افغانستان میں غیر یقینی اور پاکستان

پاکستان میں سیاسی اتفاق رائے ہو اور پوری قوم مل کر آنے والے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکے۔

پاکستان میں سیاسی اتفاق رائے ہو اور پوری قوم مل کر آنے والے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکے۔ فوٹو: فائل

افغان طالبان نے کابل میں داخل ہوکر صدارتی محل سمیت اہم مقامات کی سیکیورٹی خود سنبھال لی ہے ، افغان حکومت اور اتحادی افواج کے ساتھ کام کرنے والے ملازمین کے لیے عام معافی کا اعلان کیا گیا ہے ۔

سابق افغان صدراشرف غنی ملک سے فرار ہوگئے ہیں ،کئی ممالک نے افغانستان میں اپنے سفارتخانے بند کردیے جب کہ افغانستان سے وسیع پیمانے پر انخلا کا عمل شروع ہوچکا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے افغانستان کی صورتحال پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کرلیا ہے،جس میں وفاقی وزراء اور عسکری حکام بھی شرکت کریںگے اور افغانستان کی نئی صورتحال پر غور کیا جائے گا،دوسری جانب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغانستان میں طالبان کے قبضے سے پیدا ہونے والی صورتحال پر تبادلہ خیال کے لیے کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا ہے، ماہ اگست کے لیے سلامتی کونسل کی صدارت بھارت کے پاس ہے۔

افغانستان کی تازہ ترین صورتحال کے تناظر میں اگر حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو پاکستان کے لیے سنگین خطرات کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کے لیے جتنی پر خلوص کوششیں کی ہیں ،وہ پوری دنیا کے سامنے ہیں، لیکن بجائے ان کوششوں کا اعتراف کرنے کے امریکا اور بھارت افغان امن عمل میں رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں۔

بلاشبہ پاکستان بطور ریاست اب بھی افغانستان میں قیام امن کے لیے کوشاں ہے جب کہ خطے کے دیگر امن پسند ممالک اور وسط ایشیائی ریاستیں بھی افغانستان میں قیام امن کی خواہاں ہیں لیکن افغانستان کو میدان جنگ بنانے والے ممالک ان مخلصانہ کوششوں میں اپنے مفادات کے لیے رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں۔

امریکا تو بالآخر یہ کہتے ہوئے نکل گیا کہ افغانستان کا مستقبل افغان خود طے کریں گے۔ اس وقت ہر کوئی اسی شش و پنج میں ہے کہ افغانستان کے حالات کس کروٹ بیٹھیں گے اور اس کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ ان غیر یقینی حالات میں پاکستان کی پالیسی قابلِ تعریف ہے۔

ہماری حکومتی قیادت متفق ہے کہ پاکستان اب کسی صورت افغان جنگ کا حصہ نہیں بنے گا۔ ہم نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ لیا ہے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم نے 75 ہزار جانیں گنوائیں اور 123 ارب ڈالر کا نقصان برداشت کیا ہے ۔نائن الیون کے بعد امریکا اور اتحادیوں نے طالبان کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے جنگ کا آغاز کر دیا تھا۔

اس جنگ کا مشن الائیڈ فورسز کے ذریعے دہشتگردی کا خاتمہ کرتے ہوئے نئے نظام اور انفرااسٹرکچر کے ساتھ افغانستان کو ترقی کے دھارے میں واپس لانا تھا' لیکن چند ہی سالوں میں یہ جنگ اپنا مقصد کھو بیٹھی۔ اس بیس سالہ جنگ سے افغانستان میں نہ معاشی اور نہ سماجی ہی تبدیلی آ سکی۔ سالہا سال خونریزی جاری رہی' دو لاکھ 41 ہزار جانیں گئیں جن میں 71 ہزار سویلین شامل ہیں۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے اپنے فیصلے کا ایک بار پھر دفاع کرتے ہوئے کہا کہ مجھ سمیت 4 امریکی صدور کے دور میں افغانستان میں امریکی افواج موجود رہی ہیں تاہم اب امریکا کے پانچویں صدر تک یہ جنگ منتقل نہیں کروں گا اور نہ ہونے دوں گا۔ افغانستان اور پاکستان کے ساتھ کیا ہورہا ہے یا کیا ہوگا۔

