پاکستان اوراقلیتوں کے حقوق
ہمارا آئین سیاسی اور مذہبی اقلیتوں کو ہر قسم کا تحفظ دیتا ہے
برصغیرکی تقسیم دو قومی نظریے کی بنیاد پر عمل میں آئی،جس کا حاصل یہ تھا کہ ہندو اور مسلمان دو علیحدہ قومیں ہیں اور اپنے دین پر آزادانہ عمل کرنے کے لیے انہیں الگ الگ ملک درکار ہیں۔
سب سے پہلے دوقومی نظریے کو سمجھتے ہیں: دوقومی نظریے کی بنیاد اسلام کا یہ تصور ہے کہ زندگی گزارنے کے دو ہی طریقے ہیں۔ ایک یہ ہے کہ اللہ کو معبود مان کر اُس کی عبادت و اتباع میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بتایا ہوا طریق زندگی اختیار کیا جائے، جب کہ دوسرا راستہ چاہے وہ کسی دوسرے مذہب پر مبنی ہو یا لادینیت یا الحاد یا کسی بھی کی بنیاد پرہو، وہ الگ راستہ اور الگ نظریہ ہے۔ دوقومی نظریہ اس بات کی ضمانت ہے کہ اسلام سے ہٹ کر جو نظام ہوگا، اسے بھی باقی رہنے کا حق ہے۔ دوقومی نظریے کی حکمت عملی یہ ہے کہ:
(i) مسلمان جہاں اکثریت میں ہیں اور اس پوزیشن میں ہیں کہ اپنے مستقبل کو خود طے کر سکتے ہیں، وہاں وہ اپنی زندگی اسلام کے مطابق گزاریں اوراُن کا نظام حکومت بھی اسی بنیاد پر استوارہو۔
(ii)جہاں وہ اقلیت میں ہیں تو ان کے لیے صحیح راستہ یہ ہے کہ وہاں امن سے رہیں، دوسروںکے حقوق کا خیال کریں، لیکن اپنے نظریے ، کمیونٹی، معاشرت، روایات کی جس حدتک حفاظت کر سکتے ہیں، ان کا تحفظ کریں، اس تشخص کو تحلیل نہ ہونے دیں، اس کے لیے جدوجہد کریں اور دعوت وتبلیغ کاعمل جاری رکھیں۔
(iii)جہاں مسلمان کسی ایسے نظام میں رہ رہے ہیںجو ظالمانہ اور جابرانہ نظام ہے تو وہاں بھی اپنے وجود کے لیے اس نوعیت کی جدوجہد کریں جس میں ان اخلاقی حدود کا پورا پورا خیال رکھا جا سکے جو اللہ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو تعلیم فرمائی ہیں۔ اسی لیے اسلامی تاریخ اور قانون کے اندر عدل، توازن اور توسع کی تعلیم دی گئی ہے۔ اور ان مشترکات میں، جن میں دوسرے بھی شریک ہیں ہم ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلیں۔ اس فریم ورک پر چل کر ہم پرامن اور کام یاب پیش رفت کے لیے راستہ نکال سکتے ہیں۔گویا کہ دو قومی نظریہ ایک ابدی اصول ہے اور اس کے یہ مختلف ماڈل ہیں۔
مختلف مسلم دانش وَروں نے کھل کر یا اشارتاً، سیاسی زبان میں یا علمی اسلوب میں دو قومی نظریے کی بات کی، لیکن اس میں فیصلہ کن چیز 1930ء میں علامہ محمد اقبالؒ کا خطبہ الہ آباد ہے۔ اس میں علامہ اقبال نے اپنی سوچ کو بڑی قوت، دلیل، دردمندی اور سیاسی فہم و فراست کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اقبال نے اپنے خطاب میں کہا '' اسلام ہی وہ سب سے بڑا جزوِ ترکیبی تھا، جس سے مسلمانانِ ہند کی تاریخِ حیات متاثر ہوئی۔ اسلام ہی کی بدولت مسلمانوں کے سینے ان جذبات سے معمور ہوئے، جن پر جماعتوں کی زندگی کا دارومدار ہے۔
ہندوستان میں اسلامی جماعت کی ترکیب صرف اسلام کی رہینِ منت ہے۔ میں دوسری قوموں کے رسوم و قوانین اور ان کے معاشرتی اور مذہبی اداروں کا دل سے احترام کرتا ہوں، بلکہ بحیثیت مسلمان میرا یہ فرض ہے کہ اگر ضرورت پیش آئے، تو قرآنی تعلیمات کے حسب ِ اقتضا، میں اُن کی عبادت گاہوں کی حفاظت کروں۔ تاہم، مجھے اس انسانی جماعت سے دلی محبت ہے، جو میرے طور طریقوں اور میری زندگی کا سرچشمہ ہے۔ جس نے اپنے دین اور اپنے ادب، اپنی حکمت اور اپنے تمدن سے بہرہ مند کر کے مجھے وہ کچھ عطا کیا، جس سے میری موجودہ زندگی کی تشکیل ہوئی۔ یہ اسی کی برکت ہے کہ میرے ماضی نے ازسرِنو زندہ ہوکر مجھ میں یہ احساس پیدا کر دیا ہے کہ وہ اب میری ذات میں سرگرمِ کار ہے۔''
پاکستان میں بہت سی اقلیتیں آباد ہیں، جن کا اپنا اپنا مذہب، اپنے اپنے عقائد اور اپنی اپنی ثقافتی اقدار ہیں۔ یہاں سب سے بڑی اقلیت ہندو ہیں،اس کے بعد مسیحیوں کا نمبر آتا ہے۔ ان دونوں بڑی اقلیتوں کے علاوہ بہائی، پارسی، قادیانی، بودھ اور دیگر عقائد کے لوگ بھی ہیں۔
آزادی کی جدوجہد میں مذہبی اور نسلی اقلیتوں نے قائد اعظم کے عظیم مشن اور نظریات کی بھرپور حمایت کی۔ یہ حقیقت تاریخ کا حصہ ہے کہ پنجاب کی تقسیم کے وقت صوبائی اسمبلی میں مسلم لیگ اور ہندو کانگریس کے ارکان کی تعداد برابر تھی، یہ تین مسیحی ارکان ہی تھے، جنہوں نے مسلم لیگ کا ساتھ دیا اور پاکستان کو وہ علاقے مل گئے جن پر کانگریس کا دعویٰ تھا۔بعض لوگ یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ پاکستان میں اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں اور اُن کے حقوق کی پاس داری نہیں ہوتی، اِس لیے مناسب معلوم ہوتاہے کہ اِس حوالے سے تفصیلی بات کی جائے، تاکہ غبار چھٹ کر حقیقتِ حال واضح ہو جائے۔
قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا اقلیتوں کے متعلق وژن
قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا اقلیتوں کے متعلق وژن بڑا واضح تھا۔11اگست 1947کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے اپنے خطاب میں ،جسے 'چارٹر آف پاکستان' بھی قرار دیا جاتا ہے، اُنھوں نے جان و مال کی سلامتی سمیت اقلیتوں کے تمام شہری حقوق کے تحفظ کا اعلان کیا۔ قائداعظم نے فرمایا ''آپ لوگ آزاد ہیں۔
آپ لوگ اِس ملک پاکستان میں اپنی عبادت گاہوں، مسجدوں، مندروں یا کسی عبادت گاہ میں جانے کے لیے آزاد ہیں۔آپ کا مذہب کیا ہے؟ فرقہ کیا ہے؟ ذات کیا ہے؟ اس کا ریاست کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم اس بنیادی اصول سے آغازکریں گے کہ ہم سب ریاست کے شہری ہیں اور ہر شہری کو برابر کے حقوق حاصل ہیں۔ ''
یہ محض اُن کا دعویٰ نہیں تھا ،بلکہ انھوں نے ایک ہندو کو پاکستان کا پہلا وزیر قانون بناکر اِس بات کا عملی ثبوت بھی پیش کیا کہ ایک آزاد وطن کا شہری ہونے کی حیثیت سے مسلمان اور غیرمسلم پاکستانی میں کوئی فرق نہیں۔ گورنر جنرل نام زد ہونے کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں انہوں نے اقلیتوں کو یقین دلایا '' پاکستان میں اُنھیں مذہب، عقیدے، جان و مال اور ثقافت کا تحفظ حاصل ہوگا، کسی بھی امتیاز کے بغیر ہر اعتبار سے وہ پاکستان کے شہری تصور ہوں گے۔ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ اقلیتوں کو مملکت کے ساتھ وفاداری نبھانا ہو گی۔''
اقلیتوںکے حقوق اورآئین ِ پاکستان
دستورِ پاکستان میں بھی غیر مسلم اقلیتوں کو مذہب، عقیدے اور رنگ و نسل کے امتیاز کے بغیر وہ سارے حقوق دیے گئے ہیں، جو اکثریت کو حاصل ہیں۔ پاکستان کاآئین اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ ''سیاسی اور مذہبی اقلیتوںکو ہر قسم کا تحفظ حاصل ہوگا۔ تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہوں گے۔ ریاست اقلیتوں کے جائز حقوق اورمفادات کی حفاظت کرے گی۔ اقلیتوں کو ملازمتوں میں مناسب نمائندگی دی جائے گی۔ اسمبلیوںمیں اقلیتوںکے لیے اضافی نشستیں مختص کی جائیں گی۔''
بلاشبہ اسلامی معاشرہ ایک متوازن معاشرہ ہے۔ جس میں اقلیتوں کو جان و مال کا تحفظ اور ہر شعبے میں خدمات انجام دینے کا بنیادی حق حاصل ہے۔ مذہبی اقلیتیں ہماری قومی زندگی کا اہم حصہ ہیں۔ تعلیم، علوم وفنون، عدلیہ اور سماجی خدمات سے لے کر دفاع وطن تک ہر شعبے میں غیر مسلم پاکستانیوں نے حب الوطنی کے جذبات سے سرشار ہو کر اپنے فرائض انجام دیے ہیں اور اب بھی دے رہے ہیں۔ وہ کسی طور پر بھی مسلم اکثریت سے پیچھے نہیں رہے۔
اقلیتوں کی مذہبی آزادی کی حدود
پاکستان کا آئین کسی غیرمسلم کو اِس امر پر مجبور نہیں کرتا کہ وہ اسلام قبول کرلے، یہ بحیثیتِ آزاد شہری اُن کا انتخاب ہے کہ وہ اسلام قبول کریں، لیکن اگر وہ اسلام قبول نہیں کرتے، تو ملک سے وفاداری کے تقاضے پورے کرنے کے ساتھ وہ ایک شہری کی حیثیت سے اپنے تمام حقوق وفرائض کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں۔
لیکن ملک کا آئین ان دوسرے مذاہب یا افکار کے حاملین کو اِس بات کا ضرور پابند کرتا ہے کہ اُن کومسلمانوں کے حقیقی جذبات و احساسات کا پاس و لحاظ رکھنا ہوگا۔ اگر وہ اِس میدان میں بے ضابطگی کا ارتکاب کریں گے، تو قانون کے مطابق انھیں جواب دہ بھی ہونا پڑے گا۔ آزادیِ افکار کا حق انھیں حاصل ہے، مگر دستور اور قانون کے دائرے میں۔ یہ غیرمسلم شہریوں کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں، بلکہ خود مسلمانوں کو بھی جو حقوق حاصل ہیں، وہ بھی قانون کے دائرے کے اندررہتے ہوئے ہی حاصل ہیں، کسی کو بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا اختیار نہیں ۔
پاکستان کے قیام کے وقت غیر مسلم اقلیتوں نے تحریک پاکستان کا ساتھ دیا تھا اور اس جدوجہد میں عملی حصہ لیا تھا اور یہ تعاون قائد اعظم محمد علی جناح ؒاور تحریک پاکستان کے دیگر قائدین کے ان واضح اعلانات کے بعد کیا گیا تھا، جن میں واضح کیا جا چکا تھا کہ اِس نئے ملک کا قیام مسلمانوں کے جداگانہ قومی تشخص کی وجہ سے عمل میں لایا جا رہا ہے اور اِس کا دستور و قانون اسلامی تعلیمات کے مطابق قرآن و سنت کی روشنی میں طے پائے گا۔ ِان دو ٹوک اعلانات کے بعد اقلیتوں کا تحریک پاکستان میں شریک ہونا، پاکستان کے اسلامی تشخص اور اِس میں اسلامی نظام کی عمل داری کے ساتھ ان اقلیتوں کی یقین دہانیکی حیثیت رکھتا ہے۔
کسی غیر مسلم کے خلاف کوئی جھوٹا یا غلط مقدمہ درج ہوتویہ صریح زیادتی ہے۔ قانون کے غلط استعمال کو ہر صورت روکنا چاہیے اور اِس کے لیے جو کچھ ہو سکتا ہے کیا جائے۔ اگر قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے تو اِس کا نشانہ مسلمان بھی بن رہے ہیں۔ ایک صورت سماجی ناپسندیدگی کی ہے۔ ہمارے ہاں سوئپر کلاس کے ساتھ ایک خاص قسم کا عوامی تعصب موجود ہے،گھروں کی خواتین اس کا زیادہ شکار ہیں،خاکروب کے لیے الگ برتن وغیرہ رکھے جاتے ہیں۔ چونکہ زیادہ تر خاکروب مسیحی ہیں، تو اُن کو اس تعصب کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔
اِن گھرانوں کے جو بچے پڑھ لکھ کر اچھی ملازمتوں پر چلے جاتے ہیں، بدقسمتی اور جہالت کے تحت انھیں بھی بعض اوقات ناپسندیدگی کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ یہ ناپسندیدہ اوراسلام کے سراسر خلاف مر ہے۔اِس طرح کی سوچ بدلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔کسی شخص کو اُس کے پیشے، مذہب یا نسل کی وجہ سے حقیر اور کم تر سمجھنا اسلام کی نظر میں جرم ہے، اِس کا سدباب ہونا چاہیے۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ پاکستان میں سِکھ کمیونٹی کیوں شکایت نہیں کرتی؟ وہ بھی غیر مسلم ہیں۔
بلکہ پنجاب میں تقسیم کے موقع پر سِکھ مذہب کے کچھ گروہوں کے مظالم کی خوف ناک تاریخ بھی موجود ہے۔ اِس کے باوجود کسی بھی سِکھ سے پوچھ لیں، وہ پاکستانی ریاست کے حوالے سے بری بات نہیں کرتا۔ آخر کیوں؟ اسی طرح مسیحی آبادی کے بھی بیش تر لوگوں کو یہ شکایت نہیں، البتہ ایک خاص سیاسی انداز میں ضرور اِکا دُکا واقعات کواچھالا جاتا ہے، جس میں کچھ جھوٹ بھی شامل ہو جاتا ہے اور اُس کے پسِ پردہ مقاصد کچھ اور ہوتے ہیں۔ جہاں تک دوسری بات یعنی اُن کے ملک چھوڑ نے کا تعلق ہے، توصرف اقلیتی برادری پر موقوف نہیں، بلکہ وطن عزیز کے جن لوگوں کوبھی ملک سے باہر جانے کا موقع ملتا ہے، وہ چلے جاتے ہیں۔ اسے اقلیتوں کے ساتھ بدسلوکی کی دلیل نہیں بنا سکتے۔
سب سے پہلے دوقومی نظریے کو سمجھتے ہیں: دوقومی نظریے کی بنیاد اسلام کا یہ تصور ہے کہ زندگی گزارنے کے دو ہی طریقے ہیں۔ ایک یہ ہے کہ اللہ کو معبود مان کر اُس کی عبادت و اتباع میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بتایا ہوا طریق زندگی اختیار کیا جائے، جب کہ دوسرا راستہ چاہے وہ کسی دوسرے مذہب پر مبنی ہو یا لادینیت یا الحاد یا کسی بھی کی بنیاد پرہو، وہ الگ راستہ اور الگ نظریہ ہے۔ دوقومی نظریہ اس بات کی ضمانت ہے کہ اسلام سے ہٹ کر جو نظام ہوگا، اسے بھی باقی رہنے کا حق ہے۔ دوقومی نظریے کی حکمت عملی یہ ہے کہ:
(i) مسلمان جہاں اکثریت میں ہیں اور اس پوزیشن میں ہیں کہ اپنے مستقبل کو خود طے کر سکتے ہیں، وہاں وہ اپنی زندگی اسلام کے مطابق گزاریں اوراُن کا نظام حکومت بھی اسی بنیاد پر استوارہو۔
(ii)جہاں وہ اقلیت میں ہیں تو ان کے لیے صحیح راستہ یہ ہے کہ وہاں امن سے رہیں، دوسروںکے حقوق کا خیال کریں، لیکن اپنے نظریے ، کمیونٹی، معاشرت، روایات کی جس حدتک حفاظت کر سکتے ہیں، ان کا تحفظ کریں، اس تشخص کو تحلیل نہ ہونے دیں، اس کے لیے جدوجہد کریں اور دعوت وتبلیغ کاعمل جاری رکھیں۔
(iii)جہاں مسلمان کسی ایسے نظام میں رہ رہے ہیںجو ظالمانہ اور جابرانہ نظام ہے تو وہاں بھی اپنے وجود کے لیے اس نوعیت کی جدوجہد کریں جس میں ان اخلاقی حدود کا پورا پورا خیال رکھا جا سکے جو اللہ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو تعلیم فرمائی ہیں۔ اسی لیے اسلامی تاریخ اور قانون کے اندر عدل، توازن اور توسع کی تعلیم دی گئی ہے۔ اور ان مشترکات میں، جن میں دوسرے بھی شریک ہیں ہم ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلیں۔ اس فریم ورک پر چل کر ہم پرامن اور کام یاب پیش رفت کے لیے راستہ نکال سکتے ہیں۔گویا کہ دو قومی نظریہ ایک ابدی اصول ہے اور اس کے یہ مختلف ماڈل ہیں۔
مختلف مسلم دانش وَروں نے کھل کر یا اشارتاً، سیاسی زبان میں یا علمی اسلوب میں دو قومی نظریے کی بات کی، لیکن اس میں فیصلہ کن چیز 1930ء میں علامہ محمد اقبالؒ کا خطبہ الہ آباد ہے۔ اس میں علامہ اقبال نے اپنی سوچ کو بڑی قوت، دلیل، دردمندی اور سیاسی فہم و فراست کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اقبال نے اپنے خطاب میں کہا '' اسلام ہی وہ سب سے بڑا جزوِ ترکیبی تھا، جس سے مسلمانانِ ہند کی تاریخِ حیات متاثر ہوئی۔ اسلام ہی کی بدولت مسلمانوں کے سینے ان جذبات سے معمور ہوئے، جن پر جماعتوں کی زندگی کا دارومدار ہے۔
ہندوستان میں اسلامی جماعت کی ترکیب صرف اسلام کی رہینِ منت ہے۔ میں دوسری قوموں کے رسوم و قوانین اور ان کے معاشرتی اور مذہبی اداروں کا دل سے احترام کرتا ہوں، بلکہ بحیثیت مسلمان میرا یہ فرض ہے کہ اگر ضرورت پیش آئے، تو قرآنی تعلیمات کے حسب ِ اقتضا، میں اُن کی عبادت گاہوں کی حفاظت کروں۔ تاہم، مجھے اس انسانی جماعت سے دلی محبت ہے، جو میرے طور طریقوں اور میری زندگی کا سرچشمہ ہے۔ جس نے اپنے دین اور اپنے ادب، اپنی حکمت اور اپنے تمدن سے بہرہ مند کر کے مجھے وہ کچھ عطا کیا، جس سے میری موجودہ زندگی کی تشکیل ہوئی۔ یہ اسی کی برکت ہے کہ میرے ماضی نے ازسرِنو زندہ ہوکر مجھ میں یہ احساس پیدا کر دیا ہے کہ وہ اب میری ذات میں سرگرمِ کار ہے۔''
پاکستان میں بہت سی اقلیتیں آباد ہیں، جن کا اپنا اپنا مذہب، اپنے اپنے عقائد اور اپنی اپنی ثقافتی اقدار ہیں۔ یہاں سب سے بڑی اقلیت ہندو ہیں،اس کے بعد مسیحیوں کا نمبر آتا ہے۔ ان دونوں بڑی اقلیتوں کے علاوہ بہائی، پارسی، قادیانی، بودھ اور دیگر عقائد کے لوگ بھی ہیں۔
آزادی کی جدوجہد میں مذہبی اور نسلی اقلیتوں نے قائد اعظم کے عظیم مشن اور نظریات کی بھرپور حمایت کی۔ یہ حقیقت تاریخ کا حصہ ہے کہ پنجاب کی تقسیم کے وقت صوبائی اسمبلی میں مسلم لیگ اور ہندو کانگریس کے ارکان کی تعداد برابر تھی، یہ تین مسیحی ارکان ہی تھے، جنہوں نے مسلم لیگ کا ساتھ دیا اور پاکستان کو وہ علاقے مل گئے جن پر کانگریس کا دعویٰ تھا۔بعض لوگ یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ پاکستان میں اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں اور اُن کے حقوق کی پاس داری نہیں ہوتی، اِس لیے مناسب معلوم ہوتاہے کہ اِس حوالے سے تفصیلی بات کی جائے، تاکہ غبار چھٹ کر حقیقتِ حال واضح ہو جائے۔
قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا اقلیتوں کے متعلق وژن
قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا اقلیتوں کے متعلق وژن بڑا واضح تھا۔11اگست 1947کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے اپنے خطاب میں ،جسے 'چارٹر آف پاکستان' بھی قرار دیا جاتا ہے، اُنھوں نے جان و مال کی سلامتی سمیت اقلیتوں کے تمام شہری حقوق کے تحفظ کا اعلان کیا۔ قائداعظم نے فرمایا ''آپ لوگ آزاد ہیں۔
آپ لوگ اِس ملک پاکستان میں اپنی عبادت گاہوں، مسجدوں، مندروں یا کسی عبادت گاہ میں جانے کے لیے آزاد ہیں۔آپ کا مذہب کیا ہے؟ فرقہ کیا ہے؟ ذات کیا ہے؟ اس کا ریاست کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم اس بنیادی اصول سے آغازکریں گے کہ ہم سب ریاست کے شہری ہیں اور ہر شہری کو برابر کے حقوق حاصل ہیں۔ ''
یہ محض اُن کا دعویٰ نہیں تھا ،بلکہ انھوں نے ایک ہندو کو پاکستان کا پہلا وزیر قانون بناکر اِس بات کا عملی ثبوت بھی پیش کیا کہ ایک آزاد وطن کا شہری ہونے کی حیثیت سے مسلمان اور غیرمسلم پاکستانی میں کوئی فرق نہیں۔ گورنر جنرل نام زد ہونے کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں انہوں نے اقلیتوں کو یقین دلایا '' پاکستان میں اُنھیں مذہب، عقیدے، جان و مال اور ثقافت کا تحفظ حاصل ہوگا، کسی بھی امتیاز کے بغیر ہر اعتبار سے وہ پاکستان کے شہری تصور ہوں گے۔ ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ اقلیتوں کو مملکت کے ساتھ وفاداری نبھانا ہو گی۔''
اقلیتوںکے حقوق اورآئین ِ پاکستان
دستورِ پاکستان میں بھی غیر مسلم اقلیتوں کو مذہب، عقیدے اور رنگ و نسل کے امتیاز کے بغیر وہ سارے حقوق دیے گئے ہیں، جو اکثریت کو حاصل ہیں۔ پاکستان کاآئین اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ ''سیاسی اور مذہبی اقلیتوںکو ہر قسم کا تحفظ حاصل ہوگا۔ تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہوں گے۔ ریاست اقلیتوں کے جائز حقوق اورمفادات کی حفاظت کرے گی۔ اقلیتوں کو ملازمتوں میں مناسب نمائندگی دی جائے گی۔ اسمبلیوںمیں اقلیتوںکے لیے اضافی نشستیں مختص کی جائیں گی۔''
بلاشبہ اسلامی معاشرہ ایک متوازن معاشرہ ہے۔ جس میں اقلیتوں کو جان و مال کا تحفظ اور ہر شعبے میں خدمات انجام دینے کا بنیادی حق حاصل ہے۔ مذہبی اقلیتیں ہماری قومی زندگی کا اہم حصہ ہیں۔ تعلیم، علوم وفنون، عدلیہ اور سماجی خدمات سے لے کر دفاع وطن تک ہر شعبے میں غیر مسلم پاکستانیوں نے حب الوطنی کے جذبات سے سرشار ہو کر اپنے فرائض انجام دیے ہیں اور اب بھی دے رہے ہیں۔ وہ کسی طور پر بھی مسلم اکثریت سے پیچھے نہیں رہے۔
اقلیتوں کی مذہبی آزادی کی حدود
پاکستان کا آئین کسی غیرمسلم کو اِس امر پر مجبور نہیں کرتا کہ وہ اسلام قبول کرلے، یہ بحیثیتِ آزاد شہری اُن کا انتخاب ہے کہ وہ اسلام قبول کریں، لیکن اگر وہ اسلام قبول نہیں کرتے، تو ملک سے وفاداری کے تقاضے پورے کرنے کے ساتھ وہ ایک شہری کی حیثیت سے اپنے تمام حقوق وفرائض کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں۔
