رفیع الدین راز جدید اردو غزل کے بڑے شاعر
معطر ہواؤں کے دل دادہ موسم کی تازگی اور رنگینیوں کے کیف سے سرشار ہو جاتے ہیں۔
اردو دنیا کا جانا پہچانا اہم نام ممتاز شاعر 27 کتابوں کے تخلیق کار رفیع الدین راز کا ہے، وہ خود اپنا تعارف کہ ہوا بہار کی ہے اور موسم بہار کائنات کے ہر خطے میں اپنی خوشبو بکھیرتا ہے، چٹکتی کلیاں خوش رنگ پھولوں کا لبادہ اوڑھ لیتی ہیں، باد بہاراں اور نکہتِ گل ہر سو اپنی خوشبو لٹاتی ہے۔
معطر ہواؤں کے دل دادہ موسم کی تازگی اور رنگینیوں کے کیف سے سرشار ہو جاتے ہیں، رفیع الدین کی شاعری بھی موسم رنگ و بو کے زمرے میں آتی ہے، صاحب علم اور اہلِ سخن ان کی شاعری کے قدردان ہیں وہ پتھر اور ہیرے کی شناخت سے اچھی طرح واقف ہیں اسی وجہ سے ان کے کام کو سراہا گیا۔ ان کے مداحوں اور اساتذہ کرام نے ان کے علمی و ادبی امور پر اپنے شاگردوں کو پی ایچ ڈی اور ایم فل کرنے کی طرف توجہ دلائی اس موقع پر مجھے ڈاکٹر فرحت جہاں کی یہ بات یاد آگئی ہے۔
واضح رہے فرحت جہاں نے رفیع الدین راز کی شاعری اور حالات زندگی پر ''متھلا یونیورسٹی'' انڈیا سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ وہ لکھتی ہیں ''2012 کے اواخر میں جدید اردو غزل کے موضوع پر منعقدہ سیمینار بہ مقام ملت کالج، دربھنگہ میں پروفیسر ظفر حبیب نے جب یہ اعلان کیا کہ ''رفیع الدین راز جدید اردو غزل کے سب سے بڑے شاعر ہیں'' تو پوری محفل میں ایک سنسنی سی پھیل گئی اور جب رفیع الدین راز کے اشعار سے دعوے کی دلیل پیش کی گئی تو پورے مجمع نے حیرت انگیز مسرت کا اظہار کیا اور استاد محترم سے یہ درخواست کی کہ ان پر کوئی باضابطہ کتاب ترتیب دیں، میرے لیے انتہائی مسرت کی بات ہے کہ موصوف کی نگرانی میں یہ ایک مکمل کتاب بہار کے کئی اہم اردو شاعروں کے حوالے سے پیش کی جا رہی ہے''۔
پروفیسر ظفر حبیب نے اپنے مضمون ''حرفِ دعا'' میں راز صاحب کی شاعرانہ اپچ، نعمت خداوندی اور تخلیقی صلاحیتوں کے حوالے سے کہا ہے کہ ''رفیع الدین راز اردو غزل کی ایک ایسی آواز ہیں کہ جن کا کوئی ہم سر ہے نہ ثانی۔ رفیع الدین راز صرف غزل گو ہوتے تب بھی بہت بڑے شاعر ہوتے، اس لیے نہیں کہ ان کی کلیاتِ غزل (سخن سرمایہ) میں پانچ سو غزلیں درج ہیں اور اشعار کی تعداد پانچ ہزار کے آس پاس ہے بلکہ راز صاحب نے نظم گوئی کا کمال دکھانے کے لیے ''بینائی'' (مجموعۂ نظم و غزل)، ''ابھی دریا میں پانی ہے''، ''جو ایک دن آئینہ دیکھا'' جیسے نظموں کے مجموعے شایع کرانے کے علاوہ ''روشنی کے خد و خال'' (منظوم سیرت النبیؐ) کے خالق بھی وہی ہیں۔
فرحت جہاں نے راز صاحب کے ماضی کی تاریکیوں، ناکامیوں، غموں اور جہد مسلسل کا محاکمہ محنت لگن اور خلوص کے ساتھ کیا ہے۔ اسی پس منظر میں راز صاحب کا ایک شعر درج ہے:
دیکھو تو ہر ورق پہ ہے خونِ رنگ حاشیہ
سوچو تو زندگی بڑی سادہ کتاب ہے
راز صاحب کی سوانح حیات اور غزلیات کے مجموعوں پر انھوں نے بہت خوبصورتی اور فکر و آگہی کی روشنی میں جائزہ لیا ہے جو قابل تعریف ہے۔
