سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کیس میں وفاق اورصوبائی حکومت کوریکارڈ کاجائزہ لے کر 24 گھنٹے میں صورت حال سے آگاہ کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ کی سر براہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے 35 لاپتا افراد کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا لطیف یوسف زئی کا کہنا تھا کہ عدالت کے علم میں ہے کہ 35 افراد کو فوج اٹھا کرلے گئی تھی اور عدالتی احکامات کےمطابق لاپتا افراد سے متعلق آرڈیننس آ گیا ہے، جسٹس جواد ایس خواجہ نے ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا سے استفسار کیا کہ قانون سازی وفاقی حکومت کا کام ہے،تحفظ پاکستان آرڈیننس کو قانون کے مطابق پرکھا جائے گا،صوبائی حکومت کو معاملہ وزارت دفاع کے سامنے اٹھانا چاہیے تھا لیکن اس نے خود کیا اقدامات اٹھائے؟
وقفے کے بعد کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل آف پاکستان نے عدالت کے سامنے 35 لاپتاافراد کے کمیشن کے قیام کا نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کردیا، جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ عدالت اپنے تحمل کی آخری حد تک پہنچ چکی ہے، آج ہی انہیں یہ افسوسناک خبر سننے کو ملی ہے کہ پنجگور سے 25 لاشیں ملی ہیں، اگر وفاق اور خیبرپختونخوا حکومت مل کر بھی ایک شخص کونہیں ڈھونڈ سکتےتو پھر کئی سوال جنم لیتے ہیں، بعد میں سپریم کورٹ نے وفاق اور صوبائی حکومت کو ریکارڈ کا جائزہ لے کر 24گھنٹے میں عدالت کو آگاہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت29جنوری تک ملتوی کردی۔