کیا الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم پاکستان میں ممکن ہے

پاکستان میں الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم پر سوالات ہی سوالات ہیں، جن کے تسلی بخش جواب موجود نہیں

ہماری معیشت اور سسٹم فی الوقت الیکٹرانک ووٹنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ (فوٹو: فائل)

الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا شور ایک مرتبہ پھر سے سننے میں آرہا ہے۔ فواد چوہدری اور شبلی فراز سمیت دیگر وزرا بھی اس کی مارکیٹنگ یعنی حمایت کررہے ہیں۔ نامور سینئر صحافی سید طلعت حسین نے ماضی میں ان مشینوں کے حوالے سے ایک ایسے فرد سے بات چیت کی تھی جو اس منصوبے کا حصہ تھا اور اب بیرون ملک مقیم ہے۔ اس گفتگو سے خاکسار جو اخذ کر پایا ہے، وہ پڑھیے، پروسیس کو سمجھیے اور پھر فیصلہ کیجئے کہ کیا یہ ممکن ہے؟

الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کےلیے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مختلف اداروں کے ماڈلز دیکھے اور اسلام آباد کے ایک نجی تعلیمی ادارے کے بنائے گئے ماڈل کو منظور کیا گیا۔ اس ادارے نے ای سی پی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کو اس ماڈل کی پریزنٹیشن بھی دی۔ آج کے وفاقی وزیر اس وقت بربنائے عہدہ اس جامعہ کے چانسلر تھے جس کی الیکٹرانک مشین منظور ہوئی تھی۔ جس مشین کی آج بات کی جارہی ہے وہ ایک پروٹو ٹائپ ہے۔

جب بھی کسی منصوبے کو بنایا جاتا ہے تو اس میں ایک وقت ایسا ہوتا ہے جس میں بہت سی توقعات ہوتی ہیں کہ ایسا بھی ہوجائے گا اور ویسا بھی ہوجائے گا اور جیسے جیسے کام بڑھا تو اس منصوبے پر کام کرنے والے انجینئرز کو سمجھ میں آئی کہ یہ ایک پروڈکٹ نہیں ہے بلکہ ایک پورا پروسیس ہے، یعنی اب ایک مشین کی بات نہیں ہے بلکہ الیکشن کے موقع پر 3 لاکھ مشینوں کی بات ہے۔ اب یہ بھی دیکھنا تھا کہ ڈیزائن کتنا کمپیکٹ ہوگا، تکنیکی طور پر کتنی آسان ہوگی اور کیسے ڈیولپ کی جائے گی، کیسے یہ مطلوبہ مقام تک جائے گی اور ٹیمپر کیے بغیر یہ واپس آسکتی ہے؟ ایسے بہت سے سوالات ہنوز شاید جواب طلب ہی ہیں۔

الیکٹرانک ووٹنگ کے حوالے سے اس وقت 3 ماڈل ہیں۔ ایک ہے جس کو پیپر الیکٹرانک ووٹ کہا جاتا ہے۔ اس میں ووٹر کاغذ پر مخصوص سیاہی کے ساتھ اپنا ووٹ ڈالتا ہے اور پروسیس کے بعد گنتی ہوتی ہے جو الیکٹرانک ہوتی ہے۔ یہ سسٹم امریکا میں استعمال ہورہا ہے۔ دوسرا سسٹم الیکٹرانک ووٹنگ کا ہے۔ اس میں آپ مخصوص ویب سائٹ پر اپنے مندرجات کے ساتھ ووٹ کاسٹ کرتے ہیں۔ یہ سسٹم بھی دنیا میں کچھ ممالک میں رائج ہے۔

تیسرا سسٹم ہے جسے ڈائریکٹ الیکٹرانک ووٹنگ مشین یعنی ڈی آر ای کہتے ہیں۔ یہ ہے وہ سسٹم جس کو پاکستان میں استعمال کیا جانا ہے۔ ڈی آر ای کے آگے 3 حصے ہیں۔

پہلا حصہ ووٹر کی شناخت کا ہے۔ جس میں ووٹر اپنے انگوٹھے سے مشین کو اپنی شناخت بتائے گا۔ ریئل ٹائم میں ایسا ممکن نہیں ہے لہٰذا اس مشین میں ممکنہ طور پر اس حلقے کے ووٹر کا ڈیٹا نادرا سے انسٹال کیا جائے گا، جس کے بعد مشین ووٹر کی شناخت کو میچ کرنے کے قابل ہوگی۔ اس حصے کی حفاظت بھی ضروری ہوگی کیونکہ ذرا سی غلطی سے نادرا کا سسٹم بھی داؤ پر لگ سکتا ہے۔

مشین کا دوسرا حصہ ووٹ کاسٹنگ کا ہے۔ اس حصے کے مزید تین ذیلی حصے ہیں۔ ذیلی حصہ ایک میں ایک کنٹرول یونٹ ہے جو باکس کی طرح کا ہے، اس کو پریذائیڈنگ آفیسر کنٹرول کررہا ہوگا۔ ووٹر کی شناخت کے بعد پی او اس کو اِن ایبل کرے گا اور ووٹر سیکریسی اسکرین کے پیچھے جاکر اپنا حق رائے دہی استعمال کرے گا۔

اب تیسرا حصہ یعنی بیلٹنگ ہونٹ ہوگا۔ یہ ایک ٹیبلیٹ کی طرح کی ڈیوائس ہوگی، جس میں امیدوار کا نام اور نشان وغیرہ ہوں گے اور مہر کی جگہ پر بٹن دبایا جائے گا۔ بٹن دبانے پر لائٹ جلے گی۔ ساتھ ایک پرنٹر ہوگا، جہاں سے رسید نکلے گی، جو ووٹ آپ نے کاسٹ کیا ہے، وہ سامنے آئے گا اور پرچہ باکس میں گر جائے گا۔ شام کو الیکشن ختم ہونے پر آر ٹی ایس سسٹم سے الیکشن کا پروسیس کوڈ لگانے پر لاک ہوجائے گا اور ایک پیپر ملے گا جس کو فارم 45 کا نعم البدل کہہ لیجئے، اس پر تمام نتائج ہوں گے۔

یہاں پر پولنگ ایجنٹس اور متعلقہ افسران دستخط کریں گے اور رزلٹ الیکشن کمیشن کے سرور میں محفوظ ہوجائے گا۔

اب سوال اٹھتا ہے کہ فراڈ کیسے ہوسکتا ہے؟ اس کے ساتھ ضمنی طور پر کئی سوالات ہیں لیکن چند بنیادی سوال و جواب کچھ ایسے بنیں گے کہ ووٹر کی شناخت پہلا مرحلہ ہے۔ نادرا کے اپنے دعوے کے مطابق 82 فیصد کی شناخت ممکن ہے، یعنی 18 فیصد کی شناخت ممکن نہیں ہے۔ اب اگر اوسطاً ایک حلقے میں 4 لاکھ ووٹر ہوتا ہے تو 80 ہزار کا ڈیٹا ہی ویریفائی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اب اگر کسی حلقے سے زیادہ تعداد ان ووٹرز کی سامنے آجاتی ہے جو ویریفائی ایبل نہیں ہیں تو؟ گزشتہ الیکشن میں اکثر حلقوں سے جیتنے والے امیدوار کا مارجن پندرہ بیس ہزار ووٹس کا ہی تھا۔

یہاں پر اگر کاغذی نظام اور الیکٹرانک نظام دونوں کو ساتھ ساتھ چلاتے ہیں تو لاگت بہت زیادہ بڑھ جائے گی۔ ایسی صورت میں خرچ کا تخمینہ کہاں تک جائے گا؟ 2013 میں ای سی پی کا خرچ 4 ارب روپے تھا جو کہ 2018 کے انتخابات میں بڑھ کر 21 ارب روپے ہوا۔ اب ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف الیکٹرانک مشینوں کےلیے لمحہ موجود میں 5 سو ملین ڈالر درکار ہوں گے اور یہ بھی اس صورت میں، جب مشینیں مکمل طور پر مقامی سطح پر بنائی جائیں یعنی ان کا سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر سب کچھ ہی ملک میں تیار ہو۔


اس ماڈل میں ووٹر کی شناخت کا یونٹ باقی سے الگ ہوگا اور اس کو بھی ملک میں ہی تیار کیا جانا ہوگا۔ گزشتہ عام انتخابات میں قریب 85 ہزار پولنگ اسٹیشن تھے اور ان میں پھر ذیلی بوتھ بنے ہوئے تھے، جن کی تعداد 2 لاکھ 40 ہزار تقریباً تھی۔ یعنی اگر صرف پولنگ اسٹیشن پر ہی جائیں تو 85 ہزار کے قریب مشینیں چاہئیں اور پھر اسی حساب سے بیلیٹنگ یونٹس بھی چاہئیں۔

