ہمیں روشن پاکستان کی ذمے داری لینی ہے
کیا ہی اچھا ہو کہ ہم میں سے ہر ایک محرم کے پاک مہینے میں یومِ آزادی پر ہر غلط کام سے توبہ کرے۔
DHAKA:
مملکتِ خداداد پاکستان کا قیام ایک عظیم نعمت اور قدرت کا بیش بہا تحفہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ہم پاکستانیوں کے اوپر ایک بہت ہی بھاری ذمے داری بھی ہے۔
قیامِ پاکستان سے متعلق ڈاکو منٹس پر نگاہ دوڑائیں تو ایک بات میں تو کوئی شک و شبہ نہیں رہتا کہ کانگریسی قیادت نے آخری لمحوں تک سر توڑ کوشش کی کہ پاکستان نہ بنے۔ان کے خیال میں وہ اگر ایک دفعہ اس تحریک کو روکنے میں کامیاب ہو جاتے تو آزادی کے بعد اپنی اکثریت کے بل بوتے پر حکومت ہندو اکثریت کی ہی ہوتی۔کانگریسی مسلمانوں اور علمائے ہند کی اکثریت نے بھی قیامِ پاکستان کے عمل کو روکنے کی ہرممکن کوشش کی لیکن ایسا نہ ہوسکا۔
ہند کے مسلمان قائدِ اعظم محمد علی جناح کی زبان تک سے ناآشنا تھے ، اس کے باوجود وہ ان کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے میدانِ عمل میں نکل آئے۔کئی جلسوں میں ان پڑھ سامعین سے سوال کیا گیا کہ بتاؤ بابا کیا کہہ رہا ہے تو جواب ملا کہ ہمیں یہ تو نہیں معلوم کہ بابے نے کیا کہا ہے لیکن ہمیں پورا اعتماد ہے کہ یہ ہمارے بھلے کے لیے کام کر رہا ہے۔
23 مارچ 1940 کو لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں ہندوستان بھر سے مسلمان زعما کے وفود نے شرکت کی۔اجلاس کی صدارت مسلم لیگ کے صدر قائدِ اعظم محمد علی جناح نے کی۔اجلاس میں ایک قرارداد پیش کی گئی جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ منظوری کے بعد یہ قراردادِ لاہور کہلائی۔
اس میں ہندوستان کے مشرق اور شمال مغرب میں مسلمان اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک علیحدہ وطن کے قیام کا مطالبہ کیا گیا۔قرارداد کی منظوری کے ساتھ ہی پاکستان کے قیام کا مطالبہ جڑ پکڑ گیا اور ہر گھر سے بن کے رہے گا پاکستان کی صدا آنے لگی، اسی لیے قراردادِ لاہور بعد میں قراردادِ پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح اور مسلم لیگ کی قیادت کو ہندوستان میں ایک علیحدہ وطن کے مطالبے سے ہٹانے کے لیے کانگریسی قیادت نے جو جتن کیے ان کا ایک معمولی سا اندازہ مشہور مورخ جناب فاروق احمد ڈار کی کتاب Jinnah's'Pakistan.Formation and Challenges of a State.کے اقتباسات سے بخوبی لگایا جا سکتاہے۔لکھتے ہیں۔
جون1940میں قراردادِ لاہور کی منظوری کے فوراً بعد اس وقت آل انڈیا کانگریس کے صدر سبھاش چندر بھوش نے محمد علی جناح کو پیش کش کی کہ وہ آزاد متحدہ ہندوستان کے وزیرِاعظم بن جائیں۔کانگریس کی تمام قیادت جناح صاحب کو آزاد ہندوستان کا پہلا وزیرِ اعظم قبول کرنے کے لیے تیار تھی۔
بھوش نے جناح( قائداعظم) کے آگے صرف ایک شرط رکھی کہ وہ مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کے مطالبے سے دست بردار ہو جائیں۔سبھاش چندر بھوش کی اس پیش کش پر جب قائدِاعظم نے کان نہ دھرے تو چار مہینے بعد راج گوپال اچاریہ نے قائد اعظم سے ملاقات کر کے یہ پیش کش کی کہ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ نہ صرف ہندوستان کا پہلا وزیرِ اعظم نامزد کرے بلکہ ساتھ ہی یہ اختیار بھی دیتے ہیں کہ آل انڈیا مسلم لیگ وفاقی کابینہ بھی اپنی مرضی کی تشکیل دے۔
پاکستان بننے سے کچھ پہلے اپریل 1947میں مہاتما گاندھی خود میدان میں آ گئے۔ گاندھی نے قائدِ اعظم کو پیش کش کی کہ وہ اگر پاکستان بنانے سے دست بردار ہو جائیں تو آل انڈیا کانگریس انھیں انڈیا کا وزیرِ اعظم بھی بنانے کو تیار ہے،کابینہ کی تشکیل بھی قائد اپنی مرضی سے کر لیں اور اہم انتظامی عہدوں پر تعیناتیاں بھی خود کر لیں۔ فاروق عبداﷲ نے کئی بار ان پیش کشوں کی تصدیق کی۔قائدِ اعظم نے ان تمام پیش کشوں کو کوئی اہمیت نہ دی۔کہا جاتا ہے کہ محمد علی جناح سمجھتے تھے کہ ابھی ہندؤں کو پاکستان روکنا ہے۔
اس لیے غرض مند ہیں اور پیش کشیںکر رہے ہیں لیکن ایک دفعہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے تو بعد میں انڈین پارلیمنٹ میں اکثریت کی بنیاد پر قائدِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لا کر قائد کو بھی چلتا کریں گے اور انڈین آئین میں اپنی مرضی کی ترامیم کر لیں گے۔شاید قائد ان کی چال کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ 5اگست2019کو کشمیر کے حوالے سے مودی حکومت نے یہی کچھ کر کے دکھا دیا اور قائدِ اعظم کے نقطہ نظر کی تصدیق کی۔
قیامِ پاکستان کے فوراً بعد نوزائیدہ مملکت کو بے شمار چیلنجوں کا سامنا تھالیکن قائد کی موجودگی حوصلہ دلانے کے لیے کافی تھی۔قوم کو بھرپور اعتماد تھا کہ ہر چیلنج سے بخوبی نبٹا جا سکتا ہے۔لوگوں کا عزم و حوصلہ اور جذبہ دیدنی تھا۔نئے پرچم کے سائے میں پاکستان نے بہترین شروعات کی۔سردار عبدالرب نشتر پاکستان کے پہلے وزیرِ مواصلات ہونے کے ساتھ ساتھ مہاجرین کی آبادکاری کے بھی نگران وزیر تھے۔
بھارت سے ہجرت کر کے آنے والے لٹے پٹے افراد کی ایک لامتناعی قطار تھی ۔ان سب کی آبادکاری ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔سردار نشتر نے محسوس کیا کہ اُن کا متعلقہ دفتر سارے کام کو سرعت سے نبٹانے میں کامیاب نہیں ہو پارہا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر ان کے دفتر میں اسٹاف بڑھا دیا جائے تو کام کو تیزی سے نبٹایا جا سکتا ہے۔
یہ غالباً مارچ 1948 کے آخری دنوں کی بات ہے۔ سردار نشتر نے وزارتِ خزانہ کو فوری طور پر ایک کلرک کی اضافی آسامی دینے کے لیے لکھا جس پر سیکریٹری خزانہ نے لکھا کہ جاری سال کے بجٹ میں جو آسامیاں منظور کی گئی ہیں ان کے علاوہ کوئی آسامی نہیں دی جا سکتی۔سردار صاحب نے وزارتِ خزانہ سے منفی جواب ملنے کے بعد قائدِ اعظم کو مدد کے لیے لکھا۔قائد اعظم نے کہا کہ چونکہ سردار نشتر کے کردار کا وزیر اضافی آسامی کے لیے لکھ رہا ہے اس لیے مطالبے کے جائز ہونے میں تو کوئی شک و شبہ نہیں کیا جا سکتا۔البتہ قانونی طور پر سیکریٹری خزانہ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔
اس لیے قائدِ اعظم نے سردار نشتر کو تجویز دی کہ وہ کام کی نوعیت کے لحاظ سے ایک قابل ملازم متعلقہ دفتر میں رکھ لیں اور جب تک آسامی منظور نہیں ہو جاتی اس کی تنخواہ اپنی جیب سے ادا کریں۔ قائدِ اعظم نے کہا کہ وہ گورنر جنرل کی حیثیت سے اس ملازم کو سرکاری کام کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ قائد نے سیکریٹری خزانہ کو تجویز کیا کہ وہ اگلے بجٹ میںاضافی آسامی کی منظوری کو Consider کر لیں۔قائد نے حکم جاری کرنے کے بجائے آسامی کی منظوری کے لیے تجویز دی۔یہ گڈ گورننس کا بہترین نمونہ ہے۔فیروز خان نون اور ان کی بیگم صاحبہ کی انتھک کوششوں سے گوادر کا پاکستان میں شامل ہونا بھی ایک عظیم مثال ہے۔
ان مثالوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ کہ ہم نے ابتدا قانون کی حکمرانی،گُڈ گورننس اور ذمے داری کے شدید احساس کے ساتھ کی تھی۔1958تک پاکستان پر کوئی قرضہ نہیں تھا بلکہ پاکستان جرمنی جیسے ملک کو امداد دے رہا تھا۔1958میں ایوب خان نے مارشل لا لگا کر کانٹا بدل دیا۔پھر رہی سہی کسر جنرل یحییٰ خان نے نکال دی جس کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہو گیا اور پھر کبھی سنبھل نہ سکا۔ قانون کی حکمرانی اب ایک خواب بن گئی ہے۔وہ پاکستان جس کے لیے قائد نے اپنی بیماری کی پرواہ نہیں کی۔
وہ پاکستان جس کی بنیادوں میں لاکھوں شہیدوں کا لہو ہے،جس کے لیے ہماری ماؤں،بہنوں نے اپنی جانوں اور عصمتوں کی قربانی دی،جس کو پانے کے لیے کئی لاکھ لوگ بے گھر ہوئے اس پاکستان کے ساتھ ہم نے بہت برا سلوک کیا۔ہم نے اس نوزائیدہ ابھرتے ملک کو ایک پسماندہ اور مفلوک الحال ملک بنا دیا۔ہم ایک ایسی اندھیری سرنگ میں داخل ہو گئے ہیں جس کا کوئی روشن کنارہ نظر نہیں آ رہا البتہ ہماری نوجوان نسل بہت با ہمت اور سمجھدار ہے۔کیا ہی اچھا ہو کہ ہم میں سے ہر ایک محرم کے پاک مہینے میں یومِ آزادی پر ہر غلط کام سے توبہ کرے اور ایک روشن پاکستان کے لیے کمر بستہ ہو جائے۔