ویکسی نیشن سے بے خبر گداگر کورونا کے پھیلاؤ کا سبب بن گئے
حکومت سندھ گداگروں کی مخصوص آبادیوں میں فوری طور پر کورونا سے بچاؤ کے ویکسی نیشن سینٹر کھولے ،سماجی رہنما
کراچی میں کورونا کی چوتھی لہر کی روک تھام کے لیے جاری ویکسین مہم میں گدا گروں کی بڑی تعداد آگاہی مہم نہ ہونے کے سبب کورونا ویکسین لگانے سے گریز کر رہی ہے۔
صفائی کا خیال نہ رکھنے اور کورونا ایس او پیز پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے گدا گروں کی بڑی تعداد ممکنہ طور پر کورونا کے پھیلاؤ کا سبب بن رہی ہے، سماجی کارکنوں نے رائے دی ہے کہ حکومت سندھ ان کی مخصوص آبادیوں میں فوری طور پر کورونا ویکسین کیمپوں کا انعقاد کرے اور ویکسین ورکرز کے تعاون سے فوری طور پر گدا گروں کو کورونا ویکسین لگائی جائیں۔
وزیر اعلی سندھ کے معاون خصوصی وقار مہدی کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ گدا گروں کی ویکسین نیشن کے لیے فوری اقدامات کرے گی، ایکسپریس نے کراچی میں گدا گروں کے ذریعے کورونا وائرس کے ممکنہ پھیلاؤ۔
ان کی جانب سے ویکسی نیشن نہ کرانے کی وجوہات معلوم کرنے کی کوشش کی تو اس حوالے سے المصطفیٰ ویلفیئر سوسائٹی کے ٹرسٹی حاجی احمد رضا نے بتایا کہ کورونا کی چوتھی لہر پر قابو پانے کے لیے حکومت سندھ کی جانب سے مختلف پابندیاں عائد کرنے کے ساتھ ساتھ ویکسی نیشن کا عمل بھی جاری ہے تاہم لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد شہریوں کی جانب سے ویکسی نیشن کرانے کے معاملے میں دوبارہ عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ویکسی نیشن سے محروم ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو تاحال حکومتی نظروں سے اوجھل ہے، وہ طبقہ گداگروں سے تعلق رکھتا ہے، یہ گدا گر کورونا کے پھیلاؤ کا بھی سبب بن رہے ہیں کیونکہ آگاہی مہم نہ ہونے اور ان کی آبادیوں میں کورونا ٹیسٹنگ کی سہولیات نہ ہونے کے سبب یہ معلوم ہی نہیں چلتا کہ گدا گروں کو کورونا وائرس لاحق ہے یا نہیں۔
انھوں نے بتایا کہ گدا گروں کی بڑی تعداد ویکسی نیشن کرانے سے گریزاں نظر آتی ہے کیونکہ ان کا کوئی مخصوص ٹھکانہ نہیں ہوتا۔ یہ سیزن کی کمائی کے حساب سے کراچی کا رخ کرتے ہیں اور پھر واپس اپنے آبائی علاقوں کو لوٹ جاتے ہیں جو گدا گر عرصہ دراز سے کراچی کے مختلف علاقوں میں مقیم ہے ، وہ بھی ویکسین کرانے میں دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں، حکومت اس معاملے پر سنجیدگی سے توجہ دینا ہو گی اور اس کے لیے کوئی مربوط حکمت عملی مرتب کرنا ہو گی۔
کورونا ریلیف کے حوالے سے کام کرنے والے ایک سماجی ورکر عمران الحق نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ کراچی میں اس وقت گدا گروں کی کمائی کا سیزن نہیں ہے، بیشتر گدا گر جو ہندو برادری سے تعلق رکھتے ہیں، وہ عیدالاضحیٰ کے بعد لاک ڈاون اور کورونا پابندیوں کے سبب اپنے آبائی علاقوں کی طرف چلے گئے ہیں۔
