پاکستان اور آزاد کشمیر کے معاشی اور سیاسی حالات
صنعتی شعبے میں کوئی ترقی نہیں ہو رہی ہے جب کہ ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کی جا رہی ہے۔
KUALA LAMPUR:
تحریک انصاف کی حکومت نجکاری کرنے میں سب سے بازی لے گئی ہے، اس کے علاوہ قرضے لینے میں بھی سب کو مات دے دی ہے۔ مسلسل روپے کی قیمت میں کمی کرنے کے باوجود بیرونی سرمایہ کاری میں ناکام رہی ہے۔ پہلے سے جو سرمایہ دار کمپنیاں پاکستان میں کام کر رہی تھیں اب وہ بیرون ملک اپنا سرمایہ منتقل کرچکی ہیں اور کرتی جا رہی ہیں۔
صنعتی شعبے میں کوئی ترقی نہیں ہو رہی ہے جب کہ ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کی جا رہی ہے۔ اگر حکومت بیرونی سرمائے کے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتی ہے تو اس سے محض چند سرمایہ دار ہی فائدہ اٹھائیں گے، محنت کش عوام کو اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا۔
چونکہ آج سرمایہ دار پیداواری شعبے کی بجائے مالیاتی سرمائے کے ذریعے شرح منافع کی دوڑ میں عالمی سرمایہ کاری کا بہت بڑا حصہ ڈیٹا، پراپرٹی، اسٹاک اور بانڈز جیسے محفوظ شعبوں میں منتقل کیا جا رہا ہے، اگر کہیں پیداواری شعبے کی ملازمتیں ہیں بھی تو کم سے کم محنت کشوں کے استحصال کو بڑھا کر منافع نچوڑا جا رہا ہے۔
آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق ملٹی نیشنل کمپنیوں نے عالمی سطح پر 12 ہزار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کاغذی کارپوریشن میں کر رکھی ہے۔ ان حالات میں تحریک انصاف کی تمام معاشی پالیسیاں منفی اثرات پر ہی منتج ہوئی ہیں۔ حکومت ٹیکس جمع کرنے کے تمام اہداف حاصل کرنے میں بھی ناکام رہی۔ تحریک انصاف کی حکومت میں آئی ایم ایف سے لیا جانے والا اربوں ڈالر کا قرضہ پہلے سے زیادہ سخت گیر شرائط پر حاصل کیا گیا ہے۔
بجلی کی قیمتوں میں سالانہ 20 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اشیائے خور و نوش، گیس اور ایندھن سے منسلک اشیا اور ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں آئے روز اضافے سے عوام کا جینا دوبھر ہو گیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق حقیقی تنخواہوں میں رواں مالی سال کے دوران 9 فیصد کمی ہوئی ہے۔
بیشتر اشیا ضروریہ کی قیمتوں میں گزشتہ تین سال کے دوران تقریباً 300 فیصد اضافہ ہوا۔ آج سرمایہ دارانہ منافعوں کو بحال رکھنے کے لیے نہ صرف محنت کشوں کی بہت بڑی تعداد کو نجکاری اور دوسری پالیسیوں کے ذریعے بے روزگار کیا جا رہا ہے بلکہ صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات کو بھی منافع کے حصول کے لیے نجی کاروباریوں کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ ایکسپریس ٹریبیون کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ 352000 بچے بھوک سے مر رہے ہیں جن کی عمر پانچ سال سے کم ہے۔ حکومت یہ اعلان کر رہی ہے کہ ہماری جی ڈی پی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 94 فیصد لوگ جی ڈی پی کی اصطلاح سے نابلد ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ جولائی میں 8 درآمدی اشیا پر ٹیکسوں سے 62 ارب روپے وصول کیے۔ جن درآمدی اشیا سے ٹیکس وصول کیے گئے ان میں پٹرول، قدرتی گیس، خام تیل، ہائی اسپیڈ ڈیزل، کوئلے، پام آئل اور فرنس آئل شامل ہیں۔ یقینا جب ان اشیا پر ٹیکس عائد کیے ہیں تو پھر مارکیٹ میں ان کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔ نتیجتاً جب صارفین انھیں خریدنے جائیں گے تو انھیں مزید قیمتوں میں خریدنا پڑے گا۔
اس کے علاوہ چونکہ یہ ساری اشیا ایندھن اور بائیو پروڈکٹس میں شمار ہوتی ہیں پھر ان کے اثرات بیشتر اشیا پر بالواسطہ طور پر پڑیں گے۔ پھر یہ 62 ارب روپے کی وصولی تقریباً دگنی ہو کر 104 ارب روپے کا بوجھ عوام کے کاندھوں پر پڑے گا۔
آزادکشمیر میں کل 53 نشستوں میں سے 33 نشستوں پر وادی کے اندر انتخابات ہوتے ہیں اور 20 نشستوں میں 12 پاکستان میں بسنے والے کشمیریوں کی ہوتی ہیں۔ جہاں الیکشن کمیشن کا کام صرف اتنا ہوتا ہے کہ ووٹروں کی فہرست اور بیلٹ باکس فراہم کرتا ہے باقی کام مقامی انتظامیہ کے ماتحت ہوتا ہے۔ 3نشستیں ٹیکنوکریٹ، علما مشائخ اور بیرون ملک کشمیریوں کی نمایندگی کے لیے اور 5 خواتین کی نشستیں ہیں، جن کا انتخاب اسمبلی اراکین کے ذریعے ہوتا ہے۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ جس کی وفاق اور پنجاب میں حکومت ہوگی اسی کی حکومت کشمیر اور گلگت بلتستان میں ہوگی۔
کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے پاس چھوٹی سڑکیں بنانے اور چھوٹے موٹے تعمیری کام کروانے کے علاوہ کم ہی اختیار موجود ہیں۔ آئین میں کوئی ترمیم اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک وزیر اعظم پاکستان منظوری نہ دے۔ اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقرری کے لیے بھی وزیر اعظم پاکستان کی منظوری ضروری ہوتی ہے۔ درجہ چہارم کی آسامیوں کے علاوہ دیگر تمام درجوں کی آسامیوں کی تخلیق کے لیے بھی پاکستان سے بھیجے گئے سیکریٹری مالیات سے مالیاتی منظوری لینا ضروری ہوتی ہے۔
50میگاواٹ سے زائد بجلی کی پیداوار کے لیے ہائیڈل پاور پلانٹ لگانے کا اختیار بھی مقامی اسمبلی اور حکومت کے پاس نہیں ہے۔ پاکستان کے چاروں صوبوں میں فور جی انٹرنیٹ فراہم کیا جا رہا ہے۔ تاہم پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں ابھی تک فور جی انٹرنیٹ کے لیے لائسنس بھی سیلولر کمپنی کو جاری نہیں کیے جاسکے ہیں۔ ہاں مگر اسمبلی ممبران نے یہ بل منظور کیے ہیں کہ کوئی اسمبلی ممبر خواہ ایک دن کے لیے بھی ممبر رہا ہو اس کو ساری زندگی پنشن ہر صورت میں دی جائے گی۔ دوسری جانب کورونا کے متاثرین جو بیرون ملک، کشمیر یا پاکستان میں ہیں اور بے روزگار ہوگئے ہیں ان کی مدد کے لیے ایک روپے کی بھی اسمبلی منظوری نہیں دے سکتی۔
آزادکشمیر کی 40 لاکھ آبادی میں صرف 90 ہزار لوگوں کو سرکاری ملازمت کے سوا اور کسی شعبے میں ملازمت کی کوئی گنجائش نہیں۔ 141 ارب روپے کے بجٹ سے 113 ارب روپے کا بجٹ انتظامی اخراجات پر خرچ ہوتا ہے۔ 28 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ ہوتا ہے جس کا تقریباً 80 فیصد حصہ 53 ممبران اسمبلی ترقیاتی اسکیموں کے نام پر حاصل کرتے ہیں۔
60 فیصد نوجوانوں پر مشتمل آبادی میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 10.26 فیصد بے روزگاری ہے۔ خواتین میں بے روزگاری کی شرح 23.91 فیصد ہے۔ 20 سے 30 سال کے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 25 فیصد سے زائد ہے۔ اس خطے میں روزگار کا سب سے بڑا انحصار بیرون ملک محنت کی فروخت ہے۔ تقریباً 15 لاکھ محنت کش بیرونی ممالک محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔
ادھر او آئی سی کے ایک وفد نے کشمیر کی کنٹرول لائن پر فائرنگ کے متاثرین سے ملاقات کی اور سیکیورٹی کے حالات کا جائزہ لیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ او آئی سی عملاً کیا کرتی ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت نجکاری کرنے میں سب سے بازی لے گئی ہے، اس کے علاوہ قرضے لینے میں بھی سب کو مات دے دی ہے۔ مسلسل روپے کی قیمت میں کمی کرنے کے باوجود بیرونی سرمایہ کاری میں ناکام رہی ہے۔ پہلے سے جو سرمایہ دار کمپنیاں پاکستان میں کام کر رہی تھیں اب وہ بیرون ملک اپنا سرمایہ منتقل کرچکی ہیں اور کرتی جا رہی ہیں۔
صنعتی شعبے میں کوئی ترقی نہیں ہو رہی ہے جب کہ ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کی جا رہی ہے۔ اگر حکومت بیرونی سرمائے کے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتی ہے تو اس سے محض چند سرمایہ دار ہی فائدہ اٹھائیں گے، محنت کش عوام کو اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا۔
چونکہ آج سرمایہ دار پیداواری شعبے کی بجائے مالیاتی سرمائے کے ذریعے شرح منافع کی دوڑ میں عالمی سرمایہ کاری کا بہت بڑا حصہ ڈیٹا، پراپرٹی، اسٹاک اور بانڈز جیسے محفوظ شعبوں میں منتقل کیا جا رہا ہے، اگر کہیں پیداواری شعبے کی ملازمتیں ہیں بھی تو کم سے کم محنت کشوں کے استحصال کو بڑھا کر منافع نچوڑا جا رہا ہے۔
آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق ملٹی نیشنل کمپنیوں نے عالمی سطح پر 12 ہزار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کاغذی کارپوریشن میں کر رکھی ہے۔ ان حالات میں تحریک انصاف کی تمام معاشی پالیسیاں منفی اثرات پر ہی منتج ہوئی ہیں۔ حکومت ٹیکس جمع کرنے کے تمام اہداف حاصل کرنے میں بھی ناکام رہی۔ تحریک انصاف کی حکومت میں آئی ایم ایف سے لیا جانے والا اربوں ڈالر کا قرضہ پہلے سے زیادہ سخت گیر شرائط پر حاصل کیا گیا ہے۔
بجلی کی قیمتوں میں سالانہ 20 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اشیائے خور و نوش، گیس اور ایندھن سے منسلک اشیا اور ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں آئے روز اضافے سے عوام کا جینا دوبھر ہو گیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق حقیقی تنخواہوں میں رواں مالی سال کے دوران 9 فیصد کمی ہوئی ہے۔
بیشتر اشیا ضروریہ کی قیمتوں میں گزشتہ تین سال کے دوران تقریباً 300 فیصد اضافہ ہوا۔ آج سرمایہ دارانہ منافعوں کو بحال رکھنے کے لیے نہ صرف محنت کشوں کی بہت بڑی تعداد کو نجکاری اور دوسری پالیسیوں کے ذریعے بے روزگار کیا جا رہا ہے بلکہ صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات کو بھی منافع کے حصول کے لیے نجی کاروباریوں کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ ایکسپریس ٹریبیون کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ 352000 بچے بھوک سے مر رہے ہیں جن کی عمر پانچ سال سے کم ہے۔ حکومت یہ اعلان کر رہی ہے کہ ہماری جی ڈی پی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 94 فیصد لوگ جی ڈی پی کی اصطلاح سے نابلد ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ جولائی میں 8 درآمدی اشیا پر ٹیکسوں سے 62 ارب روپے وصول کیے۔ جن درآمدی اشیا سے ٹیکس وصول کیے گئے ان میں پٹرول، قدرتی گیس، خام تیل، ہائی اسپیڈ ڈیزل، کوئلے، پام آئل اور فرنس آئل شامل ہیں۔ یقینا جب ان اشیا پر ٹیکس عائد کیے ہیں تو پھر مارکیٹ میں ان کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔ نتیجتاً جب صارفین انھیں خریدنے جائیں گے تو انھیں مزید قیمتوں میں خریدنا پڑے گا۔