یہاں ایک اور مسئلہ ہے کہ پاکستان کے بعض حلقوں میں 50 امیدوار بھی میدان میں ہوتے ہیں اور کچھ امیدوار انتخابات سے ایک ہفتہ پہلے بھی دوسرے کے حق میں بیٹھ جاتے ہیں۔ ہم اوسطاً کہتے ہیں کہ ایک کنٹرول کے ساتھ 2 یونٹس چاہیے ہوں تو اب ایک لاکھ 70 ہزار صوبائی کےلیے اور اتنے ہی قومی اسمبلی کےلیے چاہئیں اور اسی طرح پھر اس کے آدھے پرنٹنگ یونٹس بنیں گے۔ اب سب کا مجموعہ یہ ہے کہ ایک الیکشن کے پراسیس کےلیے ہمیں ایک ملین یعنی دس لاکھ مشینیں درکار ہوں گی اور اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس سارے پراسیس پر کم از کم 5 سو ملین ڈالر کا براہ راست خرچ ہوگا۔ اگر ہم خرچ کم کرتے ہیں تو کوالٹی پر سمجھوتہ کرنا ہوگا جو کہ ہم افورڈ نہیں کرسکتے۔

اب یہ لاگت صرف مشینوں کی ہے، اس میں ٹریننگ سمیت دیگر کوئی لاگت وغیرہ شامل نہیں ہے۔ مشینیں جب بن جائیں گی تو ان کو رکھنے کےلیے کسی ویئرہاوس کی ضرورت ہوگی اور وہاں ایسی سخت سیکیورٹی بھی چاہیے ہوگی جو یہ یقینی بنائے کہ اندر موجود ڈیوائسز ہر لحاظ سے اور ہر سطح پر محفوظ رہیں اور سارے عرصے میں کوئی اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کرے۔ ان کو خراب ہونے سے بچانا، ہیکنگ اور ٹیمپرنگ سے بچانا، الغرض کہ ایک دن کے استعمال کے علاوہ تقریباً 5 سال ان مشینوں میں سے اکثر نے تو ویئر ہاؤس میں رہنا ہے اور ان کی حفاظت کا خرچ الگ سے آنا ہے۔ کوئی مشین خراب ہوجائے تو ای سی پی پر اس کی ریپئرنگ اِن ہاؤس لازمی ہوگی بصورت دیگر تو سیکریٹس باہر جاسکتے ہیں۔

مشینوں کی ہیکنگ کوئی بڑی بات نہیں ہے، ایک سورس کوڈ، ایک چپ پورا سسٹم اور نتائج بدل سکتی ہے۔ کیا ہم باہر سے مشینیں تیار کروائیں؟

اس کےلیے ایک طرف لاگت بڑھتی ہے تو دوسری جانب ہیکنگ کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ ایپل کسی وقت میں ہیکنگ کے حوالے سے بلند دعوے کرتا تھا، آج وہ بھی خاموش ہے۔ یعنی ایک ایک لمحہ پر ٹھیک ٹھاک خرچ ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ کوئی 1 ارب اور 20 کروڑ ڈالر تک کا خرچ ہوگا۔ 2018 میں ڈالر 128 کا تھا اور تب کا خرچ 16 کروڑ اور 80 لاکھ ڈالر تک ہوا تھا، یعنی ہمیں الیکٹرانک ووٹنگ کے ساتھ الیکشن کےلیے کم از کم 1 ارب اور 3 کروڑ ڈالر کی ضرورت ہوگی۔

یورپ کے کچھ ممالک نے ایسی مشینیوں کو استعمال کیا اور پھر خرچ اور لاگت دیکھتے ہوئے انھیں چھوڑ دیا۔

اس سارے سسٹم پر سوالات ہی سوالات ہیں جن کے فی الوقت تسلی بخش جواب نہیں ہیں۔

ایک ارب ڈالر کا خرچ کرکے بھی کیا ضمانت ہے کہ سسٹم فول پروف ہوگا؟ ایسا ممکن نہیں ہے۔ کیا ہماری معیشت صرف الیکشن پروسیس کےلیے 1 ارب ڈالر کا خرچ برداشت کرسکتی ہے؟

سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ووٹنگ کے عمل کے بعد جب مشینیں ویئر ہاؤس میں ہوں گی تو کیا ضمانت ہے کہ وہ اگلے الیکشن تک بغیر کسی چھیڑ چھاڑ کے پڑی رہیں گی؟ لہٰذا خاکسار کی رائے میں، ہم، ہماری معیشت اور سسٹم فی الوقت خرچ اور دیگر عوامل کو دیکھتے ہوئے الیکٹرانک ووٹنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story