یہ گدا گر حیدر آباد ، ہالہ ، میرپور خاص ، تھر ، عمر کوٹ سمیت صوبے کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھتے ہیں، ان گدا گروں کا مشہور قبیلہ اوڑھ ہے۔ اس قبیلے کے علاوہ دیگر مذاہب اور قومیتوں کے لوگ بھی معاشی پریشانیوں کے سبب بھیک مانگتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ اوڑھ قبیلے کے زیادہ تر گدا گر خانہ بدوش ہوتے ہیں، یہ کراچی میں مختلف فلائی اوورز کے نیچے اور ندی نالوں کے ساتھ خالی اراضی اور مضافاتی علاقوں میں جھگیاں ڈال کر رہائش اختیار کرتے ہیں۔
کراچی میں ان کی بڑی آبادی تین ہٹی ، عیسی نگری پل ، کریم آباد فلائی اوور، ناظم آباد فلائی اوور ، سہراب گوٹھ ، پہلوان گوٹھ ، موسمیات ، شیر شاہ ، خدا کی بستی ، موسی کالونی ، لانڈھی ، کورنگی ، ملیر ، گلشن معمار ، گلشن اقبال اوردیگر علاقوں میں مقیم ہیں، ان کی بستیاں عارضی ہوتی ہیں، انھوں نے بتایا کہ زیادہ تر گدا گر خواتین ، بچے اور ان کے بزرگ شہر کے مختلف شاپنگ مالز ، مارکیٹوں ، بازاروں ، ہوٹلوں اور عوامی مقامات پر بھیک مانگتے ہیں۔
ان کے مرد غبارے اور کھلونے بیچنے کا کام کرتے ہیں، ان میں سے کچھ بچے پالش کرنے کا کام کرنے سمیت بھیک بھی مانگتے ہیں، انھوں نے بتایا کہ ان میں اکثر گدا گر سماجی برائیوں میں بھی مبینہ طور پر ملوث ہوتے ہیں۔
عمران الحق نے بتایا کہ کورونا کی چوتھی لہر کراچی میں اس وقت موجود ہے، جو گدا گر اس وقت شہر کے مختلف مقامات پر بھیک مانگتے ہیں ، ان میں سے اکثر سماجی دوری کا خیال نہیں کرتے اور لوگوں کو چھوتے ہیں اور بھیک طلب کرتے ہیں، سماجی دوری کا خیال نہ کرنا اور ہاتھوں کو لوگوں کے ساتھ چھونا کورونا کے پھیلاو کی ایک بڑی وجہ بن رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس کے علاوہ معاشی مسائل کے سبب بنگالی ، برمی اور دیگر مختلف برادریوں کی خواتین اور مرد بھی بھیک مانگتے ہیں اور بھیک مانگنے کے لیے یہ لوگ مختلف طریقے کار اپناتے ہیں،انھوں نے کہا کہ اکثر گدا گروں کی بڑی تعداد نے کورونا ویکسین نہیں کرائی ہے کیونکہ ان میں ویکسین کرانے کا شعور موجود نہیں ہے اور نہ ہی حکومت کی جانب سے گدا گروں کی ویکسین کرانے کے لیے کوئی موثر اقدامات کیے گئے ہیں۔
کورونا کیا چیز ہے ، ہمیں تو معلوم نہیں،گداگر خاتون
ایکسپریس نے کورونا ویکسین کے حوالے سے مختلف گدا گروں سے بات چیت کی، تین ہٹی پر موجود گدا گر خواتین کے ایک گروپ میں موجود عورتوں نے مختلف رائے کا اظہار کیا، 55 سالہ مائی دینا نے کہا کہ کورونا کیا چیز ہے، ہمیں تو معلوم نہیں، بس یہ پتہ ہے کہ یہ کوئی بیماری چل رہی ہے، ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے تو ہم علاج کہاں سے کرائیں گے۔
40 سالہ شادی شدہ عورت رانی نے کہا کہ ہمارا ذریعہ معاش بھیک مانگنا ہے، ہماری برادری کے اکثر لوگوں کے پاس شناختی کارڈ بھی نہیں ہے، ہم کورونا ویکسین کیسے لگوائیں، اگر کوئی کورونا ویکسین لگوانے جاتا بھی ہے تو اسپتالوں میں انھیں حقارت سے دیکھتے ہیں ہماری برادری میں اکثر ان پڑھ ہیں، انھیں کورونا ویکسین کے بارے میں کچھ معلوم نہیں، 23 سالہ خاتون ریکھا نے بتایا کہ ہماری برادری کی اکثریت نے ویکسین نہیں کرائی ہے، کیونکہ ہم نے یہ سنا ہے کہ ویکسین کرائیں گے تو ہم مر جائیں گے۔
