حیدرآباد کا سندھ میوزیم

وادیٔ مہران کی قدیم تاریخ کا امین

وادیٔ مہران کی قدیم تاریخ کا امین ۔ فوٹو : فائل

ANKARA:
لفظ ''سندھ'' سنسکرت لفظ ''سندھو'' کی موجودہ شکل ہے۔ سندھ کی تاریخ کتنی پرانی ہے، اس پر بے شمار لوگ بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔

یہاں ہزاروں سال قبلِ مسیح کے موئن جودڑو کے آثار بھی ہیں، تو جنوبی سندھ کے شہر میرپور خاص میں کاہو جودڑو جیسا تاریخی ورثہ بھی موجود ہے۔ آج سے ہزاروں سال پہلے جب آریہ یہاں آئے، تو انھوں نے اس کا نام ''سندھو'' رکھا۔ سندھ اپنے دامن میں دنیا کا قدیم ترین تہذیبی ورثہ اور ثقافت سموئے ہوئے ہیں۔ جس کے تحفظ کے لیے حیدرآباد کے پُرفضا مقام پر 1971ء میں ''سندھ میوزیم'' قائم کیاگیا۔ یہ عجائب گھر رانی باغ، ڈاکٹر داؤد پوتہ لائبریری کے قریب واقع ہے۔ یہاں قدیم سندھی تہذیبوں کے نوادرات اور آثار قدیمہ سے حاصل ہونے والی محفوظ اشیا سیّاحوں اور شائقین تاریخ و آثارقدیمہ کے لیے محفوظ کی گئی ہیں۔

سندھ میوزیم کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ڈسپلے گیلریز اور اوپن ایئر سیکشن۔

سندھ میوزیم کے داخلی دروازے کے پاس پہلے ممتاز مرزا آڈیٹوریم قائم ہے ۔ اس کے ساتھ ہی چند قدموں کے فاصلے پر سندھ میوزیم کا داخلی دروازہ ہے۔ میوزیم میں اندر داخل ہوتے ہی، ہم دیکھتے ہیں کہ سندھی گھر کی ثقافت کو بہت خوب صورتی سے اجاگر کیا گیا ہے۔ خوب صورتی سے آراستہ 'سندھی گھر' کو دیکھ کر بالکل حقیقت کا سا گمان ہوتا ہے، جس میں بہت خوب صورت انداز سے گھریلو زندگی کی عکاسی کی گئی ہے۔ منظر میں دکھایا گیا ہے کہ ایک پلنگ پر ایک بزرگ موجود ہیں اور چھوٹا بچہ بیٹھا ہوا تختی پر کچھ لکھ رہا ہے، ساتھ بیٹھے ہوئے بزرگ پورے گھروالوں سے مخاطب ہیں۔

گھر کی ایک عورت چکی پیس رہی ہے، جب کہ گھر کی سربراہ خاتون سندھ کے روایتی جھولے پر بیٹھی ہوئی ہے اور اس کے سامنے دو خواتین بیٹھی ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک عورت سامان بیچنے آئی ہے۔ سربراہ خاتون سامان بیچنے والی عورت سے سامان خرید رہی ہے۔ اناج محفوظ کرنے کے لیے بڑا مٹی کا مرتبان رکھا ہے۔ دیوار پر کلہاڑی لگی ہوئی ہے۔ بہت خوب صورت مکمل سندھی گھر کی عکاسی کی گئی ہے۔ پس منظر میں خوب صورت 'سینری' آویزاں ہے۔ یہ پینٹنگ سندھ میوزیم کے سابق ڈائریکٹر ، مصور، مجسمہ ساز، آرٹس ظفر علی شاہ کاظمی کی بنائی ہوئی ہے۔ مصور و مجسمہ ساز ظفر علی کاظمی کی ہر تخلیق میں سندھ کی تہذیب کا عکس نظر آتا ہے۔ سندھ میوزیم کے لیے آپ کی خدمات کے اعتراف میں آپ کے نام سے سندھ میوزیم میں ایک گیلری منسوب کی گئی ہے۔

