ذمے داران کا تعین
پی آئی اے کے ذمے داران کہیں گے اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں، سول ایوی ایشن کا ہے، وہ کہیں گے کنٹرول ٹاور کا ہے۔
آسان اردو میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی فرد یا افراد کو ریاست کی جانب سے جو کام سونپا جاتا ہے، جس کا اسے مشاہرہ یا معاوضہ بھی دیا جاتا ہے، اسے اس کا م کی بجا آوری کرنی پڑتی ہے لیکن یہ تعریف ترقی پذیر ممالک کی حد تک درست ہے جب کہ ترقی یافتہ معاشروں میں یہ ذمے داری وہاں کے عوام بھی اداروں اورافراد کو تفویض کرتے ہیں یاایک فرد کی حد تک ایک شخص خود اپنی ذات پر بھی تمام سماجی ذمے داریاں عائد کرلیتا ہے۔
لہٰذا ان اشخاص یا ادارے چلانے والے افراد کی نشاندہی کرنا میری آج کی تحریر کا موضوع ہے اور اگرمیں اس تمہید میں نہ بھی جاتا تو آپ میں سے اکثر حضرات اس مفہوم سے واقف ہوں گے لیکن دوستو مجھے آگے چل کر جو کچھ کہنا ہے اس کے لیے ذرا تفصیل میں جانا ضروری محسوس ہوا ،خیر مدعہ کی طرف آتے ہیں۔
ہمارے نظامِ حکومت بھی باقی دنیا جیسا ہی ہے بائیس کروڑ آبادی رکھنے والا پاکستان جسے آزاد ہوئے 73برس بیت چکے ،آج بھی اپنے ذمے داران کا تعین کرنے میں بری طرح ناکام ہے۔
ملک ہے،آبادی ہے،ادارے ہیں، سب کچھ ہے بظاہر ایک قانون اور آئین بھی ہے بس کسی شے کی نشاندہی نہیں ہے، ایک خود کار نظام کی طرح سے سب کچھ جس میں بہت حساس محکمے بھی ہیں جیسے صحت تعلیم وغیرہ چل رہے ہیں،کوئی پوچھنے والا نہیں کوئی احتساب کرنے والا نہیں بلکہ ایک فرد سے لے کر سارے لوگوں تک ایک کلرک سے لے کر حکمران تک ہر ایک کی اپنی ایک سلطنت ہے ،بادشاہت ہے وہ کسی کو جوابدہ نہیں اور اگر کوئی جواب طلب کرلے تو ملک فوراً نازک دور میں داخل ہوجاتا ہے سرحدوں پر تنازعات چھڑ جاتے ہیں۔
معاشی بحران آجاتے ہیں پھر باقی ماندہ مفت خورے بیچ میں پڑ کر اور یہ کہ کر فریقین میں مصالحت کروادیتے ہیں کہ اداروں کے ٹکراؤ سے ملک اور نظام کو خطرہ لاحق ہوجائے گا اور معاملہ نمٹ جاتا ہے یا نمٹادیا جاتا ہے لیکن ایسا بھی شاذونادر ہی کبھی دیکھنے کو ملتا ہے ورنہ تو ایسا لگتا ہے کہ یہ ملک ہمیشہ کے لیے ایک مخصوص فارمولے پر تشکیل دے دیا گیا ہے، جسے اب قیامت تک نہیں بدلنا ،تب بہت مشکل ہے کہ کسی ذمے دار کا تعین کیا جائے۔
انسان کی سرشت میں یہ بات قدرت کی طرف سے ودیعت کی گئی ہے کہ وہ اپنے گردوپیش سے بہت کچھ سیکھتا ہے حتیٰ کہ پاس اڑنے چگنے والے پرندوں سے ،جانوروں سے حشرات الارض سے غرضیکہ زمیں و آسمان جہاں تک اس کی نگاہ جاتی ہے، وہ ایک مسلسل سیکھ میں ہے، ایک تربیت میں ہے ،اس کے شعور میں ہر آن ایک اضافہ ہے اور یہ تمام مشاہدات مل کر اسے اس کی انسانی ذمے داریوں کا احساس دلاتے ہیں وہ مخلوقات میں افضل کیوں ہے؟
یہ حقیقت اس پر آشکار کرتے ہیں ،لیکن سمجھ سے بالاتر ہے ہم ایسی قوم ہیں جس نے بہت کم سیکھا اپنے اطراف سے یا مان ہی کیوں نہ لیا جائے کہ ہم میں کسی سے سیکھنے کی صلاحیت ہی کم ہے۔لہٰذا آج 73سالوں سے طے نہیں ہو پارہا کہ کس کی ذمے داری کیا تھی مثال کے طور پر ایئر لائن کا کوئی طیارہ کریش ہوجائے ،اب اس دن سے ملک میں ہونے والی بحث کا جائزہ لیجیے۔
پی آئی اے کے ذمے داران کہیں گے اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں، سول ایوی ایشن کا ہے، وہ کہیں گے کنٹرول ٹاور کا ہے، پھر تینوں مل کر ذمے داری پچھلی حکومت پر عائد کریں گے کہ انھوں نے جہازوں کی خریداری میں کمیشن کھایا تھا ۔اسی طرح خدا نخواستہ کوئی ٹرین حادثہ ہوجائے جس میں ڈرائیور بابو ہمیشہ محفوظ رہتا ہے تو جائے حادثہ پر سب سے پہلے عوام پہنچتے ہیں، پھر کئی گھنٹوں بعد ریلویز کے کوئی آفیسر جو آتے ہی مذکورہ حادثے کی ذمے داری پہلے کانٹا بدلنے والے پر پھر پٹری والے پر ،ڈرائیور،بالا خر افسر اور آخر میں موسم سے ہوتے ہوئے وہی سابقہ حکومت پر کہ وہ انجنوں کی خریداری میں کمیشن کھا گئے لہٰذا یہی ہونا تھا۔
ریلوے کے وفاقی وزیر صاحب آخر میں میڈیا پرآکر ایک اہم پریس کانفرنس کرتے ہیں اورکسی ڈرائیور سے ہی انجن کے بارے میں کچھ معلومات لے کر TV CHANNELS پربیٹھ جاتے ہیں اور سابقہ حکومت کو اس حد تک ذمے دار قرار دیتے ہیں کہ جیسے یہ حادثہ ان کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا حصہ رہاہو۔
دنیا بھر میں لڑی جانے والی جنگیں جب ختم ہوجاتی ہیں تو وہاں کے تمام ادارے ایک پیج پر ہوتے ہیں اور سب قبول کرتے ہیں جس نے جو بھی کردار ادا کیا ،لیکن یہ پاکستان ہے جہاں ہر ذمے دار ایک الگ کتاب لکھ رہا ہوتا ہے ،کوئی ذمے داری قبول نہیں کرتا، ایسا لگتا ہے سب ایک blame gameکا حصہ ہیں ۔میں آپکو ایک بالکل تازہ واقعہ سناتا ہو، جسے آپ نے جزوی طور پر اخبار میں پڑھا بھی ہوگا۔
چند روز قبل حیدرآباد شہر میں ایک علاقے کا ٹرانسفارمر جل گیا اور علاقہ مکینوں کی بار بار شکایت پر بھی اس کیrepairنہ کی گئی گرمی شدید تھی لوگوں نے واپڈا اہل کاروں کو کچھ رقم جمع کر کے دی جس کے بعد ٹرانسفارمر مرمت کر دیا گیا ،اب جب اسے بجلی کے پول پر فٹ کیا جا رہا تھا تو اس علاقے کے لوگ جن میں کم عمر بچے بھی شامل تھے وہ سب اس پول کے نیچے جمع ہو کر اوپر فٹ کیے جانے والے ٹرانسفارمر کو دیکھنے لگے۔
ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ اچانک ٹرانسفارمر ایک دھماکے سے پھٹ گیا اور اس کے اندر موجود جتنا oilجو شدید ترین گرم اورابلتا ہوا تھا نیچے کھڑے لوگوں پر گر پڑا ،5لوگوں کا تو فوری طور پر انتقال ہوگیا 8افراد کی حالت نازک تھی جب انھیں اسپتال میں admitکروایا گیا اور یہ اسپتال میں admissionکا معاملہ بھی عجیب تھا جب یہ آگ سے جھلسے ہوئے لوگ حیدرآباد سول اسپتال پہنچے تو وہاں کوئی ڈاکٹر نہ تھاکوئی نرس نہیں تھی یہ بے یارو مدد گار ایک حادثے کا شکار ہوئے زخمی چیخ چیخ کر مدد کے لیے ڈاکٹرز کو پکار رہے تھے لیکن کوئی ان کی فریاد سننے والا نا تھا پھر کچھ خاکروب (بھنگی)جو وہاں موجود تھے انھوں نے اسپتال سے کچھ ٹیوبس لاکر ان لوگوں کو دیں جو گھائل تھے کہ یہ لگالیں جلے ہوئے لوگوں نے وہ ٹیوبزلگالیں جب دیر گئے ڈاکٹرز آئے اپنی ڈیوٹیز پر تو وہ انھوں نے بجائے اپنی کوتاہی پر نادم ہونے کے کہ وہ تاخیر سے ڈیوٹی پر آئے، آگ سے جھلسے ہوئے لوگوں پر برسنا شروع کردیا کہ یہ ٹیوب تو آپ کو لگانی ہی نہیں تھی۔
بہرحال ان سے ہوا پھر بھی کچھ نہیں مریضوں کو کراچی شفٹ کرنا پڑا ان میں سے زیادہ تر اللہ کو پیارے ہوگئے جو بچ گئے وہ زیرِ علاج ہیں ۔یہ حال ہوتا ہے سفارش کی بھرتی کا کسی تعلق کی بنیاد پر ملازمت یا کوئی بھی ذمے داری دینے کا ۔پاکستان ایک ملک ہے اور ایک بڑی آبادی والا ملک ہے 22کروڑ انسان اس ملک میں رہتے بستے ہیں ۔یہاں ذمے داران کا تعین کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آنی چاہیے بلکہ یہاں ہر شخص کو اپنی ذمے داری محسوس کرنی چاہیے ،ورنہ حادثات کی شرح میں اضافہ ہوتا رہے گا اور ہم اُسکا الزام کسی اور پر ڈالتے رہیں گے۔
لہٰذا ان اشخاص یا ادارے چلانے والے افراد کی نشاندہی کرنا میری آج کی تحریر کا موضوع ہے اور اگرمیں اس تمہید میں نہ بھی جاتا تو آپ میں سے اکثر حضرات اس مفہوم سے واقف ہوں گے لیکن دوستو مجھے آگے چل کر جو کچھ کہنا ہے اس کے لیے ذرا تفصیل میں جانا ضروری محسوس ہوا ،خیر مدعہ کی طرف آتے ہیں۔
ہمارے نظامِ حکومت بھی باقی دنیا جیسا ہی ہے بائیس کروڑ آبادی رکھنے والا پاکستان جسے آزاد ہوئے 73برس بیت چکے ،آج بھی اپنے ذمے داران کا تعین کرنے میں بری طرح ناکام ہے۔
ملک ہے،آبادی ہے،ادارے ہیں، سب کچھ ہے بظاہر ایک قانون اور آئین بھی ہے بس کسی شے کی نشاندہی نہیں ہے، ایک خود کار نظام کی طرح سے سب کچھ جس میں بہت حساس محکمے بھی ہیں جیسے صحت تعلیم وغیرہ چل رہے ہیں،کوئی پوچھنے والا نہیں کوئی احتساب کرنے والا نہیں بلکہ ایک فرد سے لے کر سارے لوگوں تک ایک کلرک سے لے کر حکمران تک ہر ایک کی اپنی ایک سلطنت ہے ،بادشاہت ہے وہ کسی کو جوابدہ نہیں اور اگر کوئی جواب طلب کرلے تو ملک فوراً نازک دور میں داخل ہوجاتا ہے سرحدوں پر تنازعات چھڑ جاتے ہیں۔