مقامی مسجد کے باہر ایک معذور شخص وقار بابا نے بتایا کہ جو لوگ بھیک مانگتے ہیں ، وہ ویکسین کیسے لگوائیں گے، ان کے پاس تو کھانے کو ہی نہیں ہے، اورنگی ٹاون سے لیاقت آباد مارکیٹ میں بھیک مانگنے والی ایک خاتون شازیہ مسیح نے بتایا کہ میرے شوہر کا انتقال ہو چکا ہے، ایک بچہ ہے ،میں پڑھی لکھی نہیں ہوں، ایک فیکٹری میں ملازمت کر رہی تھی ، لاک ڈاؤن کی وجہ سے نوکری چلی گئی، اب بھیک مانگ کر گزارا کر رہی ہوں لیکن میں نے ویکسین کرائی ہے۔
انھوں نے کہا کہ بہت سے لوگ مالی مجبوری کی وجہ سے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں تاہم ان میں سے اکثر لوگ پڑھے لکھے اور شعور بھی رکھتے ہیں، وہ ویکسین کرا رہے ہیں۔
عیسی نگری کے قریب گدا گروں کی آبادی میں رہائش رکھنے والے ایک شخص راج کمار نے بتایا کہ کراچی کے بیشتر گدا گر اس وقت کمائی کا سیزن نہ ہونے کی وجہ سے اپنے آبائی علاقوں میں جا کر کھیتی باڑی کا کام کر رہے ہیں، جو لوگ موجود ہیں ، وہ یا تو بھیک مانگ رہے ہیں یا پھر مختلف کاموں سے منسلک ہیں۔
انھوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ گدا گروں کو بھی ویکسین لگائے، سماجی ورکر عمران الحق کا کہنا تھا کہ جن گدا گروں کے پاس شناختی بھی نہیں ہے ان کو بھی ویکسین لگائی جائے۔
معاشرے کے ہر فرد کو کورونا ویکسین لگائی جائے گی ، وقار مہدی
وزیر اعلیٰ سندھ کے معاون خصوصی وقار مہدی نے بتایا کہ حکومت سندھ کی کوشش ہے کہ معاشرے کے ہر فرد کو کورونا ویکسین لگائی جائے، گدا گروں کو ویکسین لگانے کے لیے محکمہ صحت فوری اقدامات کرے گا اور ہماری کوشش ہو گی کہ ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مل کر گدا گروں کو کورونا ویکسین لگائیں اور اس حوالے سے جو رکاوٹ ہو گی ان کو دور کیا جائے گا۔
صفائی کا خیال نہ رکھنے اور کورونا ایس او پیز پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے گدا گروں کی بڑی تعداد ممکنہ طور پر کورونا کے پھیلاؤ کا سبب بن رہی ہے، سماجی کارکنوں نے رائے دی ہے کہ حکومت سندھ ان کی مخصوص آبادیوں میں فوری طور پر کورونا ویکسین کیمپوں کا انعقاد کرے اور ویکسین ورکرز کے تعاون سے فوری طور پر گدا گروں کو کورونا ویکسین لگائی جائیں۔
وزیر اعلی سندھ کے معاون خصوصی وقار مہدی کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ گدا گروں کی ویکسین نیشن کے لیے فوری اقدامات کرے گی، ایکسپریس نے کراچی میں گدا گروں کے ذریعے کورونا وائرس کے ممکنہ پھیلاؤ۔
ان کی جانب سے ویکسی نیشن نہ کرانے کی وجوہات معلوم کرنے کی کوشش کی تو اس حوالے سے المصطفیٰ ویلفیئر سوسائٹی کے ٹرسٹی حاجی احمد رضا نے بتایا کہ کورونا کی چوتھی لہر پر قابو پانے کے لیے حکومت سندھ کی جانب سے مختلف پابندیاں عائد کرنے کے ساتھ ساتھ ویکسی نیشن کا عمل بھی جاری ہے تاہم لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد شہریوں کی جانب سے ویکسی نیشن کرانے کے معاملے میں دوبارہ عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ویکسی نیشن سے محروم ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو تاحال حکومتی نظروں سے اوجھل ہے، وہ طبقہ گداگروں سے تعلق رکھتا ہے، یہ گدا گر کورونا کے پھیلاؤ کا بھی سبب بن رہے ہیں کیونکہ آگاہی مہم نہ ہونے اور ان کی آبادیوں میں کورونا ٹیسٹنگ کی سہولیات نہ ہونے کے سبب یہ معلوم ہی نہیں چلتا کہ گدا گروں کو کورونا وائرس لاحق ہے یا نہیں۔
