یہ نیلا کیا ہے

بات آ رہی ہے عزت اور احترام کی تو ہمارے ہاں ایک نیا فیشن ہے یعنی جتنا بڑا عہدہ اتنے بڑے دام


Shehla Aijaz January 28, 2014
[email protected]

چند برس پہلے کی بات ہے۔ دبئی سے کراچی آتے جہاز میں ایک نوجوان جوڑے کو دیکھا جو ہمارے عقب میں درمیانی سیٹوں پر براجمان تھے، خاصے خوش شکل ماڈرن طرز کے کپڑوں میں ملبوس کبھی انگریزی میں اور کبھی اردو میں خوش گپیوں میں مشغول تھے محسوس یوں ہو رہا تھا کہ جیسے وہ کسی تفریح گاہ میں بیٹھے ہیں اردگرد سے بے خبر لیکن ان کے انداز سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ اپنے آپ کو دوسرے مسافروں کے مقابلے میں برتر سمجھ رہے ہیں ۔محترمہ نے تھوڑی دیر بعد اپنے شوز اتارے اور سیٹ پر سمیٹ کر بیٹھ گئی۔ ان کا کچھ بے پرواہ اور کچھ خاصا چھچھورا سا اسٹائل طبیعت پر ناگوار اثر ڈال رہا تھا بہرحال برداشت تو کرنا تھا لہٰذا کرنا پڑا۔ شاید وہ اپنے تئیں دوسرے تمام مسافروں کو پینڈو سمجھ رہی تھیں۔ ہم نے بھی یہ سمجھ کر خیال نہ کیا کہ ہوسکتا ہے آنا جانا زیادہ ہو۔ امیروں کی اولاد ہو وغیرہ وغیرہ۔ ایئرپورٹ پر اترے اور باہر نکلنے کے مدارج میں داخل ہوئے ہمارے پاس سبز رنگ کا پاسپورٹ تھا لہٰذا ہمیں دوسری لائن میں کھڑا کیا گیا جب کہ وہ نوجوان جوڑا جو غالباً فرینڈز تھے نیلے پاسپورٹ والوں کی قطار میں لگ گئے تب ہمیں ان کے نخرے اسٹائل اور تکبر کی وجہ سمجھ میں آئی۔ ہائے یہ نیلا پاسپورٹ۔

ابھی کچھ روز پہلے ہی ایک خبر پڑھی جس میں ایک اعلی شخصیت کے تین صاحبزادوں اور ان کی بیگمات کے نیلے پاسپورٹ سے متعلق لکھا تھا کہ انھیں نیلے پاسپورٹ نہیں مل سکے کیونکہ وہ اس کے اہل نہ تھے۔ ہمارے جیسے بہت سے لوگ اس نیلے پاسپورٹ کی کہانی سے واقف ہیں کہ آخر اس نیلے پاسپورٹ میں ایسا کیا ہے؟ تو جناب!یہ نیلا پاسپورٹ آفیشل پاسپورٹ کہلاتا ہے جو پاکستان کے ان حضرات کو جاری کیا جاتا ہے جو سینیٹرز، ایم این ایز، صوبائی وزرا، ججز ، گورنمنٹ کے وہ آفیسرز جو بیرون ملک سرکاری امور کے سلسلے میں جاتے ہیں انھیں پاسپورٹ اور ویزا مینوئل 2006 کے پیرا نمبر 9 کے مطابق نیلے رنگ کے پاسپورٹ جاری کیے جاتے ہیں، گویا اس نیلے پاسپورٹ کے پیچھے اعلیٰ درجے کی ایک اعلیٰ مہر بھی ثبت ہوتی ہے جو ہم اور آپ جیسے عام پبلک سے الگ تھلگ ہوتے ہیں ظاہر ہے کہ عوام اور وزرا میں تو فرق ہوتا ہے عوام پھر عوام ہوتی ہے لمبی لمبی قطاروں میں لگ کر پانی کی بالٹیاں بھرنے والے، راشن لینے والے، سرکاری اسپتالوں میں دوائیاں لینے والے، پرچیاں بنوانے والے۔۔۔۔۔عوام کا نام ہی قطار ہے۔۔۔۔۔عام سی قطار در قطار۔۔۔۔اس پر اعتراض ہرگز بھی نہیں ہے لیکن اعتراض اس بات پر ہے کہ آخر یہ پاسپورٹ جس کی نوعیت خاصی نازک ہے اور اس کا اجرا بھی اسی انداز سے خاص لوگوں کو کیا جاتا ہے اس کے لیے عام لوگوں تک کی رسائی ایک سوالیہ نشان ہے؟

نیلے پاسپورٹوں کا بخار بھی بڑا عجیب ہوتا ہے۔ اس کی اعلیٰ صفات کے باعث اسے آپ نخریلہ پاسپورٹ بھی کہہ سکتے ہیں۔ سننے میں آیا ہے کہ پچھلے دور حکومت میں یہ معزز پاسپورٹ ان لوگوں کو بھی جاری کیا گیا جن کی تاریخ جرائم سے جڑی تھی لیکن ان کے تعلقات وزرا سے قریبی تھے۔ بہرحال پاسپورٹ نیلے ہوں یا سبز یہ قوم کی امانت ہوتے ہیں ان کے ساتھ جڑے لوگ پاکستان کی نمایندگی کرتے ہیں ہمیں اس کے احترام اور عزت کا پاس رکھنا چاہیے۔

بات آ رہی ہے عزت اور احترام کی تو ہمارے ہاں ایک نیا فیشن ہے یعنی جتنا بڑا عہدہ اتنے بڑے دام۔۔۔۔یعنی آم کے بھی دام اور گٹھلیوں کے بھی دام۔۔۔۔کچھ نہیں چھوڑنا، سب وصول کرنا ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ان داموں کو وصول نہیں کرتے ورنہ سب لوگ اونچے داموں کے ساتھ بہت کچھ وصول کرتے ہیں، آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم ایک غریب ملک کے باسی ہیں ہمیں اپنے لیے وہ راہیں چننی ہیں جن پر چل کر ہم اپنی قوم کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرسکیں، یہ بڑے بڑے ہوٹلوں کے بل، درزی کے خرچے اور دکھاوٹی جلسے جلوس کی کہانی اب وائنڈ اپ کرنی چاہیے۔ مانا کہ ہمارے وزرا اور دوسرے سیاست دان اچھے کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اس وقت ہمارے ملک کو ہمارے ایک ایک روپے کی ضرورت ہے۔

ترقی کا سفر ابھی بہت دور ہے بس کہہ دیا کسی فرنگی نے اور ہم نے آنکھ بند کرکے یقین کرلیا کہ اب ترقی آنے والے وقتوں میں ہماری ہوگی۔ خدارا! 2025 ابھی دور ہے ابھی 2014 ہے ذرا ہوش کریں، ترقی کی کسی بھی راہ تک پہنچنے کے لیے قطرہ قطرہ، ذرہ ذرہ محنت کرنا ہوگی، یوں کوئی ہمارے ہاتھوں پر ہمیں ترقی کا نسخہ نہیں پکڑادے گا اور ہم اسے تعویذ کی طرح آنکھوں سے چومیں گے کہ بس اب ہمیں تعویذ مل گیا اب ترقی کون کرے اور کیسے کرے کہ یہ ایک صبر آزما عمل ہے اسے بڑے احتیاط سے پھونک پھونک کر عبور کرنا ہے۔ اختیارات کا استعمال انسان کو ایک اچھا انسان بناتا ہے اگر اسے اختیارات کے دائرہ کار کے اندر رکھا جائے اور جوں ہی یہ اپنے دائرے سے باہر نکلا لوگ اس پر جھپٹ پڑتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں