کورونا کو سلام
پچھلے دنوں اپوزیشن کے ایک لیڈر فرما رہے تھے ’’ لوگو! گھبراؤ نہیں اور حکومت سے جان چھڑا لو‘‘۔
قارئین گرامی! کسی نے مرغے سے پوچھا ''لوگ تمہیں جینے کیوں نہیں دیتے؟'' مرغے نے معصومیت سے جواب دیا ''لوگوں کو جگانے والوں کا یہی حال ہوتا ہے'' ہمیشہ سنجیدہ کالم لکھنے کی کوشش کرتا ہوں آج قارئین طنز و مزاح سے بھری باتیں آپ سے کرلوں کہ قوم تو بے چاری تہی دامن ہے، ایسے موقع پر چہرے پر کچھ تو مسکراہٹ آئے۔
پچھلے دنوں اپوزیشن کے ایک لیڈر فرما رہے تھے '' لوگو! گھبراؤ نہیں اور حکومت سے جان چھڑا لو'' میرے محترم! آپ تو اب کہہ رہے ہیں قوم نے گھبرا کر یہ فیصلہ کیا اور آپ حضرات سے جان چھڑا لی۔ اب تو قوم کے پاس نہ جان ہے اور نہ جہان ہے۔
گزشتہ 30 سالوں سے تقریروں سے پیٹ بھرا جا رہا ہے مگر یہ عوام بہت ہی ناشکری ہے اس کا پیٹ کسی صورت نہیں بھرتا۔کسی زمانے میں تیر ہوا کرتا تھا مگر اتفاق دیکھیں کہ وہ مسائل کے نشانے پر نہیں بیٹھا ، اس کے بعد شیر آگیا ، قوم خوش ہوگئی کہ شیر تو جنگل کا بادشاہ ہوتا ہے، پھر اس شیر نے ہر ادارے کو زخمی کیا پھر آخر بڑھاپے میں چلا گیا۔
پچھلے دنوں ایک خبر کانوں میں رس گھولتی جسم کی رگوں تک میں پھیل گئی کہ اب صاحب حیثیت (پاکستان کے لیے لکھا ہے) لوگ پروٹوکول کم کریں، ماضی میں اس پروٹوکول کی وجہ سے ایک لاکھ کے رکشے کی حیثیت 20 کروڑ روپے سے زیادہ تھی، اچھے اسپتال ایسی ہی قیمت میں تیار ہو کر مکمل ہوتے ہیں کیونکہ خواتین نے پروٹوکول کی وجہ سے بچوں کو رکشاؤں میں جنم دیا۔
اب خواتین کہتی ہیں کہ ہم اسپتال میں بچے کو جنم نہیں دیں گے، جب رکشے میں یہ کام ہو سکتا ہے تو زبردستی کے آپریشن کے تحت ایک لاکھ روپے خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے اور مزے کی بات دیکھیں جو پروٹوکول کے تحت نکلتے ہیں یہاں وہ لندن کی سڑکوں پر مارے مارے پھرتے ہیں۔
سوشل میڈیا نے قوم کو جگا دیا ہے پچھلے دنوں ایک خبر اخبارات میں نظر سے گزری، کئی مرتبہ غور سے پڑھنے کی کوشش کی کیونکہ قریب کی نگاہ اس ٹوٹے پھوٹے حالات کی وجہ سے کم ہوگئی ہے۔ لکھا تھا کہ پنجاب میں گدھوں کی افزائش نسل پر توجہ دی جائے گی، سمجھ میں نہیں آیا کہ کن گدھوں کی بات کر رہے ہیں؟ بھلا بتائیے میرے پیارے ملک میں گدھوں کی کمی ہے جو گدھوں پر توجہ دی جا رہی ہے۔ چلیے یہ کوشش کرکے دیکھ لیں شاید کچھ اورگدھے پیدا ہو جائیں۔
سیاسی طور پر ہر شخص اپنی بانسری بجا رہا ہے، الزام تراشی تو اب فیشن بن گیا ہے، سیاسی طور پر ایک ناکام لیڈر فرما رہے تھے کہ ''کہنے والے کہتے ہیں کہ امریکا نے اڈے مانگے ہیں'' جناب! یہ جھوٹوں کی بریگیڈ گزشتہ 25 سال سے جمہوریت کے نام پر باجماعت پریڈ کر رہی ہے، کچھ لوگ پریڈ اس وقت چھوڑتے ہیں جب اقتدار کا پرچم ان کے ہاتھ میں آ جاتا ہے۔
ایک حاضر ڈیوٹی سیاسی شخصیت اخبارات میں بیان دیتے ہیں کہ وہ لوگ بچوں کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے جنھوں نے کبھی ایک کتاب نہیں پڑھی۔ ارے صاحب! جنھوں نے کتابیں پڑھ رکھی ہیں وہ اپنے کارناموں پر روشنی ضرور ڈالیں کچھ سیاسی بیانات کے زمرے میں زندہ ہیں، کیونکہ سیاست میں زندہ رہنا ضروری ہے ،کچھ نیب اور عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں، اور قوم پاکستان زندہ باد کے تحت زندہ ہے، اگست کا مہینہ ہے قوم کو 73 سالوں سے قومی ترانے کے پیچھے لگایا ہوا ہے اور خود قومی خزانے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔
ارے جناب! آپ بھوک سے دوسرے جہاں ہجرت کر جائیں، کتے کے کاٹنے سے چند دن کے بعد دنیا سے سامان اٹھا کر نکل جائیں، گندا پانی پی کر آپ حفظان صحت کے اصولوں پر قائم رہتے ہیں، بجلی کے کھمبوں سے آپ عید سے قبل گلے لگ کر کپکپاتے ہوئے لہراتے ہوئے گھر والوں کو چھوڑ کر چلے جائیں، ایک چھوٹے سے موبائل کی وجہ سے آپ ڈاکوؤں کے دامن میں اپنی جان کا نذرانہ دے دیں، مہنگائی کی وجہ سے آپ کی آنکھیں کسی پرانی شیروانی کے بٹنوں کی طرح نکل جائیں، سرکاری اسپتالوں میں غریبوں کے لیے دوائیوں کے اتنے انبار لگے ہوتے ہیں کہ بغلیں بجانے کو دل چاہتا ہے مگر کیا کریں حالات نے اتنا مردہ کردیا ہے کہ بغلیں بھی نہیں بجائی جاسکتیں۔
یاد رکھیں! قوم کوکورونا سے نہیں مرنے دیا جائے گا۔ ایک صاحب سے میں نے پوچھا ''آپ نے کورونا انجکشن لگوا لیا'' '''نہیں بھئی! کارڈ بنوا لیا ہے ''کیونکہ میڈیا میں خبریں اکثر پڑھتا ہوں کہ اس کے بعد دو سال میں سامان اٹھا کر چلتے پھرتے نظر آئیں، تو بھائی! کفن، میت گاڑی، میت کا کھانا، قبر کا معاوضہ، سوم کا کھانا، ڈیتھ سرٹیفکیٹ اس پر تو میاں 70,000 ہزار خرچ ہو جائیں گے، گھر والوں سے غم میں کوئی اسپتال پہنچ گیا تو 30,000 ہزار اس کے، اب یہ ہوگئے ایک لاکھ روپے، اب اگر کوئی پوچھے گا تو ویکسین کارڈ دکھا دیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے موقر اخبارات میں یہ خبر چھپی کہ ویکسین کارڈ بنانے کے لیے لوگوں نے خوب پیسے بٹورے مگر کیا کریں قارئین! ہم نے تو ویکسین لگوا لی ہے اب تو زندگی میرا رب ہی دے گا۔ دل سکون سے ہے کہ یہاں کورونا سے تو مرنے نہیں دیا جائے گا، ویسے بھی قارئین گرامی! ہم تو اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ یہاں رہنے کے لیے عام آدمی کے تین دوست لازمی ہونے چاہئیں تبھی زندگی سکون سے گزرے گی۔ ایک ڈاکٹر، ایک وکیل، ایک جاندار بدمعاش۔
قارئین گرامی! میری طرف سے ان حضرات کو یوم آزادی خصوصی طور پر منانے پر بہت بہت مبارک باد۔ پودے لگانے والوں کو مبارکباد اور پودے اور درخت کاٹنے والوں کو بھی۔ گائے بھینس کے دودھ کو ملا کر پانی کا دم دے کر مبارک باد۔ عوام سے ووٹ لے کر بعد میں ووٹ فروخت کرنے والوں کو مبارکباد۔ کمپیوٹر کا کورس کرکے ڈاکٹر سمجھنے اورکہلانے والوں کو مبارکباد۔ ترقیاتی کاموں میں صرف نالیاں بنانے والوں کو مبارک باد۔میرے کپڑے خراب ہیں، نماز نہ پڑھنے والوں کو مبارکباد۔ اور جناب میرے ان پوائنٹس کو لکھ کر سوشل میڈیا پر ڈالنے والوں کو بھی مبارک باد۔ قارئین! اگلے کالم تک کے لیے اجازت!
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں
شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں میری بات
پچھلے دنوں اپوزیشن کے ایک لیڈر فرما رہے تھے '' لوگو! گھبراؤ نہیں اور حکومت سے جان چھڑا لو'' میرے محترم! آپ تو اب کہہ رہے ہیں قوم نے گھبرا کر یہ فیصلہ کیا اور آپ حضرات سے جان چھڑا لی۔ اب تو قوم کے پاس نہ جان ہے اور نہ جہان ہے۔
گزشتہ 30 سالوں سے تقریروں سے پیٹ بھرا جا رہا ہے مگر یہ عوام بہت ہی ناشکری ہے اس کا پیٹ کسی صورت نہیں بھرتا۔کسی زمانے میں تیر ہوا کرتا تھا مگر اتفاق دیکھیں کہ وہ مسائل کے نشانے پر نہیں بیٹھا ، اس کے بعد شیر آگیا ، قوم خوش ہوگئی کہ شیر تو جنگل کا بادشاہ ہوتا ہے، پھر اس شیر نے ہر ادارے کو زخمی کیا پھر آخر بڑھاپے میں چلا گیا۔
پچھلے دنوں ایک خبر کانوں میں رس گھولتی جسم کی رگوں تک میں پھیل گئی کہ اب صاحب حیثیت (پاکستان کے لیے لکھا ہے) لوگ پروٹوکول کم کریں، ماضی میں اس پروٹوکول کی وجہ سے ایک لاکھ کے رکشے کی حیثیت 20 کروڑ روپے سے زیادہ تھی، اچھے اسپتال ایسی ہی قیمت میں تیار ہو کر مکمل ہوتے ہیں کیونکہ خواتین نے پروٹوکول کی وجہ سے بچوں کو رکشاؤں میں جنم دیا۔
اب خواتین کہتی ہیں کہ ہم اسپتال میں بچے کو جنم نہیں دیں گے، جب رکشے میں یہ کام ہو سکتا ہے تو زبردستی کے آپریشن کے تحت ایک لاکھ روپے خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے اور مزے کی بات دیکھیں جو پروٹوکول کے تحت نکلتے ہیں یہاں وہ لندن کی سڑکوں پر مارے مارے پھرتے ہیں۔
سوشل میڈیا نے قوم کو جگا دیا ہے پچھلے دنوں ایک خبر اخبارات میں نظر سے گزری، کئی مرتبہ غور سے پڑھنے کی کوشش کی کیونکہ قریب کی نگاہ اس ٹوٹے پھوٹے حالات کی وجہ سے کم ہوگئی ہے۔ لکھا تھا کہ پنجاب میں گدھوں کی افزائش نسل پر توجہ دی جائے گی، سمجھ میں نہیں آیا کہ کن گدھوں کی بات کر رہے ہیں؟ بھلا بتائیے میرے پیارے ملک میں گدھوں کی کمی ہے جو گدھوں پر توجہ دی جا رہی ہے۔ چلیے یہ کوشش کرکے دیکھ لیں شاید کچھ اورگدھے پیدا ہو جائیں۔
سیاسی طور پر ہر شخص اپنی بانسری بجا رہا ہے، الزام تراشی تو اب فیشن بن گیا ہے، سیاسی طور پر ایک ناکام لیڈر فرما رہے تھے کہ ''کہنے والے کہتے ہیں کہ امریکا نے اڈے مانگے ہیں'' جناب! یہ جھوٹوں کی بریگیڈ گزشتہ 25 سال سے جمہوریت کے نام پر باجماعت پریڈ کر رہی ہے، کچھ لوگ پریڈ اس وقت چھوڑتے ہیں جب اقتدار کا پرچم ان کے ہاتھ میں آ جاتا ہے۔
ایک حاضر ڈیوٹی سیاسی شخصیت اخبارات میں بیان دیتے ہیں کہ وہ لوگ بچوں کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے جنھوں نے کبھی ایک کتاب نہیں پڑھی۔ ارے صاحب! جنھوں نے کتابیں پڑھ رکھی ہیں وہ اپنے کارناموں پر روشنی ضرور ڈالیں کچھ سیاسی بیانات کے زمرے میں زندہ ہیں، کیونکہ سیاست میں زندہ رہنا ضروری ہے ،کچھ نیب اور عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں، اور قوم پاکستان زندہ باد کے تحت زندہ ہے، اگست کا مہینہ ہے قوم کو 73 سالوں سے قومی ترانے کے پیچھے لگایا ہوا ہے اور خود قومی خزانے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔
ارے جناب! آپ بھوک سے دوسرے جہاں ہجرت کر جائیں، کتے کے کاٹنے سے چند دن کے بعد دنیا سے سامان اٹھا کر نکل جائیں، گندا پانی پی کر آپ حفظان صحت کے اصولوں پر قائم رہتے ہیں، بجلی کے کھمبوں سے آپ عید سے قبل گلے لگ کر کپکپاتے ہوئے لہراتے ہوئے گھر والوں کو چھوڑ کر چلے جائیں، ایک چھوٹے سے موبائل کی وجہ سے آپ ڈاکوؤں کے دامن میں اپنی جان کا نذرانہ دے دیں، مہنگائی کی وجہ سے آپ کی آنکھیں کسی پرانی شیروانی کے بٹنوں کی طرح نکل جائیں، سرکاری اسپتالوں میں غریبوں کے لیے دوائیوں کے اتنے انبار لگے ہوتے ہیں کہ بغلیں بجانے کو دل چاہتا ہے مگر کیا کریں حالات نے اتنا مردہ کردیا ہے کہ بغلیں بھی نہیں بجائی جاسکتیں۔
یاد رکھیں! قوم کوکورونا سے نہیں مرنے دیا جائے گا۔ ایک صاحب سے میں نے پوچھا ''آپ نے کورونا انجکشن لگوا لیا'' '''نہیں بھئی! کارڈ بنوا لیا ہے ''کیونکہ میڈیا میں خبریں اکثر پڑھتا ہوں کہ اس کے بعد دو سال میں سامان اٹھا کر چلتے پھرتے نظر آئیں، تو بھائی! کفن، میت گاڑی، میت کا کھانا، قبر کا معاوضہ، سوم کا کھانا، ڈیتھ سرٹیفکیٹ اس پر تو میاں 70,000 ہزار خرچ ہو جائیں گے، گھر والوں سے غم میں کوئی اسپتال پہنچ گیا تو 30,000 ہزار اس کے، اب یہ ہوگئے ایک لاکھ روپے، اب اگر کوئی پوچھے گا تو ویکسین کارڈ دکھا دیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے موقر اخبارات میں یہ خبر چھپی کہ ویکسین کارڈ بنانے کے لیے لوگوں نے خوب پیسے بٹورے مگر کیا کریں قارئین! ہم نے تو ویکسین لگوا لی ہے اب تو زندگی میرا رب ہی دے گا۔ دل سکون سے ہے کہ یہاں کورونا سے تو مرنے نہیں دیا جائے گا، ویسے بھی قارئین گرامی! ہم تو اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ یہاں رہنے کے لیے عام آدمی کے تین دوست لازمی ہونے چاہئیں تبھی زندگی سکون سے گزرے گی۔ ایک ڈاکٹر، ایک وکیل، ایک جاندار بدمعاش۔
قارئین گرامی! میری طرف سے ان حضرات کو یوم آزادی خصوصی طور پر منانے پر بہت بہت مبارک باد۔ پودے لگانے والوں کو مبارکباد اور پودے اور درخت کاٹنے والوں کو بھی۔ گائے بھینس کے دودھ کو ملا کر پانی کا دم دے کر مبارک باد۔ عوام سے ووٹ لے کر بعد میں ووٹ فروخت کرنے والوں کو مبارکباد۔ کمپیوٹر کا کورس کرکے ڈاکٹر سمجھنے اورکہلانے والوں کو مبارکباد۔ ترقیاتی کاموں میں صرف نالیاں بنانے والوں کو مبارک باد۔میرے کپڑے خراب ہیں، نماز نہ پڑھنے والوں کو مبارکباد۔ اور جناب میرے ان پوائنٹس کو لکھ کر سوشل میڈیا پر ڈالنے والوں کو بھی مبارک باد۔ قارئین! اگلے کالم تک کے لیے اجازت!
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں
شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں میری بات