انھوں نے بتایا کہ گدا گروں کی بڑی تعداد ویکسی نیشن کرانے سے گریزاں نظر آتی ہے کیونکہ ان کا کوئی مخصوص ٹھکانہ نہیں ہوتا۔ یہ سیزن کی کمائی کے حساب سے کراچی کا رخ کرتے ہیں اور پھر واپس اپنے آبائی علاقوں کو لوٹ جاتے ہیں جو گدا گر عرصہ دراز سے کراچی کے مختلف علاقوں میں مقیم ہے ، وہ بھی ویکسین کرانے میں دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں، حکومت اس معاملے پر سنجیدگی سے توجہ دینا ہو گی اور اس کے لیے کوئی مربوط حکمت عملی مرتب کرنا ہو گی۔
کورونا ریلیف کے حوالے سے کام کرنے والے ایک سماجی ورکر عمران الحق نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ کراچی میں اس وقت گدا گروں کی کمائی کا سیزن نہیں ہے، بیشتر گدا گر جو ہندو برادری سے تعلق رکھتے ہیں، وہ عیدالاضحیٰ کے بعد لاک ڈاون اور کورونا پابندیوں کے سبب اپنے آبائی علاقوں کی طرف چلے گئے ہیں۔
یہ گدا گر حیدر آباد ، ہالہ ، میرپور خاص ، تھر ، عمر کوٹ سمیت صوبے کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھتے ہیں، ان گدا گروں کا مشہور قبیلہ اوڑھ ہے۔ اس قبیلے کے علاوہ دیگر مذاہب اور قومیتوں کے لوگ بھی معاشی پریشانیوں کے سبب بھیک مانگتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ اوڑھ قبیلے کے زیادہ تر گدا گر خانہ بدوش ہوتے ہیں، یہ کراچی میں مختلف فلائی اوورز کے نیچے اور ندی نالوں کے ساتھ خالی اراضی اور مضافاتی علاقوں میں جھگیاں ڈال کر رہائش اختیار کرتے ہیں۔
کراچی میں ان کی بڑی آبادی تین ہٹی ، عیسی نگری پل ، کریم آباد فلائی اوور، ناظم آباد فلائی اوور ، سہراب گوٹھ ، پہلوان گوٹھ ، موسمیات ، شیر شاہ ، خدا کی بستی ، موسی کالونی ، لانڈھی ، کورنگی ، ملیر ، گلشن معمار ، گلشن اقبال اوردیگر علاقوں میں مقیم ہیں، ان کی بستیاں عارضی ہوتی ہیں، انھوں نے بتایا کہ زیادہ تر گدا گر خواتین ، بچے اور ان کے بزرگ شہر کے مختلف شاپنگ مالز ، مارکیٹوں ، بازاروں ، ہوٹلوں اور عوامی مقامات پر بھیک مانگتے ہیں۔
ان کے مرد غبارے اور کھلونے بیچنے کا کام کرتے ہیں، ان میں سے کچھ بچے پالش کرنے کا کام کرنے سمیت بھیک بھی مانگتے ہیں، انھوں نے بتایا کہ ان میں اکثر گدا گر سماجی برائیوں میں بھی مبینہ طور پر ملوث ہوتے ہیں۔
عمران الحق نے بتایا کہ کورونا کی چوتھی لہر کراچی میں اس وقت موجود ہے، جو گدا گر اس وقت شہر کے مختلف مقامات پر بھیک مانگتے ہیں ، ان میں سے اکثر سماجی دوری کا خیال نہیں کرتے اور لوگوں کو چھوتے ہیں اور بھیک طلب کرتے ہیں، سماجی دوری کا خیال نہ کرنا اور ہاتھوں کو لوگوں کے ساتھ چھونا کورونا کے پھیلاو کی ایک بڑی وجہ بن رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس کے علاوہ معاشی مسائل کے سبب بنگالی ، برمی اور دیگر مختلف برادریوں کی خواتین اور مرد بھی بھیک مانگتے ہیں اور بھیک مانگنے کے لیے یہ لوگ مختلف طریقے کار اپناتے ہیں،انھوں نے کہا کہ اکثر گدا گروں کی بڑی تعداد نے کورونا ویکسین نہیں کرائی ہے کیونکہ ان میں ویکسین کرانے کا شعور موجود نہیں ہے اور نہ ہی حکومت کی جانب سے گدا گروں کی ویکسین کرانے کے لیے کوئی موثر اقدامات کیے گئے ہیں۔