جناب راز صاحب کی تازہ تخلیق ''سخن دانِ راز'' کے عنوان سے 2021 میں شایع ہوئی ان کی زیادہ تر کتابیں ''رنگ ادب'' پبلی کیشنز سے اشاعت کے مرحلے سے گزری ہیں۔ یہ شعری مجموعہ ہے اور تقریباً 200 صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب کے ناشر شاعر علی شاعر نے مشاہیر ادب کے مضامین سے چند اقتباسات بھی شامل مضمون کیے ہیں۔
ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری، پروفیسر انجم اعظمی وغیرہ، ڈاکٹر اسلم فرخی نے لکھا ہے ''ان کی ہر غزل دل کی گہرائیوں سے نکلی ہے اور دل کی گہرائیوں تک پہنچتی ہے، راز کا شعری مجموعہ ''دیدہ خوش خواب'' وقیع، فکر انگیز اور پرکشش مجموعہ ہے۔ مشفق خواجہ نے راز صاحب کی غزل کو بہترین روایات کی امین قرار دیا، ڈاکٹر سلیم اختر کی رائے کے مطابق ''راز صاحب بنیادی طور پر غزل کے شاعری ہیں لیکن ایسے غزل گو کہ اسلوب کا عصا مضبوطی سے تھامے رکھتے ہیں اور بھی کئی قابل قدر ناقدین کے زریں خیالات راز صاحب کی شاعری خصوصاً غزلیات کے حوالے سے شامل مضمون ہیں، جو راز صاحب کی شاعری کو بلند درجہ اور اعلیٰ مقام عطا کرتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی اکرم کنجاہی نے رفیع الدین راز کی شاعری کے حوالے سے اپنے وقیع خیالات کا اظہار کیا ہے، لکھتے ہیں راز صاحب کے پاس ندرت افکار کا حامل غزلیہ کلام معیار اور مقدار کے اعتبار سے فراواں ہے وہ نت نئے خیال آفریں کلام سے خوب داد سمیٹتے ہیں، راز صاحب کی مشاہداتی حس لاجواب ہے، ان کے لاشعوری و وجدانی کیفیات پر مبنی اشعار ہی نہیں بلکہ شعور و ادراک کی سطح پر اترنے والے مشاہدات کا حاصل غزلیہ اشعار بھی قاری اور سامع کو دل میں اترتے محسوس ہوتے ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں قطعی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہو رہی کہ تخیل کی اڑان اور فکر کے بہاریہ تنوع میں رفیع الدین راز اپنے معاصرین سے آگے ہیں، اکیسویں صدی کی غزل راز صاحب پر فخر کرسکتی ہے۔''
راز صاحب کی کئی علمی و شعری بصیرت و وجدان پر مبنی کتابیں میری میز پر موجود ہیں ان سب کو احاطہ تحریر میں لانا ممکن نہیں ہے لیکن چند پر خامہ فرسائی کرنے کی کوشش ضرور کروں گی۔ انھی میں شامل مقالہ برائے ایم فل اردو، بعنوان ''رفیع الدین راز کی غزل گوئی'' مقالہ نگار محمد زمان معظم ہیں، جنھوں نے شعبہ اردو ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ سے ڈاکٹر مطاہر شاہ کی نگرانی میں ایم فل کی سند حاصل کی، محمد زمان معظم نے اپنی تحریر کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہے، پہلے باب میں رفیع الدین راز کی سوانح و شخصیت، دوم اردو غزل، روایت و ارتقا، سوم رفیع الدین راز کی غزل گوئی: فکری مطالعہ، چہارم: رفیع الدین راز کی غزل گوئی: فنی مطالعہ، باب پنجم حاصل تحقیق پر مشتمل ہے۔
راز صاحب کے خاندانی پس منظر کو مقالہ نگار نے اس طرح بیان کیا ہے کہ راز صاحب کے اجداد نسلاً ترک تھے، آج سے تقریباً تین سو سال قبل دربھنگہ بہار (انڈیا) میں وارد ہوئے مذکورہ مضمون سے رفیع الدین راز کے بارے میں بہت سی معلومات کے در وا ہوتے ہیں راز صاحب کی مادری زبان ترکی یا فارسی تھی لیکن بہار کے ماحول نے انھیں مکمل طور پر بہاری بنا دیا۔ راز صاحب کے والد مرزا فریدالدین کو کئی زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔
یہی وجہ ہے کہ راز صاحب بھی اس قدر ذہین و فطین تھے کہ ان کے والد صاحب نے گرامر کے چند الفاظ یاد کرنے کے لیے کہا لیکن انھوں نے دس صفحات زبانی سنا دیے ان کا بچپن کا زمانہ گھریلو حالات اور معاشی پریشانیوں کی وجہ سے نہایت تکلیف دہ گزرا، والد صاحب کی چار شادیاں اور ساتھ عدم توجہ نے رفیع الدین راز کو محرومیوں اور پریشانیوں میں مبتلا کردیا لیکن انھوں نے صبر و شکر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا، انھوں نے نامساعد حالات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور شعر و سخن میں اپنے دکھوں اور مسائل کو سمو دیا۔
راز صاحب پر کراچی یونیورسٹی سے بھی ایم اے اردو کی طالبہ ناعمہ پروین نے ایم اے کا مقالہ لکھا۔ ''رفیع الدین راز شخصیت اور فن'' کے عنوان سے۔ نگران تھیں ڈاکٹر سہیلہ فاروقی۔ ناعمہ پروین اپنی محنت تحقیق اور لگن کے باعث چھٹے باب نعت گوئی تک پہنچیں اور راز صاحب کی شاعری، غم زیست اور حالات زندگی کا بھرپور طریقے سے جائزہ لیا۔ انھوں نے نعت کے مفہوم کی وضاحت اور نعت گوئی کی تاریخ کو لفظوں کا پیراہن عطا کیا ہے۔ اس کے بعد راز صاحب کے نعتیہ اشعار بھی درج کیے ہیں۔
''تلمیحات راز'' اس کتاب کے مصنف شفیق الرحمن الٰہ آبادی ہیں۔ شعری فکر اور دانش و بینش کے رنگوں سے مزین یہ کتاب قابل ذکر اور قابل مطالعہ ہے۔ نمونے کے طور پر راز صاحب کی تلمیحات ملاحظہ فرمائیے:
دلوں کے فاصلوں کو آؤ مل کر کم کریں ہم تم
چلو چلتے ہیں پھر ہم سنگِ اسود رکھ کے چادر میں
مجھے اس بارشِ سنگ ملامت میں ٹھہر کر راز
کوئی دن اور اپنے حوصلے کو آزمانا ہے
معطر ہواؤں کے دل دادہ موسم کی تازگی اور رنگینیوں کے کیف سے سرشار ہو جاتے ہیں، رفیع الدین کی شاعری بھی موسم رنگ و بو کے زمرے میں آتی ہے، صاحب علم اور اہلِ سخن ان کی شاعری کے قدردان ہیں وہ پتھر اور ہیرے کی شناخت سے اچھی طرح واقف ہیں اسی وجہ سے ان کے کام کو سراہا گیا۔ ان کے مداحوں اور اساتذہ کرام نے ان کے علمی و ادبی امور پر اپنے شاگردوں کو پی ایچ ڈی اور ایم فل کرنے کی طرف توجہ دلائی اس موقع پر مجھے ڈاکٹر فرحت جہاں کی یہ بات یاد آگئی ہے۔
واضح رہے فرحت جہاں نے رفیع الدین راز کی شاعری اور حالات زندگی پر ''متھلا یونیورسٹی'' انڈیا سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ وہ لکھتی ہیں ''2012 کے اواخر میں جدید اردو غزل کے موضوع پر منعقدہ سیمینار بہ مقام ملت کالج، دربھنگہ میں پروفیسر ظفر حبیب نے جب یہ اعلان کیا کہ ''رفیع الدین راز جدید اردو غزل کے سب سے بڑے شاعر ہیں'' تو پوری محفل میں ایک سنسنی سی پھیل گئی اور جب رفیع الدین راز کے اشعار سے دعوے کی دلیل پیش کی گئی تو پورے مجمع نے حیرت انگیز مسرت کا اظہار کیا اور استاد محترم سے یہ درخواست کی کہ ان پر کوئی باضابطہ کتاب ترتیب دیں، میرے لیے انتہائی مسرت کی بات ہے کہ موصوف کی نگرانی میں یہ ایک مکمل کتاب بہار کے کئی اہم اردو شاعروں کے حوالے سے پیش کی جا رہی ہے''۔
