قائد کا پاکستان

عملیت پسند سیاستدان ہونے کی وجہ سے ‘قائد اعظم نے یہ حقیقت تسلیم کرتے ہوئے اپنے نظریات کو ان کے مطابق کیا۔

jamilmarghuz1@gmail.com

پاکستان کا نظام کیسے ہوگا ؟اس سوال پر بعض حلقے تنازعات پیدا کرتے ہیں' اس بارے میں قائد کے خیالات کا مطالعہ مناسب ہوگا۔

بانی پاکستان نے اپنی سیاسی زندگی میں بلاشبہ سیکڑوں تقاریر کی ہوں گی 'مگر جو شہرت ان کی 11اگست 1947کو پاکستان کی پہلی دستورساز اسمبلی کی افتتاحی اجلاس میں کی گئی تقریر کو ملی، وہ کسی اور تقریر کے حصے میں نہیں آئی۔بانی پاکستان کی اس تقریر کی اہمیت اس لیے بھی دو چند ہوگئی کہ کس طرح قائد کی تقریر کو سنسر کرنے اور اس کے بعض حصوں کو اشاعت سے رکوانے کی کوششیں شروع کی گئیں۔

ایک دوست نے بڑا اچھا تبصرہ کیا ہے کہ ''پاکستان میں ابتداء سے ہر شخص قانون کی نظر میں برابر ہے 'سنسرکے معاملے میں ایک عام صحافی اور قائد اعظم بھی برابر تھے''۔ اس تقریر میں قائد نے واضح طور پر سیکولر پاکستان کا اعلان کیا ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے بھی کہا تھا کہ '' عوام کا مستقبل ایک لبرل اور جمہوری پاکستان سے وابستہ ہے''ان دونوں تقاریر پر کچھ رجعت پسند حلقوں نے تنقید کی 'حالانکہ نواز شریف نے کوئی نئی بات نہیں کی بلکہ قائد اعظم کی بات کو دہرایاتھا ۔

قائد اعظم کی 11اگست 1947کی تقریر 'ہمیشہ سے دانشوروں اور دیگر افراد کے نزدیک متنازعہ رہی یا اس کے متعلق بعض طبقوں نے شکوک پیدا کرنے کی کو شش کی 'اس تقریر کے متعلق ایک مضمون نگار نے لکھا ہے کہ اس تقریر کو ''پاکستان کا میگنا کارٹا''کہنا چاہیے' کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس تقریر میں قائد اعظم نے پاکستان کی ریاست کے بنیادی خد و خال بیان کیے ہیں'جب کہ دیگر لوگوں کا کہنا ہے کہ اس تقریر میں صرف روایتی انداز میں ملک کے اتحاد کے خد وخال دیے گئے ہیں۔

قطع نظر اس کے 'کہ یہ با با ئے قوم 'کی پاکستان کے آئین ساز اسمبلی سے پہلا خطاب تھا 'جو نئے ملک کے لیے آ ئین بنانے والی تھی 'اس خطاب کے موقع و محل 'سے ہی اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے 'اس تقریر کی اہمیت کے پیش نظر 'پاکستان کے ہر شہری کو اس کا مطلب و مقصد جاننے کی ضرورت ہے۔

قائد اعظم کی 'پہلی سرکاری 'سوانح نگار 'ہیکٹر بولیتو (Hector Bolitho) 'کو قائد اعظم کے ہر قسم کے کاغذات تک رسائی حاصل تھی 'وہ لکھتے ہیں کہ '' قائد' گھنٹوں تک 'اپنی زندگی کی اہم ترین تقریر کی تیاری میں لگے رہے 'جو کاغذات ہمیں ملے ہیں وہ قائد اعظم کے نامکمل نوٹس تھے'جو انھوں نے کانٹ چھانٹ کے بعد میز پر چھوڑ دیے تھے۔


اس میز پر وہ گھنٹوں تک اپنی صدارتی تقریر کے مسودے پر کام کرتے رہے' وہ یہ اہم تقریر 11اگست 1947کو پاکستان کی قانون ساز اسمبلی سے کرنے والے تھے ' بہرحال جب انھوں نے خطاب کیا تو تقریر کے بجائے کچھ نوٹس ان کے پاس تھے 'انہو ں نے کہا کہ میں اس وقت ایک مکمل اور سوچی سمجھی تقریر نہیں کر سکتا'لیکن کچھ خاص نکات عرض کرتا ہوں'بہرحال اس تقریر کا وہ حصہ زیادہ متنازع ثابت ہوا جو مذہب اور ریاست کے بارے میں تھا'انھوں نے کہا کہ ۔

''میں اس پر زیادہ زور نہیں دے سکتا 'لیکن ہمیں ایک جذبے سے کام شروع کرنا چاہیے 'وقت کے ساتھ ساتھ 'اکثریتی اور اقلیتی گروہوں کے باہمی اندرونی اختلافات ہیں'یہ سب ختم ہو جائیں گے 'حقیقت میں اگر مجھ سے پوچھیں 'تو یہ اختلافات ہندوستان کی آزادی کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے رہے 'ان مسائل کے حل کے لیے ہمیں بہت پہلے آزاد ہونا چاہیے تھا 'کوئی بھی طاقت دوسرے قوم کو'اور خاص کر چالیس کروڑ افراد پر مشتمل قوم کو غلام نہیں رکھ سکتی 'کوئی طاقت بھی ہمیں فتح نہیں کرسکتی تھی۔

