آپ لوگ چاہتے کیا ہیں
پوری افغان فوج آج طالبان کے ہاتھوں‘ مکمل طور پر مفلوج ہو رہی ہے
چند برس پہلے سرکاری سطح پر الجزائر جانے کا اتفاق ہوا۔ شمالی افریقہ میں واقع یہ ملک کافی عرصہ تک فرانس کی کالونی رہاہے۔ وہاں فرانسیسی زبان عمومی سطح پر بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ یہ ایک مکمل سرکاری طرز کا دورہ تھا۔ قاعدے اور ضوابط کے مطابق وہاں کی وزارت خارجہ نے تمام وفد کو دوپہر کے کھانے پر مدعوکیا۔
یہ حد درجہ قرینے اور شائستگی سے بھرپور ضیافت تھی۔ الجزائر کے اعلیٰ افسران جن میں مرد اور خواتین کی تعداد تقریباً برابر تھی' ہم سے کھانے کے دوران سوال و جواب کر رہے تھے۔ یہ بالکل عام سی گفتگو تھی۔ جو موسم سے شروع ہوتی ہے اور پھر مقامی لوگوں اور ثقافت کی تعریف پر ختم ہو جاتی ہے۔
سرکاری طرز کا بے جان مکالمہ جاری تھا۔ اچانک وہاں کے ایک انتہائی سینئر سفارت کار نے پوچھا کہ آپ کی اور ہماری کیا دشمنی ہے۔ ایسے لگا کہ شاید میں نے کچھ غلط سن لیا ۔ مگر اس سفید بالوں والے شخص نے دوبارہ انتہائی تمیز سے پوچھا کہ آپ کے ملک اور ہمارے ملک کے درمیان کیا رقابت ہے' کیا دشمنی ہے۔ ہم سب حیران رہ گئے۔
کیونکہ ایسی کوئی بات کم از کم ذہن کے ہزارویں حصے میں بھی نہیں تھی۔ بہت احتیاط سے پوچھا کہ ہم لوگ آپ کے سوال کو سمجھ نہیں پائے ۔ پاکستان اور الجزائر تو ایک دوسرے سے ہزاروں میل دور ہیں۔ ہماری زبان' ثقافت' لباس' سماجی روایات ایک دوسرے سے حد درجہ مختلف ہیں۔ ہماری آپ کے ملک سے کیا اور کیونکر دشمنی ہو سکتی ہے۔ یاد پڑتا ہے کہ وہ صاحب' اپنے ملک کے ڈپٹی وزیرخارجہ تھے۔ لنچ کا اختتام ہو رہا تھا۔ اس کے بعد کافی کا دور دورہ تھا۔
اب اس شخص نے انتہائی بے تکلفی سے کہا کہ الجزائرکے بڑی تعداد میں مذہبی طالب علم' پاکستان سے دینی تعلیم لے کر آتے ہیں۔ وہ تمام کے تمام ہمارے ملک میں اپنے عقائد کے حساب سے خونی انقلاب لانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ جب ہماری حکومت نے اس مسئلہ کو گہرائی سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں دو یا تین ایسے مدارس ہیں جو ہمارے طلبا ء کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ ایک انقلاب لانے کی تربیت بھی دیتے ہیں۔ اس شخص نے پورے وفد کو ان مدارس کا نام بھی بتایا۔ میں صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ ہماری بربادی میں آپ کی کیا دلچسپی ہے ۔ آپ بالٓاخر چاہتے ہیں ؟موقعہ کی نزاکت کے مطابق طالب علم نے گزارش کی کہ آپ کو یہ معاملہ سرکاری سطح پر ہماری حکومت سے اٹھانا چاہیے۔