پروفیسر ظفر حبیب نے اپنے مضمون ''حرفِ دعا'' میں راز صاحب کی شاعرانہ اپچ، نعمت خداوندی اور تخلیقی صلاحیتوں کے حوالے سے کہا ہے کہ ''رفیع الدین راز اردو غزل کی ایک ایسی آواز ہیں کہ جن کا کوئی ہم سر ہے نہ ثانی۔ رفیع الدین راز صرف غزل گو ہوتے تب بھی بہت بڑے شاعر ہوتے، اس لیے نہیں کہ ان کی کلیاتِ غزل (سخن سرمایہ) میں پانچ سو غزلیں درج ہیں اور اشعار کی تعداد پانچ ہزار کے آس پاس ہے بلکہ راز صاحب نے نظم گوئی کا کمال دکھانے کے لیے ''بینائی'' (مجموعۂ نظم و غزل)، ''ابھی دریا میں پانی ہے''، ''جو ایک دن آئینہ دیکھا'' جیسے نظموں کے مجموعے شایع کرانے کے علاوہ ''روشنی کے خد و خال'' (منظوم سیرت النبیؐ) کے خالق بھی وہی ہیں۔
فرحت جہاں نے راز صاحب کے ماضی کی تاریکیوں، ناکامیوں، غموں اور جہد مسلسل کا محاکمہ محنت لگن اور خلوص کے ساتھ کیا ہے۔ اسی پس منظر میں راز صاحب کا ایک شعر درج ہے:
دیکھو تو ہر ورق پہ ہے خونِ رنگ حاشیہ
سوچو تو زندگی بڑی سادہ کتاب ہے
راز صاحب کی سوانح حیات اور غزلیات کے مجموعوں پر انھوں نے بہت خوبصورتی اور فکر و آگہی کی روشنی میں جائزہ لیا ہے جو قابل تعریف ہے۔
جناب راز صاحب کی تازہ تخلیق ''سخن دانِ راز'' کے عنوان سے 2021 میں شایع ہوئی ان کی زیادہ تر کتابیں ''رنگ ادب'' پبلی کیشنز سے اشاعت کے مرحلے سے گزری ہیں۔ یہ شعری مجموعہ ہے اور تقریباً 200 صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب کے ناشر شاعر علی شاعر نے مشاہیر ادب کے مضامین سے چند اقتباسات بھی شامل مضمون کیے ہیں۔
ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری، پروفیسر انجم اعظمی وغیرہ، ڈاکٹر اسلم فرخی نے لکھا ہے ''ان کی ہر غزل دل کی گہرائیوں سے نکلی ہے اور دل کی گہرائیوں تک پہنچتی ہے، راز کا شعری مجموعہ ''دیدہ خوش خواب'' وقیع، فکر انگیز اور پرکشش مجموعہ ہے۔ مشفق خواجہ نے راز صاحب کی غزل کو بہترین روایات کی امین قرار دیا، ڈاکٹر سلیم اختر کی رائے کے مطابق ''راز صاحب بنیادی طور پر غزل کے شاعری ہیں لیکن ایسے غزل گو کہ اسلوب کا عصا مضبوطی سے تھامے رکھتے ہیں اور بھی کئی قابل قدر ناقدین کے زریں خیالات راز صاحب کی شاعری خصوصاً غزلیات کے حوالے سے شامل مضمون ہیں، جو راز صاحب کی شاعری کو بلند درجہ اور اعلیٰ مقام عطا کرتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی اکرم کنجاہی نے رفیع الدین راز کی شاعری کے حوالے سے اپنے وقیع خیالات کا اظہار کیا ہے، لکھتے ہیں راز صاحب کے پاس ندرت افکار کا حامل غزلیہ کلام معیار اور مقدار کے اعتبار سے فراواں ہے وہ نت نئے خیال آفریں کلام سے خوب داد سمیٹتے ہیں، راز صاحب کی مشاہداتی حس لاجواب ہے، ان کے لاشعوری و وجدانی کیفیات پر مبنی اشعار ہی نہیں بلکہ شعور و ادراک کی سطح پر اترنے والے مشاہدات کا حاصل غزلیہ اشعار بھی قاری اور سامع کو دل میں اترتے محسوس ہوتے ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں قطعی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہو رہی کہ تخیل کی اڑان اور فکر کے بہاریہ تنوع میں رفیع الدین راز اپنے معاصرین سے آگے ہیں، اکیسویں صدی کی غزل راز صاحب پر فخر کرسکتی ہے۔''
