سندھ کے شہری عوام اورقومی دھارے کی سیاست
سیاسی دوری اور بد اعتمادی کی پہلی بنیاد غالباً جنرل ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے مابین ہونے والے انتخابات بنے۔
پاکستان دولخت ہوچکا تھا، ملک میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہو چکی تھی۔ سندھ کے شہری عوام کی رائے میں ذوالفقارعلی بھٹو نے بنگال میں آپریشن کی حمایت اور ڈھاکا میں بلائے گئے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کرکے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو آخری جواز فراہم کردیا تھا۔
سیاسی دوری اور بد اعتمادی کی پہلی بنیاد غالباً جنرل ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے مابین ہونے والے انتخابات بنے، جس میں بھٹو صاحب،جنرل ایوب خان کی انتخابی مہم چلا رہے تھے،جب کہ دوسری جانب شہری سندھ کے عوام انتخابات میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی بھرپور حمایت کر رہے تھے۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے اگرچہ جنرل ایوب خان سے اختلاف کرتے ہوئے مارشل لاء کی حکومت کو خیر باد کہہ کر اپنی نئی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھ دی تھی لیکن سندھ کے شہری علاقوں کے عوام کے دلوں سے وہ اب بھی دور تھے۔
شہری سندھ کے عوام اور وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو کے درمیان پہلے سے موجود دوریوں کو باہمی اعتماد کے ساتھ حل کرنے کے بجائے انھوں نے اپنی جماعت کے چند رہنماؤں کے مشورے سے سندھ اسمبلی سے لسانی بل منظور کروالیا۔ اس اقدام نے گویا ان دوریوں کو مزید گہرا کردیا۔
اگر دیہی سندھ کے احساس محرومی کو ختم کرنے کی یہ کوشش شہری سندھ کے عوام کو اعتماد میں لے کر کی جاتی تو وہ زیادہ کارگر ثابت ہوتی لیکن اس کے برعکس انھوں نے دیہی سندھ کی احساس محرومی کو ختم کرنے کے لیے سندھ میں دس برس کے لیے کوٹہ سسٹم نافذ کر دیا۔ جس کے تحت دیہی اور شہری سندھ کے لیے ملازمتوں، پروفیشنل کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ایک خاص تناسب کے ساتھ نشستیں مخصوص کردی گئیں۔
پیپلزپارٹی کے پہلے دور حکومت میں ملک کے بڑے صنعتی ادارے اور کارخانے بحق سرکار ضبط کر کے قومی تحویل میں لے لیے گئے۔ اس غیر یقینی حالات میں قومی سرمایہ دار نے بھی اپنے بچے کچے سرمائے کو ملک میں لگانا بند کر دیا لہذا ان وجوہات کا حتمی نتیجہ یہی نکلا کہ سکڑتا ہوا پرائیوٹ سیکٹر عوام کو ملازمت دینے کی سکت سے محروم ہو گیا۔
ایسے میں سرکاری ملازمتوں کا حصول ہی واحد ذریعہ تھا اور ہر فرد خواہ اس کی قابلیت کچھ بھی ہو وہ سرکاری ملازمت کا متمنی تھا جب کہ ریاست ہر فرد کو ملازمت فراہم کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتی تھی۔ ایسے میں کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقے کے عوام میں احساس محرومی زیادہ بڑھ گئی۔
حصول علم میں بڑھتی ہوئی دشواریوں اور ملازمتوں کے کم ہوتے ہوئے امکانات نے شہری سندھ کے مڈل کلاس،لوئر مڈل کلاس اور نوکری پیشہ لوگوں کو اس نئی صورت حال میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے نئی سیاسی حکمت عملی بنانے کی جانب راغب کیا تاکہ وہ اپنے اور اپنی نئی نسل کے مستقبل کو محفوظ بناسکیں۔
