محنت لگن اور ایمانداری

جشن آزادی سے مراد وہ نہیں جو ہم لیتے ہیں، دنیا میں جشن آزادی کو ’’نیاعزم‘‘ اور نیا جوش و ولولہ سمجھا جاتا ہے۔


علی احمد ڈھلوں August 13, 2021
[email protected]

جشن آزادی سے مراد وہ نہیں جو ہم لیتے ہیں، دنیا میں جشن آزادی کو ''نیاعزم'' اور نیا جوش و ولولہ سمجھا جاتا ہے، اور'' جشن آزادی ''کے دن آیندہ کی حکمت عملی بیان کیا جاتی ہے یا نیا پلان پیش کیا جاتا ہے، جیسے پہلی جولائی کو کینیڈین برطانیہ سے آزادی کا دن مناتے ہیں، اوراسی دن حکومت اگلے سال کا لائحہ عمل بناتی ہے کہ وہ کیا نیا کرنے جا رہے ہیں۔

پھر برطانوی بھی پہلی جولائی کو ہی قومی دن مناتے ہیں اور ہاؤس آف کامنز میں نئے قوانین پیش کیے جاتے ہیں، جرمن 3اکتوبر کو قومی دن مناتے ہیں اور جرمن چانسلر اس دن نیا ایجنڈا پیش کرتی ہیں ، 2جون کو اٹلی میں قومی دن منایا جاتا ہے، جب حکومت دنیا کے سامنے اپنے عزائم رکھتی ہے ،کہ وہ اپنی قوم کے لیے کیا کریں گے۔ کئی دوسرے ممالک بھی یہی عزم دہراتے ہیں کہ وہ اپنی اقوام کے لیے کیا کرنے جا رہے ہیں، اس کے برعکس ہم جشن آزادی کو بغیر کسی ایجنڈے، بغیر کسی نئی منصوبہ بندی اور بغیر کسی مقصد یا نئے عزم کے اظہار کے مناتے ہیں۔

پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ ٹارگٹ سیٹ کیے بغیر آگے بڑھ سکتے ہیں، یہ اتفاق کی بات کہہ لیں کہ پرانے اور نئے پاکستان کی بنیاد اگست میں ہی رکھی گئی، آج موجودہ حکومت کو آئے تین سال ہوگئے لیکن افسوس کے ساتھ آج غریب آدمی کی قسمت نہیں بدل سکی۔ آج بھی کسی کو انصاف نہیں مل رہا، آج بھی کرپشن ختم نہیں ہوسکی، آج بھی تعلیمی نظام فرسودہ ہے، آج بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی بس نام کی ہے۔ آج بھی تمام محکموںکا حال مثالی نہیں ہے، آج بھی سیاستدان آپ میں گتھم گتھا ہیں، آج بھی اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک رکھا جا رہا ہے، عظیم رہنما قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے گیارہ اگست 1947 کو پاکستان کے شہریوں کو روشن مستقبل کی بشارت دی تھی۔

ابھی دو روز پہلے ہم نے بابائے قوم کے اسی فرمان کی یاد میں مذہبی اقلیتوں کا دن منایا ہے۔بابائے قوم لفظوں کے استعمال میں بہت محتاط تھے اور گیارہ اگست کی اس مختصر تقریر پر تو، ہیکٹر بولائتھو کی روایت کے مطابق، انھوں نے کئی گھنٹے محنت کی تھی۔ ان کی اس تقریر کا بنیادی پیغام شہریوں کی مساوات تھا۔ قائد اعظم کے جانشین کیسے گریز پا نکلے کہ جس تاریخ ساز تقریر میں یہ نوید دی گئی تھی کہ پاکستان میں ہندو اور مسلم اپنے مذہب پہ قائم رہتے ہوئے سیاسی اعتبار سے ایک جیسے حقوق، رتبے اور اختیار کے مالک ہوں گے، ہم نے اس تقریر کی یاد میں گیارہ اگست کو مذہبی اقلیتوں کا دن قرار دے ڈالا۔

میرے خیال میں پاکستان میں سب اپنا ذاتی مفاد دیکھتے ہیں، ہر محکمہ اپنے مفاد کو ترجیح دیتا ہے۔ پولیس اپنا مفاد دیکھتی ہے، بیوروکریسی اپنا مفاد دیکھتی ہے، کسی جگہ پر مفاد پرستی ہے تو کسی جگہ پر چوربازاری ہے ۔ ہمیں ان برائیوں سے نکلنے کے لیے اپنے آپ کو طاقت ور کرنا پڑے گا، ہر پاکستانی کو خود اُٹھنا پڑے گا،سب سے پہلے کرپشن کو ''ناں'' کہنا ہوگا۔

