ترقیاتی اخراجات اور فلاحی ریاست
پاکستان کا شہر کراچی جو اس وقت مسائلستان بنا ہوا ہے اس شہر کو معاشی طور پر جتنا زیادہ فعال کیا جائے گا۔
1930 کی عالمی کساد بازاری نے دنیا کے بہت سے ملکوں میں یہ احساس پیدا کیا کہ عوام پر کیے جانے والے اخراجات میں اضافہ کیا جائے۔
سرکاری اخراجات کی دو اہم مدیں ہوتی ہیں ایک غیر ترقیاتی اخراجات دوسرے ترقیاتی اخراجات اور اسی ترقیاتی اخراجات نے فلاحی ریاست کا تصور دیا۔ حالانکہ اسلام نے یہ تصور آج سے 14 سو برس قبل ہی متعارف کرادیا تھا۔
فلاحی ریاست کے تصور کو مد نظر رکھتے ہوئے اسکینڈے نیوین ممالک میں ریاست کا مقصد اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود میں اضافہ کرنا تھا جس کی خاطر انھوں نے بے شمار مدوں پر اخراجات کرنا شروع کردیے۔ جس کے باعث یہ ممالک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوگئے۔
ان کی دیکھا دیکھی دیگر ملکوں کی حکومتوں میں بھی یہ احساس پیدا ہوا کہ اپنے شہریوں کو زیادہ سے زیادہ سہولت دینے کی خاطر اخراجات میں اضافہ کریں، لیکن ترقی پذیر ملکوں کے ساتھ یہ مسائل موجود ہیں کہ ان کے غیر ترقیاتی اخراجات ہی اتنے زیادہ ہیں کہ وہ بمشکل ہی ترقی کے اخراجات کے لیے رقوم مختص کرتے اور کئی ممالک کا المیہ یہ رہا ہے کہ ترقیاتی اخراجات کے ساتھ ہی کرپشن اور دیگر رکاوٹیں اور مسائل بھی جنم لینا شروع کردیے ہیں۔
ان میں پاکستان بھی شامل ہے جہاں بدقسمتی سے بعض ترقیاتی اخراجات کی اتنی مدیں یا پھر ان اخراجات کی تقسیم اتنی طویل نہیں ہوتی جتنا کہ پروگرام شروع کرنے یا کسی بھی ترقیاتی پراجیکٹ کی شروعات سے لے کر اختتام تک کرپشن یا حصے بخرے کے نام پر فلاں کا حصہ فلاں کا حصہ اور حصہ بقدر جثہ ہونے کے باعث فہرست طویل ہو جاتی ہے۔
اس طرح کوئی پراجیکٹ وقت پر مکمل نہیں ہو پاتا، درمیان میں رک جانے کے باعث اب اس پر مزید لاگت کا اندازہ پیش کردیا جاتا ہے۔ اب اسے کس زمرے میں لیں گے کہ گاؤں، دیہات میں پرائمری اسکول تو موجود ہے لیکن کہیں اصطبل کے طور ،کہیں جانور باندھنے کے طور پر استعمال ہو رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔
پاکستان میں ترقیاتی اخراجات کے نام پر جو خرچ کیا جاتا ہے اس کا جائزہ ہم پروفیسر نکلسن نے سرکاری اخراجات کو جن ہیڈز میں تقسیم کیا ہے اس کے مطابق وہ اخراجات جن سے زیادہ ریٹرن یا ریونیو حاصل ہو سکتا ہے اس کو مدنظر رکھیں تو پاکستان کے مختلف ایسے علاقے یا شہر جوکہ صنعتی لحاظ سے اہمیت کے حامل ہیں وہاں کیے جانے والے ترقیاتی اخراجات سے وہاں کے شہریوں کے ساتھ صنعتوں، کارخانوں، ملوں کو بھی فوائد حاصل ہوتے ہیں اور نتیجے کے طور پر حکومتی ریونیو میں اضافہ ہوتا ہے، کیونکہ ان صنعتوں کے لیے ان کی سہولیات کی فراہمی کے لیے اخراجات سے صنعتوں کی کارکردگی بڑھتی ہے۔ بجلی، گیس، پانی، سڑکیں، امن و امان، تحفظ اور بہت سی مدیں ایسی ہیں جن پر اخراجات کی زیادہ اور فوری اور ترجیحی ضرورت ہوتی ہے ان میں کراچی شہر اولین حیثیت رکھتا ہے۔
پاکستان میں عموماً ہر سال بجٹ کے موقع پر ترقیاتی اخراجات کے نام پر بہت سے علاقوں اور سیکڑوں پراجیکٹ کے لیے رقوم مختص کرنے کے علاوہ سربراہ حکومت کسی شہر یا علاقے کے لیے خصوصی پیکیج بھی فراہم کرتے ہیں۔
آج کی نشست میں خاص طور پر کراچی پیکیج کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ تو یہ ستمبر 2020 کی بات ہے جب کراچی شہر بارشوں کے باعث تباہی سے دوچار تھا۔ وزیر اعظم نے اپنے دورہ کراچی میں 11 سو ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا۔ سیلاب کی تباہی کو مدنظر رکھتے ہوئے کئی منصوبوں کے لیے رقوم فراہم کرنے کی بات کی گئی اور اس سلسلے میں بڑے نالوں کی صفائی کا کام شروع ہو گیا۔ اس کے علاوہ پانی کا دیرینہ مسئلہ حل کرنے کی بات کی گئی اور کئی منصوبے جوکہ التوا کا شکار تھے، ان کے لیے رقوم مختص کی گئیں۔
کراچی میں ترقیاتی اخراجات کا مطلب ہوتا ہے کہ یہ شہر جوکہ معاشی حب ہے یہاں کی انڈسٹری، صنعتی علاقوں کو جب سہولیات ملتی ہیں اس طرح ان کے لیے کارخانے، ملیں چلانے میں سہولیات کے ملنے کا مطلب ان کی کارکردگی میں بہتری کا آنا اور اس کا مطلب ہے کہ مزید ریونیو کے حصول کا ذریعہ بن جانا لیکن اس کے برعکس گزشتہ کئی عشروں سے جس طرح کراچی کو تباہ حال کردیا گیا اس کے متعلق پاکستان کا ہر شہری روشنیوں کے اس شہر کی گمشدہ عظمت پر بات کرتا ہے۔ کراچی جسے دو بندرگاہیں حاصل ہیں اور دنیا کے انتہائی مصروف ہوائی روٹ پر کراچی ایئرپورٹ کی موجودگی مشرق سے مغرب اور مغرب سے مشرق سفر کرنے والوں کے لیے چند گھنٹے رکنے کا ایک بہترین مقام ہے۔
قصہ مختصر وزیر اعظم کے پیکیج کے مطابق امور کا جائزہ لینے اور دیگر امور سے متعلق معائنے کے لیے وزیر اعظم پاکستان کراچی کے سوا تین کروڑ شہریوں کی خاطر چند گھنٹوں کے لیے گزشتہ دنوں کراچی تشریف لائے۔ اگرچہ میں اپنے کالم معاشیات اور شماریات کے اعداد و شمار کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھتا ہوں۔ تو ایک مختصر شماریاتی جائزہ یہ ہے کہ پاکستان کی آبادی اگر 21 کروڑ مان لی جائے اور کراچی کی آبادی اس وقت تین کروڑ سے زائد ہے، جو اکثر تجزیہ کار بیان کرتے رہتے ہیں لہٰذا تین کو تقسیم کریں 21 سے تو جواب 7ملا۔ ہفتے میں 7 یوم ہوتے ہیں لہٰذا وزیر اعظم ایک دن کراچی کو ملنا تو چاہیے۔
بہرحال کراچی جہاں پاکستان کے ہر علاقے کا ہی نہیں ہر گاؤں دیہات تک کے لوگ موجود ہیں، غریب پرور شہر کراچی کی اب معیشت کی بات کرتے ہیں۔ تو وزیر اعظم اگر ہر ماہ بھی ایک دن کے لیے بھی کراچی آ کر تمام منصوبوں، یہاں کے مسائل اور ساتھ ہی مختلف طبقوں کے نمایندوں کے ساتھ مل کر اور صوبائی حکومت کا بھرپور تعاون حاصل کرتے ہوئے یہاں کے پانی کا مسئلہ اور سڑکوں، اور دیگر مسائل کو حل کرنے کی کوشش میں کامیابی کی صورت میں اس شہر کی صنعتیں پھلیں گی پھولیںگی۔ یہاں زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔
موجودہ عالمی سیاسی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے شہر کراچی پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ افغانستان کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے وہاں سے بہت سے شرپسند عناصر کے لیے یہی شہر پناہ گاہ بن سکتا ہے اور پھر تخریبی کارروائیاں بھی شروع ہو سکتی ہیں۔
پاکستان کا شہر کراچی جو اس وقت مسائلستان بنا ہوا ہے اس شہر کو معاشی طور پر جتنا زیادہ فعال کیا جائے گا جتنے یہاں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے جتنی تعمیرات سڑکوں کی تعمیر و مرمت وغیرہ وغیرہ سے اس شہر کی معیشت کا پہیہ رواں دواں ہوگا۔ اتنا ہی زیادہ اس معاشی حب سے پاکستان اور صوبے کو ریونیو ملے گا اور ملک بھر میں خوشحالی آئے گی۔