وطن کا عظیم سپوت
حیدر علی خان کے عہد کی بعض عظیم فتوحات ٹیپو سلطان کی عسکری استعداد کا نتیجہ تھیں۔
دیون ہلی کے مقام پر 20 نومبر 1750 میں حیدر علی خان کے ہاں ایک فرزند پیدا ہوا جس کا نام ارکاٹ کے مشہور بزرگ ٹیپو سلطان کے نام پر ٹیپو سلطان رکھا۔ حیدر علی خان جو علم کی نعمت سے محروم تھا ، لیکن اس نے بیٹے کی تعلیم پر خاص توجہ دی۔ پندرہ برس کی عمر میں اس کی زندگی میں ہی اس کی سپاہ آبائی کی زندگی کا آغاز ہوا اور جنگی مہمات میں باپ کا دست راز رہا۔
حیدر علی خان کے عہد کی بعض عظیم فتوحات ٹیپو سلطان کی عسکری استعداد کا نتیجہ تھیں۔ میسور کی دوسری جنگ کے دوران وہ پوناٹی کے محاصرے میں مصروف تھا کہ اسے نواب کی وفات کی خبر ملی۔ اس پر وہ تیزی سے سرنگا پٹم پہنچا اور 10 دسمبر 1782 میں تخت پر جلوہ افروز ہوا۔ حکومت سنبھالتے ہی ٹیپو سلطان نے دوبارہ میدان کار زار کی راہ لی اور میسور کی دوسری جنگ میں انگریز افواج کو بار بار شکست دی ، بالآخر انگریز نے صلح کی درخواست کی۔
ادھر سے فارغ ہو کر سلطان نے سلطنت کے اندرونی معمولات کی طرف توجہ دی اور گورگ کی بغاوت کو کچل دیا۔ ٹیپو سلطان کا اہم ترین مقصد حیات یہ تھا کہ وطن کو انگریزوں کے پنجہ غلامی سے نجات دلا دے۔ اس کے لیے اس نے ہندوستان کے تمام حکمرانوں بالخصوص نظام اور مرہٹوں کو ساتھ ملانے کی کوشش کی مگر یہ حکومتیں میسورکی ابھرتی ہوئی طاقت سے خائف تھیں اور اسے حسد کی نگاہ سے دیکھتی تھیں۔ انگریزوں نے ان کے حاسدانہ جذبات کو ہوا دی اور انھیں ٹیپو سلطان کے خلاف صف آرا رکھا۔
2فروری 1786 میں مرہٹوں اور نظام نے مل کر میسور پر حملہ کردیا ، اتحادی فوج آگے بڑھیں اور اسے فتح کرلیا پھر دھاردار کے علاقے میں پھیل گئیں۔ سلطان نے ایک ہی جنگی چال میں ان کے اوسان خطہ کردیے۔ اس نے اچانک ادھوتی پر حملہ کردیا یہ سن کر مرہٹے بھی اس طرف بڑھے مگر انھیں شکست ہوئی اور ادھوتی پر سلطان کا قبضہ ہوگیا۔ پھر اس دن دریائے سنگ بھردرکو عبور کیا اور پیش قدمی جاری رکھی۔ مرہٹے اس کے سامنے پسپا ہوئے بالآخر صلح کرلی۔ اس کی رو سے ٹیپو سلطان کو خود مختار حکمران تسلیم کرلیا اور میسور پر خراج اور چوتھ کے قدیم دھوے ترک کردیے۔
اب ٹیپو سلطان نے بادشاہ کا لقب اختیار کیا اور مغل بادشاہ کے نام کے بجائے اپنے نام کا خطبہ جاری کیا۔ ہند کے حکمرانوں سے قطعی مایوسی کے باوجود تحریک آزادی کے اس مجاہد نے ہمت نہ ہاری۔ اس نے قسطنطنیہ کے سلطان ترک اور پیرس لوئی شانزدہم کے پاس سفارشات روانہ کیں۔ انگریزوں کے خلاف ان سے امداد حاصل کرنے کی سعی کی، مگر فرانس اندرونی مشکلات میں گھرا ہوا تھا اور ترکی پر روسی حملے کا خطرہ تھا۔ اس لیے ترک حکومت انگریزوں سے بگاڑ نہیں چاہتی تھی اس لیے ٹیپو سلطان کو کامیابی نہ ہو سکی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا مگر ہمت نہ ہاری وہ ڈٹا رہا۔