معاشی بحران آجاتے ہیں پھر باقی ماندہ مفت خورے بیچ میں پڑ کر اور یہ کہ کر فریقین میں مصالحت کروادیتے ہیں کہ اداروں کے ٹکراؤ سے ملک اور نظام کو خطرہ لاحق ہوجائے گا اور معاملہ نمٹ جاتا ہے یا نمٹادیا جاتا ہے لیکن ایسا بھی شاذونادر ہی کبھی دیکھنے کو ملتا ہے ورنہ تو ایسا لگتا ہے کہ یہ ملک ہمیشہ کے لیے ایک مخصوص فارمولے پر تشکیل دے دیا گیا ہے، جسے اب قیامت تک نہیں بدلنا ،تب بہت مشکل ہے کہ کسی ذمے دار کا تعین کیا جائے۔
انسان کی سرشت میں یہ بات قدرت کی طرف سے ودیعت کی گئی ہے کہ وہ اپنے گردوپیش سے بہت کچھ سیکھتا ہے حتیٰ کہ پاس اڑنے چگنے والے پرندوں سے ،جانوروں سے حشرات الارض سے غرضیکہ زمیں و آسمان جہاں تک اس کی نگاہ جاتی ہے، وہ ایک مسلسل سیکھ میں ہے، ایک تربیت میں ہے ،اس کے شعور میں ہر آن ایک اضافہ ہے اور یہ تمام مشاہدات مل کر اسے اس کی انسانی ذمے داریوں کا احساس دلاتے ہیں وہ مخلوقات میں افضل کیوں ہے؟
یہ حقیقت اس پر آشکار کرتے ہیں ،لیکن سمجھ سے بالاتر ہے ہم ایسی قوم ہیں جس نے بہت کم سیکھا اپنے اطراف سے یا مان ہی کیوں نہ لیا جائے کہ ہم میں کسی سے سیکھنے کی صلاحیت ہی کم ہے۔لہٰذا آج 73سالوں سے طے نہیں ہو پارہا کہ کس کی ذمے داری کیا تھی مثال کے طور پر ایئر لائن کا کوئی طیارہ کریش ہوجائے ،اب اس دن سے ملک میں ہونے والی بحث کا جائزہ لیجیے۔
پی آئی اے کے ذمے داران کہیں گے اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں، سول ایوی ایشن کا ہے، وہ کہیں گے کنٹرول ٹاور کا ہے، پھر تینوں مل کر ذمے داری پچھلی حکومت پر عائد کریں گے کہ انھوں نے جہازوں کی خریداری میں کمیشن کھایا تھا ۔اسی طرح خدا نخواستہ کوئی ٹرین حادثہ ہوجائے جس میں ڈرائیور بابو ہمیشہ محفوظ رہتا ہے تو جائے حادثہ پر سب سے پہلے عوام پہنچتے ہیں، پھر کئی گھنٹوں بعد ریلویز کے کوئی آفیسر جو آتے ہی مذکورہ حادثے کی ذمے داری پہلے کانٹا بدلنے والے پر پھر پٹری والے پر ،ڈرائیور،بالا خر افسر اور آخر میں موسم سے ہوتے ہوئے وہی سابقہ حکومت پر کہ وہ انجنوں کی خریداری میں کمیشن کھا گئے لہٰذا یہی ہونا تھا۔
ریلوے کے وفاقی وزیر صاحب آخر میں میڈیا پرآکر ایک اہم پریس کانفرنس کرتے ہیں اورکسی ڈرائیور سے ہی انجن کے بارے میں کچھ معلومات لے کر TV CHANNELS پربیٹھ جاتے ہیں اور سابقہ حکومت کو اس حد تک ذمے دار قرار دیتے ہیں کہ جیسے یہ حادثہ ان کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا حصہ رہاہو۔
دنیا بھر میں لڑی جانے والی جنگیں جب ختم ہوجاتی ہیں تو وہاں کے تمام ادارے ایک پیج پر ہوتے ہیں اور سب قبول کرتے ہیں جس نے جو بھی کردار ادا کیا ،لیکن یہ پاکستان ہے جہاں ہر ذمے دار ایک الگ کتاب لکھ رہا ہوتا ہے ،کوئی ذمے داری قبول نہیں کرتا، ایسا لگتا ہے سب ایک blame gameکا حصہ ہیں ۔میں آپکو ایک بالکل تازہ واقعہ سناتا ہو، جسے آپ نے جزوی طور پر اخبار میں پڑھا بھی ہوگا۔
چند روز قبل حیدرآباد شہر میں ایک علاقے کا ٹرانسفارمر جل گیا اور علاقہ مکینوں کی بار بار شکایت پر بھی اس کیrepairنہ کی گئی گرمی شدید تھی لوگوں نے واپڈا اہل کاروں کو کچھ رقم جمع کر کے دی جس کے بعد ٹرانسفارمر مرمت کر دیا گیا ،اب جب اسے بجلی کے پول پر فٹ کیا جا رہا تھا تو اس علاقے کے لوگ جن میں کم عمر بچے بھی شامل تھے وہ سب اس پول کے نیچے جمع ہو کر اوپر فٹ کیے جانے والے ٹرانسفارمر کو دیکھنے لگے۔
ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ اچانک ٹرانسفارمر ایک دھماکے سے پھٹ گیا اور اس کے اندر موجود جتنا oilجو شدید ترین گرم اورابلتا ہوا تھا نیچے کھڑے لوگوں پر گر پڑا ،5لوگوں کا تو فوری طور پر انتقال ہوگیا 8افراد کی حالت نازک تھی جب انھیں اسپتال میں admitکروایا گیا اور یہ اسپتال میں admissionکا معاملہ بھی عجیب تھا جب یہ آگ سے جھلسے ہوئے لوگ حیدرآباد سول اسپتال پہنچے تو وہاں کوئی ڈاکٹر نہ تھاکوئی نرس نہیں تھی یہ بے یارو مدد گار ایک حادثے کا شکار ہوئے زخمی چیخ چیخ کر مدد کے لیے ڈاکٹرز کو پکار رہے تھے لیکن کوئی ان کی فریاد سننے والا نا تھا پھر کچھ خاکروب (بھنگی)جو وہاں موجود تھے انھوں نے اسپتال سے کچھ ٹیوبس لاکر ان لوگوں کو دیں جو گھائل تھے کہ یہ لگالیں جلے ہوئے لوگوں نے وہ ٹیوبزلگالیں جب دیر گئے ڈاکٹرز آئے اپنی ڈیوٹیز پر تو وہ انھوں نے بجائے اپنی کوتاہی پر نادم ہونے کے کہ وہ تاخیر سے ڈیوٹی پر آئے، آگ سے جھلسے ہوئے لوگوں پر برسنا شروع کردیا کہ یہ ٹیوب تو آپ کو لگانی ہی نہیں تھی۔
بہرحال ان سے ہوا پھر بھی کچھ نہیں مریضوں کو کراچی شفٹ کرنا پڑا ان میں سے زیادہ تر اللہ کو پیارے ہوگئے جو بچ گئے وہ زیرِ علاج ہیں ۔یہ حال ہوتا ہے سفارش کی بھرتی کا کسی تعلق کی بنیاد پر ملازمت یا کوئی بھی ذمے داری دینے کا ۔پاکستان ایک ملک ہے اور ایک بڑی آبادی والا ملک ہے 22کروڑ انسان اس ملک میں رہتے بستے ہیں ۔یہاں ذمے داران کا تعین کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آنی چاہیے بلکہ یہاں ہر شخص کو اپنی ذمے داری محسوس کرنی چاہیے ،ورنہ حادثات کی شرح میں اضافہ ہوتا رہے گا اور ہم اُسکا الزام کسی اور پر ڈالتے رہیں گے۔