اگر یہ اختلافات اور جھگڑے ختم ہوجاتے تو کوئی بھی زیادہ عرصہ آپ کو غلام بناکر نہیں رکھ سکتا تھالیکن ان اختلافات کی وجہ سے ہمیں طویل عرصہ غلام رہنا پڑا 'اس لیے ہمیں اس سے سبق لینا چاہیے' آج آپ آزاد ہیں 'آپ اپنے مندروں کو جانے کے لیے آزاد ہیں'آپ اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں یا آپ اس ریاست پاکستان میں کسی بھی جگہ عبادت کے لیے جانے کے لیے آزاد ہیں'آپ کا تعلق کسی بھی مذہب نسل یا عقیدے سے ہو' اس کا ریاست کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے 'ہم اپنے معاملات ان دنوں سے شروع کریں گے جہاں کوئی تفریق نہ ہو'یہاں پر کسی برادری کے خلاف کوئی بھی امتیازی سلوک نہیں ہوگا'کسی بھی مذہب کے خلاف کوئی تفریق نہیں ہوگی 'ہم اس بنیادی اصول کے ساتھ زندگی شروع کر رہے ہیں کہ 'ہم تمام ایک ریاست کے مساوی شہری ہیں''۔

بہت سے لوگوں نے اس تقریر کو قائد اعظم کے خیالات میں تبدیلی کہا 'حکومت کے اندر لوگوں نے بھی اس تقریر کو جناح کے خیالات میں ڈرامائی تبدیلی سے تعبیر کیا اور اس حصے کو سنسر کرنے کے بارے میں سوچا۔ صحافی حامد جلال نے لکھا ہے کہ ''قائد اعظم کی یہ تقریر ' پاکستان کی تاریخ میں'پہلی تقریر تھی جو اسٹبلشمنٹ کی جانب سے پریس ایڈوائس کا نشانہ بنی ''حکومت کے بعض اہم ممبران نے کوشش کی کہ تقریر کے بعض سیکولر حصے پریس میں بلیک آؤٹ کیے جائیں'بعض لوگوں نے اس پر عمل بھی کیا 'ان لوگوں کی بدقسمتی سے یہ سازش' روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر 'محترم الطاف حسین کے علم میں آئی 'انھوں نے ان لوگوں کو دھمکی دی کہ وہ سیدھا قائد اعظم کے پاس جاکر شکایت کرے گا اگر پریس ایڈوائس واپس نہ لیا گیا 'الطاف حسین جیت گئے اور قائد کی تقریر اخبارات میں صحیح شایع ہوئی۔

قطع نظر اس بات کہ قائد کی تقریر کے سیکولر حصے کو سنسر کرنے میں کتنی سچائی ہے 'یہ ایک حقیقت ہے کہ بعض لوگ 'قائد کے لہجے میں اچانک تبدیلی سے خوش نہیں تھے ' پوری تحریک پاکستان میں قائد نے کبھی یہ نہیں کہا کہ پاکستان ایک مذہبی ریاست ہوگی یا اس ملک میں تھیوکریسی ہوگی۔اس تقریر میں جناح نے' بلاتخصیص 'نسل عقیدے کے تمام لوگوں کو' نئے پاکستانی ملت کا مساوی شہری قرار دیا ہے 'اس کا مطلب یہ تھا کہ'تحریک پاکستان کی جذباتی نعروں اور باتوں کو ختم کرکے 'حقائق پرمبنی نئی پالیسی دی گئی

جب 15اگست 1947کو پاکستان'کا قیام عمل میں آیا 'اس وقت 1941کی مردم شماری کے مطابق مغربی پاکستان میں 24.6فی صد اور مشرقی بنگال اور سلہٹ میں30.1فی صد آبادی غیر مسلموں پر مشتمل تھی 'آبادی کے تناسب کے 'اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے'پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے 'پاکستان کے جھنڈے کو پہلی دفعہ لہراتے ہوئے اسمبلی میں کہا کہ ''یہ جھنڈا 'کسی ایک پارٹی یا کسی ایک برادری کا نہیں ہے 'جیسا میں پاکستان کی ریاست کو دیکھ رہا ہوں' اس ریاست میں کسی ایک برادری کو'کوئی بھی خصوصی مراعات یا حقوق حاصل نہیں ہوں گے 'یہ ایک ایسی ریاست ہوگی جہاں پر ہر کسی کو برابر کے حقوق اور مواقع حاصل ہوں گے''۔

قیام پاکستان سے قبل مختلف رہنما اپنی اپنی نظریے کے مطابق 'پاکستان کا نظریہ پیش کرتے رہے' اسلامی شریعت سے لے کر ایک لبرل' جمہوری پاکستان کا نقشہ پیش کیا جا تا تھا 'قیام پاکستان کے بعد 'چونکہ قائد کو احساس تھا کہ حقائق الگ ہیں۔ ایک عملیت پسند سیاستدان ہونے کی وجہ سے 'قائد اعظم نے یہ حقیقت تسلیم کرتے ہوئے اپنے نظریات کو ان کے مطابق کیا لیکن 'پاکستان کی ایک اقلیت ان حقائق کو آج تک تسلیم نہیں کر رہی 'جلد یا بدیر ان کو بھی پاکستان کی ایک'قومی ' لبرل اور جمہوری ریاست کی حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا'آج کی دنیا میں مذہبی انتہا پسندی پر مبنی ریاست کے وجود کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔
Load Next Story