لیکن ملک کا آئین ان دوسرے مذاہب یا افکار کے حاملین کو اِس بات کا ضرور پابند کرتا ہے کہ اُن کومسلمانوں کے حقیقی جذبات و احساسات کا پاس و لحاظ رکھنا ہوگا۔ اگر وہ اِس میدان میں بے ضابطگی کا ارتکاب کریں گے، تو قانون کے مطابق انھیں جواب دہ بھی ہونا پڑے گا۔ آزادیِ افکار کا حق انھیں حاصل ہے، مگر دستور اور قانون کے دائرے میں۔ یہ غیرمسلم شہریوں کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں، بلکہ خود مسلمانوں کو بھی جو حقوق حاصل ہیں، وہ بھی قانون کے دائرے کے اندررہتے ہوئے ہی حاصل ہیں، کسی کو بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا اختیار نہیں ۔
پاکستان کے قیام کے وقت غیر مسلم اقلیتوں نے تحریک پاکستان کا ساتھ دیا تھا اور اس جدوجہد میں عملی حصہ لیا تھا اور یہ تعاون قائد اعظم محمد علی جناح ؒاور تحریک پاکستان کے دیگر قائدین کے ان واضح اعلانات کے بعد کیا گیا تھا، جن میں واضح کیا جا چکا تھا کہ اِس نئے ملک کا قیام مسلمانوں کے جداگانہ قومی تشخص کی وجہ سے عمل میں لایا جا رہا ہے اور اِس کا دستور و قانون اسلامی تعلیمات کے مطابق قرآن و سنت کی روشنی میں طے پائے گا۔ ِان دو ٹوک اعلانات کے بعد اقلیتوں کا تحریک پاکستان میں شریک ہونا، پاکستان کے اسلامی تشخص اور اِس میں اسلامی نظام کی عمل داری کے ساتھ ان اقلیتوں کی یقین دہانیکی حیثیت رکھتا ہے۔
کسی غیر مسلم کے خلاف کوئی جھوٹا یا غلط مقدمہ درج ہوتویہ صریح زیادتی ہے۔ قانون کے غلط استعمال کو ہر صورت روکنا چاہیے اور اِس کے لیے جو کچھ ہو سکتا ہے کیا جائے۔ اگر قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے تو اِس کا نشانہ مسلمان بھی بن رہے ہیں۔ ایک صورت سماجی ناپسندیدگی کی ہے۔ ہمارے ہاں سوئپر کلاس کے ساتھ ایک خاص قسم کا عوامی تعصب موجود ہے،گھروں کی خواتین اس کا زیادہ شکار ہیں،خاکروب کے لیے الگ برتن وغیرہ رکھے جاتے ہیں۔ چونکہ زیادہ تر خاکروب مسیحی ہیں، تو اُن کو اس تعصب کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔
اِن گھرانوں کے جو بچے پڑھ لکھ کر اچھی ملازمتوں پر چلے جاتے ہیں، بدقسمتی اور جہالت کے تحت انھیں بھی بعض اوقات ناپسندیدگی کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ یہ ناپسندیدہ اوراسلام کے سراسر خلاف مر ہے۔اِس طرح کی سوچ بدلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔کسی شخص کو اُس کے پیشے، مذہب یا نسل کی وجہ سے حقیر اور کم تر سمجھنا اسلام کی نظر میں جرم ہے، اِس کا سدباب ہونا چاہیے۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ پاکستان میں سِکھ کمیونٹی کیوں شکایت نہیں کرتی؟ وہ بھی غیر مسلم ہیں۔
بلکہ پنجاب میں تقسیم کے موقع پر سِکھ مذہب کے کچھ گروہوں کے مظالم کی خوف ناک تاریخ بھی موجود ہے۔ اِس کے باوجود کسی بھی سِکھ سے پوچھ لیں، وہ پاکستانی ریاست کے حوالے سے بری بات نہیں کرتا۔ آخر کیوں؟ اسی طرح مسیحی آبادی کے بھی بیش تر لوگوں کو یہ شکایت نہیں، البتہ ایک خاص سیاسی انداز میں ضرور اِکا دُکا واقعات کواچھالا جاتا ہے، جس میں کچھ جھوٹ بھی شامل ہو جاتا ہے اور اُس کے پسِ پردہ مقاصد کچھ اور ہوتے ہیں۔ جہاں تک دوسری بات یعنی اُن کے ملک چھوڑ نے کا تعلق ہے، توصرف اقلیتی برادری پر موقوف نہیں، بلکہ وطن عزیز کے جن لوگوں کوبھی ملک سے باہر جانے کا موقع ملتا ہے، وہ چلے جاتے ہیں۔ اسے اقلیتوں کے ساتھ بدسلوکی کی دلیل نہیں بنا سکتے۔