کیونکہ یہ تو حد درجہ حساس معاملہ ہے اور اس وفد کے اغراض و مقاصد سے مکمل طور پر بالاتر ہے۔ اس سفارت کار نے گہری سانس لے کر کہا ہم نے یہ معاملہ آپ کی حکومت کی اعلیٰ ترین سطح پر کئی بار اٹھایا تھا' مگر ہمیں کوئی معقول جواب نہیں مل سکا۔ اس تکلیف دہ صورت حال پر قابو پانے کے لیے ہم نے اپنے طالب علموں کو مذہبی تعلیم کے لیے پاکستان بھیجنے پر پابندی لگا دی ہے اور ہماری فوج ان شدت پسندوں کا مقابلہ کر رہی ہے۔ گفتگو خیر ختم ہو گئی۔ یہ واقعہ آج سے دو دہائیاں پہلے کا تھا۔ اس وقت وہ شخص ' پاکستان میں الجزائر کا سفیر تھا۔ اور اسے ہمارے سیاسی چپقلش' فرقہ واریت اورجہادی معاملات کا بھرپور ادراک تھا۔اس اثناء میں مرکزی حکومت شاید بے نظیر بھٹو صاحبہ کی تھی۔
پورے واقعہ کو مکمل طور پر فراموش کر چکا تھا۔ مگر دو تین دن سے میرے ذہن میں یہ تمام گفتگو ایک اور زاویہ سے بار بار گونج رہی ہے۔ حوالہ افغانستان ' طالبان اور وہاں کے مقامی حالات کا ہے۔ کسی تاریخی بحث میں جائے بغیر عرض کرونگا کہ افغانستان وہ بدقسمت ملک ہے جو کم از کم چالیس پنتالیس برس سے جنگ کی آگ میں بری طرح جھلس رہا ہے۔ روسی مداخلت 'خانہ جنگی' مجاہدین کا قبضہ'امریکا کاخوفناک ترین حملہ' سب کچھ ' ہمارے سامنے ہے۔بیس برس میں امریکا نے دو ٹریلین ڈالر اس جنگ میں جھونک دیے ہیں۔
اسی بلین ڈالر سے افغان مقامی فوج تیار کی۔ مگربالآخر ملا کیا۔ پوری افغان فوج آج طالبان کے ہاتھوں' مکمل طور پر مفلوج ہو رہی ہے۔ چلیے یہاں تک تو بات سمجھ میںآتی ہے ۔ اس وقت ہماری حکومت اور ریاستی پالیسی کہ ہم اس خانہ جنگی میں بالکل فریق نہیں بنیں گے، حد درجہ دانشمندی پر مشتمل ہے۔ مگر میرا نکتہ اس سے بالکل برعکس ہے۔ چند دنوں سے ہمارے چند دانشور اور سوشل میڈیا پر لکھنے والے یہ فرما رہے ہیں کہ ہمارے ملک یعنی پاکستان میں اب تبدیلی 'ووٹ کے علاوہ دوسرے کئی راستوں سے آ سکتی ہے۔
دوسرے الفاظ میں وہ اصحاب' پاکستان میں الیکشن کی بجائے ایک مذہبی خونی انقلاب کی طرفداری فرما رہے ہیں۔ کھل کر تو نہیں کہہ سکتے ۔ مگر اس کام کے لیے انہو ں نے چند ایسی مذہبی جماعتوں کی حمایت کی طرف اشارہ کیا ہے جن پر حکومت پاکستان نے پابندی لگا رکھی ہے۔ افغانستان میں کیا ہوتا ہے اسے مکمل طور پر ہمسایہ ملک کا داخلی مسئلہ سمجھتاہوں ۔ میرا اور ہمارے ملک کے شہریوں کا اس سے بالواسطہ کوئی لینا دینا نہیں۔ مگر اس عجیب وغریب سوچ یا فکر کو ترویج دینا کہ ہمارے ملک میں اسی طرز کا انقلاب آنا چاہیے ' جیسے افغانستان میں ہے' یہ حد درجہ قابل گرفت اور قابل مذمت عمل ہے۔ اس کی ریاستی سطح پر بیخ کنی کرنی حد درجہ ضروری ہے۔
یاد کرواتا چلوں کہ پاکستان کا وجود ہی ایک جمہوری جدوجہد کے نتیجہ میں عمل پذیر ہوا تھا۔ آزادی کے حصول کی جدوجہد بالآخر ووٹ کی طاقت پر اختتام پذیر ہونی تھی۔ قائداعظم نے پوری زندگی سیاسی جدوجہد کی۔ انھوںنے ایک بار بھی مذہبی شدت پسندی کی ترویج کی طرف اشارہ نہیں کیا۔ اس عظیم رہنما نے فرقہ واریت سے لا تعلقی ' ریاست اور مذہب کی تفریق' اقلیتوں اور خواتین کے حقوق جیسے عظیم فلسفہ پر ایک پرامن جدوجہد کی۔ مسلمانوں کی اکثر مذہبی جماعتوں نے ان کا مذاق اڑایا ۔ یہی مذہبی جماعتیں جو پاکستان بننے کے عمل میں بھرپور رکاوٹ تھیں۔ آج پھر 'مختلف طرح سے سرگرم عمل ہیں۔ میرا بنیادی سوال ہے کہ قائداعظم نے ایک فلاحی اسلامی ریاست بنائی تھی۔ ان کی لا تعداد تقاریر اس نکتے کی وضاحت کرتی ہیں۔