'سندھی گھر' کے ساتھ ہی چند قدموں کے فاصلے پر بائیں جانب 'پری لٹریٹ گیلری' میں سائنسی اور جغرافیائی حقائق کی بہت خوب صورت عکاسی کی گئی ہے۔ نظام شمسی اور زمین کی گردش وغیرہ کو مختلف چارٹ کی مدد سے بیان کیا گیا ہے۔ مختلف معدنیات کے نمونوں کے ساتھ جنگلی پرندے اور جنگل کا ماڈل، انسانی زندگی کا ارتقا دکھایا گیا ہے۔

لٹریٹ گیلری میں سندھ کی دیہی زندگی کے مختلف ادوار کو ترتیب وار پیش کیا گیا ہے۔ لٹریٹ گیلری کے بالکل سامنے دائیں ہاتھ پر 'آرکیالوجیکل گیلری' موجود ہے، یہ گیلری مکمل طور پر 'ائیرکنڈیشن' ہے۔ یہاں تعمیرات کے روپ میں گزرے ہوئے ادوار کی عکاسی کی گئی ہے اور قدیم تہذیبوں کے نوادرات، معلومات اور اس زمانے کی مختلف گھریلو اور جنگی ہتھیار کو ترتیب وار رکھاگیا ہے۔

1۔آمری دور 4200 قبلِ مسیح

سب سے پہلے آمری دور 4200 قبلِ مسیح (آمری کاٹیلا) آمری سہون شریف کے جنوب میں تقریباً 25 کلو میٹر (ضلع دادو موجودہ ضلع جام شورو) میں دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر واقع ہے۔ اسے 1834ء میں سب سے پہلے دریافت کیا گیا اور N.J.Mangum Dan نے 1929ء میں یہاں کھدائی کرائی۔ اس ٹیلے کی اونچائی 40 فٹ تھی۔ یہاں کچھ ایسی اشیا ملیں، جو کہ موئن جوداڑو کے دور سے پہلے کی تھیں۔

اس علاقے کو پانچ مختلف ادوار میں تقسیم کیا گیا۔

آمرین کلچر۔انٹرمیڈیٹ ۔ سولائزیشن ۔ جھانگر اور جھکڑ (تاریخی)

فرانسیسی ماہر آثار قدیمہ J.M Casal نے محکمۂ آثار قدیمہ پاکستان کے اشتراک سے 1962ء تا 1959ء کھدائی کی، یہاں سے برآمد ہونے والی اشیا اس گیلری میں موجود ہیں۔

2۔ کوٹ ڈیجی جو دڑو یا ٹیلا (3800-4200قبلِ مسیح)

کوٹ ڈیجی تاریخی مقام ، ضلع خیر پور سے 20 کلو میٹر جنوب مغرب کی طرف قومی شاہراہ کے بائیں کنارے پر ایک چھوٹی پہاڑی پر واقع ہے۔ اس علاقے کو سب سے پہلے 1934ء میں دریافت کیا گیا اور حکومت کو اطلاع دی۔ اس کی کھدائی کا کام ایف۔ اے خان نے 1955-75ء میں سرانجام دیا۔ اس پہاڑی ٹیلے کی پیمائش 400x600 ہے اور تقریباً 40 فٹ اونچائی پر واقع ہے۔ اس شہر کو چار اطراف سے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور تقریباً ایک کی اونچائی 40 فٹ ہے اور دوسرے کی اس سے کم ہے۔

کوٹ ڈیجی کے قدیم ادوار مٹی کے برتن زیادہ تر ہاتھ سے بنائی جاتی تھی اس کے بعد ایسا دور آیا کہ مٹی کے برتن پر پھول پتوں اور تصویروں کا کام کیا گیا۔ جو 'آمری دور' سے ملتا جلتا ہے۔ یہ دونوں تہذیبیں ایک دوسرے کی ہم عصر ہیں۔

سندھ میوزیم کی گیلری میں اس دور کی مختلف اشیا اور برتن موجود ہیں۔ کوٹ ڈیجی کے ساتھ ہی موئن جودڑو کا شوکیس ہے، جس میں اس دور کی نایاب اشیا رکھی ہوئی ہیں۔

