ہند میں برطانیہ کی آمد

ایک سمجھوتہ ہوا جس کے تحت پرانی کمپنی کو اپنا علیحدہ وجود سات سال تک برقرار رکھنے کی اجازت دے دی گئی۔


ایم قادر خان August 15, 2021

یورپ کی دیگر اقوام کی طرح برطانوی بھی ہندوستانی اور مشرق بعید کی پیداوار حاصل کرنے کے آرزو مند تھے، چنانچہ 1588 میں پرپیتی آرمیڈا پر فتح حاصل کرنے کے بعد ان کی یہ براہ راست تجارت کی خواہش زیادہ تیز ہوگئی۔

2 ستمبر 1599 میں لارڈ میئر کی زیر صدارت ان کی قرارداد کو پاس کیا جس کے تحت ہندوستان سے براہ راست تجارت کرنے کے لیے ایک طریقہ کار وجود میں لایا گیا۔ 31 دسمبر 1600 ملکہ الزبتھ نے گورنر اور لندن کے سوداگران کو ایک ضابطہ دیا کہ وہ ایسٹ انڈیز میں تجارت کریں۔ اس کی رو سے کمپنی کو ایسٹ انڈیا، ایشیا اور افریقہ کے ممالک کے تمام جزائر، بندرگاہوں، شہروں، ایشیا، افریقہ، امریکا کے تمام مقامات آزادی کے ساتھ سفر کرنے کا اختیار دے دیا گیا۔

یہ ضابطہ پندرہ سال کے لیے دیا گیا تھا، دو سال کے نوٹس پر اس کو منسوخ کیا جاسکتا تھا۔ بعد میں جیمز اول نے نیا چارٹر دیا جس سے 1600 میں دیے چارٹر کی میعاد میں توسیع ہوگئی لیکن یہ چارٹر تین سال کے نوٹس پر منسوخ کیا جاسکتا تھا، بشرطیکہ تجارتی اجارہ داری بیچنے کا استعمال ہو۔

ابتدا میں لندن کمپنی نے مختلف بحری سفروں کی تسلیم کی گئی اس مہم کے لیے لوگوں کی کثیر تعداد مہیا کی اور بعد میں منافع کی رقم کو آپس میں تقسیم کرلیا، چونکہ کمپنی بہت زیادہ منافع دے رہی تھی اس لیے چندہ دینے والے کم نہ تھے۔ کئی مرتبہ منافع پانچ سو سے لے کر چھ سو فیصد تک دیا گیا۔ 1612 میں جوائنٹ اسٹاف تجارتی مہمات قائم کی گئیں جس کے پہلے دو سفر براہ راست مصالحہ والے جزائر کے کیے گئے۔

انگریزوں نے تجارتی کمپنی ہنٹم میں بھی قائم کی وہاں بھی کچھ تجارت شروع کی لیکن یہاں ولندیزیوں نے انگریزوں کی سخت مخالفت کی اس کے بعد تیسرے سفر پر کپتان ہاکنز کو روانہ کیا وہ سورت کی بندرگاہ پر اترا اور وہاں سے شہنشا ہ جہانگیر کے دربار میں پہنچا اور اس نے انگریزوں کے لیے کچھ مراعات حاصل کیں۔

شہنشاہ جہانگیر کے دربار میں کیپٹن ہاکنز کا خیر مقدم کیا گیا، انگریزوں کو سورت میں تجارتی کوٹھیاں قائم کرنے کی اجازت مل گئی لیکن بعد میں پرتگالیوں کے اثر و رسوخ کی وجہ سے واپس لے لی گئیں۔1612 میں کپتان بیٹ نے سوانی کے مقام پر سورت کے نزدیک اہل پرتگال کو شکست دی اس فتح کے بعد دربار میں پرتگال کا اثر کمزور پڑ گیا اور انگریز کمپنی کو سورت میں فیکٹری قائم کرنے کی اجازت مل گئی۔1615 جیمز اول، شاہ انگلستان نے سرطالس رو کو جہانگیر کے دربار میں بھیجا جس نے مغل بادشاہ سے انگریز کمپنی کے لیے تجارتی مراکز قائم کرنے کی کوشش کی اور وہ لوگوں کی مخالفت کے باوجود یہ مراعات حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔

1622 میں انگریزوں نے شاہ فارس کی مزواہل پرتگال سے ارمز بھی چھین لیا اس کے علاوہ آرام گاہوں اور مسولی ٹم تجارتی کوٹھیاں قائم کیں سولہ ہزار چار سو میں مدارس کا علاقہ خریدا۔ اس کے علاوہ فورٹ سینیٹ جارج نام کی ایک فیکٹری کھولنے کی اجازت حاصل کی بالاسور اور ہری پور میں ایک فیکٹری قائم کی۔1651میں ایک فیکٹری ہگلی میں قائم کی۔ 1661 میں لندن کمپنی نے دس پونڈ سالانہ کی معمولی رقم پر جارج دوم سے بمبئی کا جزیرہ کرایہ پرلیا۔ 1688 بنگال میں انگریز تاجروں اور گورنر شائستہ خان میں نیا تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا۔

1690 شہنشاہ اورنگ زیب جہانگیر سے اجازت لے کر کلکتہ میں ایک فیکٹری لگائی۔ 1694 میں کلکتہ مدراس اور بمبئی کی ریزیڈنسیوں نے جان سرمن کی رہنمائی میں شاہ قرق سید کے دربار میں ایک وفد بھیجا اس میں ڈاکٹر ولیم ہملٹن (جس نے بادشاہ کا علاج کیا تھا) وہ بھی تھا۔ 1615 میں کمپنی کو اس امر کی اجازت دے دی گئی کہ وہ کپتانوں کو نقدی دے سکتی ہے۔1623 میں کمپنی کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے رہائشی و خاص افسران کو خاص اختیار دے کر کمپنی کے ملازمین اگر وہ مجرم ثابت ہوں تو سزائیں دے سکتی ہے۔

1657 کے معاہدے میں کمپنی سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ جوائنٹ اسٹاف قائم چارٹر سے یہ قرار پایا کہ کوئی بھی شخص پانچ پونڈ فیس دے کر اور سو پونڈ کے حصے خرید کر کمپنی کا رکن بن سکتا ہے۔ 1661 میں چارلس دوم نے کمپنی کو مزید مراعات دینے کا اعلان کیا۔1683 کے چارٹر کی رو سے یہ اختیار مل گیا۔ 1684 کے چارٹرز کی رو سے کمپنی کو امین البحر اور جہاز کے افسران مقرر کرنے کا اختیار مل گیا۔

1693 کے چارٹرز کی رو سے کمپنی کے سرمایہ میں 744000 (سات لاکھ چوالیس ہزار) پونڈ کا اضافہ کیا۔ 19 جنوری 1694 میں دارالعوام نے یہ آئین پاس کیا کہ انگلستان کے تمام باشندوں کے لیے ایسٹ انڈیا کمپنی کا نیا قانون بنایا جائے۔ 20 فروری 1697 میں پارلیمنٹ میں ایک نیا قانون بنایا۔ 17 جنوری 1701 میں ایسٹ انڈیا اینڈ کمپنی کے کاروبار ختم کرنے کا تین سال کا نوٹس دیا گیا۔

اپنی حیثیت کو مستحکم کرنے کے لیے پرانی کمپنی نے نئی کمپنی میں تین لاکھ پندرہ ہزار پونڈ کے حصص خرید لیے۔ کچھ عرصہ تک دونوں کمپنیوں میں زبردست مقابلہ ہوا جس کے نتیجے میں نئی کمپنی کو نقصان اٹھانا پڑا۔

آخر کار 1702 میں ایک سمجھوتہ ہوا جس کے تحت پرانی کمپنی کو اپنا علیحدہ وجود سات سال تک برقرار رکھنے کی اجازت دے دی گئی۔ اس کی رو سے دونوں کمپنیوں کو مشترکہ طور پر تجارتی کاروبار کرنا پڑا۔ اس لیے یہ تمام کاروبار انگریز کمپنی کے نام پر دونوں کمپنیوں کے مفادات کو پیش رکھتے ہوا، جب کہ یہ منیجروں کے ماتحت ہونا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