ان حالات میں قیام پاکستان کے موقع پر بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والوں کی اکثریت جو سندھ کے شہری علاقوں میں رہائش پذیر تھے ان کی نسل کے چند نوجوان طالب علموں نے مہاجر طلباء کے حقوق کے تحفظ کے عزم اور نعرے کے ساتھ شہری سندھ کے تعلیمی اداروں میں کام کا آغاز کیا۔ جن کی پزیرائی میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا گیا۔
قومی سیاست کی نبض پر ہاتھ رکھے ہوئے چند اہل علم شہری سندھ کے سیاسی مزاج اور پیدا ہونے والے سیاسی خلاء سے پوری طرح آگاہ تھے چنانچہ انھوں نے طالب علموں کے پلیٹ فارم سے شروع ہو نے والی ان سرگرمیوں کی فکری آبیاری کی اور محض چند برسوں میں مہاجر طلباء کے حقوق کے تحفظ کے لیے بنائی جانے والی تنظیم کو قومی سیاسی قالب میں ڈھال دیا گیا۔ شہری سندھ کے عوام کو ان سے بے پناہ امیدیں وابستہ ہوگئیں۔
اس طرح مڈل کلاس اس غلط فہمی کا شکار ہو گئے کہ اب ہماری جماعت ہر فورم پر ہمارے مفادات کا دفاع کرے گی اور اب بہت جلد سندھ سے کوٹہ سسٹم کا خاتمہ ہوجائے گا پھر ہمارے بچوں کا استحصال نہیں ہو سکے گا۔سندھ کے شہری علاقوں کے مہاجر جوق در جوق MQM میں شامل ہوتے چلے گئے جب کہ انھیں قومی دھارے سے الگ ہو کر لسانی سیاست کے مضمرات سے آگاہ کرنے والوں کو اپنی ہی کمیونٹی اور اپنے ہی شہر میں مشکوک نگاہوں سے دیکھا جانے لگا۔
ایسے میں 1987 کا وہ سال آگیا کہ جب سندھ بھر میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے اور سندھ کے دونوں بڑے شہروں کراچی اور حیدرآباد میں MQM اپنا مئیر منتخب کروانے میں کامیاب ہو گئی۔ ان انتخابی نتائج سے سندھ میں آباد مہاجروں کے اعتماد میں اضافہ ہوا۔اس کے بعد ملک بھر میں منعقد ہونے والے 1988 کے جنرل الیکشن میں MQM نے شہری سندھ میں واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور قومی سیاست میں اپنے وجود کو تسلیم کروا لیا بعد ازاں پاکستان پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت کا حصہ بن گئے۔
پھر کبھی حکومت تو کبھی اپوزیشن کا حصہ رہے اس عرصہ میں اپنے ووٹروں اور حامیوں کو یہی یقین دلاتے رہے کہ بہت جلد مہاجروں کے حقوق حاصل کر لیے جائیں گے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں مایوسی پیدا ہونا شروع ہو گئی۔ اب پارٹی کے اندر اور باہر سے جب کارکردگی پر سوالات شروع کیے گئے تو بزور طاقت ان کی آواز کو دبا دیا گیا۔ ریاست کے طاقتور طبقات کے ساتھ مل کر انتخابی سیاست پر اس طرح اپنا اثرورسوخ پیدا کرلیا۔
کراچی اور حیدرآباد شہر میں ڈکیتی، اغواء، قتل وغارت غرض یہ حالات شہری سندھ کا معمول بن گئے۔ ان حالات میں سب سے پہلے سرمایہ داروں نے اپنی حمایت واپس لی، اس کے بعد مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس اس جماعت سے مایوس ہو کر لاتعلق ہو گئے۔
اسی کی دہائی میں مہاجر حقوق کے نام پر بننے والی اب اس سیاسی جماعت کی کل حمایت لوئر کلاس کی آبادی اور پسماندہ بستیوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ سندھ کے شہری علاقوں کے عوام کے انقلاب کے سب خواب چکنا چور ہو چکے ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اب یہ پوری کمیونٹی بھی قومی سطح پر الزامات اور تنہائی کا شکار ہو کر ذہنی طور پر چکناچور ہوچکی ہے۔ اس مرحلے پر ملک کی قومی سیاسی جماعتوں کی ذمے داری ہے کہ وہ زخموں سے چور اس کمیونٹی کو گلے لگائیں، ان کے اعتماد کو بحال کر یں اور قومی دھارے کی سیاست میں ان کے بھی صحت مند کردار کا تعین کریں۔