3۔ موئن جودڑو ایک خطہ زمین جس نے انسانوں کی تہذیب اور ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر واقع ہے۔ موئن جودڑو وادی سندھ کی قدیم عظیم تہذیب کا پایہ تخت تھا اور یہ زمانہ قدیم 1500ق۔م تا 2500 ق۔م کے درمیان موجود تھا۔ یہ لاڑکانہ سے 20 کلو میٹر دور اور سکھر سے 80 کلو میٹر جنوب مغرب میں واقع ہے۔


یہاں مکانات دو منزلہ اور تین منزلہ تھے، ان میں زیر زمین پانی کی نکاسی کی نالیاں آج بھی شہری آبادی کے ماہرین کے لیے ایک پرکشش مثال کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مثال کے طور پر نہانے کے تالاب پر بڑے پیمانے پر جب کھدائی کا کام کیاگیا، تو یہاں سے مختلف چیزیں برآمد ہوئیں، جن میں ناچتی ہوئی گڑیا کا مجسمہ، کنگ پریسٹ، مہریں، زیورات، پہیے کی ایجاد مٹی سے بنائے گئے کھلونے اور ہنر مندی، دست کاری کی اشیا ملیں، جو وہاں کے باشندوں کی معاشی اور تہذیبی زندگی کے متعلق ہمیں بہت کچھ بتاتی ہیں۔

ان میں سے کچھ نایاب اشیا اس گیلری میں موجود ہیں۔ سندھ میوزیم کی اس گیلری کی خاص بات یہ ہے کہ تاریخی عجائبات اور نوادرات کو ترتیب وار رکھا گیا ہے۔ انسان جب ان چیزوں کا بغور جائزہ لے رہا ہوتا ہے، تو تاریخ کی دنیا میں کھو سا جاتا ہے۔ سندھ میوزیم بھی سحر انگیز ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک تاریخ اور داستان کا تصور سحر انگیز ہے۔ موئن جودڑو کے بعد کاہو جودڑو کے نوادرات بھی اس گیلری کی زینت ہیں۔

4۔ کاہو جودڑو: کاہو جودڑو میرپور خاص کے شہر کے شمال میں تقریباً ایک کلو میٹر پر واقع ہے۔ ٹیلا سندھی میں دڑو کو کہتے ہیں۔ تقریباً 30 ایکڑ کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ بالائی سطح پر اینٹوں اور ٹوٹے ہوئے برتنوں کے ڈھیر پھیلے ہوئے ہیں۔ 1909ء میں پہلے ہینری کزنس (Henerary Cousens) نے اس کا معائنہ کیا اور وہاں ایک بڑا اسٹوپا دریافت کیا۔

اسٹوپا سنسکرت زبان کا لفظ ہے ۔ یہ ایک ایسا گیند نما خانقاہی مقام ہوتا ہے، جس میں بدھ مت کے پیشوا کی راکھ رکھی جاتی تھی۔ بدھ مت کے ماننے والوں کا عقیدہ ہے کہ اس اسٹوپا میں بدھ مت کے عروج کے دور میں بدھ مت کے پیشوا ''گوتم بدھ'' یا اس کے شاگردوں کے مرنے کے بعد ان کی راکھ دفنائی جاتی تھی۔ کاہو جودڑو کے اسٹوپا کی دیواروں میں مہاتما بدھ کا (Reluef) دیوار کے اندر ابھرے ہوئے مجسمے دریافت ہوئے، جو یوگا کی حالت میں بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کاہو جو دڑو کے نوادرات بھی اس گیلری کے شوکیس کی زینت بنے ہوئے ہیں۔

5۔ گندھارا آرٹ یا بدھ مت تہذیب

گندھارا آرٹ (بدھسٹ آرٹ) بدھ کی زندگی کی کہانی پر مشتمل ہے۔ گندھارا آرٹ مورین حکمران اسٹوکا 273ق۔م تا 233ق۔م کے زمانے میں وجود میں آیا۔ بدھا کی ماں مایا یا مہاما یا کنیزوں کے ساتھ جب اپنی ماں کے پاس جارہی تھی، تو بدھا (Buddha) کی پیدائش ہوئی۔ جدید تحقیق کے مطابق ان کا اصل نام گوتم تھا۔ ان کی شادی کم سنی میں یشودھرا سے کر دی گئی۔ بعض روایات کے مطابق گوتم کی عمر جب 30 برس ہوئی، تو ان میں ذہنی تبدیلی ہوئی اورزندگی کے کچھ تلخ واقعات نے گوتم کو ابدی سکون و مسرت حاصل کرنے کی راغب کیا۔

پھر وہ گھر کو چھوڑ کر جنگل نکل گئے، جہاں انھوں نے چھے سال تک مختلف ریاضتوں میں گزارے، بدھ مت کے ماننے والوں کے مطابق بہت برسوں کی ریاضت کے بعد انھوں نے سچائی کی روشنی حاصل کی جس کو نروان کہتے ہیں۔ گندھارا آرٹ چار ادوار پر مشتمل ہے۔ (1) مورین عہد (2) کشن عہد (3)گپتا عہد (4) پوسٹ گپتا عہد۔ سندھ میوزیم کی اس گیلری میں گندھارا آرٹ یا بدھسٹ آرٹ کے نوادرات دیکھ کر آپ تاریخی دور کا گویا قرب حاصل کرسکتے ہیں۔

اس کے بعد اسلامی دور کا نوادرات سجائے گئے ہیں۔ اسلامی دور 711-12ء میں محمد بن قاسم کی آمد کے بعد شروع ہوا، جب انھوں نے سمندری راستے سے دیبل فتح کیا۔ دیبل سے ٹوٹے ہوئے مٹی کے برتن ملے ان پر زیادہ تر ایرانی آرٹ کے اثرات ہیں اور بہت زیادہ تعداد میں روغنی برتن ملے جن پر پھول پتیوں اور جیومیٹریکل ڈیزائن ملے ہیں۔ یہاں ڈسپلے پر پانی کا برتن رکھاگیا ہے، یہ نیلے اور ہرے رنگ کا مرکب ہے اور گہرا سبز دکھائی دیتا ہے۔ اسلامی دور تیرہویں صدی عیسوی تک شمار کیا جاتا ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ سندھ کی تاریخ نے بھی کروٹیں بدلیں۔ مختلف حکمرانوں نے سندھ پر حکومت کی اور انگریزوں کے خلاف معرکہ آرائی کی۔ سندھ کی زمین نے بہت نشیب و فراز دیکھے ہیں۔

آرکیالوجیکل گیلری کے اندر ہی بالکل سامنے Ethnological Gallery ہے یعنی نسلی طور پر یا گروہی طور پر مشتمل تاریخ ہے۔ اس گیلری میں سندھ کے مختلف حکمرانوں کے ادوار ترتیب وار نمایاں کیے گئے ہیں۔ گیلری کی شروعات میں سب سے پہلے سومر (پیریڈ کو نمایاں کیاگیا ہے یہ دور میوزیم کی معلومات کے مطابق 1050ء تا1350 ء پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ سما دور 1351ء تا 1524ء، مغل دور 1526ء تا 1857ء، کلہوڑو دور 1701ء تا 1783ء، تالپور دور 1783ء تا 1843ء، برطانوی دور 1857ء تا 1947ء۔

Ethnological گیلری میں ان تمام ادوار کے حکمرانوں کی تاریخ بیان کی گئی ہے اور ان کے روایتی ملبوسات، زیورات، دست کاری اور موسیقی کے آلات کو مکمل معلومات کے ساتھ زینت بنایا گیا ہے۔ اس گیلری میں سندھی قومی ثقافتی لباس اور رواج کو خوب صورتی سے پیش کیاگیا ہے۔

اس کے ساتھ سندھ کے قدیم موسیقی کے آلات سروند کماچ ، اک تارا، بانسری اور شاہ عبداللطیف بھٹائی کا موسیقی کا ساز بھی موجود ہے۔ اس گیلری کی خاص بات عورتوں اور بچوں کی دل چسپی کے لیے سندھی ملبوسات اور سندھی گھرانوں میں استعمال ہونے والے بچوں کے کھلونے وغیرہ بھی ہیں۔ جوگی کا لباس اور اس کی استعمال کی مختلف اشیا جیسے بین اورسانپ (مصنوعی) بھی موجود ہیں، سندھ کی روایتی اجرک کے قدیم دور کے ڈیزائن اور اجرک چھپائی کا سامان، دیدہ زیب سندھی دست کاری کا کام بہت لبھاتا ہے۔

'ڈسپلے' پر رکھی گئیں دیگر مختلف گھریلو استعمال کی اشیا میں سندھی کھیس، لنگی، چرخہ، بکری، دنبے اور اونٹ کے بالوں سے بنائی ہوئی اشیا اس کے علاوہ چنری، سندھی رلّی اور زیورات کا سامان موجود ہے۔ اس کے ساتھ ایک روایتی سندھی گوٹھ کا منظر دکھایا گیا ہے۔ اوطاق، کنویں سے پانی بھرنے والی لڑکی، ڈھول بجانے والے، سندھی ثقافت کی قابل ذکر مثالیں ہیں۔ چمڑے سے تیار کی گئیں مختلف اقسام کی اشیا بھی موجود ہیں۔ ظفر کاظمی آرٹ گیلری سابق ڈائریکٹر سندھ میوزیم کے نام ہے۔ اس گیلری میں سندھ کے مختلف پیشوں سے وابستہ ہنر مندوں کو خوب صورت ماڈلوں کے ذریعے اپنے کام میں مصروف دکھایا گیا ہے۔

اس کو ہنر مندوں کی گیلری بھی کہہ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر کمہار، لوہار، کھڈی پر سندھی کپڑے کا کام، کاشی کا کام کرنے والا۔ یہاں اس کے ہنر مند زیادہ تعداد میں ہیں۔ یہ تمام ماڈل ہنرمند حقیقت کا گمان پیدا کرتے ہیں۔

ظفر کاظمی آرٹ گیلری میں مختلف مواقع پر نمائش کا اہتمام کیا جاتا ہے، جس میں پینٹنگ اور تصاویر شامل ہیں، میوزیم کا بیرونی حصہ اوپن ایئر سیکشن کہلاتا ہے، جہاں اوطاق اور تھر کے ہٹ نما گھر موجود ہیں۔ اندرون سندھ کے گھروں میں مہمانوں کے لیے اوطاق بنائی جاتی ہیں۔ تھر کے ہٹ نما گھر مٹی اور گھاس پھونس کے بنے ہوئے ہیں، یہ تھر صحرا کی تہذیب اور ثقافت کو ظاہر کرتے ہیں۔ سیاح اوپن ایئر سیکشن میں گہری دل چسپی لیتے ہیں۔ سندھ میوزیم میں لائبریری اور ریسرچ سیل بھی قائم ہے۔

یہاں انگریزی، اردو، سندھی، فارسی اور عربی زبان میں کتابیں، تاریخی مسوّدہ، آرکیالوجی، کلچرل، آرٹ پر مشتمل کتابیں اس لائبریری کی زینت ہیں۔ یہ لائبریری علامہ داؤد پوتہ لائبریری کے نام سے مشہور ہے۔ ممتاز مرزا آڈیٹوریم بھی سندھ میوزیم میں موجود ہے۔ یہ مکمل طور پر ایئرکنڈیشن آڈیٹوریم ہے۔ تقریباً 350 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے، یہاں ثقافتی سرگرمیاں، سیمینار، فوک میوزیکل اور ایجوکیشنل پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں اس کے علاوہ یہاں سندھ کی روایتی موسیقی کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ یہ آڈیٹوریم سندھ کی مشہور ادبی شخصیت ممتاز مرزا مرحوم کے نام سے منسوب ہے۔ یہ عجائب گھر سندھ کی ثقافت کے حوالے سے بہت خوب صورت دل کش مقام ہے، جو سیّاحوں کو بہترین تفریح اور معلومات فراہم کرتا ہے۔

 

 
Load Next Story