ایک جگہ بھی انھوں نے برصغیر یا ہمارے ملک میں خونی انقلاب لانے کی بات نہیں کی۔ قائد حددرجہ اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان تھے۔ان کی دانائی اور دور رس سوچ ان کی سب سے بڑی طاقت تھی۔ مگر ہمارے چند رہنماؤں نے ان کی فکر کو عملی طور پر برباد کرنے کی کوشش کی اور معذرت کے ساتھ' وہ مکمل طور پر کامیاب ٹھہرے۔ ہمارے سیاسی ' سماجی اور مذہبی قائدین کی اکثریت نے قائد کے ہر حکم کی بھرپور نفی کی۔ چند لوگوں نے ذاتی مقاصد کے تحت شدت پسندی اور تنگ نظری کو ریاستی سطح پر فروغ دیا۔ سب جانتے ہیں کہ ضیاء الحق اور پرویز مشرف ' ہمیں کس گڑھے میں دھکیل گئے ہیں۔
صرف وہ نہیں' ان کے ساتھ پورا ایک فکری لاؤ لشکر ہے' جو ان کے خیالات اور عمل کی حفاظت کر رہا ہے۔ یہ لوگ آج پاکستان میں ایک شدت پسند انقلاب کی بات کر رہے ہیں۔ الیکشن اور ووٹ کی حرمت کی دلیل سے روگردانی کر رہے ہیں۔ مگر انھیں جان لینا چاہیے کہ ہم افغانستان نہیں ہیں۔ ہم اپنے خوبصورت ملک کو قطعاً مزید برباد نہیں کر سکتے اور نہ کرنے دینگے۔ میرا ان تمام اصحاب اور ان کی سوچ کو ماننے والوں سے سوال ہے کہ کیا ان کا رول ماڈل افغانستان میں جنگ وجدل اور بدامنی ہے؟ کیا وہ اسلام کے ارفع اصول جن میں رواداری ' محبت' انصاف اور مواخات ہے' ان سے بھی گریز کر رہے ہیں۔ ذرا بتایئے ۔ بلکہ کھل کر بتائیے کہ آپ لوگ چاہتے کیا ہیں؟
یہ حد درجہ قرینے اور شائستگی سے بھرپور ضیافت تھی۔ الجزائر کے اعلیٰ افسران جن میں مرد اور خواتین کی تعداد تقریباً برابر تھی' ہم سے کھانے کے دوران سوال و جواب کر رہے تھے۔ یہ بالکل عام سی گفتگو تھی۔ جو موسم سے شروع ہوتی ہے اور پھر مقامی لوگوں اور ثقافت کی تعریف پر ختم ہو جاتی ہے۔
سرکاری طرز کا بے جان مکالمہ جاری تھا۔ اچانک وہاں کے ایک انتہائی سینئر سفارت کار نے پوچھا کہ آپ کی اور ہماری کیا دشمنی ہے۔ ایسے لگا کہ شاید میں نے کچھ غلط سن لیا ۔ مگر اس سفید بالوں والے شخص نے دوبارہ انتہائی تمیز سے پوچھا کہ آپ کے ملک اور ہمارے ملک کے درمیان کیا رقابت ہے' کیا دشمنی ہے۔ ہم سب حیران رہ گئے۔
کیونکہ ایسی کوئی بات کم از کم ذہن کے ہزارویں حصے میں بھی نہیں تھی۔ بہت احتیاط سے پوچھا کہ ہم لوگ آپ کے سوال کو سمجھ نہیں پائے ۔ پاکستان اور الجزائر تو ایک دوسرے سے ہزاروں میل دور ہیں۔ ہماری زبان' ثقافت' لباس' سماجی روایات ایک دوسرے سے حد درجہ مختلف ہیں۔ ہماری آپ کے ملک سے کیا اور کیونکر دشمنی ہو سکتی ہے۔ یاد پڑتا ہے کہ وہ صاحب' اپنے ملک کے ڈپٹی وزیرخارجہ تھے۔ لنچ کا اختتام ہو رہا تھا۔ اس کے بعد کافی کا دور دورہ تھا۔