راز صاحب کی کئی علمی و شعری بصیرت و وجدان پر مبنی کتابیں میری میز پر موجود ہیں ان سب کو احاطہ تحریر میں لانا ممکن نہیں ہے لیکن چند پر خامہ فرسائی کرنے کی کوشش ضرور کروں گی۔ انھی میں شامل مقالہ برائے ایم فل اردو، بعنوان ''رفیع الدین راز کی غزل گوئی'' مقالہ نگار محمد زمان معظم ہیں، جنھوں نے شعبہ اردو ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ سے ڈاکٹر مطاہر شاہ کی نگرانی میں ایم فل کی سند حاصل کی، محمد زمان معظم نے اپنی تحریر کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہے، پہلے باب میں رفیع الدین راز کی سوانح و شخصیت، دوم اردو غزل، روایت و ارتقا، سوم رفیع الدین راز کی غزل گوئی: فکری مطالعہ، چہارم: رفیع الدین راز کی غزل گوئی: فنی مطالعہ، باب پنجم حاصل تحقیق پر مشتمل ہے۔
راز صاحب کے خاندانی پس منظر کو مقالہ نگار نے اس طرح بیان کیا ہے کہ راز صاحب کے اجداد نسلاً ترک تھے، آج سے تقریباً تین سو سال قبل دربھنگہ بہار (انڈیا) میں وارد ہوئے مذکورہ مضمون سے رفیع الدین راز کے بارے میں بہت سی معلومات کے در وا ہوتے ہیں راز صاحب کی مادری زبان ترکی یا فارسی تھی لیکن بہار کے ماحول نے انھیں مکمل طور پر بہاری بنا دیا۔ راز صاحب کے والد مرزا فریدالدین کو کئی زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔
یہی وجہ ہے کہ راز صاحب بھی اس قدر ذہین و فطین تھے کہ ان کے والد صاحب نے گرامر کے چند الفاظ یاد کرنے کے لیے کہا لیکن انھوں نے دس صفحات زبانی سنا دیے ان کا بچپن کا زمانہ گھریلو حالات اور معاشی پریشانیوں کی وجہ سے نہایت تکلیف دہ گزرا، والد صاحب کی چار شادیاں اور ساتھ عدم توجہ نے رفیع الدین راز کو محرومیوں اور پریشانیوں میں مبتلا کردیا لیکن انھوں نے صبر و شکر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا، انھوں نے نامساعد حالات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور شعر و سخن میں اپنے دکھوں اور مسائل کو سمو دیا۔
راز صاحب پر کراچی یونیورسٹی سے بھی ایم اے اردو کی طالبہ ناعمہ پروین نے ایم اے کا مقالہ لکھا۔ ''رفیع الدین راز شخصیت اور فن'' کے عنوان سے۔ نگران تھیں ڈاکٹر سہیلہ فاروقی۔ ناعمہ پروین اپنی محنت تحقیق اور لگن کے باعث چھٹے باب نعت گوئی تک پہنچیں اور راز صاحب کی شاعری، غم زیست اور حالات زندگی کا بھرپور طریقے سے جائزہ لیا۔ انھوں نے نعت کے مفہوم کی وضاحت اور نعت گوئی کی تاریخ کو لفظوں کا پیراہن عطا کیا ہے۔ اس کے بعد راز صاحب کے نعتیہ اشعار بھی درج کیے ہیں۔
''تلمیحات راز'' اس کتاب کے مصنف شفیق الرحمن الٰہ آبادی ہیں۔ شعری فکر اور دانش و بینش کے رنگوں سے مزین یہ کتاب قابل ذکر اور قابل مطالعہ ہے۔ نمونے کے طور پر راز صاحب کی تلمیحات ملاحظہ فرمائیے:
دلوں کے فاصلوں کو آؤ مل کر کم کریں ہم تم
چلو چلتے ہیں پھر ہم سنگِ اسود رکھ کے چادر میں
مجھے اس بارشِ سنگ ملامت میں ٹھہر کر راز
کوئی دن اور اپنے حوصلے کو آزمانا ہے