اس کے علاوہ چونکہ یہ ساری اشیا ایندھن اور بائیو پروڈکٹس میں شمار ہوتی ہیں پھر ان کے اثرات بیشتر اشیا پر بالواسطہ طور پر پڑیں گے۔ پھر یہ 62 ارب روپے کی وصولی تقریباً دگنی ہو کر 104 ارب روپے کا بوجھ عوام کے کاندھوں پر پڑے گا۔
آزادکشمیر میں کل 53 نشستوں میں سے 33 نشستوں پر وادی کے اندر انتخابات ہوتے ہیں اور 20 نشستوں میں 12 پاکستان میں بسنے والے کشمیریوں کی ہوتی ہیں۔ جہاں الیکشن کمیشن کا کام صرف اتنا ہوتا ہے کہ ووٹروں کی فہرست اور بیلٹ باکس فراہم کرتا ہے باقی کام مقامی انتظامیہ کے ماتحت ہوتا ہے۔ 3نشستیں ٹیکنوکریٹ، علما مشائخ اور بیرون ملک کشمیریوں کی نمایندگی کے لیے اور 5 خواتین کی نشستیں ہیں، جن کا انتخاب اسمبلی اراکین کے ذریعے ہوتا ہے۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ جس کی وفاق اور پنجاب میں حکومت ہوگی اسی کی حکومت کشمیر اور گلگت بلتستان میں ہوگی۔
کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے پاس چھوٹی سڑکیں بنانے اور چھوٹے موٹے تعمیری کام کروانے کے علاوہ کم ہی اختیار موجود ہیں۔ آئین میں کوئی ترمیم اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک وزیر اعظم پاکستان منظوری نہ دے۔ اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقرری کے لیے بھی وزیر اعظم پاکستان کی منظوری ضروری ہوتی ہے۔ درجہ چہارم کی آسامیوں کے علاوہ دیگر تمام درجوں کی آسامیوں کی تخلیق کے لیے بھی پاکستان سے بھیجے گئے سیکریٹری مالیات سے مالیاتی منظوری لینا ضروری ہوتی ہے۔
50میگاواٹ سے زائد بجلی کی پیداوار کے لیے ہائیڈل پاور پلانٹ لگانے کا اختیار بھی مقامی اسمبلی اور حکومت کے پاس نہیں ہے۔ پاکستان کے چاروں صوبوں میں فور جی انٹرنیٹ فراہم کیا جا رہا ہے۔ تاہم پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں ابھی تک فور جی انٹرنیٹ کے لیے لائسنس بھی سیلولر کمپنی کو جاری نہیں کیے جاسکے ہیں۔ ہاں مگر اسمبلی ممبران نے یہ بل منظور کیے ہیں کہ کوئی اسمبلی ممبر خواہ ایک دن کے لیے بھی ممبر رہا ہو اس کو ساری زندگی پنشن ہر صورت میں دی جائے گی۔ دوسری جانب کورونا کے متاثرین جو بیرون ملک، کشمیر یا پاکستان میں ہیں اور بے روزگار ہوگئے ہیں ان کی مدد کے لیے ایک روپے کی بھی اسمبلی منظوری نہیں دے سکتی۔
آزادکشمیر کی 40 لاکھ آبادی میں صرف 90 ہزار لوگوں کو سرکاری ملازمت کے سوا اور کسی شعبے میں ملازمت کی کوئی گنجائش نہیں۔ 141 ارب روپے کے بجٹ سے 113 ارب روپے کا بجٹ انتظامی اخراجات پر خرچ ہوتا ہے۔ 28 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ ہوتا ہے جس کا تقریباً 80 فیصد حصہ 53 ممبران اسمبلی ترقیاتی اسکیموں کے نام پر حاصل کرتے ہیں۔
60 فیصد نوجوانوں پر مشتمل آبادی میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 10.26 فیصد بے روزگاری ہے۔ خواتین میں بے روزگاری کی شرح 23.91 فیصد ہے۔ 20 سے 30 سال کے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 25 فیصد سے زائد ہے۔ اس خطے میں روزگار کا سب سے بڑا انحصار بیرون ملک محنت کی فروخت ہے۔ تقریباً 15 لاکھ محنت کش بیرونی ممالک محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔
ادھر او آئی سی کے ایک وفد نے کشمیر کی کنٹرول لائن پر فائرنگ کے متاثرین سے ملاقات کی اور سیکیورٹی کے حالات کا جائزہ لیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ او آئی سی عملاً کیا کرتی ہے۔