کورونا کیا چیز ہے ، ہمیں تو معلوم نہیں،گداگر خاتون
ایکسپریس نے کورونا ویکسین کے حوالے سے مختلف گدا گروں سے بات چیت کی، تین ہٹی پر موجود گدا گر خواتین کے ایک گروپ میں موجود عورتوں نے مختلف رائے کا اظہار کیا، 55 سالہ مائی دینا نے کہا کہ کورونا کیا چیز ہے، ہمیں تو معلوم نہیں، بس یہ پتہ ہے کہ یہ کوئی بیماری چل رہی ہے، ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے تو ہم علاج کہاں سے کرائیں گے۔
40 سالہ شادی شدہ عورت رانی نے کہا کہ ہمارا ذریعہ معاش بھیک مانگنا ہے، ہماری برادری کے اکثر لوگوں کے پاس شناختی کارڈ بھی نہیں ہے، ہم کورونا ویکسین کیسے لگوائیں، اگر کوئی کورونا ویکسین لگوانے جاتا بھی ہے تو اسپتالوں میں انھیں حقارت سے دیکھتے ہیں ہماری برادری میں اکثر ان پڑھ ہیں، انھیں کورونا ویکسین کے بارے میں کچھ معلوم نہیں، 23 سالہ خاتون ریکھا نے بتایا کہ ہماری برادری کی اکثریت نے ویکسین نہیں کرائی ہے، کیونکہ ہم نے یہ سنا ہے کہ ویکسین کرائیں گے تو ہم مر جائیں گے۔
مقامی مسجد کے باہر ایک معذور شخص وقار بابا نے بتایا کہ جو لوگ بھیک مانگتے ہیں ، وہ ویکسین کیسے لگوائیں گے، ان کے پاس تو کھانے کو ہی نہیں ہے، اورنگی ٹاون سے لیاقت آباد مارکیٹ میں بھیک مانگنے والی ایک خاتون شازیہ مسیح نے بتایا کہ میرے شوہر کا انتقال ہو چکا ہے، ایک بچہ ہے ،میں پڑھی لکھی نہیں ہوں، ایک فیکٹری میں ملازمت کر رہی تھی ، لاک ڈاؤن کی وجہ سے نوکری چلی گئی، اب بھیک مانگ کر گزارا کر رہی ہوں لیکن میں نے ویکسین کرائی ہے۔
انھوں نے کہا کہ بہت سے لوگ مالی مجبوری کی وجہ سے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں تاہم ان میں سے اکثر لوگ پڑھے لکھے اور شعور بھی رکھتے ہیں، وہ ویکسین کرا رہے ہیں۔
عیسی نگری کے قریب گدا گروں کی آبادی میں رہائش رکھنے والے ایک شخص راج کمار نے بتایا کہ کراچی کے بیشتر گدا گر اس وقت کمائی کا سیزن نہ ہونے کی وجہ سے اپنے آبائی علاقوں میں جا کر کھیتی باڑی کا کام کر رہے ہیں، جو لوگ موجود ہیں ، وہ یا تو بھیک مانگ رہے ہیں یا پھر مختلف کاموں سے منسلک ہیں۔
انھوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ گدا گروں کو بھی ویکسین لگائے، سماجی ورکر عمران الحق کا کہنا تھا کہ جن گدا گروں کے پاس شناختی بھی نہیں ہے ان کو بھی ویکسین لگائی جائے۔
معاشرے کے ہر فرد کو کورونا ویکسین لگائی جائے گی ، وقار مہدی
وزیر اعلیٰ سندھ کے معاون خصوصی وقار مہدی نے بتایا کہ حکومت سندھ کی کوشش ہے کہ معاشرے کے ہر فرد کو کورونا ویکسین لگائی جائے، گدا گروں کو ویکسین لگانے کے لیے محکمہ صحت فوری اقدامات کرے گا اور ہماری کوشش ہو گی کہ ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مل کر گدا گروں کو کورونا ویکسین لگائیں اور اس حوالے سے جو رکاوٹ ہو گی ان کو دور کیا جائے گا۔