اس بات کا اعتراف سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن بھی امریکی کانگریس میں کرچکی ہیں کہ جن لوگوں سے لڑائی کے لیے امریکی اور اتحادی افواج 2001میں افغان سرزمین پر آئیں ،یہ وہی لوگ تھے جنھیں انھوں نے ہی تیار کیا تھا اور اپنے مقاصد کے حصول اور مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کرنے کے بعد انھیں چھوڑ دیا تھا۔


افغانستان کے ساتھ 1640 میل طویل سرحد ہونے کے باعث وہاں کے تمام حالات کا اثر پاکستان پر پڑتا ہے، جب روسی تسلط کے خلاف جنگ شروع ہوئی تو 40 لاکھ افغان شہریوں نے پاکستان کا رخ کیا اور یہ مہاجرین پاکستان کے ہر علاقے میں آباد ہوگئے۔ یہاں انھوں نے بلا روک ٹوک کاروبار شروع کر لیے ،مہاجرین کا ایک بہت بڑا طبقہ ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے منسلک ہو گیا۔

ان کی یہاں دوسری اور تیسری نسل پل کا جوان ہو گئی،صورتحال اس قدر بدلی کہ بہت سے افغان مہاجرین نے کسی نہ کسی طرح پاکستانی شناختی کارڈز اور پاسپورٹ حاصل کرلیے۔ دوسری طرف افغان مہاجرین کی ایک تعداد مالی بوجھ بننے کے ساتھ پاکستان میں اخلاقی' معاشی اور معاشرتی مسائل پیدا کرنے کی ذمے دار بھی ٹھہری۔اس وقت طویل ترین سرحد پرباڑ لگانے کے باوجود پاکستان کو افغانستان سے داخلی و خارجی خطرات بدستور لاحق ہیں' افغانستان میں دہشت گردوں کے گروہ موجود ہیں' جس کا فائدہ بھارت یا کوئی اور دشمن اٹھا سکتا ہے' کیونکہ پاکستان پہلے ہی ٹارگٹ پر ہے۔

ماضی میں بھارت نے افغانستان میں تین وار لارڈز کی باقاعدہ خدمات حاصل کی تھیں، بھارت دوبارہ ایسا کر سکتا ہے۔ اسی لیے پاکستان افغانستان کے سیاسی حالات سے براہ راست جڑا ہے، اور وہاں موثر،مضبوط اور مستحکم گورننس کا سب سے بڑا حامی ہے کیونکہ ان تمام حالات میں ہمارے لیے دو عوامل اہم اور قابلِ غور ہیں۔

پہلا یہ کہ اگر افغانستان میں عدم استحکام آیا تو مہاجرین کا مزید بوجھ ہماری جانب آسکتا ہے، دوسرا یہ کہ اگر پاکستان میں ٹی ٹی پی کو تقویت ملی تو یہ ہمارے لیے سب سے بڑا خطرہ ثابت ہوگا کیونکہ پاکستان نے لازوال قربانیوں کے ذریعے ان دہشت گردوں پر قابو پایا ہے۔

ہم نے ماضی میں بھی دیکھا کہ افغانستان میں امن و امان کی خرابی اور اندرونی لڑائی کی وجہ سے پناہ گزینوں کا ایک سیلاب افغانستان سے پاکستان میں داخل ہواتھا، افغان پناہ گزینوں کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو شدید نقصان پہنچا اور سماجی و اخلاقی خرابیاں الگ پیدا ہوئیں۔ کلاشنکوف کلچر اسی دوران پاکستان میں متعارف ہوا اور دہشت گردی کو ایسا فروغ ملا جس نے پاکستان کی جڑیں ہلا کر رکھ دیں لیکن پاکستان کو ان لاکھوں افغان باشندوں کی مہمان نوازی اور ہر طرح سے نقصان برداشت کرنے کا کیا صلہ ملا؟ افغانستان میں جنگ چھیڑنے والے امریکا نے آج تک امن کے قیام کے لیے پاکستان کی گرانقدر کوششوں کو تسلیم ہی نہیں کیا نہ ہی افغانستان نے پاکستان کی قربانیوں کی قدر کی بلکہ اس کے بجائے بھارت کی پذیرائی کی۔

اسی وجہ سے بھارت نے افغانستان کو بیس کیمپ بنایا اور دو دہائیوں سے افغان سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے۔گزشتہ ماہ کی کچھ رپورٹوں کے مطابق بھارتی حکومت نے طالبان کے کچھ دھڑوں کے ساتھ رابطوں کی کوشش کی ہے اور وہ طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے۔ یہ بھارت کی افغان پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی قرار دی جا رہی ہے ، کیونکہ گزشتہ دو دہائیوں سے نئی دہلی حکومت نے بھارت میں بڑی سرمایہ کاری کی ہے۔

افغانستان میں بھارت کی سرمایہ کاری کا حجم تین بلین ڈالرز سے زائد بنتا ہے، جس میں ڈیموں کی تعمیر کے علاوہ شاہراہوں، اسکولوں اور اسپتالوں کا قیام بھی ہے۔ اس کے علاوہ کابل میں پارلیمان کی نئی عمارت کی تعمیر میں بھی بھارت کی سرمایہ کاری شامل ہے۔بھارت افغانستان میں مسلسل پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے وہ بھاری سرمایہ کاری کے باوجود اپنے مذموم عزائم میں کامیاب ہوتا نظر نہیں آرہا جس کا سہرا پاکستان کی پالیسیوں کو جاتا ہے۔

بھارت اور اسرائیل کا پاکستان کے خلاف گٹھ جوڑ بالکل عیاں ہے،یہ دونوں ممالک پاکستان کے خلاف کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے بلکہ پاکستان کے خلاف نئے نئے منصوبے اور فتنے تیار کر کے ان کو عملی جامہ پہنانے کی کوششیں کرتے ہیں، سی پیک ان ملکوں کی آنکھ میں کانٹا ہے۔

اس لیے یہ مل کر اب ایک نئے طریقے سے افغانستان کو میدان جنگ بنانا چاہتے ہیں، اصل نشانہ پاکستان ہے کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ افغانستان میں بدامنی پاکستان میں بدامنی کے مترادف ہے۔ جو کچھ افغانستان میں ہورہا ہے یہ سب اچانک نہیں ہوا بلکہ یہ نوشتہ دیوار تھا جسے افغانستان میں بیٹھے ہوئے کٹھ پتلی اور موقع پرست حکمران ٹولے نے پڑھنے یا سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی ہے۔ اب صورتحال ماضی والی نہیں، جہاں پاکستان کا طالبان پر اثرورسوخ ہو گا۔ امن مذاکرات میں اسلام آباد کے کردار کے علاوہ حالیہ واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ طالبان اب پاکستان پر انحصار نہیں کر رہے ہیں ، پاکستان مکمل طور پر غیرجانبدار ہے۔

اس وقت افغانستان میں غیر یقینی صورت حال ہے جو اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ پاکستان میں سیاسی اتفاق رائے ہو اور پوری قوم مل کر آنے والے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکے۔چین، روس، ایران خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں اور وہ ایسے حفاظتی اقدامات بھی اٹھا رہے ہیں ، جن کے نتیجے میں افغانستان میں امن اور استحکام کو یقینی بنایا جا سکے تاکہ ان ممالک کے دشمن جنوبی ایشیا کو ایک بار پھر دہشت گردی کا مرکز نہ بنا سکیں۔
Load Next Story