میسور کی تیسری جنگ 6 اپریل 1790 کو شروع ہوئی منگور کے صلح نامہ کے بعد سے ہی انھوں نے ٹیپو سلطان کے خلاف سازشیں شروع کردیں۔ سلطان اور راجہ ٹرانکو کے باہمی تنازعہ کو بہانہ بنا کر انگریز فوجی جنرل میڈوز کے تحت میسور کے علاقے میں داخل ہوگئیں اور کومبو نور پر قابض ہوگئیں۔
اپنی حکمت عملی 4 جنوری 1797 سے سلطان نے کمال مستعدی اور لیاقت سے میسور پر تیسری جنگ کی تباہ کاریوں کی تلافی کی۔ پالی گاروں کو دبا کر ملک میں امن و امان قائم کیا زراعت کو ترقی دی اور مختلف اصلاحات سے ملک کو ایک بار پھر خوشحالی سے ہمکنارکردیا۔
2 مارچ 1799 میں جنرل ہارس کے زیرنگرانی انگریز افواج صدارت کی جانب سے اور جنرل اسٹاوریٹ کے بمبئی کی طرف سے میسور پر اچانک حملہ آور ہوئیں۔ 4 مارچ 1799 کو نظام کی بیس ہزار فوج گورنر مل کے بھائی کرنل ولزی کے تحت سخت گولہ باری شروع کی۔ اس شدید گولہ باری سے فصیل میں شگاف پڑ گیا۔
16 اپریل 1799 کو سلطان خود اس جگہ پہنچا مگر عین اس وقت دیواں پوریاں نے سلطانی سپاہ کو مزید محاصل کی وصولیابی کے لیے بلایا اور پھر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انگریزی فوج کو اشارہ کردیا۔ 26 اپریل کو قلعہ پر زور دار حملہ شروع کردیا۔ کئی روز مسلسل ٹیپو سلطان لڑتا رہا ہمت نہ ہاری۔ اس کو میدان جنگ چھوڑنے کو کہا لیکن اس نے میدان نہ چھوڑا بلکہ اس نے کہا میں جنگ لڑتے ہوئے شہید ہونا افضل سمجھتا ہوں۔4 مئی 1799 کو ٹیپو سلطان داد شجاعت دیتے ہوئے شہید ہوا اور سرنگاپٹم پر فرنگیوں کا قبضہ ہوگیا۔
ٹیپو سلطان کی شہادت سے سلطنت خداداد میسور کا خاتمہ ہو گیا۔ میسورکی اصل ریاست کا مختصر علاقہ قدیم ہندو خاندان کے حوالے کردیا گیا اور باقی علاقہ حملہ آوروں میں منقسم ہوگیا۔ اس بندربانٹ میں انگریزوں کو سب سے زیادہ حصہ ملا، تمام ساحلی علاقے اورکنارے پر ان کا قبضہ ہو گیا۔ اتحادیوں نے سرنگاپٹم کو جی بھر کر لوٹا۔
ٹیپو سلطان نے عسکری ذہانت اور منصوبہ بندی کا ایسا شاندار مظاہرہ کیا کہ اگر امرا غداری کر کے اسے تباہ نہ کرتے تو آج تاریخ مختلف ہوتی۔ یاس حرماں آخری لمحات بھی جب سلطان کو انگریزوں کی اطاعت گزاری کا مشورہ دیا تو اس نے وہ الفاظ کہے جو تا قیامت راہ حریت کے لیے مشعل راہ رہیں گے۔ ٹیپو سلطان مادر وطن کا عظیم سپوت اور ملت اسلامیہ کا نامور مجاہد تھا۔
اس کی تمام زندگی کا واحد نصب العین یہ تھا کہ سرزمین ہند کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کرایا جائے۔ اس نے تاعمر اس مقدس مقصد کے لیے مجاہدانہ جدوجہد جاری رکھی۔ ہندوستان کے حکمرانوں کے ضمیرکو بیدار کرنے کی کوشش کی۔
نظام کو اس مقصد کے لیے بڑے پردرد خطوط لکھے مگر ملکی حکمرانوں کی کوتاہ بینی اور برطانوی سیاست کی عیاری و مکاری چالبازی نے اسے ناکام بنا دیا۔ اس امر کی تاریخ گواہ ہے۔ کال نوانس اور رولزلی کی ساری سیاست اس امر پر مرکوز رہی کہ ٹیپو سلطان کو تمام ملکی و غیر ملکی حکومتوں سے الگ تھلگ رکھا جائے۔ وہ نہایت طاقت ور اتحادیوں کے مقابلے تن و تنہا رہا۔ تاہم مخالفت کی مہیب آندھیوں کے مقابلے میں بھی اس نے اس شمع آرزو کو روشن رکھا۔ اس نے کیا خوب کہا ''شیرکی ایک دن کی زندگی گیدڑکی صد سالہ زندگی سے بہتر ہے۔''
حیدر علی خان کے عہد کی بعض عظیم فتوحات ٹیپو سلطان کی عسکری استعداد کا نتیجہ تھیں۔ میسور کی دوسری جنگ کے دوران وہ پوناٹی کے محاصرے میں مصروف تھا کہ اسے نواب کی وفات کی خبر ملی۔ اس پر وہ تیزی سے سرنگا پٹم پہنچا اور 10 دسمبر 1782 میں تخت پر جلوہ افروز ہوا۔ حکومت سنبھالتے ہی ٹیپو سلطان نے دوبارہ میدان کار زار کی راہ لی اور میسور کی دوسری جنگ میں انگریز افواج کو بار بار شکست دی ، بالآخر انگریز نے صلح کی درخواست کی۔
ادھر سے فارغ ہو کر سلطان نے سلطنت کے اندرونی معمولات کی طرف توجہ دی اور گورگ کی بغاوت کو کچل دیا۔ ٹیپو سلطان کا اہم ترین مقصد حیات یہ تھا کہ وطن کو انگریزوں کے پنجہ غلامی سے نجات دلا دے۔ اس کے لیے اس نے ہندوستان کے تمام حکمرانوں بالخصوص نظام اور مرہٹوں کو ساتھ ملانے کی کوشش کی مگر یہ حکومتیں میسورکی ابھرتی ہوئی طاقت سے خائف تھیں اور اسے حسد کی نگاہ سے دیکھتی تھیں۔ انگریزوں نے ان کے حاسدانہ جذبات کو ہوا دی اور انھیں ٹیپو سلطان کے خلاف صف آرا رکھا۔
2فروری 1786 میں مرہٹوں اور نظام نے مل کر میسور پر حملہ کردیا ، اتحادی فوج آگے بڑھیں اور اسے فتح کرلیا پھر دھاردار کے علاقے میں پھیل گئیں۔ سلطان نے ایک ہی جنگی چال میں ان کے اوسان خطہ کردیے۔ اس نے اچانک ادھوتی پر حملہ کردیا یہ سن کر مرہٹے بھی اس طرف بڑھے مگر انھیں شکست ہوئی اور ادھوتی پر سلطان کا قبضہ ہوگیا۔ پھر اس دن دریائے سنگ بھردرکو عبور کیا اور پیش قدمی جاری رکھی۔ مرہٹے اس کے سامنے پسپا ہوئے بالآخر صلح کرلی۔ اس کی رو سے ٹیپو سلطان کو خود مختار حکمران تسلیم کرلیا اور میسور پر خراج اور چوتھ کے قدیم دھوے ترک کردیے۔
اب ٹیپو سلطان نے بادشاہ کا لقب اختیار کیا اور مغل بادشاہ کے نام کے بجائے اپنے نام کا خطبہ جاری کیا۔ ہند کے حکمرانوں سے قطعی مایوسی کے باوجود تحریک آزادی کے اس مجاہد نے ہمت نہ ہاری۔ اس نے قسطنطنیہ کے سلطان ترک اور پیرس لوئی شانزدہم کے پاس سفارشات روانہ کیں۔ انگریزوں کے خلاف ان سے امداد حاصل کرنے کی سعی کی، مگر فرانس اندرونی مشکلات میں گھرا ہوا تھا اور ترکی پر روسی حملے کا خطرہ تھا۔ اس لیے ترک حکومت انگریزوں سے بگاڑ نہیں چاہتی تھی اس لیے ٹیپو سلطان کو کامیابی نہ ہو سکی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا مگر ہمت نہ ہاری وہ ڈٹا رہا۔
میسور کی تیسری جنگ 6 اپریل 1790 کو شروع ہوئی منگور کے صلح نامہ کے بعد سے ہی انھوں نے ٹیپو سلطان کے خلاف سازشیں شروع کردیں۔ سلطان اور راجہ ٹرانکو کے باہمی تنازعہ کو بہانہ بنا کر انگریز فوجی جنرل میڈوز کے تحت میسور کے علاقے میں داخل ہوگئیں اور کومبو نور پر قابض ہوگئیں۔