سیاسی دوری اور بد اعتمادی کی پہلی بنیاد غالباً جنرل ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے مابین ہونے والے انتخابات بنے، جس میں بھٹو صاحب،جنرل ایوب خان کی انتخابی مہم چلا رہے تھے،جب کہ دوسری جانب شہری سندھ کے عوام انتخابات میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی بھرپور حمایت کر رہے تھے۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے اگرچہ جنرل ایوب خان سے اختلاف کرتے ہوئے مارشل لاء کی حکومت کو خیر باد کہہ کر اپنی نئی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھ دی تھی لیکن سندھ کے شہری علاقوں کے عوام کے دلوں سے وہ اب بھی دور تھے۔
شہری سندھ کے عوام اور وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو کے درمیان پہلے سے موجود دوریوں کو باہمی اعتماد کے ساتھ حل کرنے کے بجائے انھوں نے اپنی جماعت کے چند رہنماؤں کے مشورے سے سندھ اسمبلی سے لسانی بل منظور کروالیا۔ اس اقدام نے گویا ان دوریوں کو مزید گہرا کردیا۔
اگر دیہی سندھ کے احساس محرومی کو ختم کرنے کی یہ کوشش شہری سندھ کے عوام کو اعتماد میں لے کر کی جاتی تو وہ زیادہ کارگر ثابت ہوتی لیکن اس کے برعکس انھوں نے دیہی سندھ کی احساس محرومی کو ختم کرنے کے لیے سندھ میں دس برس کے لیے کوٹہ سسٹم نافذ کر دیا۔ جس کے تحت دیہی اور شہری سندھ کے لیے ملازمتوں، پروفیشنل کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ایک خاص تناسب کے ساتھ نشستیں مخصوص کردی گئیں۔
پیپلزپارٹی کے پہلے دور حکومت میں ملک کے بڑے صنعتی ادارے اور کارخانے بحق سرکار ضبط کر کے قومی تحویل میں لے لیے گئے۔ اس غیر یقینی حالات میں قومی سرمایہ دار نے بھی اپنے بچے کچے سرمائے کو ملک میں لگانا بند کر دیا لہذا ان وجوہات کا حتمی نتیجہ یہی نکلا کہ سکڑتا ہوا پرائیوٹ سیکٹر عوام کو ملازمت دینے کی سکت سے محروم ہو گیا۔
ایسے میں سرکاری ملازمتوں کا حصول ہی واحد ذریعہ تھا اور ہر فرد خواہ اس کی قابلیت کچھ بھی ہو وہ سرکاری ملازمت کا متمنی تھا جب کہ ریاست ہر فرد کو ملازمت فراہم کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتی تھی۔ ایسے میں کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقے کے عوام میں احساس محرومی زیادہ بڑھ گئی۔
حصول علم میں بڑھتی ہوئی دشواریوں اور ملازمتوں کے کم ہوتے ہوئے امکانات نے شہری سندھ کے مڈل کلاس،لوئر مڈل کلاس اور نوکری پیشہ لوگوں کو اس نئی صورت حال میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے نئی سیاسی حکمت عملی بنانے کی جانب راغب کیا تاکہ وہ اپنے اور اپنی نئی نسل کے مستقبل کو محفوظ بناسکیں۔
ان حالات میں قیام پاکستان کے موقع پر بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والوں کی اکثریت جو سندھ کے شہری علاقوں میں رہائش پذیر تھے ان کی نسل کے چند نوجوان طالب علموں نے مہاجر طلباء کے حقوق کے تحفظ کے عزم اور نعرے کے ساتھ شہری سندھ کے تعلیمی اداروں میں کام کا آغاز کیا۔ جن کی پزیرائی میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا گیا۔
قومی سیاست کی نبض پر ہاتھ رکھے ہوئے چند اہل علم شہری سندھ کے سیاسی مزاج اور پیدا ہونے والے سیاسی خلاء سے پوری طرح آگاہ تھے چنانچہ انھوں نے طالب علموں کے پلیٹ فارم سے شروع ہو نے والی ان سرگرمیوں کی فکری آبیاری کی اور محض چند برسوں میں مہاجر طلباء کے حقوق کے تحفظ کے لیے بنائی جانے والی تنظیم کو قومی سیاسی قالب میں ڈھال دیا گیا۔ شہری سندھ کے عوام کو ان سے بے پناہ امیدیں وابستہ ہوگئیں۔
اس طرح مڈل کلاس اس غلط فہمی کا شکار ہو گئے کہ اب ہماری جماعت ہر فورم پر ہمارے مفادات کا دفاع کرے گی اور اب بہت جلد سندھ سے کوٹہ سسٹم کا خاتمہ ہوجائے گا پھر ہمارے بچوں کا استحصال نہیں ہو سکے گا۔سندھ کے شہری علاقوں کے مہاجر جوق در جوق MQM میں شامل ہوتے چلے گئے جب کہ انھیں قومی دھارے سے الگ ہو کر لسانی سیاست کے مضمرات سے آگاہ کرنے والوں کو اپنی ہی کمیونٹی اور اپنے ہی شہر میں مشکوک نگاہوں سے دیکھا جانے لگا۔
ایسے میں 1987 کا وہ سال آگیا کہ جب سندھ بھر میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے اور سندھ کے دونوں بڑے شہروں کراچی اور حیدرآباد میں MQM اپنا مئیر منتخب کروانے میں کامیاب ہو گئی۔ ان انتخابی نتائج سے سندھ میں آباد مہاجروں کے اعتماد میں اضافہ ہوا۔اس کے بعد ملک بھر میں منعقد ہونے والے 1988 کے جنرل الیکشن میں MQM نے شہری سندھ میں واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور قومی سیاست میں اپنے وجود کو تسلیم کروا لیا بعد ازاں پاکستان پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت کا حصہ بن گئے۔
پھر کبھی حکومت تو کبھی اپوزیشن کا حصہ رہے اس عرصہ میں اپنے ووٹروں اور حامیوں کو یہی یقین دلاتے رہے کہ بہت جلد مہاجروں کے حقوق حاصل کر لیے جائیں گے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں مایوسی پیدا ہونا شروع ہو گئی۔ اب پارٹی کے اندر اور باہر سے جب کارکردگی پر سوالات شروع کیے گئے تو بزور طاقت ان کی آواز کو دبا دیا گیا۔ ریاست کے طاقتور طبقات کے ساتھ مل کر انتخابی سیاست پر اس طرح اپنا اثرورسوخ پیدا کرلیا۔
کراچی اور حیدرآباد شہر میں ڈکیتی، اغواء، قتل وغارت غرض یہ حالات شہری سندھ کا معمول بن گئے۔ ان حالات میں سب سے پہلے سرمایہ داروں نے اپنی حمایت واپس لی، اس کے بعد مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس اس جماعت سے مایوس ہو کر لاتعلق ہو گئے۔
اسی کی دہائی میں مہاجر حقوق کے نام پر بننے والی اب اس سیاسی جماعت کی کل حمایت لوئر کلاس کی آبادی اور پسماندہ بستیوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ سندھ کے شہری علاقوں کے عوام کے انقلاب کے سب خواب چکنا چور ہو چکے ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اب یہ پوری کمیونٹی بھی قومی سطح پر الزامات اور تنہائی کا شکار ہو کر ذہنی طور پر چکناچور ہوچکی ہے۔ اس مرحلے پر ملک کی قومی سیاسی جماعتوں کی ذمے داری ہے کہ وہ زخموں سے چور اس کمیونٹی کو گلے لگائیں، ان کے اعتماد کو بحال کر یں اور قومی دھارے کی سیاست میں ان کے بھی صحت مند کردار کا تعین کریں۔