نجکاری کا حکومتی ایجنڈا سامنے آگیا 4 بینک او جی ڈی سی غیر ملکی سرمایہ کاروں کو دینے کی تیاریاں

اسٹاک ایکسچینج سے فروخت نہیں ہورہی، غیرملکی ادارے اسٹرٹیجک اثاثوں میں حصے دار بن جائینگے


Arif Rana January 27, 2014
اسٹاک ایکسچینج سے فروخت نہیں ہورہی، غیرملکی ادارے اسٹرٹیجک اثاثوں میں حصے دار بن جائینگے.

انتہائی قیمتی اثاثے ایچ بی ایل، اے بی ایل، یو بی ایل اور او جی ڈی سی کے بیشتر حصص انٹرنیشنل فنانشل کارپوریشن اور دیگر سرمایہ کاروں کو فروخت کرنیکی تیاریوں سے حکومت کا نجکاری کا حقیقی ایجنڈا سامنے آ گیا ہے۔

ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل کے مطابق پس پردہ انٹرویو میں نجکاری کمیشن کے ایک عہدیدار نے بتایا ہے کہ نجکاری آرڈیننس 2000 میں پبلک سیکٹر اداروں کے حصص کی صرف ایک ادارے کو فروخت (sole offering) کی شرط موجود ہے مگر گزشتہ 2 دہائیوں میں کسی بھی حکومت کے نجکاری پروگرام میں (sole offering) ترجیح نہیں رہا۔ حکام کے مطابق بینکوں و دیگر سرکاری اداروں کے حصص اسٹاک ایکسچینج کے ذریعے بیچنا پہلی ترجیح ہوتا ہے کیونکہ اس سے نجکاری کا پاکستان کے شہریوں اور چھوٹے سرمایہ کاروں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے گزشتہ دور حکومت میں نجکاری کمیشن نے اسٹاک ایکسچینج کے ذریعے ہی حصص بیچنے کی تجویز دی تھی مگر اس بار ایسا نہیں ہوا۔ نجکاری کمیشن کے ایک اور عہدیدار نے بتایا کہ وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے 22 جنوری کو ایک اجلاس میں نجکاری پروگرام پر حکومتی ترجیحات واضح کی تھیں۔

اس اجلاس میں اسحٰق ڈار نے کہا تھا کہ کمرشل بینکوں اور او جی ڈی سی کے حصص کی آئی ایف سی اور دیگر سرمایہ کاروں کو (sole offering) 30 جون سے قبل کردی جائیگی اور اس کا مقصد بڑھتے مالیاتی خسارے کیلیے ڈھائی ارب ڈالر اکٹھے کرنا ہے۔ نجکاری کمیشن کے حکام کا خیال ہے کہ بڑے کمرشل بینکوں اور تیل و گیس کے شعبے کے حصص کو (sole offering) کے ذریعے دینا ملک کیلیے نقصان دہ ہوگا، اس طرح کی نجکاری سے آئی ایف سی و دیگر غیرملکی اداروں کا پاکستان کے اسٹرٹیجک اثاثوں میں بلا واسطہ کردار ہوگا۔ وزیر خزانہ نے یہ بھی واضح کیا کہ نجکاری کے پہلے مرحلے میں مالی مشیر کا تقرر بھی نہیں کیا جائیگا اور اگر ایسا کیا گیا تو یہ صرف وقت کا ضیاع ہوگا۔ اجلاس کے شرکا کے خیال میں وزیر خزانہ کا واحد مقصد رواں مالی سال میں حکومتی اخراجات کیلیے ڈھائی ارب ڈالر اکٹھے کرنا ہے۔

 photo 4_zps640c4a4c.jpg

ایسی صورتحال میں جب متعلقہ حکام ہی نجکاری کے طریقہ کار سے مطمئن نہیں تو نقادوں کا موقف مزید مضبوط ہوگا۔ تحریک انصاف، پیپلزپارٹی اور کچھ دیگر جماعتیں پہلے ہی 31 اداروں کی نجکاری پر اعتراض کرچکی ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک کے قائد مولانا طاہرالقادری بھی لاہور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران نجکاری کے حوالے سے ن لیگی حکومت پر خوب برسے تھے اور نجکاری کی صورت میں مزاحمت کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ایچ بی ایل، اے بی ایل، یو بی ایل اور او جی ڈی سی کے 20 فیصد حصص کی فروخت سے حکومت کو کم از کم رواں مالی سال کا خسارہ کم کرنے کیلیے ڈھائی ارب ڈالر تو مل جائیں گے مگر پاکستان 200 سے 250 ارب روپے کی سالانہ آمدنی سے محروم ہوجائیگا۔

نجکاری کمیشن کے عہدیداروں نے تصدیق کی ہے کہ مختلف پبلک سیکٹر اداروں کی (sole offering) کیلیے وزیر خزانہ اسحق ڈار شدید دبائو ڈال رہے ہیں مگر نجکاری کمیشن کے چیئرمین محمد زبیر نے کہا ہے کہ حکومت 30 جون سے قبل بینکوں اور تیل و گیس کے شعبے کی نجکاری سے وسائل پیدا کرنا چاہتی ہے مگر اسحق ڈار کی طرف سے دبائو ڈالنے کے حوالے سے خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔ چیئرمین نجکاری کمیشن کے پاس یہ کہنے کے علاوہ کوئی جواب نہیں تھا کہ بینکوں سمیت منافع بخش اداروں کے حصص کی فروخت شفاف طریقے سے کی جائیگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |