سندھ میں تبدیلی کا خواب

وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وفاق کی طرف سے سندھ میں ایکشن پلان شروع کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔

m_saeedarain@hotmail.com

KABUL:
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ اب پی ٹی آئی سندھ کو پیپلز پارٹی کے مقابلے میں متبادل قیادت فراہم کرے گی۔ سندھ کے لیے وزیر اعظم کی صدارت میں حکمت عملی طے کرلی ہے جس پر جلد عمل شروع ہوگا اور جلد وزیر اعظم کے دورہ سندھ کے دوران متعدد اہم سیاسی شخصیات پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کریں گی۔

وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وفاق کی طرف سے سندھ میں ایکشن پلان شروع کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے اور وفاقی اداروں کے ذریعے سندھ میں اسمگلنگ، منشیات اور بدانتظامی کی روک تھام کے لیے کردار ادا کیا جائے گا۔ وفاقی حکومت تین سال کے بعد سندھ پیکیج کے منصوبوں پر بھی کام تیز کرائے گی۔

وزیر اعظم عمران خان نے پہلی بار سندھ کے لیے ارباب غلام رحیم کو اپنا معاون خصوصی مقرر کیا ہے جنھوں نے صوبے میں تبدیلی کے لیے سیاسی رابطے شروع کردیے ہیں اور قوم پرست رہنما جلال محمود شاہ سے مل کر رابطوں کا آغاز کیا ہے جو نامور سیاستدان مرحوم جی ایم سید کے پوتے ہیں۔

جی ایم سید کے بعد انھیں اپنا قائد ماننے والے قوم پرست رہنما خود تقسیم ہیں اور جئے سندھ تحریک مختلف گروپوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ سندھ کی ایک اور مشہور شخصیت رسول بخش پلیجو کے بعد ان کی عوامی تحریک چل تو رہی ہے مگر اس کے سربراہ ایاز لطیف پلیجو سمیت کوئی قوم پرست رہنما پیپلز پارٹی کے مقابلے میں کسی بھی الیکشن میں صوبائی نشست نہیں جیت سکا ہے صرف ایک بار برسوں پہلے جلال محمود رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔

جس ارباب غلام رحیم کو سندھ کے لیے معاون خصوصی بنایا گیا ہے وہ جی ڈی اے میں تھے جو وفاق میں حکومت کی حلیف ہے اور ارباب رحیم چند ماہ قبل اپنے علاقے سے ایک ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی کے امیدوار سے بری طرح ہار رہے تھے جس پر انھوں نے وزیر اعظم پر عدم تعاون اور جی ڈی اے کو نظرانداز کرنے کے الزامات لگائے تھے جس کے بعد وہ پی ٹی آئی میں شامل ہوئے اور بعد میں معاون خصوصی بنائے گئے۔

ارباب رحیم کو جنرل پرویز مشرف نے مرحوم پیر پگارا کی سفارش پر وزیر اعلیٰ سندھ بنایا تھا کیونکہ وہ پیپلز پارٹی کے اور پی پی ان کے سخت خلاف تھی اور پی پی کی حکومت میں ان پر ایک جیالے نے جوتا بھی مارا تھا اور وہ سندھ کے نامقبول وزیر اعلیٰ مگر جنرل پرویز مشرف کی گڈبک میں شامل تھے۔


ارباب غلام رحیم جی ڈی اے سے قبل مسلم لیگ (ن) میں رہے مگر اہمیت نہ ملنے پر انھوں نے اپنی مسلم لیگ بنائی جو ناکام رہی اور مختلف پارٹیاں بدلنے کے باوجود ان کی سندھ میں کوئی سیاسی اہمیت نہیں ہے۔ اندرون سندھ سے جیکب آباد سے اور بدین سے جو دو وفاقی وزیر احمد میاں سومرو اور فہمیدہ مرزا ہیں ان کی کامیابی کی وجہ سندھ میں پی ٹی آئی نہیں بلکہ دونوں کے خاندانی اور ذاتی اثر و رسوخ تھے۔

دونوں اپنے اضلاع کی سیاست تک محدود ہیں۔ پی ٹی آئی کے سندھ اسمبلی کے اندرون سندھ کے دو ممبران بھی وفاق سے اہمیت نہ ملنے پر اپنی سیاسی وفاداری تبدیل کرکے پیپلز پارٹی سے مل گئے تھے۔

جیکب آباد سے تعلق رکھنے والے ایم پی اے اسلم ابڑو نے وفاقی وزیر اسد عمر کے سامنے عمران خان کی شکایتیں بھی کی تھیں کہ وزیر اعظم نے 3 سالوں میں اندرون سندھ کے لیے کچھ نہیں کیا اور نہ چھوٹے اضلاع کے دورے کیے۔ اسد عمر کا اندرون سندھ سے کوئی تعلق نہیں مگر وہ پھر بھی اندرون سندھ کے دورے کرچکے ہیں۔ جیکب آباد اور بدین کے وفاقی وزرا نے اور کراچی سے تعلق رکھنے والے صدر مملکت اور وفاقی پی ٹی آئی وزیروں نے بھی کبھی اندرون سندھ کو اہمیت دی نہ وہ کبھی وہاں گئے ہیں۔

سندھ اسمبلی میں 99 نشستوں کی واضح اکثریت رکھنے والی سندھ کی پیپلز پارٹی کی حکومت نے کراچی و حیدرآباد کو نظرانداز کرکے اندرون سندھ کو اہمیت ہمیشہ دی جس کی وجہ سے انتخابات جیتنے والی تمام اہم سیاسی شخصیات پیپلز پارٹی میں مطمئن ہیں اور انھوں نے بھرپور مفادات سندھ حکومت سے حاصل کیے ہیں۔

سندھ میں دو وفاقی حکومتی حلیف ایم کیو ایم اور جی ڈی اے بھی وفاقی حکومت سے مطمئن نہیں جنھیں دو وفاقی وزارتوں پر گزارا کرنا پڑ رہا ہے جب کہ پنجاب میں (ق) لیگ کو دو وفاقی وزارتیں دی گئی ہیں۔ سندھ میں تبدیلی کا خواب دیکھنے والے وفاقی وزرا نے آتے ہی سندھ حکومت ختم کرنے کے دعوے کیے تھے مگر وہ سندھ سے پیپلز پارٹی کا کوئی ایک رکن اسمبلی نہ توڑ سکے اور پیپلز پارٹی نے ان کے دو ارکان اسمبلی توڑ رکھے ہیں جس کی ذمے دار وفاقی حکومت ہے۔

تین سال سندھ کو نظرانداز کرکے ارباب غلام رحیم کو سندھ میں عہدہ دے کر اب سندھ کو متبادل قیادت فراہم کرنے کی باتیں وفاقی وزرا کا خواب تو ہو سکتا ہے جو کبھی حقیقت نہیں بن سکتا۔ وفاق پہلے اپنے دو حلیفوں کو تو مطمئن کرے جو پی پی کی پالیسی بدلنے سے وفاق کا ساتھ چھوڑ سکتے ہیں۔
Load Next Story