انسان کہاں ہے…
کہتے ہیں کہ ’’عورت کی سب سے بڑی دشمن خود عورت ہے‘‘ تو کچھ غلط نہیں
2013 اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ رخصت ہوا، اس ایک سال میں کتنے گھر اجڑے کتنے بچے یتیم ہوئے کتنی سہاگنیں بیوہ، کتنی ماؤں کی گود سونی ہوئی اور کتنی کی آس ٹوٹ گئی، کتنی بہنیں بے آسرا اور کتنے بوڑھے باپ بے سہارا ہو گئے۔ شاید اس کے مکمل اعداد و شمار کسی کے پاس نہ ہوں ۔ جنوری 2014 کے اخبارات میرے سامنے ہیں کئی شعبوں میں جانی و مالی نقصانات کی تفصیل ان میں موجود ہے۔ ٹریفک حادثات میں کتنے ہلاک ہوئے، مذہبی جنونیت کی نذر کتنے ہوئے، سیاسی، لسانی یا ذاتی دشمنی کی بنا پر کتنوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، کتنی خواتین گھریلو یا خاندانی تنازعات کے باعث لقمہ اجل بنیں، کتنی بے گناہ عورتیں اور لڑکیاں کاری قرار دی گئیں اور کتنی بے آبرو ہوئیں۔ غرض یہ کہ لکھنے والوں نے، محققین نے بڑی عرق ریزی سے یہ اعداد و شمار حاصل کیے مگر میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ تو وہ اعداد و شمار ہیں جو ریکارڈ پر آگئے۔ ورنہ کتنے گمنام مقتولین اور خاندانی جبر کے تحت ہلاک ہونے والی خواتین، معصوم بچیاں ایسی بھی ہیں جن کا قتل کسی ریکارڈ کا حصہ نہ بن سکا اور نہ کبھی بنے گا۔۔۔۔یہ اعداد و شمار وہ ہیں جن میں دنیا سے گزر جانے والوں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔۔۔۔مگر وہ قتل کہ جس میں نہ کوئی مرتا ہے اور نہ جی پاتا ہے بلکہ روز مرے اور روز جیتے ہیں بلکہ ایک دن میں کئی بار مرتے ہیں اور مر نہیں چکتے یعنی گھریلو خواتین یا وہ جو ہمارے آپ کے گھروں میں بطور ماسی کام کرتی ہیں ذرا ان کی داستان حیات سنیے! یہ وہ مظلوم خواتین ہیں جو رسم و رواج، سسرال اور شوہر کے تشدد اور ذہنی استحصال کا شکار ہوکر وقت سے پہلے نہ صرف صحت بلکہ زندگی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں یہ وہ ہستیاں ہیں جو ان قتل ہوجانے والوں پر افسوس کرنے سے زیادہ قابل رحم ہیں۔
کہتے ہیں کہ ''عورت کی سب سے بڑی دشمن خود عورت ہے'' تو کچھ غلط نہیں، کہیں پر ساس بہو کا جینا حرام کردیتی ہے تو کہیں بہو بوڑھی اور بے سہارا ساس کو جیتے جی مار دیتی ہے، اپنے بچوں کو پال پوس کر بھی وہ بے اولاد رہ جاتی ہے بڑے ارمانوں سے بنائے اپنے ہی گھر سے بے دخل کردی جاتی ہے۔ وہ گھر جسے اس نے اپنی جوانی کے ارمان بھرے دن رات قربان کرکے بنایا سنوارا ہوتا ہے بہو آکر اس گھر میں سب سے بے کار اور بے مصرف شہ اسی ساس کو سمجھتی ہے اور جلد از جلد گھر سے نکال کر ایدھی ہوم یا دارالامان میں پناہ لینے پر مجبور کردیتی ہے۔۔۔۔تو کبھی والدین اور بھائیوں کی سر چڑھی نند بن کر بھاوج کو گھر کی باعزت بہو کے بجائے اپنی اپنے شوہر اور بچوں کی بے دام خادمہ بناکر اس کی تمام صلاحیتوں دن رات کی خدمت کا صلہ اس سے سیدھے منہ بات بھی نہ کرنے کی صورت میں دیتی ہے۔
تو دوسری جانب ایک بھابی اپنی نندوں کو اپنی لونڈی سمجھتے ہوئے گھر کے تمام کام اور اپنے بچوں کی دیکھ بھال کروا کر بھی شوہر کے کان بھرتی رہتی ہے کہ تمہاری بہنیں تو کام کی نہ کاج کی دشمن اناج کی ہیں ہمارے بچوں کو نہ صرف ڈانٹتی بلکہ مارتی بھی ہیں۔۔۔۔یہ وہی بہنیں ہوتی ہیں جو بھائی کی شادی کے سہانے سپنے دیکھتی تھیں اور تصور ہی میں بھائی کے بچوں کی سالگرہیں مناتیں ان کے نام رکھ کر اس طرح ان کا ذکر کرتیں کہ گویا وہ یہیں کہیں کھیل رہے ہوں۔۔۔۔مگر وہی بھائی جو بہنوں کی ان باتوں پر ان کو چھیڑتا رہا کہ تم پہلے گھر خالی کرو پھر میں اپنی بیوی لاؤں گا دل ہی دل میں بہنوں کے پیار اور ارمانوں پر خوش ہوتا ہے بیوی کے کان بھرنے پر اپنی بہنوں کو جن کے ساتھ بچپن سے جوانی تک کا عرصہ کھیلتے، لڑتے، ہنستے مسکراتے گزارا ہوتا ہے اپنا اور اپنے بچوں کا دشمن سمجھنے لگتا ہے اور پھر جلد ازجلد بے جوڑ رشتوں کو قبول کرکے جیسے تیسے انھیں گھر سے رخصت کردیتا ہے یا پھر ان کا بھی ٹھکانہ دارالامان قرار پاتا ہے۔
ان حالات میں سب سے بدتر صورتحال وہ ہے کہ عورت اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے کسی بھی جبرو تشدد کے باوجود گھر چھوڑنا گوارا نہیں کرتی جس کا شوہر اپنے گھر والوں کے جھوٹے الزامات اور پروپیگنڈے کو حقیقت تسلیم کرکے نہ صرف ذہنی بلکہ جسمانی تشدد سے بھی گریز نہیں کرتا۔۔۔۔وہ ماں جو بچوں کی خاطر سب کچھ صبر سے برداشت کرتی ہے اس کو کبھی کبھی اپنی اولاد کی طرف سے بھی منفی رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اولاد بھی بڑے ہوکر ماں کو ہی مورد الزام ٹھہراتی ہے کہ آپ نے یہ سب برداشت ہی کیوں کیا، آپ نے یہ کیوں نہ کیا؟ وہ کیوں نہ کیا؟ ایک پہلو اس صورت حال کا یہ بھی ہے کہ جس ماں کی بچوں نے گھر میں کسی کو بھی عزت کرتے حتیٰ کہ باپ کو بھی ڈانٹتے، ناروا سلوک کرتے ہی دیکھا ہو وہ بھی اس کی عزت نہیں کرتے (ہمدردی کے باوجود) کیونکہ ان کے لاشعور میں یہ بات بیٹھ چکی ہوتی ہے کہ یہ قابل عزت ہستی ہے ہی نہیں۔۔۔۔اور وہ عورت پوری زندگی جسمانی کے ساتھ ساتھ ذہنی اذیت اور ہر طرح کے استحصال کے باعث وقت سے بہت پہلے زندگی سے یا تو قدرتی طور پر یا خودکشی کرکے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔۔۔۔البتہ آج کل پڑھی لکھی لڑکیاں یا تو اپنی ہمت و جرأت، روشن خیالی سے اپنے حالات پر قابو پالیتی ہیں یا پھر ناکامی کی صورت میں خلع کا مطالبہ کردیتی ہیں یوں روز مرنے کے بجائے وہ ایک بار ہی مرنا پسند کرتی ہیں۔۔۔۔وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوکر نہ والدین پر بوجھ بنتی ہیں نہ سسرال کے ظلم برداشت کرتی ہیں۔۔۔۔مگر یہ صورت حال بھی ایک پرامن اور مہذب معاشرے کے لیے سم قاتل سے کم نہیں۔
زندگی کے تمام شعبوں سے صبر و تحمل قوت برداشت ختم ہوجانے کے باعث ہی وہ معاشرہ وجود میں آتا ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے ہمارے ملک میں رائج ہے۔ یہ قتل و غارت گری، یہ ذہنی و جسمانی تشدد، اغوا ، ڈاکے، چوری، لوٹ مار ہر طاقتور (دولت کے بل بوتے پر یا جسمانی طاقت کے زور پر ) کا اپنے سے کمزور کے ساتھ امتیازی سلوک۔۔۔۔اگر اس کے پس منظر میں جھانک کر دیکھا جائے تو صرف اور صرف ایک ہی وجہ نظر آئے گی اور وہ ہے جہالت۔۔۔۔جی ہاں! جہالت۔۔۔۔آپ سوچیں گے کہ آج تو تعلیم بے حد عام ہوگئی ہے ہر شخص ایم۔بی اے، سی اے یا کم ازکم کسی بھی مضمون میں ماسٹرز کا ڈگری یافتہ ملتا ہے اور لڑکیاں بھی کم ازکم شہروں کی حد تک لڑکوں سے زیادہ پڑھی لکھی اور اچھی کارکردگی کی حامل ہیں۔۔۔۔مگر میرا خیال ہے کہ کاغذ کے وہ پرزے جو ڈگری یا سند کے طور پر کثیر رقم کے عوض لوگوں میں تقسیم کیے جا رہے ہیں وہ جہالت دور کرنے کی بجائے لوگوں سے ان کی ہمت و جرأت، غیرت و حمیت، وسیع النظری اور روشن خیالی چھین رہے ہیں (یورپ و امریکا کی اندھی تقلید کا مطلب روشن خیالی ہرگز نہیں) آج وہ جو انسان کہلاتا تھا عنقا ہوتا جا رہا ہے۔ آج ہم ضمیر مردہ ہجوم کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں بحیثیت قوم ہم خودکشی کے مرتکب ہو رہے ہیں بقول شاعر:
وہ ایک شخص جسے سب ضمیر کہتے تھے
سنا ہے اس نے کہیں چھپ کے خودکشی کرلی
رٹا اور نقل کلچر نے حصول علم، ادبی ذوق، وسیع القلبی کو بالکل ختم کرکے رکھ دیا ہے، فنون لطیفہ سے دوری مطالعے کے فقدان نے ہر طرح کی انتہاپسندی کو بے تحاشہ فروغ دیا ہے۔ جب وہ دل نہ رہے جو دوسروں کی تکلیف، خوشی اور غم کو محسوس کرسکیں تو پھر انسان اور حیوان کا فرق مٹ نہیں جاتا تو کم ضرور ہوجاتا ہے۔۔۔۔ادب اور تمام فنون لطیفہ انسان کے احساسات و جذبات کے اظہار کے مثبت ذرایع ہوتے ہیں۔۔۔۔جب احساسات و جذبات پر پہرے لگا کر ان تمام ذرایع کو ختم کردیا جائے تو وہ منفی صورت اور ذرایع اختیار کرلیتے ہیں تو حساس دل رکھنے والا انسان حیوان نہیں بلکہ بے جان مشین بن کر رہ جاتا ہے جو اعلیٰ ڈگری حاصل کرنے کے بعد بھی انسان بن نہیں پاتا صرف حصول دولت اس کا مطمع نظر اور دولت ہی اس کا دین، ایمان بلکہ خدا ہوتی ہے وہ اپنی ناک سے آگے کچھ دیکھنے کے قابل ہی نہیں رہتا۔۔۔۔اقبال نے اس صورت حال کو بہت پہلے محسوس کرلیا تھا تب ہی تو کہا کہ:
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
کہتے ہیں کہ ''عورت کی سب سے بڑی دشمن خود عورت ہے'' تو کچھ غلط نہیں، کہیں پر ساس بہو کا جینا حرام کردیتی ہے تو کہیں بہو بوڑھی اور بے سہارا ساس کو جیتے جی مار دیتی ہے، اپنے بچوں کو پال پوس کر بھی وہ بے اولاد رہ جاتی ہے بڑے ارمانوں سے بنائے اپنے ہی گھر سے بے دخل کردی جاتی ہے۔ وہ گھر جسے اس نے اپنی جوانی کے ارمان بھرے دن رات قربان کرکے بنایا سنوارا ہوتا ہے بہو آکر اس گھر میں سب سے بے کار اور بے مصرف شہ اسی ساس کو سمجھتی ہے اور جلد از جلد گھر سے نکال کر ایدھی ہوم یا دارالامان میں پناہ لینے پر مجبور کردیتی ہے۔۔۔۔تو کبھی والدین اور بھائیوں کی سر چڑھی نند بن کر بھاوج کو گھر کی باعزت بہو کے بجائے اپنی اپنے شوہر اور بچوں کی بے دام خادمہ بناکر اس کی تمام صلاحیتوں دن رات کی خدمت کا صلہ اس سے سیدھے منہ بات بھی نہ کرنے کی صورت میں دیتی ہے۔
تو دوسری جانب ایک بھابی اپنی نندوں کو اپنی لونڈی سمجھتے ہوئے گھر کے تمام کام اور اپنے بچوں کی دیکھ بھال کروا کر بھی شوہر کے کان بھرتی رہتی ہے کہ تمہاری بہنیں تو کام کی نہ کاج کی دشمن اناج کی ہیں ہمارے بچوں کو نہ صرف ڈانٹتی بلکہ مارتی بھی ہیں۔۔۔۔یہ وہی بہنیں ہوتی ہیں جو بھائی کی شادی کے سہانے سپنے دیکھتی تھیں اور تصور ہی میں بھائی کے بچوں کی سالگرہیں مناتیں ان کے نام رکھ کر اس طرح ان کا ذکر کرتیں کہ گویا وہ یہیں کہیں کھیل رہے ہوں۔۔۔۔مگر وہی بھائی جو بہنوں کی ان باتوں پر ان کو چھیڑتا رہا کہ تم پہلے گھر خالی کرو پھر میں اپنی بیوی لاؤں گا دل ہی دل میں بہنوں کے پیار اور ارمانوں پر خوش ہوتا ہے بیوی کے کان بھرنے پر اپنی بہنوں کو جن کے ساتھ بچپن سے جوانی تک کا عرصہ کھیلتے، لڑتے، ہنستے مسکراتے گزارا ہوتا ہے اپنا اور اپنے بچوں کا دشمن سمجھنے لگتا ہے اور پھر جلد ازجلد بے جوڑ رشتوں کو قبول کرکے جیسے تیسے انھیں گھر سے رخصت کردیتا ہے یا پھر ان کا بھی ٹھکانہ دارالامان قرار پاتا ہے۔
ان حالات میں سب سے بدتر صورتحال وہ ہے کہ عورت اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے کسی بھی جبرو تشدد کے باوجود گھر چھوڑنا گوارا نہیں کرتی جس کا شوہر اپنے گھر والوں کے جھوٹے الزامات اور پروپیگنڈے کو حقیقت تسلیم کرکے نہ صرف ذہنی بلکہ جسمانی تشدد سے بھی گریز نہیں کرتا۔۔۔۔وہ ماں جو بچوں کی خاطر سب کچھ صبر سے برداشت کرتی ہے اس کو کبھی کبھی اپنی اولاد کی طرف سے بھی منفی رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اولاد بھی بڑے ہوکر ماں کو ہی مورد الزام ٹھہراتی ہے کہ آپ نے یہ سب برداشت ہی کیوں کیا، آپ نے یہ کیوں نہ کیا؟ وہ کیوں نہ کیا؟ ایک پہلو اس صورت حال کا یہ بھی ہے کہ جس ماں کی بچوں نے گھر میں کسی کو بھی عزت کرتے حتیٰ کہ باپ کو بھی ڈانٹتے، ناروا سلوک کرتے ہی دیکھا ہو وہ بھی اس کی عزت نہیں کرتے (ہمدردی کے باوجود) کیونکہ ان کے لاشعور میں یہ بات بیٹھ چکی ہوتی ہے کہ یہ قابل عزت ہستی ہے ہی نہیں۔۔۔۔اور وہ عورت پوری زندگی جسمانی کے ساتھ ساتھ ذہنی اذیت اور ہر طرح کے استحصال کے باعث وقت سے بہت پہلے زندگی سے یا تو قدرتی طور پر یا خودکشی کرکے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔۔۔۔البتہ آج کل پڑھی لکھی لڑکیاں یا تو اپنی ہمت و جرأت، روشن خیالی سے اپنے حالات پر قابو پالیتی ہیں یا پھر ناکامی کی صورت میں خلع کا مطالبہ کردیتی ہیں یوں روز مرنے کے بجائے وہ ایک بار ہی مرنا پسند کرتی ہیں۔۔۔۔وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوکر نہ والدین پر بوجھ بنتی ہیں نہ سسرال کے ظلم برداشت کرتی ہیں۔۔۔۔مگر یہ صورت حال بھی ایک پرامن اور مہذب معاشرے کے لیے سم قاتل سے کم نہیں۔
