بحران کے بعد انقلاب

سرمایہ دارانہ معاشرے میں جب سرمایہ دار مزدوروں کا استحصال کرتا ہے توکمزوروں کا اور مرد عورتوں کا بھی استحصال کرتے ہیں

zb0322-2284142@gmail.com

حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش سے 450 سال قبل ارسطو نے کہا تھا کہ ''طبقاتی نظام تمام برائیوں کی جڑ ہے''۔ اسی پیشن گوئی کو 1848 میں کمیونسٹ مینی فیسٹو میں کارل مارکس نے آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ''سماج کی تاریخ طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہے، کبھی کھلے بندوں اور کبھی درپردہ ایک طبقہ دوسرے سے ہمیشہ نبرد آزما رہا'' اس لیے کہ آقا، جاگیردار اور سرمایہ دار مختلف ادوار میں غلاموں، کسانوں اور مزدوروں کا استحصال کرتے رہے۔ انھیں استحصال کی باعث ایک جانب دولت کا انبار تو دوسری جانب افلاس زدہ عوام کی فوج تیار ہوگئی۔ جب دنیا کے 3 امیر ترین انسان 48 غریب ملکوں کو خرید سکتے ہیں تو یقینا دنیا میں بھوک، افلاس، غربت، جہالت، بے گھری، لاعلاجی، اذیت، خودکشیاں اور ذلتوں کی بھرمار ہوگی۔ جب دنیا میں اربوں کی تعداد میں لوگ بیروزگار ہوں اور روزگار بھی نہ ملے تو کیا کریں گے؟ بھیک مانگیں گے، چوری کریں گے، خودکشی کریں گے، کرائے کے قاتل بنیں گے، ڈاکے ماریں گے، بھتہ خوری، چھینا جھپٹی اور جیب کترے بنیں گے، مایوس ہوکر ہیروئن پئیں گے۔

اسلحے اور ہیروئن کا کاروبار کریں گے وغیرہ وغیرہ۔ سرمایہ دارانہ معاشرے میں جب سرمایہ دار مزدوروں کا استحصال کرتا ہے تو ساتھ ساتھ شہر دیہاتوں کا، لکھے پڑھے ان پڑھوں کا، بلوان کمزوروں کا اور مرد عورتوں کا بھی استحصال کرتے ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ 3 برسوں میں خواتین پر بہت ظلم و ستم ڈھائے گئے۔ اس سلسلے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 4706 واقعات رونما ہوئے۔ پاکستان بھر میں غیرت کے نام پر 1706 خواتین کو قتل کیا گیا۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں 1873 واقعات کے ساتھ پنجاب پہلے نمبر پر رہا جب کہ بلوچستان میں 112 واقعات ہوئے جو سب سے کم ہے۔ یہ وہ واقعات ہیں جو انسانی حقوق کی کمیٹی کے علم میں ہیں۔ جب کہ رجسٹرڈ نہ ہونے والے واقعات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ نیوز ایجسنی آن لائن کے مطابق غیرت کے نام پر 1705 خواتین کا قتل ہوا، 102 خواتین پر تیزاب پھینکا گیا، 1596 اجتماعی زیادتی کا شکار، 587 کو جنسی طور پر ہراساں کیا گیا۔ کرائے کے قاتلوں کے بارے میں صرف ایک قاتل کا حوالہ دوں گا۔ ایسے ہزاروں قاتل ہمارے معاشرے میں دندناتے پھر رہے ہیں۔

کراچی الفلاح پولیس اور ایس آئی سی ایسٹ پولیس نے مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے ٹارگٹ کلنگ کی 100 سے زائد وارداتوں میں ملوث ملزم کو گرفتار کرلیا گیا۔ گرفتار ملزم نے 12 مئی کے واقعے میں 4 افراد کو قتل کیا تھا۔گرفتار ملزم 60 سے زائد پولیس افسران اور اہلکاروں، 4 رینجرز اہلکاروں اور 40 عام افراد کے قتل میں ملوث ہے، ملزم کو 1999 میں پھانسی کی سزا ملی تھی جو عمر قید میں تبدیل کردی گئی تھی اور ملزم نے 7 سال جیل میں گزارنے کے بعد 2004 میں ضمانت یا پھر این آر او پر جیل سے رہا ہوکر قتل و غارت گری شروع کردی۔ ایک اور عجیب و غریب واقعے کراچی لیاقت آباد میں ہوا۔ صحافی ولی بابر کے مقدمے کے 6 گواہوں اور اس کے ایک وکیل نعمت اللہ رندھاوا کو قتل کردیا گیا۔ قاتل کی آج تک نشاندہی نہیں ہوپائی۔ روزنامہ ایکسپریس کے دفتر پر دو حملے ہوئے اور حال ہی میں ایکسپریس نیوز کے 3 ورکروں وقاص، خالد اور اشرف کو قتل کردیا گیا۔ ان دردناک اور حیرت انگیز واقعات کے باوجود خاص کر خواتین پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف کسی بھی جماعت خاص کر مذہبی جماعتوں نے ایک گھنٹے کی بھی ہڑتال نہیں کی اور کراچی میں 100 افراد کے قاتل کے خلاف کسی جماعت نے ہڑتال کی اور نہ قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔


طبقاتی نظام میں ایسی قتل و غارت گری معمول کا حصہ ہے۔ پسماندہ ملکوں خاص کر افریقہ، عالم عرب اور برصغیر (ہندوستان کے علاوہ) اقتدار کی پرامن منتقلی ایک خواب بن چکا ہے۔ اقتدار کی پرامن منتقلی کے لیے ان خطوں میں تحریکیں اور کشمکش جاری ہے۔ میرے خیال میں مصر اور بنگلہ دیش دو قدم آگے ہیں۔ ہندوستان کو ہم نے اس لیے چھوڑا کہ وہاں پر 5/10 سال بعد ایک طالع آزما اقتدار پر قبضہ نہیں کرتا۔ ابھی حال ہی میں ترکی کی اسمبلی میں جب ہاتھا پائی ہوئی اور ایک دوسرے کے گریبان تک پکڑنے کی نوبت آئی، اسی طرح مصر اور بنگلہ دیش میں ہوا۔ جب حکمران طبقات کے اوپری حصے میں لوٹ مار، قتل و غارت گری اور کرپشن ہوگی تو پھر اس کے اثرات نیچے تک آئیں گے۔ پاکستان میں بشمول اسمبلی کون سا ایسا ادارہ نہیں ہے جہاں کی نوکر شاہی، اربوں روپے کی کرپشن میں ملوث نہیں؟ شاید یوں کہنا بہتر ہوگا کہ "Crimes have been Politicised and Politics has been criminalised" ایسی صورت حال میں لاوا اندر سے پکتا رہتا ہے، بظاہر بھلے نظر نہ آئے۔ بقول شیخ سعدی ''تنگ آمد بہ جنگ آمد''۔ کسے معلوم تھا کہ روس میں زارشاہی اور فرانس میں لوئس 16 کا تختہ الٹ جائے گا۔ ویتنام میں امریکا کو اور جنوبی افریقہ میں برطانیہ کو شکست فاش ہوگی۔ یہ سب کچھ ایک دن میں نہیں ہوا۔ عوام تنگ ہے۔

بار بار کوششیں کیں۔ ناکام ہوتے رہے، پھر کامیاب بھی ہوئے۔ پاکستان میں بھی 1968 میں ناکام انقلاب برپا ہوا تھا۔ تقریباً ڈیڑھ ماہ ریاست ہوا میں معلق تھی۔ طلبہ نے بسوں کا کرایہ دینا بند کردیا تھا۔ مسافروں نے ٹرین کا ٹکٹ لینا چھوڑ دیا تھا۔ کارخانوں پر مزدوروں نے قبضہ کرلیا تھا، سڑکوں پر پولیس ناپید تھی۔ یہ سارے کام محنت کش نوکر شاہی سے بہتر طور پر انجام دیا۔ 1972-73 میں مزدوروں نے کراچی، لانڈھی میں دو ٹیکسٹائلوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ سائٹ کراچی میں ٹیکسٹائل مل پر مزدوروں کے قبضے کے دوران پیداوار میں 22 فیصد کا اضافہ ہوا۔ انتظامیہ کا کوئی افسر نہیں تھا۔ مزدور ہی سب کام انجام دیتے تھے۔ کل پھر ایسا دن آئے گا کہ محنت کش ذرایع پیداوار پر قبضہ کرکے ذرایع پیداوار اور پیداواری اجناس میں نہ صرف اضافہ کریں گے بلکہ سب میں برابر کی تقسیم کریں گے۔ وہ امداد باہمی کا معاشرہ قائم کریں گے۔ جہاں کوئی طبقہ نہ ہوگا۔

باکونن نے ایک موقعے پر کہا تھا کہ ''ریاست کے خاتمے کے بغیر پیداواری وسائل شہریوں کی اجتماعی جائیداد نہیں ہوسکتے''۔ ہر ایک سب کا اور سب ہر ایک کا ہوگا۔ جیسے روسو نے کہا تھا کہ ''چلو جنگل و بیابان کے اس پرسکون ماحول میں واپس چلیں جہاں کوئی طبقاتی تضاد نہیں ہے، محبت اور پرلطف زندگی گزاریں''۔ دور جدید میں ٹیڈ گرانٹ نے کہا تھا کہ ''انقلاب فرانس (1789) میں عوامی کمیٹیاں سارے کام انجام دیتی تھیں، ریاست لاپتہ تھی۔ ایسا ہی سماج جو ملکوں کی سرحدوں کو توڑ کر عالمگیر سماج قائم کرے۔ جہاں ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہو۔
Load Next Story