اپنی حکمت عملی 4 جنوری 1797 سے سلطان نے کمال مستعدی اور لیاقت سے میسور پر تیسری جنگ کی تباہ کاریوں کی تلافی کی۔ پالی گاروں کو دبا کر ملک میں امن و امان قائم کیا زراعت کو ترقی دی اور مختلف اصلاحات سے ملک کو ایک بار پھر خوشحالی سے ہمکنارکردیا۔
2 مارچ 1799 میں جنرل ہارس کے زیرنگرانی انگریز افواج صدارت کی جانب سے اور جنرل اسٹاوریٹ کے بمبئی کی طرف سے میسور پر اچانک حملہ آور ہوئیں۔ 4 مارچ 1799 کو نظام کی بیس ہزار فوج گورنر مل کے بھائی کرنل ولزی کے تحت سخت گولہ باری شروع کی۔ اس شدید گولہ باری سے فصیل میں شگاف پڑ گیا۔
16 اپریل 1799 کو سلطان خود اس جگہ پہنچا مگر عین اس وقت دیواں پوریاں نے سلطانی سپاہ کو مزید محاصل کی وصولیابی کے لیے بلایا اور پھر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انگریزی فوج کو اشارہ کردیا۔ 26 اپریل کو قلعہ پر زور دار حملہ شروع کردیا۔ کئی روز مسلسل ٹیپو سلطان لڑتا رہا ہمت نہ ہاری۔ اس کو میدان جنگ چھوڑنے کو کہا لیکن اس نے میدان نہ چھوڑا بلکہ اس نے کہا میں جنگ لڑتے ہوئے شہید ہونا افضل سمجھتا ہوں۔4 مئی 1799 کو ٹیپو سلطان داد شجاعت دیتے ہوئے شہید ہوا اور سرنگاپٹم پر فرنگیوں کا قبضہ ہوگیا۔
ٹیپو سلطان کی شہادت سے سلطنت خداداد میسور کا خاتمہ ہو گیا۔ میسورکی اصل ریاست کا مختصر علاقہ قدیم ہندو خاندان کے حوالے کردیا گیا اور باقی علاقہ حملہ آوروں میں منقسم ہوگیا۔ اس بندربانٹ میں انگریزوں کو سب سے زیادہ حصہ ملا، تمام ساحلی علاقے اورکنارے پر ان کا قبضہ ہو گیا۔ اتحادیوں نے سرنگاپٹم کو جی بھر کر لوٹا۔
ٹیپو سلطان نے عسکری ذہانت اور منصوبہ بندی کا ایسا شاندار مظاہرہ کیا کہ اگر امرا غداری کر کے اسے تباہ نہ کرتے تو آج تاریخ مختلف ہوتی۔ یاس حرماں آخری لمحات بھی جب سلطان کو انگریزوں کی اطاعت گزاری کا مشورہ دیا تو اس نے وہ الفاظ کہے جو تا قیامت راہ حریت کے لیے مشعل راہ رہیں گے۔ ٹیپو سلطان مادر وطن کا عظیم سپوت اور ملت اسلامیہ کا نامور مجاہد تھا۔
اس کی تمام زندگی کا واحد نصب العین یہ تھا کہ سرزمین ہند کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کرایا جائے۔ اس نے تاعمر اس مقدس مقصد کے لیے مجاہدانہ جدوجہد جاری رکھی۔ ہندوستان کے حکمرانوں کے ضمیرکو بیدار کرنے کی کوشش کی۔
نظام کو اس مقصد کے لیے بڑے پردرد خطوط لکھے مگر ملکی حکمرانوں کی کوتاہ بینی اور برطانوی سیاست کی عیاری و مکاری چالبازی نے اسے ناکام بنا دیا۔ اس امر کی تاریخ گواہ ہے۔ کال نوانس اور رولزلی کی ساری سیاست اس امر پر مرکوز رہی کہ ٹیپو سلطان کو تمام ملکی و غیر ملکی حکومتوں سے الگ تھلگ رکھا جائے۔ وہ نہایت طاقت ور اتحادیوں کے مقابلے تن و تنہا رہا۔ تاہم مخالفت کی مہیب آندھیوں کے مقابلے میں بھی اس نے اس شمع آرزو کو روشن رکھا۔ اس نے کیا خوب کہا ''شیرکی ایک دن کی زندگی گیدڑکی صد سالہ زندگی سے بہتر ہے۔''