زندگی کے تمام شعبوں سے صبر و تحمل قوت برداشت ختم ہوجانے کے باعث ہی وہ معاشرہ وجود میں آتا ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے ہمارے ملک میں رائج ہے۔ یہ قتل و غارت گری، یہ ذہنی و جسمانی تشدد، اغوا ، ڈاکے، چوری، لوٹ مار ہر طاقتور (دولت کے بل بوتے پر یا جسمانی طاقت کے زور پر ) کا اپنے سے کمزور کے ساتھ امتیازی سلوک۔۔۔۔اگر اس کے پس منظر میں جھانک کر دیکھا جائے تو صرف اور صرف ایک ہی وجہ نظر آئے گی اور وہ ہے جہالت۔۔۔۔جی ہاں! جہالت۔۔۔۔آپ سوچیں گے کہ آج تو تعلیم بے حد عام ہوگئی ہے ہر شخص ایم۔بی اے، سی اے یا کم ازکم کسی بھی مضمون میں ماسٹرز کا ڈگری یافتہ ملتا ہے اور لڑکیاں بھی کم ازکم شہروں کی حد تک لڑکوں سے زیادہ پڑھی لکھی اور اچھی کارکردگی کی حامل ہیں۔۔۔۔مگر میرا خیال ہے کہ کاغذ کے وہ پرزے جو ڈگری یا سند کے طور پر کثیر رقم کے عوض لوگوں میں تقسیم کیے جا رہے ہیں وہ جہالت دور کرنے کی بجائے لوگوں سے ان کی ہمت و جرأت، غیرت و حمیت، وسیع النظری اور روشن خیالی چھین رہے ہیں (یورپ و امریکا کی اندھی تقلید کا مطلب روشن خیالی ہرگز نہیں) آج وہ جو انسان کہلاتا تھا عنقا ہوتا جا رہا ہے۔ آج ہم ضمیر مردہ ہجوم کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں بحیثیت قوم ہم خودکشی کے مرتکب ہو رہے ہیں بقول شاعر:
وہ ایک شخص جسے سب ضمیر کہتے تھے
سنا ہے اس نے کہیں چھپ کے خودکشی کرلی
رٹا اور نقل کلچر نے حصول علم، ادبی ذوق، وسیع القلبی کو بالکل ختم کرکے رکھ دیا ہے، فنون لطیفہ سے دوری مطالعے کے فقدان نے ہر طرح کی انتہاپسندی کو بے تحاشہ فروغ دیا ہے۔ جب وہ دل نہ رہے جو دوسروں کی تکلیف، خوشی اور غم کو محسوس کرسکیں تو پھر انسان اور حیوان کا فرق مٹ نہیں جاتا تو کم ضرور ہوجاتا ہے۔۔۔۔ادب اور تمام فنون لطیفہ انسان کے احساسات و جذبات کے اظہار کے مثبت ذرایع ہوتے ہیں۔۔۔۔جب احساسات و جذبات پر پہرے لگا کر ان تمام ذرایع کو ختم کردیا جائے تو وہ منفی صورت اور ذرایع اختیار کرلیتے ہیں تو حساس دل رکھنے والا انسان حیوان نہیں بلکہ بے جان مشین بن کر رہ جاتا ہے جو اعلیٰ ڈگری حاصل کرنے کے بعد بھی انسان بن نہیں پاتا صرف حصول دولت اس کا مطمع نظر اور دولت ہی اس کا دین، ایمان بلکہ خدا ہوتی ہے وہ اپنی ناک سے آگے کچھ دیکھنے کے قابل ہی نہیں رہتا۔۔۔۔اقبال نے اس صورت حال کو بہت پہلے محسوس کرلیا تھا تب ہی تو کہا کہ:
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات