی خواتین پلٹ کر آنٹی کہہ کر پکارنے والے کو ٹوک بھی دیتی ہیں کہ انہیں آیندہ آنٹی کہہ کر نہ پکارا جائے، لیکن بات تو یہ ہے کہ آخر کس کس کو منع کیا جائے۔ بس میں سفر کیجیے گا تو کنڈیکٹر بھی ہر خاتون کو اسی نام سے پکارتے نظر آتے ہیں۔ اگر اَن جان بن کر نہ سنا جائے کہ ہم تو آنٹی نہیں۔ تو دوبارہ اسی لفظ سے پکارا جاتا ہے کہ آنٹی جلدی کرایہ دو۔
بازار جائیں تو وہاں بھی تمام ہی دکان داروں نے ''آنٹی، آنٹی'' کی گردان لگانی ہوتی ہے۔ ''آنٹی دیکھیں کیا خوب صورت کپڑا ہے۔۔۔'' دوسری طرف سے کوئی پکار اٹھتا ہے ''آنٹی یہ بیگ تو آپ نے دیکھاہی نہیں۔'' کوئی پکارے گا آئیں آنٹی گرما گرم چاٹ کھائیں۔''
اکثر خواتین بھی آپس میں اس لفظ کا استعمال کرکے اپنے تئیں خود کو چھوٹا جتانے کو سرگرم نظر آتی ہیں، تاکہ محفل میں سننے والے یہ اخذ کریں کہ یہ یقیناً اپنی مخاطب سے کم عمر ہے۔ ایسے موقع پر یقیناً آنٹی کہی جانے والی لڑکی یا خاتون منہ سے کچھ کہہ بھی نہیں پاتیں، تاہم انہیں سخت ناگوار گزرتا ہے۔
آنٹی کا لفظ ہمارے معاشرے میں اتنا عام ہوا ہے کہ اکثر چھوٹی چھوٹی بچیاں بھی اب خود سے تھوڑی ہی بڑی لڑکیوں کو باجی کہنے کے بہ جائے بے دھڑک ''آنٹی'' کہہ دیتی ہیں۔ خواتین کی اکثریت اس لفظ سے زچ نظر آتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ لفظ بہت بڑی عمر کی خاتون کے لیے ہے، اس لیے اسے چھوٹی عمر کی خواتین پر استعمال نہ کیا جائے۔ بعض خواتین کا کہنا ہے کہ ان کی نظر میں یہ لفظ خاصا معیوب سا لگتا ہے، وجہ شاید انہیں خود بھی نہیں معلوم۔ دراصل ہر لفظ کے ساتھ ہمارے ذہن میں اس کا کچھ نہ کچھ خاکہ اور تصور بن جاتا ہے، جو منفی بھی ہوتا ہے اور مثبت بھی۔ خواتین کی کم عمر نظر آنے کی نفسیات کے پیش نظر لفظ آنٹی کا تاثر نہایت برا ہے۔ اس لیے وہ اس طرح پکارنے کو اچھا نہیں سمجھتیں۔ بہت سی خواتین کہتی ہیں کہ اس لفظ سے ان کا ذہن بہت بد مزاج سی بوڑھی خاتون کا آجاتا ہے، اس لیے وہ چاہے کتنی بھی بڑی کیوں نہ ہوجائیں، اپنے لیے کبھی بھی اس لفظ کو تسلیم نہیں کریں گی۔
اس ضمن میں اگر تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو خواتین کو بھی اس لفظ کی بابت اپنی سخت گیری کم کرنا ہو گی۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہر چیز تبدیل ہوتی ہے۔ یہاں تک کے الفاظ کا استعمال اور ان کے معنی بھی بدلتے رہتے ہیں۔ اب اگر خواتین کو پکارنے کے لیے لفظ آنٹی کا چلن اس قدر بڑھ گیا ہے تو اس کے لیے بھی اپنے پاس جگہ نکالیں۔ اس سے اپنی تضحیک محسوس نہ کریں۔ یہ بالکل ماضی میں خالہ، چچی، آپا اور باجی کی طرح کا ہی ایک انداز تخاطب ہے۔ جب آپ اس سے کچھ غلط اخذکرنا چھوڑ دیں گی تو یقیناً اس کے ذریعے منفی دھاک بٹھانے والوں کی بھی حوصلہ شکنی ہوگی اور پھر اگر کوئی اس کو منفی معنوں میں استعمال کرتا ہے تو اس سے آپ کو کوئی فرق نہیں پڑے گا، بلکہ جلد ہی یہ لفظ اپنے برے معانی کھودے گا۔
کیوں کہ بہت سی خواتین کا خیال ہوتا ہے کہ انہیں تضحیک کی غرض سے آنٹی کہا جا رہا ہے۔ اس لیے اگر وہ اس انداز تخاطب کو خاطر میں لانا چھوڑ دیں اور اس پر ناک بھوں چڑھائیں اور نہ اپنی بدن بولی سے ایسا تاثر دیں کہ وہ اسے برا سمجھ رہی ہیں۔ یہ ضروری بھی نہیں ہے کہ مخاطب کرنے والا آپ کی تضحیک کر رہا ہو، بلکہ بہت امکان ہے کہ اس نے روانی میں آپ کو آنٹی کہہ دیا ہو اور اس سے فقط آپ کو پکارنا مقصود ہو نا کہ تضحیک۔ اس لیے اس سے برا نہ مانیں، یہ یقیناً ایک بہتر راہ ہو گی۔
اس لیے ہم دیکھ سکتے ہیں، کہ جب بھی کسی خاتون کی کم عمری کا پہلو نکلے تو کم عمر سمجھی جانے والی خاتون نہایت خوشی کا اظہار کرتی ہیں۔ دوسری طرف ہمارا معاشرہ جس طرح مغربی تقلید کی طرف جا رہا ہے۔ اسی طرح مختلف رشتوں کو بھی وہیں سے مستعار لیے گئے نام دیے جانے لگے ہیں۔ ایسے ہی ایک رشتے کا نام ''آنٹی'' ہے۔ مگر یہ لفظ سننا اکثر خواتین کے لیے کسی برے لفظ سے کم نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سی خواتین پلٹ کر آنٹی کہہ کر پکارنے والے کو ٹوک بھی دیتی ہیں کہ انہیں آیندہ آنٹی کہہ کر نہ پکارا جائے، لیکن بات تو یہ ہے کہ آخر کس کس کو منع کیا جائے۔ بس میں سفر کیجیے گا تو کنڈیکٹر بھی ہر خاتون کو اسی نام سے پکارتے نظر آتے ہیں۔ اگر اَن جان بن کر نہ سنا جائے کہ ہم تو آنٹی نہیں۔ تو دوبارہ اسی لفظ سے پکارا جاتا ہے کہ آنٹی جلدی کرایہ دو۔
بازار جائیں تو وہاں بھی تمام ہی دکان داروں نے ''آنٹی، آنٹی'' کی گردان لگانی ہوتی ہے۔ ''آنٹی دیکھیں کیا خوب صورت کپڑا ہے۔۔۔'' دوسری طرف سے کوئی پکار اٹھتا ہے ''آنٹی یہ بیگ تو آپ نے دیکھاہی نہیں۔'' کوئی پکارے گا آئیں آنٹی گرما گرم چاٹ کھائیں۔''
اکثر خواتین بھی آپس میں اس لفظ کا استعمال کرکے اپنے تئیں خود کو چھوٹا جتانے کو سرگرم نظر آتی ہیں، تاکہ محفل میں سننے والے یہ اخذ کریں کہ یہ یقیناً اپنی مخاطب سے کم عمر ہے۔ ایسے موقع پر یقیناً آنٹی کہی جانے والی لڑکی یا خاتون منہ سے کچھ کہہ بھی نہیں پاتیں، تاہم انہیں سخت ناگوار گزرتا ہے۔
آنٹی کا لفظ ہمارے معاشرے میں اتنا عام ہوا ہے کہ اکثر چھوٹی چھوٹی بچیاں بھی اب خود سے تھوڑی ہی بڑی لڑکیوں کو باجی کہنے کے بہ جائے بے دھڑک ''آنٹی'' کہہ دیتی ہیں۔ خواتین کی اکثریت اس لفظ سے زچ نظر آتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ لفظ بہت بڑی عمر کی خاتون کے لیے ہے، اس لیے اسے چھوٹی عمر کی خواتین پر استعمال نہ کیا جائے۔ بعض خواتین کا کہنا ہے کہ ان کی نظر میں یہ لفظ خاصا معیوب سا لگتا ہے، وجہ شاید انہیں خود بھی نہیں معلوم۔ دراصل ہر لفظ کے ساتھ ہمارے ذہن میں اس کا کچھ نہ کچھ خاکہ اور تصور بن جاتا ہے، جو منفی بھی ہوتا ہے اور مثبت بھی۔ خواتین کی کم عمر نظر آنے کی نفسیات کے پیش نظر لفظ آنٹی کا تاثر نہایت برا ہے۔ اس لیے وہ اس طرح پکارنے کو اچھا نہیں سمجھتیں۔ بہت سی خواتین کہتی ہیں کہ اس لفظ سے ان کا ذہن بہت بد مزاج سی بوڑھی خاتون کا آجاتا ہے، اس لیے وہ چاہے کتنی بھی بڑی کیوں نہ ہوجائیں، اپنے لیے کبھی بھی اس لفظ کو تسلیم نہیں کریں گی۔
اس ضمن میں اگر تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو خواتین کو بھی اس لفظ کی بابت اپنی سخت گیری کم کرنا ہو گی۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہر چیز تبدیل ہوتی ہے۔ یہاں تک کے الفاظ کا استعمال اور ان کے معنی بھی بدلتے رہتے ہیں۔ اب اگر خواتین کو پکارنے کے لیے لفظ آنٹی کا چلن اس قدر بڑھ گیا ہے تو اس کے لیے بھی اپنے پاس جگہ نکالیں۔ اس سے اپنی تضحیک محسوس نہ کریں۔ یہ بالکل ماضی میں خالہ، چچی، آپا اور باجی کی طرح کا ہی ایک انداز تخاطب ہے۔ جب آپ اس سے کچھ غلط اخذکرنا چھوڑ دیں گی تو یقیناً اس کے ذریعے منفی دھاک بٹھانے والوں کی بھی حوصلہ شکنی ہوگی اور پھر اگر کوئی اس کو منفی معنوں میں استعمال کرتا ہے تو اس سے آپ کو کوئی فرق نہیں پڑے گا، بلکہ جلد ہی یہ لفظ اپنے برے معانی کھودے گا۔
کیوں کہ بہت سی خواتین کا خیال ہوتا ہے کہ انہیں تضحیک کی غرض سے آنٹی کہا جا رہا ہے۔ اس لیے اگر وہ اس انداز تخاطب کو خاطر میں لانا چھوڑ دیں اور اس پر ناک بھوں چڑھائیں اور نہ اپنی بدن بولی سے ایسا تاثر دیں کہ وہ اسے برا سمجھ رہی ہیں۔ یہ ضروری بھی نہیں ہے کہ مخاطب کرنے والا آپ کی تضحیک کر رہا ہو، بلکہ بہت امکان ہے کہ اس نے روانی میں آپ کو آنٹی کہہ دیا ہو اور اس سے فقط آپ کو پکارنا مقصود ہو نا کہ تضحیک۔ اس لیے اس سے برا نہ مانیں، یہ یقیناً ایک بہتر راہ ہو گی۔