جب تک عوام اپنے حقوق کے لیے خود نہیں اُٹھ کھڑے ہوں گے، خود زیادتی کرنے والے کے راستے میں نہیں رکیں گے، زیادتی کا راستہ خود نہیں روکیں گے، ظلم کے آگے خود دیوار نہیں بنیں گے تو اُس وقت تک ہم اور ہماری اولاد یونہی تڑپتے رہیں گے۔معذرت کے ساتھ تقریباً تین چوتھائی صدی گزرنے کے بعد بھی ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جو یقینی طور پر تسلیم کرسکے کہ بحثیت قوم ہم آزاد ہیں، ہماری معاشی پالیسیاں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی بیساکھیوں پر کھڑی ہیں جب کہ یو ایس ایڈ اور یو این چارٹر کے سہارے ہمارا تعلیمی نظام ہمیں دن بدن لاعلمی اور جنون کی طرف دھکیل رہا ہے۔

چند سال قبل انڈونیشیا ، بنگلہ دیش اور ملائیشیا کے حالات بھی پاکستان سے مختلف نہیں تھے، وہاں کے عوام نے حکومت کے شانہ بشانہ محنت، لگن اور ایمانداری سے اپنی پراڈکٹ دنیا کے سامنے رکھیں، دنیا نے انھیں پسند کیا اور خریدنا شروع کردیا، آج یہ ممالک دنیا کے لیے ایک مارکیٹ کی حیثیت رکھتے ہیں، جب کہ میں نے پچھلے کالم میں بھی ذکر کیا تھا کہ چین بھی اب پاکستان کے چاول یا کپاس خریدنے سے گریزاں نظر آرہا ہے۔

پھر یہاں صنعتوں کا حال ِ زار کس سے پوشیدہ ہے؟ عوام کے حصے میں جو کچھ آیا وہ بے روزگاری، لوٹ مار، کرپشن اور دہشت گردی ہے۔ خیر ہمیں آزادی کا مقصد سمجھ آنادور کی بات ہمیں دو وقت کی روٹی کا محتاج بنا دیا گیا۔ قارئین! قدرت نے پاکستان کو معدنی دولت سے مالا مال کیا ہے۔جیولوجیکل سروے کے مطابق ہمارے ملک میں 6 لاکھ مربع کلومیٹر کے رقبے میں معدنی ذخائر موجود ہیں جن میں کوئلے، تانبے، سونے، قدرتی گیس، تیل، ماربل، قیمتی پتھر، گرنائیڈ، نمک اور چونے کے ذخائر قابل ذکر ہیں۔ بلوچستان کے علاقے ریکوڈیک میں دنیا کے پانچویں بڑے تانبے کے 22 ارب پاؤنڈ اور سونے کے 13 ملین اونس کے ذخائر پائے جاتے ہیں جن کی مجموعی مالیت 500 ارب ڈالر ہے۔ پاکستان ابھی بھی نہایت دانشمندانہ حکمت عملی سے اس پراجیکٹ کو پاکستان کے لیے پراُمید بنا سکتا ہے۔

پاکستان دنیا بھر میں کینو کی پیداوار میں پہلے، چنے کی پیداوار میں دوسرے، کپاس، چاول، کھجور اور خوبانی کی پیداوار میں چوتھا بڑا ملک ہے۔ مچھلی، دودھ اور گنے کی پیداوار میں پانچویں، گندم کی پیداوار میں چھٹے، خشک میوہ جات، پیاز اور آم کی پیداوار میں ساتویں، قیمتی پتھروں اور سنگ مرمر کی پیداوار میں آٹھویں، چینی اور حلال گوشت کی پیداوار میں نویں جب کہ سیمنٹ اور چاول کی پیداوار میں بارہویں نمبر پر ہے۔

اقوام متحدہ کی فوڈ اور ایگری کلچر آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ گھی پیدا کرنے والا ملک ہے جب کہ ملک میں دنیا کے سب سے بڑے نمک کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ پاکستان دنیا میں معدنی ذخائر رکھنے والا امیر ترین لیکن اسے استعمال کرنے میں غریب ترین ملک ہے۔ ملک میں دنیا کے کوئلے کے چوتھے بڑے جب کہ سونے (100ارب ڈالر) اور تانبے (27ارب ڈالر) کے پانچویں بڑے ذخائر موجود ہیں لیکن6دہائیاں گزرنے کے باوجود بدقسمتی سے ہم ان قدرتی نعمتوں کو زمین سے نکال کر فائدہ نہیں اٹھاسکے۔

لیکن ضرورت ہے تو صرف محنت لگن اور ایمانداری کی۔ لہٰذاہمیں سوچنا ہے تو صرف یہ کہ کیا ہم خود سے اس پاکستان کے لیے کچھ کر سکتے ہیں ؟ اس ملک کے بنانے کا بنیادی مقصد ہی یہ تھا کہ ہم ایک ایسی Nationکی تخلیق کریں جو اس دنیا میں اپنی ایک پہچان رکھتی ہے، جس کے لوگوں کا اپنا ایک وژن ہوتا ہے۔ کم از کم ہم آزادی کے مقصد کو جان کر ملک و ملت کے لیے بنائے گئے قوانین کو فالو کر سکتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس وقت صدق دل سے اس وطن کے لیے کچھ کریں جسے ہماری محنت، لگن اور ایمانداری کی اشد ضرورت ہے...!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں