مناقب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت عمر رضی اللہ کی خوش بختی کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ایسی آیات نازل فرمائیں جو آپ کی رائے سے مطابقت رکھتی تھیں۔
محرم الحرام کو خصوصی اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس ماہ سے نہ صرف اسلامی کیلنڈر کے حساب سے نئے سال کا آغاز ہوتا ہے، بلکہ اس مہینے کی یکم تاریخ کو دوسرے خلیفہ راشد سیدنا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظیم شہادت کا واقعہ اور دسویں تاریخ کو سانحہ کربلا پیش آیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قبیلہ ذہانت ،بصیرت اور جرأت و بہادری اور خطابت میں ایک ممتاز مقام کا حامل تھا اور یہ سب خوبیاں آپ کو ورثے میں ملی تھیں۔ عالم شباب میں آپ کی جرأت و بہادری اور شجاعت کا پورے ملک میں زبردست شہرہ تھا۔ آپ دیگر صحابہ میں اس طرح ممتاز ہیں کہ آپ کو ہمارے پیارے رسول نبی ؐ نے اپنے رب سے مانگ کر لیا جس کی بناء پر آپ رضی اللہ عنہ کو ''مراد مصطفی'' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔بقول شاعر:
رسولؐ نے فاروق کو اللہ سے مانگا
عطائے رب سبحان حضرت فاروق اعظم ہیں
آپ کے اسلام لانے سے قبل مسلمان رازداری سے ارکان اسلام ادا کرتے اور خفیہ طور پر تبلیغ دین کرتے تھے لیکن آپ کے اسلام لاتے ہی بارگاہ رسالت مآب ؐ سے علی الاعلان تبلیغ کی اجازت لی اور مسلمانوں نے پہلی مرتبہ آپ کے ہمراہ حرم کعبہ میں نماز ادا کی ، جس پر نبی کریمؐ نے آپ کو ''فاروق'' کا لقب عطا فرمایا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ کے عہد میں ہمسایہ ممالک کی فتح کے نتیجے میں ریاست مدینہ کے ذرایع آمدن بڑھ گئے تو خوش حالی آگئی تھی۔
اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ضروری سمجھا کہ افسران کے ساتھ کچھ سختی کی جائے، تا کہ وہ دولت کے لالچ میں بدعنوانی پر نہ اتر آئیں۔انھوں نے اپنے عہد میں ہر افسر کی تعیناتی کے وقت اس سے یہ حلف لیا کہ: وہ ترکی گھوڑے کی سواری نہیں کرے گا، عمدہ کپڑے زیب تن نہیں کرے گا، چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہیں کھائے گا، اپنے دروازے پر دربان نہیں رکھے گا، عوام کے لیے اپنا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھے گا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ پہلے حکمران تھے جنھوں نے افسران کی شکایات کی تحقیق و تفتیش کے لیے ایک خاص محکمہ قائم کیا۔ اس محکمے میں انتظامی عدالت کی صورت میں قانونی کارروائی ہوتی تھی جس کی رہنمائی اور نگرانی خود آپ فرماتے تھے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دور خلافت عدل و انصاف کے حوالے سے اتنا زریں تھا کہ جس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ غیر مسلم تک اس کا اعتراف کر تے ہیں۔ ہندوستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے روح رواں گاندھی جی کا کہنا تھا کہ '' رام راج کا تصور انھوں نے دور فاروقی سے مستعار لیا ہے۔'' ان کے حسن انتظام کا عالم یہ تھا کہ انسان تو کجا ایک کتا بھی اگر رات کو بھوکا سو جائے تو خلیفہ اس کا ذمے دار قرار پایا۔ خود احتسابی کی پوری دنیا میں کہیں اور مثال نہیں ملتی۔ آپ راتوں کو پھرکر اپنی رعایا کی تکالیف معلوم فرماتے تھے۔
جمہوریت کے علم بردار اس سے سبق حاصل کر سکتے ہیں۔عدل و انصاف کا نظام ایسا تھا کہ عام آدمی اور خلیفہ کے درمیان میں کوئی تفریق نہیں تھی اور دونوں کی حیثیت قانون کی نظر میں برابر تھی۔ حاکم اعلیٰ ہونے کے باوجود انھوں نے فقیرانہ زندگی بسر کر کے دنیا بھر کے حکمرانوں کے لیے ایک مثال پیش کی۔ ان کی عظمت کا عالم یہ تھا کہ بیت المقدس کے قابضین نے بناء روک ٹوک اس کی چابی ان کے ہاتھوں میں تھما دی۔جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے تو جبر ائیل علیہ السلام نے آکر کہا ''یارسول اللہؐ! حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اسلام آوری پر تمام فرشتے مبارکباد دے رہے ہیں۔
قصہ کوتاہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شخصیت اور صفات کا احاطہ کرنا جوئے شیر لانے اور ناممکن کی جستجو کے مترادف ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا : ''اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا، تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہوتے۔'' بقول شاعر:
''ہمارے بعد بھی دنیا میں گر کوئی نبی ہوتا''
کہا سرکار نے وہ شخص ہاں ! فاروق اعظم ہیں
کہا حضورؐ نے: ہوتے اگر نبی باقی
خدا کا ہوتے بلا رعیب انتخاب عمر
حضرت عمر رضی اللہ کی خوش بختی کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ایسی آیات نازل فرمائیں جو آپ کی رائے سے مطابقت رکھتی تھیں۔ عبداللہ بن عمر ضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ؐ نے فرمایا: '' اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زبان پر حق جاری کر دیا ہے، وہ وہی بولتے ہیں۔
رائے جو فاروق کی، وحی الٰہی بھی وہی
ہے خدائے پاک بھی زاہد ہم آواز عمر
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے:''عمر رضی اللہ عنہ جو بات کہتے، قرآن اس کی تصدیق میں نازل ہوتا۔'' اذان کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی خواب دیکھا اور عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بھی۔ پھر اسی طرح اذان دی جانے لگی۔ فاروق کا لقب پانے کے حوالے سے علامہ جلال الدین سیوطی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے لکھا ہے: میں نے کلمہ شہادت پڑھا۔
اسی خوشی میں مسلمانوں نے اس زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا کہ جسے مکہ والوں نے بھی سنا۔اس کے بعد میں نے کہا، یا رسول اللہؐ! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ ارشاد ہوا یقیناً حق پر ہیں۔ جس پر میں نے عرض کیا اب ہم خاموش کیوں رہیں۔ چنانچہ ہم دو صفیں بنا کر کعبہ میں پہنچے۔ ایک میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ تھے اور دوسری صف میری تھی۔ ہم کو دیکھ کر قریش نے خوب رنج و غم کا مظاہرہ کیا۔ اس دن رسول اکرمؐ نے مجھے فاروق کا لقب عنایت فرمایا کیونکہ اسلام کا اظہار و اعلان اور حق و باطل میں نمایاں فرق اسی دن قائم کیا گیا۔''بقول شاعر:
بڑھ گیا فاروق اعظم سے وقاردین حق
دین حق نے بھی بڑھایا خوب اعزاز عمر
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں اسلامی ریاست کا فقید المثال فروغ دیکھا گیا۔ عراق اور ایران کے کچھ حصے اسلامی ریاست میں شامل ہوئے اور ساسانی اقتدار ختم ہو گیا۔ پھر بازنطینی ریاست کے شہر مصر، فلسطین ، شام، شمالی افریقہ اور آر مینیا وغیرہ بھی اسلامی ریاست کا حصہ بنے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلامی قانون کی ترتیب فرمائی اور وہ اپنے سادہ اور معمولی طرز بودوباش کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔
کہنہ لباس اس میں بھی پیوند جا بجا
لرزاں تھے شرق و غرب ، یہ سطوت عمر کی تھی
شاہ عرب بھی، فاتح ایران و روم بھی
نان جویں غذا، یہ معیشت عمر کی تھی
یروشلم میں ان کی آمد کا واقعہ بھی مشہور ہے کہ وہ پیدل چل رہے تھے اور ان کا غلام اونٹ پر سوار تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تیزی سے پھیلنے والی اسلامی ریاست میں سیاسی اداروں کے قیام اور ان کے استحکام کے لیے اقدامات کرنے والے پہلے حکمران تسلیم کیے جاتے ہیں۔
تھا سواری پہ غلام اور ترے ہاتھ میں باگ
تجھ سا دیکھا نہ کوئی صاحب فرمان ، عمر
دنیا کو آج بھی ہے ضرورت اسی طرح
دنیا کو جیسے پہلے ضرورت عمر کی تھی
حضرت عمر رضی اللہ عنہ شاعری کا نہایت عمدہ اور پاکیزہ مذاق رکھتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ اہل عرب کا بہترین فن شعر گوئی ہے۔ اپنے بیٹے کو نصیحت فرماتے ہیں جسے اچھے اچھے اشعار یاد نہیں وہ کوئی بھی حق ادا نہیں کر سکتا اور نہ کوئی ادب حاصل کر سکتا ہے۔آپ رضی اللہ عنہ کو بر محل اشعار پڑھنے میں بھی ملکہ حاصل تھا۔
''مناقب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ'' کی صورت میں 477 صفحات پر مشتمل کتاب میں ممتاز شعراء کی منقبتوں سے مرصع یہ کتاب علامہ محمد عارف جاوید نقش بندی کی کاوشوں کا بے مثل شاہکار ہے جس کو پڑھ کر ایک ناقابل بیان قلبی تسکین اور فرحت محسوس ہوتی ہے۔ علامہ عارف کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے۔
ان کی ترتیب دی ہوئی متعدد روح پرور تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ انھوں نے اپنی پوری زندگی روحانیت کی شمعیں روشن کرنے کے لیے وقف کردی ہیں۔ سچ پوچھئے تو وہ نابغہ روزگار شخصیت کے حامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں عمر خضر عطا فرمائے اور اجر عظیم سے نوازے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قبیلہ ذہانت ،بصیرت اور جرأت و بہادری اور خطابت میں ایک ممتاز مقام کا حامل تھا اور یہ سب خوبیاں آپ کو ورثے میں ملی تھیں۔ عالم شباب میں آپ کی جرأت و بہادری اور شجاعت کا پورے ملک میں زبردست شہرہ تھا۔ آپ دیگر صحابہ میں اس طرح ممتاز ہیں کہ آپ کو ہمارے پیارے رسول نبی ؐ نے اپنے رب سے مانگ کر لیا جس کی بناء پر آپ رضی اللہ عنہ کو ''مراد مصطفی'' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔بقول شاعر:
رسولؐ نے فاروق کو اللہ سے مانگا
عطائے رب سبحان حضرت فاروق اعظم ہیں
آپ کے اسلام لانے سے قبل مسلمان رازداری سے ارکان اسلام ادا کرتے اور خفیہ طور پر تبلیغ دین کرتے تھے لیکن آپ کے اسلام لاتے ہی بارگاہ رسالت مآب ؐ سے علی الاعلان تبلیغ کی اجازت لی اور مسلمانوں نے پہلی مرتبہ آپ کے ہمراہ حرم کعبہ میں نماز ادا کی ، جس پر نبی کریمؐ نے آپ کو ''فاروق'' کا لقب عطا فرمایا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ کے عہد میں ہمسایہ ممالک کی فتح کے نتیجے میں ریاست مدینہ کے ذرایع آمدن بڑھ گئے تو خوش حالی آگئی تھی۔
اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ضروری سمجھا کہ افسران کے ساتھ کچھ سختی کی جائے، تا کہ وہ دولت کے لالچ میں بدعنوانی پر نہ اتر آئیں۔انھوں نے اپنے عہد میں ہر افسر کی تعیناتی کے وقت اس سے یہ حلف لیا کہ: وہ ترکی گھوڑے کی سواری نہیں کرے گا، عمدہ کپڑے زیب تن نہیں کرے گا، چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہیں کھائے گا، اپنے دروازے پر دربان نہیں رکھے گا، عوام کے لیے اپنا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھے گا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ پہلے حکمران تھے جنھوں نے افسران کی شکایات کی تحقیق و تفتیش کے لیے ایک خاص محکمہ قائم کیا۔ اس محکمے میں انتظامی عدالت کی صورت میں قانونی کارروائی ہوتی تھی جس کی رہنمائی اور نگرانی خود آپ فرماتے تھے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دور خلافت عدل و انصاف کے حوالے سے اتنا زریں تھا کہ جس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ غیر مسلم تک اس کا اعتراف کر تے ہیں۔ ہندوستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے روح رواں گاندھی جی کا کہنا تھا کہ '' رام راج کا تصور انھوں نے دور فاروقی سے مستعار لیا ہے۔'' ان کے حسن انتظام کا عالم یہ تھا کہ انسان تو کجا ایک کتا بھی اگر رات کو بھوکا سو جائے تو خلیفہ اس کا ذمے دار قرار پایا۔ خود احتسابی کی پوری دنیا میں کہیں اور مثال نہیں ملتی۔ آپ راتوں کو پھرکر اپنی رعایا کی تکالیف معلوم فرماتے تھے۔
جمہوریت کے علم بردار اس سے سبق حاصل کر سکتے ہیں۔عدل و انصاف کا نظام ایسا تھا کہ عام آدمی اور خلیفہ کے درمیان میں کوئی تفریق نہیں تھی اور دونوں کی حیثیت قانون کی نظر میں برابر تھی۔ حاکم اعلیٰ ہونے کے باوجود انھوں نے فقیرانہ زندگی بسر کر کے دنیا بھر کے حکمرانوں کے لیے ایک مثال پیش کی۔ ان کی عظمت کا عالم یہ تھا کہ بیت المقدس کے قابضین نے بناء روک ٹوک اس کی چابی ان کے ہاتھوں میں تھما دی۔جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے تو جبر ائیل علیہ السلام نے آکر کہا ''یارسول اللہؐ! حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اسلام آوری پر تمام فرشتے مبارکباد دے رہے ہیں۔
قصہ کوتاہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شخصیت اور صفات کا احاطہ کرنا جوئے شیر لانے اور ناممکن کی جستجو کے مترادف ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا : ''اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا، تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہوتے۔'' بقول شاعر:
''ہمارے بعد بھی دنیا میں گر کوئی نبی ہوتا''
کہا سرکار نے وہ شخص ہاں ! فاروق اعظم ہیں
کہا حضورؐ نے: ہوتے اگر نبی باقی
خدا کا ہوتے بلا رعیب انتخاب عمر
حضرت عمر رضی اللہ کی خوش بختی کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ایسی آیات نازل فرمائیں جو آپ کی رائے سے مطابقت رکھتی تھیں۔ عبداللہ بن عمر ضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ؐ نے فرمایا: '' اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زبان پر حق جاری کر دیا ہے، وہ وہی بولتے ہیں۔
رائے جو فاروق کی، وحی الٰہی بھی وہی
ہے خدائے پاک بھی زاہد ہم آواز عمر
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے:''عمر رضی اللہ عنہ جو بات کہتے، قرآن اس کی تصدیق میں نازل ہوتا۔'' اذان کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی خواب دیکھا اور عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بھی۔ پھر اسی طرح اذان دی جانے لگی۔ فاروق کا لقب پانے کے حوالے سے علامہ جلال الدین سیوطی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے لکھا ہے: میں نے کلمہ شہادت پڑھا۔
اسی خوشی میں مسلمانوں نے اس زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا کہ جسے مکہ والوں نے بھی سنا۔اس کے بعد میں نے کہا، یا رسول اللہؐ! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ ارشاد ہوا یقیناً حق پر ہیں۔ جس پر میں نے عرض کیا اب ہم خاموش کیوں رہیں۔ چنانچہ ہم دو صفیں بنا کر کعبہ میں پہنچے۔ ایک میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ تھے اور دوسری صف میری تھی۔ ہم کو دیکھ کر قریش نے خوب رنج و غم کا مظاہرہ کیا۔ اس دن رسول اکرمؐ نے مجھے فاروق کا لقب عنایت فرمایا کیونکہ اسلام کا اظہار و اعلان اور حق و باطل میں نمایاں فرق اسی دن قائم کیا گیا۔''بقول شاعر:
بڑھ گیا فاروق اعظم سے وقاردین حق
دین حق نے بھی بڑھایا خوب اعزاز عمر
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں اسلامی ریاست کا فقید المثال فروغ دیکھا گیا۔ عراق اور ایران کے کچھ حصے اسلامی ریاست میں شامل ہوئے اور ساسانی اقتدار ختم ہو گیا۔ پھر بازنطینی ریاست کے شہر مصر، فلسطین ، شام، شمالی افریقہ اور آر مینیا وغیرہ بھی اسلامی ریاست کا حصہ بنے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلامی قانون کی ترتیب فرمائی اور وہ اپنے سادہ اور معمولی طرز بودوباش کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔
کہنہ لباس اس میں بھی پیوند جا بجا
لرزاں تھے شرق و غرب ، یہ سطوت عمر کی تھی
شاہ عرب بھی، فاتح ایران و روم بھی
نان جویں غذا، یہ معیشت عمر کی تھی
یروشلم میں ان کی آمد کا واقعہ بھی مشہور ہے کہ وہ پیدل چل رہے تھے اور ان کا غلام اونٹ پر سوار تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تیزی سے پھیلنے والی اسلامی ریاست میں سیاسی اداروں کے قیام اور ان کے استحکام کے لیے اقدامات کرنے والے پہلے حکمران تسلیم کیے جاتے ہیں۔
تھا سواری پہ غلام اور ترے ہاتھ میں باگ
تجھ سا دیکھا نہ کوئی صاحب فرمان ، عمر
دنیا کو آج بھی ہے ضرورت اسی طرح
دنیا کو جیسے پہلے ضرورت عمر کی تھی
حضرت عمر رضی اللہ عنہ شاعری کا نہایت عمدہ اور پاکیزہ مذاق رکھتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ اہل عرب کا بہترین فن شعر گوئی ہے۔ اپنے بیٹے کو نصیحت فرماتے ہیں جسے اچھے اچھے اشعار یاد نہیں وہ کوئی بھی حق ادا نہیں کر سکتا اور نہ کوئی ادب حاصل کر سکتا ہے۔آپ رضی اللہ عنہ کو بر محل اشعار پڑھنے میں بھی ملکہ حاصل تھا۔
''مناقب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ'' کی صورت میں 477 صفحات پر مشتمل کتاب میں ممتاز شعراء کی منقبتوں سے مرصع یہ کتاب علامہ محمد عارف جاوید نقش بندی کی کاوشوں کا بے مثل شاہکار ہے جس کو پڑھ کر ایک ناقابل بیان قلبی تسکین اور فرحت محسوس ہوتی ہے۔ علامہ عارف کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے۔
ان کی ترتیب دی ہوئی متعدد روح پرور تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ انھوں نے اپنی پوری زندگی روحانیت کی شمعیں روشن کرنے کے لیے وقف کردی ہیں۔ سچ پوچھئے تو وہ نابغہ روزگار شخصیت کے حامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں عمر خضر عطا فرمائے اور اجر عظیم سے نوازے۔