اب اس شخص نے انتہائی بے تکلفی سے کہا کہ الجزائرکے بڑی تعداد میں مذہبی طالب علم' پاکستان سے دینی تعلیم لے کر آتے ہیں۔ وہ تمام کے تمام ہمارے ملک میں اپنے عقائد کے حساب سے خونی انقلاب لانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ جب ہماری حکومت نے اس مسئلہ کو گہرائی سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں دو یا تین ایسے مدارس ہیں جو ہمارے طلبا ء کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ ایک انقلاب لانے کی تربیت بھی دیتے ہیں۔ اس شخص نے پورے وفد کو ان مدارس کا نام بھی بتایا۔ میں صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ ہماری بربادی میں آپ کی کیا دلچسپی ہے ۔ آپ بالٓاخر چاہتے ہیں ؟موقعہ کی نزاکت کے مطابق طالب علم نے گزارش کی کہ آپ کو یہ معاملہ سرکاری سطح پر ہماری حکومت سے اٹھانا چاہیے۔
کیونکہ یہ تو حد درجہ حساس معاملہ ہے اور اس وفد کے اغراض و مقاصد سے مکمل طور پر بالاتر ہے۔ اس سفارت کار نے گہری سانس لے کر کہا ہم نے یہ معاملہ آپ کی حکومت کی اعلیٰ ترین سطح پر کئی بار اٹھایا تھا' مگر ہمیں کوئی معقول جواب نہیں مل سکا۔ اس تکلیف دہ صورت حال پر قابو پانے کے لیے ہم نے اپنے طالب علموں کو مذہبی تعلیم کے لیے پاکستان بھیجنے پر پابندی لگا دی ہے اور ہماری فوج ان شدت پسندوں کا مقابلہ کر رہی ہے۔ گفتگو خیر ختم ہو گئی۔ یہ واقعہ آج سے دو دہائیاں پہلے کا تھا۔ اس وقت وہ شخص ' پاکستان میں الجزائر کا سفیر تھا۔ اور اسے ہمارے سیاسی چپقلش' فرقہ واریت اورجہادی معاملات کا بھرپور ادراک تھا۔اس اثناء میں مرکزی حکومت شاید بے نظیر بھٹو صاحبہ کی تھی۔
پورے واقعہ کو مکمل طور پر فراموش کر چکا تھا۔ مگر دو تین دن سے میرے ذہن میں یہ تمام گفتگو ایک اور زاویہ سے بار بار گونج رہی ہے۔ حوالہ افغانستان ' طالبان اور وہاں کے مقامی حالات کا ہے۔ کسی تاریخی بحث میں جائے بغیر عرض کرونگا کہ افغانستان وہ بدقسمت ملک ہے جو کم از کم چالیس پنتالیس برس سے جنگ کی آگ میں بری طرح جھلس رہا ہے۔ روسی مداخلت 'خانہ جنگی' مجاہدین کا قبضہ'امریکا کاخوفناک ترین حملہ' سب کچھ ' ہمارے سامنے ہے۔بیس برس میں امریکا نے دو ٹریلین ڈالر اس جنگ میں جھونک دیے ہیں۔
اسی بلین ڈالر سے افغان مقامی فوج تیار کی۔ مگربالآخر ملا کیا۔ پوری افغان فوج آج طالبان کے ہاتھوں' مکمل طور پر مفلوج ہو رہی ہے۔ چلیے یہاں تک تو بات سمجھ میںآتی ہے ۔ اس وقت ہماری حکومت اور ریاستی پالیسی کہ ہم اس خانہ جنگی میں بالکل فریق نہیں بنیں گے، حد درجہ دانشمندی پر مشتمل ہے۔ مگر میرا نکتہ اس سے بالکل برعکس ہے۔ چند دنوں سے ہمارے چند دانشور اور سوشل میڈیا پر لکھنے والے یہ فرما رہے ہیں کہ ہمارے ملک یعنی پاکستان میں اب تبدیلی 'ووٹ کے علاوہ دوسرے کئی راستوں سے آ سکتی ہے۔
دوسرے الفاظ میں وہ اصحاب' پاکستان میں الیکشن کی بجائے ایک مذہبی خونی انقلاب کی طرفداری فرما رہے ہیں۔ کھل کر تو نہیں کہہ سکتے ۔ مگر اس کام کے لیے انہو ں نے چند ایسی مذہبی جماعتوں کی حمایت کی طرف اشارہ کیا ہے جن پر حکومت پاکستان نے پابندی لگا رکھی ہے۔ افغانستان میں کیا ہوتا ہے اسے مکمل طور پر ہمسایہ ملک کا داخلی مسئلہ سمجھتاہوں ۔ میرا اور ہمارے ملک کے شہریوں کا اس سے بالواسطہ کوئی لینا دینا نہیں۔ مگر اس عجیب وغریب سوچ یا فکر کو ترویج دینا کہ ہمارے ملک میں اسی طرز کا انقلاب آنا چاہیے ' جیسے افغانستان میں ہے' یہ حد درجہ قابل گرفت اور قابل مذمت عمل ہے۔ اس کی ریاستی سطح پر بیخ کنی کرنی حد درجہ ضروری ہے۔
یاد کرواتا چلوں کہ پاکستان کا وجود ہی ایک جمہوری جدوجہد کے نتیجہ میں عمل پذیر ہوا تھا۔ آزادی کے حصول کی جدوجہد بالآخر ووٹ کی طاقت پر اختتام پذیر ہونی تھی۔ قائداعظم نے پوری زندگی سیاسی جدوجہد کی۔ انھوںنے ایک بار بھی مذہبی شدت پسندی کی ترویج کی طرف اشارہ نہیں کیا۔ اس عظیم رہنما نے فرقہ واریت سے لا تعلقی ' ریاست اور مذہب کی تفریق' اقلیتوں اور خواتین کے حقوق جیسے عظیم فلسفہ پر ایک پرامن جدوجہد کی۔ مسلمانوں کی اکثر مذہبی جماعتوں نے ان کا مذاق اڑایا ۔ یہی مذہبی جماعتیں جو پاکستان بننے کے عمل میں بھرپور رکاوٹ تھیں۔ آج پھر 'مختلف طرح سے سرگرم عمل ہیں۔ میرا بنیادی سوال ہے کہ قائداعظم نے ایک فلاحی اسلامی ریاست بنائی تھی۔ ان کی لا تعداد تقاریر اس نکتے کی وضاحت کرتی ہیں۔
ایک جگہ بھی انھوں نے برصغیر یا ہمارے ملک میں خونی انقلاب لانے کی بات نہیں کی۔ قائد حددرجہ اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان تھے۔ان کی دانائی اور دور رس سوچ ان کی سب سے بڑی طاقت تھی۔ مگر ہمارے چند رہنماؤں نے ان کی فکر کو عملی طور پر برباد کرنے کی کوشش کی اور معذرت کے ساتھ' وہ مکمل طور پر کامیاب ٹھہرے۔ ہمارے سیاسی ' سماجی اور مذہبی قائدین کی اکثریت نے قائد کے ہر حکم کی بھرپور نفی کی۔ چند لوگوں نے ذاتی مقاصد کے تحت شدت پسندی اور تنگ نظری کو ریاستی سطح پر فروغ دیا۔ سب جانتے ہیں کہ ضیاء الحق اور پرویز مشرف ' ہمیں کس گڑھے میں دھکیل گئے ہیں۔
صرف وہ نہیں' ان کے ساتھ پورا ایک فکری لاؤ لشکر ہے' جو ان کے خیالات اور عمل کی حفاظت کر رہا ہے۔ یہ لوگ آج پاکستان میں ایک شدت پسند انقلاب کی بات کر رہے ہیں۔ الیکشن اور ووٹ کی حرمت کی دلیل سے روگردانی کر رہے ہیں۔ مگر انھیں جان لینا چاہیے کہ ہم افغانستان نہیں ہیں۔ ہم اپنے خوبصورت ملک کو قطعاً مزید برباد نہیں کر سکتے اور نہ کرنے دینگے۔ میرا ان تمام اصحاب اور ان کی سوچ کو ماننے والوں سے سوال ہے کہ کیا ان کا رول ماڈل افغانستان میں جنگ وجدل اور بدامنی ہے؟ کیا وہ اسلام کے ارفع اصول جن میں رواداری ' محبت' انصاف اور مواخات ہے' ان سے بھی گریز کر رہے ہیں۔ ذرا بتایئے ۔ بلکہ کھل کر بتائیے کہ آپ لوگ چاہتے کیا ہیں؟