گوادر فی الوقت صرف ٹرانزٹ پورٹ ہے جاپانی سفیر
انٹرنیشل سی پورٹس کے معیار پر لانے کیلیے مزید5 سال درکار ہونگے، مٹسوڈا کونینوری
پاکستان گوادر بندرگاہ کو صرف ٹرانزٹ پورٹ کے طور پر استعمال کرسکتا ہے کیوں کہ گودار کو انٹرنیشل سی پورٹ کے معیار پر لانے میں اسے مزید 5 سال درکار ہوں گے۔
پاکستان میں جاپان کے سفیر مٹسوڈا کونینوری نے ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان جیسے ممالک کے لیے دوسری اور تیسری بندرگاہ کی ضرورت ہوتی ہے اور گودار بندرگاہ کی تعمیر پاکستان کے لیے سودمند ہوگی کیوں کہ کراچی کی بندرگاہ بہت زیادہ گنجان ہے، تاہم اس وقت گوادر میں کوئی انڈسٹریل کمپلیکس یا تجارتی علاقہ نہیں ہے، دوسرے اور تیسرے درجے کے منصوبے ہیں جن کی تکمیل میں طویل وقت درکار ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ گوادر کو انٹرنیشنل سی پورٹ بننے کے لیے مزید 5 سال کا عرصہ درکار ہوگا۔ جاپانی سفیر کے خیالات زمینی حقائق سے مطابقت رکھتے ہیں۔ رواں ہفتے کابینہ کمیٹی برائے سی پیک نے چینی آپریٹرز کا گوادر کی بندرکار کے لیے تیارکردہ مارکیٹنگ پلان مسترد کردیا تھا۔ تاہم پورٹ آپریٹرز نے الزام حکومت کو دیا کہ وہ اپنی نااہلی کی وجہ سے گوادر کو معاشی اور تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بنے کے لیے لاجسٹکس فراہم نہیں کرسکی۔
ٹسوڈا کونینوری نے مزید کہا کہ گوادر کا مستقبل ضرور ہے تاہم اس مقصد کے لیے دوسرے اور تیسرے مرحلے کے منصوبوں بشمول انڈسٹریل کمپلیکس کی تعمیر کے لیے اچھی منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ اس کے ساتھ لاجسٹک سپورٹ ایریا اور روڈ نیٹ ورک پر بھی توجہ دینی ہوگی جو گوادر کو دیگر شہروں سے ملائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سی پیک کے تحت ترجیحی خصوصی اقتصادی زون بھی ان علاقوں میں نہیں ہیں جہاں جاپانی آٹوموبائل انویسٹرز فیکٹریاں لگاسکیں۔ اگر پاکستان آٹوموبائل انڈسٹری کے لیے نئی سرمایہ کاری چاہتا ہے تو صنعتی زون کراچی اور لاہور کے مضافات میں ہونے چاہیئں جہاں فیکٹریاں قائم ہیں۔
پاکستان میں جاپان کے سفیر مٹسوڈا کونینوری نے ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان جیسے ممالک کے لیے دوسری اور تیسری بندرگاہ کی ضرورت ہوتی ہے اور گودار بندرگاہ کی تعمیر پاکستان کے لیے سودمند ہوگی کیوں کہ کراچی کی بندرگاہ بہت زیادہ گنجان ہے، تاہم اس وقت گوادر میں کوئی انڈسٹریل کمپلیکس یا تجارتی علاقہ نہیں ہے، دوسرے اور تیسرے درجے کے منصوبے ہیں جن کی تکمیل میں طویل وقت درکار ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ گوادر کو انٹرنیشنل سی پورٹ بننے کے لیے مزید 5 سال کا عرصہ درکار ہوگا۔ جاپانی سفیر کے خیالات زمینی حقائق سے مطابقت رکھتے ہیں۔ رواں ہفتے کابینہ کمیٹی برائے سی پیک نے چینی آپریٹرز کا گوادر کی بندرکار کے لیے تیارکردہ مارکیٹنگ پلان مسترد کردیا تھا۔ تاہم پورٹ آپریٹرز نے الزام حکومت کو دیا کہ وہ اپنی نااہلی کی وجہ سے گوادر کو معاشی اور تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بنے کے لیے لاجسٹکس فراہم نہیں کرسکی۔
ٹسوڈا کونینوری نے مزید کہا کہ گوادر کا مستقبل ضرور ہے تاہم اس مقصد کے لیے دوسرے اور تیسرے مرحلے کے منصوبوں بشمول انڈسٹریل کمپلیکس کی تعمیر کے لیے اچھی منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ اس کے ساتھ لاجسٹک سپورٹ ایریا اور روڈ نیٹ ورک پر بھی توجہ دینی ہوگی جو گوادر کو دیگر شہروں سے ملائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سی پیک کے تحت ترجیحی خصوصی اقتصادی زون بھی ان علاقوں میں نہیں ہیں جہاں جاپانی آٹوموبائل انویسٹرز فیکٹریاں لگاسکیں۔ اگر پاکستان آٹوموبائل انڈسٹری کے لیے نئی سرمایہ کاری چاہتا ہے تو صنعتی زون کراچی اور لاہور کے مضافات میں ہونے چاہیئں جہاں فیکٹریاں قائم ہیں۔