بڑے بے آبرو ہوکر

اشرف غنی کی طرح غیر ملکی افغانستان سے تیزی سے فرار ہورہے ہیں، کابل ایئرپورٹ پر تل دھرنے کی جگہ نہیں ہے


اشرف غنی افغانستان کو طالبان کے حوالے کرکے ملک سے فرار ہوگئے۔ (فوٹو: فائل)

طالبان نے افغانستان پر قبضہ کرلیا ہے اور سب سے بڑا شہر اور دارالحکومت کابل بھی طالبان کے زیر نگیں آچکا ہے۔ وہاں سے غیر ملکیوں کے انخلا کا سلسلہ انتہائی تیز ہوگیا ہے اور دھڑا دھڑ غیر ملکی اپنے اپنے ممالک کی طرف روانہ ہورہے ہیں، بلکہ صرف غیر ملکی ہی نہیں ملکی (افغانی) بھی افغانستان کو چھوڑ کر فرار ہورہے ہیں جن میں سرفہرست افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی ہیں۔

اشرف غنی کئی سال تک افغانستان کے عہدہ صدارت پر براجمان رہے اور اپنا بینک بیلنس بڑھاتے رہے۔ انہوں نے افغانستان کےلیے کچھ بھی نہیں کیا، بلکہ امریکا کی پشت پناہی میں خود کو افغانستان کا حکمران تصور کرتے رہے۔ جن کی حکومت کی کوئی حیثیت نہیں تھی، سب کچھ تو امریکا کرتا تھا یا طالبان۔ ان کی حکومت تو تین میں نہ تیرہ میں تھی۔ وہ افغان ہوتے ہوئے افغانیوں کے دشمن امریکا کا ساتھ دے رہے تھے، جس کی وجہ سے اصل افغان انہیں تسلیم نہیں کرتے تھے اور دوسری طرف چونکہ وہ امریکی نہیں ہیں اور نہ ہی نیٹو کےلیے ان کی کوئی خدمات ہیں، اس لیے امریکیوں کی نظر میں بھی ان کی اہمیت نہیں تھی۔ جس کا لازمی نتیجہ ذلت و رسوائی کے ساتھ فرار کے علاوہ کیا ہوسکتا تھا؟ جس پر ان کے اپنے ساتھی بھی لعن طعن کررہے ہیں۔

پاکستان افغانستان کا ہمسایہ اور خطے کا سب سے اہم ملک ہے جس کی وجہ سے اردگرد ہونے والے واقعات کا اثر پاکستان پر ضرور ہوتا ہے۔ خاص طور پر افغانستان میں ہونے والی تبدیلیوں سے پاکستان براہ راست متاثر ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان افغان جنگ میں شریک رہا اور پاکستانی حکمرانوں نے امریکا کا ساتھ دیتے ہوئے طالبان حکومت کا خاتمہ کیا اور امریکا کو اڈے دینے کے ساتھ ساتھ نیٹو سپلائی کےلیے زمینی راستہ بھی فراہم کیا۔ جس کے ناگزیر نتیجے کے طور پر پاکستان اس جنگ سے بہت متاثر ہوا اور بے تحاشا جانی، مالی و عسکری نقصان اٹھایا۔

اب افغانستان کی صورتحال تیزی سے تبدیل ہورہی ہے۔ ہر لمحے بے یقینی بڑھ رہی ہے، جس کی وجہ سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ اگلے لمحے میں کیا ہوگا۔ لیکن اب فی الحال یہ تو صاف نظر آرہا ہے کہ طالبان افغانستان میں چھا چکے ہیں اور صرف افغانستان ہی نہیں پوری دنیا میں طالبان کا ہی ڈنکا بج رہا ہے۔

اس صورتحال میں اکثر پاکستانی تشویش میں مبتلا ہیں کہ طالبان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کیسے رہیں گے اور کیا طالبان حکومت پاکستان کے حق میں بہتر ثابت ہوگی یا گزشتہ نام نہاد جمہوری حکومتیں بہتر تھیں؟

اس سلسلے میں یہ بات تو ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ کسی بھی طرح کے تبصرے، تجزیے اور پیش گوئی سے پہلے تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ دونوں حکومتوں کے کردار کا جائزہ لینا چاہیے اور پاکستان کے ساتھ تعلقات سے متعلق دونوں طرح کی حکومت کا موازنہ کرنا چاہیے، نتیجہ خود ہی سامنے آجائے گا۔

اگر ہم اس تاریخ کا مختصر سا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ طالبان نے تقریباً چھ سال تک افغانستان پر حکومت کی۔ اس دور حکومت میں انہوں نے افغانستان میں اسلامی نظام کا عملاً نفاذ کیا، جس کی بدولت نہ صرف افغانستان بلکہ ہمسایہ ممالک میں بھی امن قائم ہوگیا، بالخصوص پاکستان میں بھی اس کے اثرات دیکھے گئے۔ اس سنہرے دور میں افغانستان کے پاکستان کے ساتھ بہترین تعلقات استوار رہے۔ ہماری مغربی سرحد محفوظ تھی، یہاں دہشتگردوں کی نقل و حرکت کے بجائے پرامن شہریوں کی نقل و حرکت تھی۔ سرحد بالکل کھلی ہونے کے باوجود وہاں سے پاکستان کو کوئی خطرہ نہ تھا۔ طالبان پاکستان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اس کا احترام بھی کرتے تھے، جبکہ پاکستانی بھی طالبان کی حکومت کو پسند کرتے تھے۔ طالبان نے کبھی پاکستان کو نقصان نہیں پہنچایا بلکہ پاکستان دشمن ریاستوں بھارت وغیرہ کے ساتھ دوستانہ مراسم بھی قائم نہیں کیے۔ جیسے ہی افغانستان سے طالبان کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو افغانستان پاکستان کےلیے وبال جان بن گیا۔

طالبان کے بعد افغانستان میں قائم ہونے والی تمام حکومتیں امریکا اور بھارت کی فرمانبردار رہیں اور پاکستان کے لیے خطرہ بنی رہیں۔ ہماری تقریباً چوبیس سو کلومیٹر طویل سرحد غیر محفوظ ہوگئی اور وہاں سے دہشتگردوں کی آزادانہ نقل و حرکت جاری رہی۔ بالآخر پاکستانی فوج اس نقل و حرکت کو روکنے کےلیے طویل ترین خاردار باڑ لگانے پر مجبور ہوگئی۔ باڑ لگانے کے دوران بھی افغانستان کی طرف سے کئی بار افواج پاکستان کے سپاہیوں پر حملے ہوئے اور انہیں اس کام سے روکنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ جس کے نتیجے میں ہمارے بہت سے جوان جام شہادت نوش کرگئے، لیکن فوج نے یہ کام جاری رکھا جو بہت ضروری تھا۔

طالبان کے بعد کی ان حکومتوں نے بھارت کو افغانستان میں اپنے قدم جمانے کا بھرپور موقع دیا جس نے افغانستان میں جگہ جگہ اپنے قونصل خانے کھولے، جن کی آڑ میں اس نے دہشتگردی کو فروغ دیا اور پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا۔ طالبان نے افغانستان میں اپنے قدم جماتے ہی بھارت کو مار بھگایا اور بھارت اپنے سفارتخانے اور قونصل خانے بند کرنے پر مجبور ہوگیا۔ اب رہے سہے بھارتی بھی اپنی تمام تر سرمایہ کاری چھوڑ کر بھارت کی طرف روانہ ہونے کےلیے فکرمند ہیں۔

افغانستان میں نیٹو افواج اور کچھ غیر نیٹو ممالک جیسے بھارت وغیرہ نے اپنے تئیں طالبان کو دبانے کی بہت کوشش کی۔ لیکن طالبان کو دبایا نہ جاسکا بلکہ انہیں جتنا دبانے کی کوشش کی اتنا ہی وہ ابھرتے گئے۔ دنیا حیران ہے کہ آخر ان کے پاس ایسی کون سی طاقت ہے کہ وہ جہاں کا رخ کرتے ہیں، فوجیں ان کے سامنے ہتھیار ڈال دیتی ہیں اور وہ باآسانی شہروں اور صوبوں پر قبضے کرتے ہوئے بالآخر کابل بھی پہنچ گئے اور وہاں موجود اشرف غنی اور دیگر غداران وطن اور غیرملکیوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ طالبان اتنی سرعت اور آسانی کے ساتھ قابل پر قبضہ کرلیں گے۔ خود طالبان رہنما بھی کہتے دکھائی دے رہے ہیں کہ گمان بھی نہ تھا کہ ہمیں اتنی جلد اور آسانی سے کامیابی حاصل ہوجائے گی۔

دوسری طرف غیر ملکی افغانستان سے تیزی سے فرار ہورہے ہیں۔ کابل ایئرپورٹ پر تل دھرنے کی جگہ نہیں ہے، غیر ملکی سفارتکاروں اور عملے کا رش ہے۔ جو پوری دنیا کی افواج اور اسلحہ لے کر فاتحانہ انداز میں افغانستان میں داخل ہوئے تھے، آج وہ اپنے تمام تر اسلحے اور افواج کے ساتھ فرار ہورہے ہیں اور طالبان کی منتیں کررہے ہیں کہ ان کے سفارتخانوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔

سابق کٹھ پتلی صدر اشرف غنی تو پہلے ہی فرار ہوچکے ہیں جو خود کو افغانستان کا مالک سمجھنے لگے تھے اور امریکا کی خوشنودی کےلیے طالبان کے خلاف سرگرم رہتے تھے۔ اب وہی جنہیں وہ اپنا دوست تصور کرتے تھے انہیں برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ جبکہ غیر ملکی افواج اور طالبان مخالف عناصر کو بھاگنے کا راستہ نہیں مل رہا۔

اشرف غنی نے فرار ہونے کے بعد سبکی کو مٹانے کےلیے یہ بیان داغ دیا کہ افغانستان کو خون ریزی سے بچانے کےلیے ملک چھوڑا۔ حالانکہ ان کے افغانستان میں ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑنا تھا، بس بزدلی تھی اور طالبان کا خوف سوار تھا، جیسے باقی تمام فرار ہونے والوں پر خوف چھایا ہوا ہے۔ حالانکہ طالبان یقین دہانیاں بھی کرارہے ہیں کہ کسی کے خلاف انتقامی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ اس کے باوجود سب کو ایک دوسرے سے پہلے فرار ہونے کی فکر لاحق ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں