بڑھتے جرائم اور حکومتی کردار

گھروں میں رہتے ہوئے بھی ہم خود کو محفوظ تصور نہیں کرسکتے تو اس کی وجہ کیا ہے؟ ہماری اپنی بدعملی یا حکومتی نااہلی؟


جرائم کی سب سے بڑی وجہ معاشی بدحالی یعنی غربت، بے روزگاری، ناانصافی اور مہنگائی ہیں۔ (فوٹو: فائل)

جرائم کسی بھی معاشرے میں ناسور کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دنیا میں سب سے پہلے جو جرم سر زد ہوا وہ رقابت کی وجہ سے ہوا، جب حضرت آدم علیہ السلام کے پہلے بیٹے قابیل نے اپنے چھوٹے بھائی ہابیل کو قتل کردیا۔

جب بھی کسی سوسائٹی میں جرائم کی شرح بڑھتی ہے تو لوگوں میں عدم تحفظ اور بے چینی جیسی کیفیات میں اضافہ ہوتا ہے، کیونکہ جرم جانی اور مالی دونوں صورتوں میں نقصان پہنچاتا ہے۔ کوئی بھی جرم چاہے آپ کے ساتھ نہ بھی ہو، تب بھی اس کی وجہ سے ایک خوف اور عدم تحفظ محسوس ہوتا ہے۔ جرم ہے کیا؟ کوئی بھی معاشرہ جب تشکیل پاتا ہے تو اس کے لوگوں کےلیے کچھ قوانین زندگی بنائے جاتے ہیں تاکہ ہر فرد کے حقوق کا خیال رکھا جاسکے اور جب کوئی ان حقوق کی پامالی کرتا ہے تو اسے جرم گردانا جاتا ہے اور حکومتیں اس کے لیے مجرم کو مختلف سزائیں تفویض کرتی ہیں۔ مختلف ممالک میں جرم کی مختلف حالتیں ہوسکتی ہیں اور اسی مناسبت سے مختلف سزائیں بھی دی جاتی ہیں۔

پاکستان میں آزادی کے وقت یعنی 1947 میں کل جرائم کی تعداد 73105 تھی جو کہ 2019 میں بڑھ کر 786339 ہوگئی اور آج 2021 میں صرف پنجاب کے صوبہ میں چھ ماہ میں درج کیے گئے جرائم کی تعداد 288293 ہے۔ یہ تعداد بھی وہ ہے جو مقدمات درج کیے جاتے ہیں، جبکہ ایسے کئی جرائم ہیں جن کا اندراج تک نہیں ہوتا اور اس لحاظ سے یہ تعداد بہت زیادہ بنتی ہے۔

آج بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کو دیکھیں تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ ہم کیسے لوگ ہیں جن سے معصوم بچے بھی محفوظ نہیں۔ خبروں پر نظر ڈالیں تو غم و غصے سے دماغ کی رگیں پھٹنے لگتی ہیں کہ صرف دو سو روپے کے تنارعے پر سیالکوٹ میں دو لوگ موت کے منہ میں چلے گئے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی موجودگی میں ایک وزیر کے بھائی کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ مظفر گڑھ میں پنچایت میں ایک آدمی کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ مالک مکان نے آٹھ سالہ گھریلو ملازمہ کو قتل کردیا۔ 15 سالہ بیٹی نے ماں کو ڈانٹنے پر قتل کردیا۔ بیٹا ماں کو مار کر اس کا گوشت کھاتا ہے اور مساجد و کلیسا و مندروں پر حملے ہورہے ہیں۔ مصروف شاہراہوں پر جاتے ہوئے راہگیر لٹ رہے ہیں۔ اسکولوں، مدرسوں میں بچے محفوظ نہیں، گلی میں کھیلتے بچے غائب ہوجاتے ہیں۔ گھروں میں رہتے ہوئے بھی ہم اپنے آپ کو محفوظ تصور نہیں کرسکتے تو ان سب کی وجہ کیا ہے؟ ہماری اپنی بدعملی یا حکومتی نااہلی؟

ایک تحقیق کے مطابق جرائم کی سب سے بڑی وجہ معاشی بدحالی یعنی غربت، بے روزگاری، ناانصافی اور مہنگائی ہیں۔ غربت کی وجہ سے جب انسان بھوک میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ اپنی بھوک مٹانے کےلیے کسی کے حق کو پامال کرتا ہے۔ جب ایک پڑھے لکھے نوجوان کے پاس روزگار نہیں ہوتا تو وہ سڑکوں پر لوگوں کو لوٹنے لگ جاتا ہے۔ جب مہنگائی کی وجہ سے آمدنی و اخراجات میں توازن نہ رہے تو انسان اس توازن کو برقرار رکھنے کےلیے جائز و ناجائز ذرائع آمدن میں فرق کو مٹا دیتا ہے اور جب حق پر ہوتے ہوئے بھی انصاف نہ ملے تو انسان خود انصاف کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے اور جرائم کا مرتکب ہوتا ہے۔

ان جرائم کی روک تھام کےلیے سب سے زیادہ کردار حکومت کا بنتا ہے کہ قانون بنانا اور اس پر لوگوں سے عمل کرانا حکومت کی ذمے داری ہے۔ جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اگر میری رعایا میں ایک جانور بھی بھوک سے مرگیا تو اس کا حساب مجھ سے ہوگا۔ تو کیا ہمارے حکمرانوں کے حساب میں یہ ہونے والے جرائم نہیں آئیں گے؟ کیونکہ مجرم اگر بچ نکلنے میں کامیات ہوتا ہے تو کسی بااثر شخصیت کی وجہ سے، عدالتوں میں ملنے والی ناانصافی کی وجہ سے، حکومتی نااہلی کی وجہ سے یا پھر قانون میں پائے جانے والے ان نکتوں کی وجہ سے جو انصاف کو بہت مشکل بنادیتے ہیں۔

تو پھر ایک مسلمان ملک ہونے پر بھی حکومت شریعت کے اعتبار سے سزائیں کیوں نہیں جاری کرتی؟ کیوں فوری انصاف مہیا نہیں کیا جاتا؟ یہ حکومت ہی ہے جو معاشی اعتبار سے اپنے عوام کو مضبوط کرسکتی ہے۔ یہ حکومت کا ہی تو کام ہے کہ خیرات دینے اور قرضہ دینے کے بجائے خود روزگار کے مواقع پیدا کرکے بے روزگاری کا خاتمہ کرے۔ یہ حکومت ہی کی تو ذمے داری ہے کہ اشیائے خورونوش کو عوام کی پہنچ میں رکھے تاکہ آمدن و اخراجات کا توازن قائم رہے۔ اگر حکومت چند لوگوں کے مفاد کے بجائے عوام کے مفاد کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرے تو جرائم کی شرح کو بہت حد تک کم کیا جاسکتا ہے اور ایک محفوظ معاشرہ تشکیل پاسکتا ہے۔

ہمارا ملک پاکستان جو مذہبی بنیاد پر آزاد ہوا۔ مگر افسوس ہم ایک مکمل ضابطہ حیات ملنے کے باوجود بھی اسے اپنے مذہبی ملک پاکستان میں نافذ نہیں کرسکے اور جرایم بڑھتے جارہے ہیں۔ پون صدی ہونے کو ہے مگر ہم ابھی بھی انگریز کے قانون کو سینوں سے لگائے ہوئے ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ جرائم جن ممالک میں ہوتے ہیں ہم بھی ان ہی کے قانون لاگو کیے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں بھی جرائم میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، کیونکہ انصاف ناپید ہو تو ظلم بڑھتا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے ملک کو امن کا گہوارہ بنائے اور ہمیں آپس میں بھائی چارے کے ساتھ رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں