کشمکش
خودبھارتی تجزیہ کاروں کاکہناہے کہ اب اگرچین نے پیش قدمی شروع کی تووہ لداخ ہی نہیں پوری مقبوضہ وادی میں داخل ہوسکتاہے۔
ISLAMABAD:
دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اب تک امریکا دنیا کا چوہدری بنا ہوا ہے، تاہم اب لگتا ہے اس کی عالمی چوہدراہٹ کا سورج جلد ہی غروب ہونے والا ہے، اس کے لیے اس وقت جو بھی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں وہ اس کی اپنی ہی کرتوتوں کا نتیجہ ہیں۔
کاش کہ اس نے تکبر، مطلق العنانی اور استعماریت کو خود سے دور رکھا ہوتا۔ چھوٹے ممالک کو حقیر سمجھ کر انھیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہ کیا ہوتا، اپنی طاقت کا بے جا استعمال نہ کیا ہوتا اور حقوق انسانی کی قدر کی ہوتی تو شاید عالمی رائے عامہ اس کے خلاف نہ ہوتی۔ اس وقت امریکا کو سب سے بڑا خطرہ چین سے ہے کیونکہ وہ اس کی چوہدراہٹ کو ختم کرسکتا ہے۔ کبھی اسے روس سے بھی یہ ڈر لاحق تھا لیکن روس اپنی معاشی کمزوری کی وجہ سے اس کا مقابلہ نہ کرسکا۔
چین وہ ملک ہے جس نے اپنے عوام کی محنت، ایثار اور عالمی جذبے سے بے مثال ترقی کی ہے، وہ معاشی طور پر خودکفیل ہے اور جدید ٹیکنالوجی میں امریکا سے آگے نکل چکا ہے مگر وہ امریکا کی طرح مغروریت کا شکار نہیں ہے، وہ غریب ممالک کی مالی مدد کرنے میں پیش پیش ہے۔ اس نے غریب ممالک کی مالی مدد کرنے کے لیے بیلٹ اینڈ روڈ جیسا غریب پرور منصوبہ متعارف کرایا ہے جو اب پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔
چین تو برسوں سے اس عوامی خدمت میں مصروف ہے جب کہ امریکا غریب ممالک کو اپنے مفاد میں نہ صرف استعمال کر رہا ہے بلکہ انھیں توڑنے اور اجاڑنے میں مصروف ہے البتہ اپنے حلیف طاقتور توسیع پسندانہ رجحانات رکھنے والے ممالک کے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے ان کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ چین ایسے ممالک کے خلاف ہے اور ان کے شر سے چھوٹے ممالک کو بچانے میں مصروف ہے۔ وہ دنیا کی مظلوم اور محکوم قوموں کا ساتھی ہے اور وہ انھیں ان کا حق دلانے کے لیے سرگرم عمل ہے۔
گزشتہ ستر برس سے بھارت نے کشمیریوں پر اور اسرائیل نے فلسطین پر ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے اور انھیں حق خود اختیاریت دینے سے گریزاں ہیں۔ امریکا جو خود کو حقوق انسانی کا علمبردار سمجھتا ہے اور ایک سپرپاور ہونے کے ناتے اس کا فرض ہے کہ وہ ان محکوم اقوام کو اقوام متحدہ کی جانب سے تفویض کردہ حق خود اختیاریت دلائے مگر وہ تو ان دونوں سامراجی ممالک کی پشت پناہی میں مصروف ہے۔ وہ چین کے یغور مسلمانوں پر مبینہ ظلم و ستم کا پرزور پروپیگنڈا کر رہا ہے مگر اسے کشمیریوں اور فلسطینیوں پر بھارت اور اسرائیل کے مظالم نظر نہیں آرہے ہیں۔
اس وقت بھارت اور اسرائیل میں انتہا پسند مذہبی حکومتیں قائم ہیں۔ بھارت کی نریندر مودی حکومت ہندوتوا کے مسلم کش ایجنڈے پر عمل پیرا ہے، اس کا پلان ہے کہ بھارت سے تمام مسلمانوں کو بے دخل کردیا جائے۔ آر ایس ایس کے غنڈوں نے مسلمانوں پر بربریت کی انتہا کردی ہے، یہ دہشت گرد مسلم بستیوں پر حملے کرکے مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ وہاں کی عدلیہ اور پولیس بھی ہندو غنڈوں کا ساتھ دے رہی ہے۔ بھارتی عدلیہ متاثرہ مسلمانوں کو ہی حملہ آور اور قاتل قرار دے کر انھیں جیلوں میں ڈال رہی ہے۔
ادھر کشمیر میں بھارتی آئین کی شق 370 اور 35A کی دھجیاں بکھیر کر اور آج کل جس سلامتی کونسل کی وہ بڑے فخر سے صدارت کر رہا ہے، اسی کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس متنازعہ ریاست کو زبردستی بھارت کا اٹوٹ انگ بنا دیا گیا ہے۔ مودی نے 5 اگست 2019 کو یہ بڑی غلطی کی تھی جب سے اب تک پوری مقبوضہ وادی میں مسلسل لاک ڈاؤن جیسی کیفیت جاری ہے۔
امریکا اور اس کے اتحادی اس ظلم کو نہ صرف نظرانداز کر رہے ہیں بلکہ اقوام متحدہ کی حق خود اختیاریت کی قراردادوں کا مذاق اڑا رہے ہیں مگر اس طرح وہ خود اقوام متحدہ کے زوال کا سبب بن رہے ہیں۔ افغانستان سے امریکا کے شکست خوردہ نکلنے کے بعد اب اس خطے میں سوائے بھارت کے اس کا کوئی ہمنوا نہیں رہا ہے۔ وہ تو بھارت کو چین کے خلاف استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے مگر بھارت کا یہ حال ہے کہ وہ لداخ میں چین کی پیش قدمی روکنے کے بھی قابل نہیں ہے۔
امریکا کی ایک ہی کوشش ہے کہ کسی طرح چین کی ابھرتی ہوئی طاقت کو روکا جائے مگر اب چین بہت آگے نکل چکا ہے، وہ معاشی طور پر تو امریکا سے آگے ہے ہی جدید ہتھیاروں کی پیداوار میں بھی امریکا کو مات دے رہا ہے۔ اس نے ایسے جدید الیکٹرانک ہتھیار بنائے ہیں جن سے خود امریکا خوف زدہ ہے، چین کچھ عرصہ قبل اپنی جدید ٹیکنالوجی سے پورے بھارت میں بلیک آؤٹ کر چکا ہے۔ چین اپنے جدید انرجی ہتھیار کو لداخ میں بھی بھارتی فوج پر استعمال کر چکا ہے۔
بھارتی فوج لداخ کی کئی اہم چوٹیوں پر قابض ہوگئی تھی، انھیں وہاں سے ہٹانا آسان نہ تھا۔ چین نے بھارتی فوجیوں پر نہ تو طیاروں سے بمباری کی اور نہ ہی نیچے سے فائرنگ کی بلکہ اپنا انرجی ویپن استعمال کیا جس سے نکلنے والی لہروں نے پہاڑوں کی چوٹیوں پر بیٹھے بھارتی فوجیوں میں ایسی گھبراہٹ اور سانس لینے میں مشکلات پیدا کیں کہ وہ جان بچا کر چوٹیوں کو خالی کرکے نیچے بھاگ آئے اور یوں چین اپنے اس نئے ہتھیار سے کسی آتشیں اسلحے کو استعمال کیے بغیر ہی کامیاب ہو گیا۔
بھارتی حکومت لاکھ کوششوں اور منت سماجت کے بعد بھی چین کی لداخ میں مزید پیش قدمی روکنے میں مکمل ناکام ہے۔ بھارتی سیاستدانوں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مودی نے چین سے خود ہی چھیڑ چھاڑ کرکے اسے جوابی کارروائی کا موقع دیا ہے، مودی نے اقتدار سنبھالتے ہی چین سے 1962 کی شکست کا بدلہ لینے اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے کام شروع کردیا تھا۔
وہ بھارت کا راستہ وسطی ایشیائی ممالک تک بحال کرنے اور سی پیک منصوبے کو ختم کرنے کے لیے بے چین ہے۔ اس نے لداخ میں کئی نئی سڑکیں اور ہوائی اڈے تعمیر کرائے ہیں۔ پرانی دولت بیگ اولڈ میں سڑک کو بھی نئے سرے سے تعمیر کرایا ہے یہ سڑک سیدھی قراقرم شاہراہ تک جاتی ہے اور اس سے گلگت بلتستان کا علاقہ بھی زیادہ دور نہیں ہے۔
مودی اس راستے کے ذریعے ایک طرف شاہراہ قراقرم تباہ کرنا چاہتا ہے تو دوسری طرف گلگت بلتستان پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ مودی کی اس خفیہ کارروائی کے عملی جامہ پہننے سے پہلے ہی چین نے لداخ میں پیش قدمی شروع کردی، جس نے مودی کے ہوش اڑا دیے اور اس کے مذموم مقاصد کو خاک میں ملا دیا۔ اس وقت پھر مودی لداخ کی سرحد پر اپنی فوج کی تعداد بڑھا کر اور بھاری ہتھیار سرحد پر پہنچا کر چین کو اشتعال دلا رہا ہے۔
خود بھارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اب اگر چین نے پھر پیش قدمی شروع کی تو وہ لداخ ہی نہیں پوری مقبوضہ وادی میں داخل ہو سکتا ہے اور یوں کشمیریوں کی دلی مراد پوری ہوسکتی ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اب تک امریکا دنیا کا چوہدری بنا ہوا ہے، تاہم اب لگتا ہے اس کی عالمی چوہدراہٹ کا سورج جلد ہی غروب ہونے والا ہے، اس کے لیے اس وقت جو بھی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں وہ اس کی اپنی ہی کرتوتوں کا نتیجہ ہیں۔
کاش کہ اس نے تکبر، مطلق العنانی اور استعماریت کو خود سے دور رکھا ہوتا۔ چھوٹے ممالک کو حقیر سمجھ کر انھیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہ کیا ہوتا، اپنی طاقت کا بے جا استعمال نہ کیا ہوتا اور حقوق انسانی کی قدر کی ہوتی تو شاید عالمی رائے عامہ اس کے خلاف نہ ہوتی۔ اس وقت امریکا کو سب سے بڑا خطرہ چین سے ہے کیونکہ وہ اس کی چوہدراہٹ کو ختم کرسکتا ہے۔ کبھی اسے روس سے بھی یہ ڈر لاحق تھا لیکن روس اپنی معاشی کمزوری کی وجہ سے اس کا مقابلہ نہ کرسکا۔
چین وہ ملک ہے جس نے اپنے عوام کی محنت، ایثار اور عالمی جذبے سے بے مثال ترقی کی ہے، وہ معاشی طور پر خودکفیل ہے اور جدید ٹیکنالوجی میں امریکا سے آگے نکل چکا ہے مگر وہ امریکا کی طرح مغروریت کا شکار نہیں ہے، وہ غریب ممالک کی مالی مدد کرنے میں پیش پیش ہے۔ اس نے غریب ممالک کی مالی مدد کرنے کے لیے بیلٹ اینڈ روڈ جیسا غریب پرور منصوبہ متعارف کرایا ہے جو اب پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔
چین تو برسوں سے اس عوامی خدمت میں مصروف ہے جب کہ امریکا غریب ممالک کو اپنے مفاد میں نہ صرف استعمال کر رہا ہے بلکہ انھیں توڑنے اور اجاڑنے میں مصروف ہے البتہ اپنے حلیف طاقتور توسیع پسندانہ رجحانات رکھنے والے ممالک کے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے ان کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ چین ایسے ممالک کے خلاف ہے اور ان کے شر سے چھوٹے ممالک کو بچانے میں مصروف ہے۔ وہ دنیا کی مظلوم اور محکوم قوموں کا ساتھی ہے اور وہ انھیں ان کا حق دلانے کے لیے سرگرم عمل ہے۔
گزشتہ ستر برس سے بھارت نے کشمیریوں پر اور اسرائیل نے فلسطین پر ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے اور انھیں حق خود اختیاریت دینے سے گریزاں ہیں۔ امریکا جو خود کو حقوق انسانی کا علمبردار سمجھتا ہے اور ایک سپرپاور ہونے کے ناتے اس کا فرض ہے کہ وہ ان محکوم اقوام کو اقوام متحدہ کی جانب سے تفویض کردہ حق خود اختیاریت دلائے مگر وہ تو ان دونوں سامراجی ممالک کی پشت پناہی میں مصروف ہے۔ وہ چین کے یغور مسلمانوں پر مبینہ ظلم و ستم کا پرزور پروپیگنڈا کر رہا ہے مگر اسے کشمیریوں اور فلسطینیوں پر بھارت اور اسرائیل کے مظالم نظر نہیں آرہے ہیں۔
اس وقت بھارت اور اسرائیل میں انتہا پسند مذہبی حکومتیں قائم ہیں۔ بھارت کی نریندر مودی حکومت ہندوتوا کے مسلم کش ایجنڈے پر عمل پیرا ہے، اس کا پلان ہے کہ بھارت سے تمام مسلمانوں کو بے دخل کردیا جائے۔ آر ایس ایس کے غنڈوں نے مسلمانوں پر بربریت کی انتہا کردی ہے، یہ دہشت گرد مسلم بستیوں پر حملے کرکے مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ وہاں کی عدلیہ اور پولیس بھی ہندو غنڈوں کا ساتھ دے رہی ہے۔ بھارتی عدلیہ متاثرہ مسلمانوں کو ہی حملہ آور اور قاتل قرار دے کر انھیں جیلوں میں ڈال رہی ہے۔
ادھر کشمیر میں بھارتی آئین کی شق 370 اور 35A کی دھجیاں بکھیر کر اور آج کل جس سلامتی کونسل کی وہ بڑے فخر سے صدارت کر رہا ہے، اسی کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس متنازعہ ریاست کو زبردستی بھارت کا اٹوٹ انگ بنا دیا گیا ہے۔ مودی نے 5 اگست 2019 کو یہ بڑی غلطی کی تھی جب سے اب تک پوری مقبوضہ وادی میں مسلسل لاک ڈاؤن جیسی کیفیت جاری ہے۔
امریکا اور اس کے اتحادی اس ظلم کو نہ صرف نظرانداز کر رہے ہیں بلکہ اقوام متحدہ کی حق خود اختیاریت کی قراردادوں کا مذاق اڑا رہے ہیں مگر اس طرح وہ خود اقوام متحدہ کے زوال کا سبب بن رہے ہیں۔ افغانستان سے امریکا کے شکست خوردہ نکلنے کے بعد اب اس خطے میں سوائے بھارت کے اس کا کوئی ہمنوا نہیں رہا ہے۔ وہ تو بھارت کو چین کے خلاف استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے مگر بھارت کا یہ حال ہے کہ وہ لداخ میں چین کی پیش قدمی روکنے کے بھی قابل نہیں ہے۔
امریکا کی ایک ہی کوشش ہے کہ کسی طرح چین کی ابھرتی ہوئی طاقت کو روکا جائے مگر اب چین بہت آگے نکل چکا ہے، وہ معاشی طور پر تو امریکا سے آگے ہے ہی جدید ہتھیاروں کی پیداوار میں بھی امریکا کو مات دے رہا ہے۔ اس نے ایسے جدید الیکٹرانک ہتھیار بنائے ہیں جن سے خود امریکا خوف زدہ ہے، چین کچھ عرصہ قبل اپنی جدید ٹیکنالوجی سے پورے بھارت میں بلیک آؤٹ کر چکا ہے۔ چین اپنے جدید انرجی ہتھیار کو لداخ میں بھی بھارتی فوج پر استعمال کر چکا ہے۔
بھارتی فوج لداخ کی کئی اہم چوٹیوں پر قابض ہوگئی تھی، انھیں وہاں سے ہٹانا آسان نہ تھا۔ چین نے بھارتی فوجیوں پر نہ تو طیاروں سے بمباری کی اور نہ ہی نیچے سے فائرنگ کی بلکہ اپنا انرجی ویپن استعمال کیا جس سے نکلنے والی لہروں نے پہاڑوں کی چوٹیوں پر بیٹھے بھارتی فوجیوں میں ایسی گھبراہٹ اور سانس لینے میں مشکلات پیدا کیں کہ وہ جان بچا کر چوٹیوں کو خالی کرکے نیچے بھاگ آئے اور یوں چین اپنے اس نئے ہتھیار سے کسی آتشیں اسلحے کو استعمال کیے بغیر ہی کامیاب ہو گیا۔
بھارتی حکومت لاکھ کوششوں اور منت سماجت کے بعد بھی چین کی لداخ میں مزید پیش قدمی روکنے میں مکمل ناکام ہے۔ بھارتی سیاستدانوں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مودی نے چین سے خود ہی چھیڑ چھاڑ کرکے اسے جوابی کارروائی کا موقع دیا ہے، مودی نے اقتدار سنبھالتے ہی چین سے 1962 کی شکست کا بدلہ لینے اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے کام شروع کردیا تھا۔
وہ بھارت کا راستہ وسطی ایشیائی ممالک تک بحال کرنے اور سی پیک منصوبے کو ختم کرنے کے لیے بے چین ہے۔ اس نے لداخ میں کئی نئی سڑکیں اور ہوائی اڈے تعمیر کرائے ہیں۔ پرانی دولت بیگ اولڈ میں سڑک کو بھی نئے سرے سے تعمیر کرایا ہے یہ سڑک سیدھی قراقرم شاہراہ تک جاتی ہے اور اس سے گلگت بلتستان کا علاقہ بھی زیادہ دور نہیں ہے۔
مودی اس راستے کے ذریعے ایک طرف شاہراہ قراقرم تباہ کرنا چاہتا ہے تو دوسری طرف گلگت بلتستان پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ مودی کی اس خفیہ کارروائی کے عملی جامہ پہننے سے پہلے ہی چین نے لداخ میں پیش قدمی شروع کردی، جس نے مودی کے ہوش اڑا دیے اور اس کے مذموم مقاصد کو خاک میں ملا دیا۔ اس وقت پھر مودی لداخ کی سرحد پر اپنی فوج کی تعداد بڑھا کر اور بھاری ہتھیار سرحد پر پہنچا کر چین کو اشتعال دلا رہا ہے۔
خود بھارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اب اگر چین نے پھر پیش قدمی شروع کی تو وہ لداخ ہی نہیں پوری مقبوضہ وادی میں داخل ہو سکتا ہے اور یوں کشمیریوں کی دلی مراد پوری ہوسکتی ہے۔