بار اور بینچ میں فاصلے جسٹس مشیر عالم کو عشائیہ بھی نہ دیا گیا
وکلا کی جانب سے آئے روز احتجاج
ہر گزرتے دن کے ساتھ بار اور بینچ کے درمیان فاصلے بڑھنے لگے، وکلا کی جانب سے آئے روز احتجاج کیا جارہا ہے اور سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس مشیر عالم کو ریٹائرمنٹ کے موقع پر عشائیہ بھی نہ دیا گیا۔
پاکستان بار اور سپریم کورٹ بار کے نمائندوں نے جسٹس محمد علی مظہر کی تقریب حلف برداری کا بھی بائیکاٹ کیا۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان کی اعلی عدلیہ اور سب سے بڑی بارز ایسوسی ایشنز پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں جس کی واضح مثالیں گزشتہ کچھ عرصے میں ہونیوالے واقعات ہیں۔ وکلا کے جوڈیشل کمیشن کی قواعد اور ججز کی تقرریوں کے حوالے سے اختلافات تھے ۔
وکلا کی جانب سے ڈیمانڈ کی جارہی ہے کہ ججز کی تقرریوں میں پاکستان بار کونسل کے کردار کو اہمیت دی جائے ۔ ووٹنگ کی بنیاد پر ججز اپنے فیصلے کرتے ہیں اور وکلا کی رائے کو اہمیت نہیں دی جا رہی تاہم وکلا اور اعلی عدلیہ کے درمیان مزید فاصلے اس وقت بڑھے جب سندھ سے پانچویں نمبر کے سینئر جج جسٹس محمد علی مظہر کو سپریم کورٹ لانے کیلئے نامزد کیا گیا جس پر پاکستان بار کونسل نے ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا اور ہر سطح پر احتجاج کیا گیا۔
جب جسٹس محمد علی مظہر کی حلف برداری ہوئی تو پاکستان بار اور سپریم کورٹ بار نے اسکا بھی بائیکاٹ کیا ۔ دوسری جانب وکلا نے معاملے پر اپنے احتجاج میں مزید سخت موقف اپناتے ہوئے سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس مشیر عالم کو عشائیہ دینے کا بھی بائیکاٹ کیا ۔ کورونا کے باعث سپریم کورٹ کی جانب سے بھی جسٹس مشیر عالم کو عشائیہ نہ دیا جا سکا۔ دوسری جانب وکلا کے سخت ردعمل کے پیش نظر جسٹس مشیر عالم کے اعزا ز میں سپریم کورٹ کا فل کورٹ ریفرنس بھی نہ ہو سکا۔
اس کے علاوہ چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کو زبردستی سپریم کورٹ کا ایڈہاک جج بنانے کے معاملے پر بھی وکلا اعلی عدلیہ کیخلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں اہم اجلاس 21 اگست کو سندھ ہائیکورٹ بار میں ہو گا ۔
وائس چیرمین پاکستان بار کونسل خوش دل خان نے ایکسپریس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا اعلی عدلیہ کی جانب سے وکلا کے خدشات کے سدباب کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے جا رہے ۔سپریم کورٹ کے ججز ہی سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کر رہے ۔ وکلا نہ کسی جج اور نہ ہی کسی ادارے کے خلاف ہیں اور نہ ہی عدلیہ سے کوئی بھی غیر قانونی ڈیمانڈ کر رہے ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ صرف آئین و قانون کے مطابق فیصلے کئے جائیں ، ملک بھر کے وکلا کا اصولی موقف ہے کہ سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی کیلئے طریقہ کار واضح ہونا چاہیئے ۔ خوش دل خان نے کہا کہ غلط فیصلوں کو تسلیم نہیں کریں گے اور پر امن احتجاج کرتے رہیں گے ۔
ایکسپریس نیوز سے گفتگو میں جنرل سیکریٹری سپریم کورٹ باراحمد فاروق رانا نے موقف اپنایا کہ آئین میں ججز کی تقرری کیلئے کوئی میرٹ نہیں، نہ ججز کی پرفارمنس جانچی جا سکتی ہے اور نہ ہی ججز کے احتساب کیلئے سپریم جوڈیشل کونسل کوئی فعال کردار ادا کر رہی ہے ، اگر ہائیکورٹ میں ہی ججز کی تقرری کا طریقہ کار واضح ہو جائے تو سپریم کورٹ میں ججز کی تقرریوں پر کوئی جھگڑا ہی نہ رہے، اعلی عدلیہ کے ججز کو ملنے والی تنخواہوں اور مراعات بھی کمی ہونی چاہیے۔
پاکستان بار اور سپریم کورٹ بار کے نمائندوں نے جسٹس محمد علی مظہر کی تقریب حلف برداری کا بھی بائیکاٹ کیا۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان کی اعلی عدلیہ اور سب سے بڑی بارز ایسوسی ایشنز پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں جس کی واضح مثالیں گزشتہ کچھ عرصے میں ہونیوالے واقعات ہیں۔ وکلا کے جوڈیشل کمیشن کی قواعد اور ججز کی تقرریوں کے حوالے سے اختلافات تھے ۔
وکلا کی جانب سے ڈیمانڈ کی جارہی ہے کہ ججز کی تقرریوں میں پاکستان بار کونسل کے کردار کو اہمیت دی جائے ۔ ووٹنگ کی بنیاد پر ججز اپنے فیصلے کرتے ہیں اور وکلا کی رائے کو اہمیت نہیں دی جا رہی تاہم وکلا اور اعلی عدلیہ کے درمیان مزید فاصلے اس وقت بڑھے جب سندھ سے پانچویں نمبر کے سینئر جج جسٹس محمد علی مظہر کو سپریم کورٹ لانے کیلئے نامزد کیا گیا جس پر پاکستان بار کونسل نے ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا اور ہر سطح پر احتجاج کیا گیا۔
جب جسٹس محمد علی مظہر کی حلف برداری ہوئی تو پاکستان بار اور سپریم کورٹ بار نے اسکا بھی بائیکاٹ کیا ۔ دوسری جانب وکلا نے معاملے پر اپنے احتجاج میں مزید سخت موقف اپناتے ہوئے سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس مشیر عالم کو عشائیہ دینے کا بھی بائیکاٹ کیا ۔ کورونا کے باعث سپریم کورٹ کی جانب سے بھی جسٹس مشیر عالم کو عشائیہ نہ دیا جا سکا۔ دوسری جانب وکلا کے سخت ردعمل کے پیش نظر جسٹس مشیر عالم کے اعزا ز میں سپریم کورٹ کا فل کورٹ ریفرنس بھی نہ ہو سکا۔
اس کے علاوہ چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کو زبردستی سپریم کورٹ کا ایڈہاک جج بنانے کے معاملے پر بھی وکلا اعلی عدلیہ کیخلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں اہم اجلاس 21 اگست کو سندھ ہائیکورٹ بار میں ہو گا ۔
وائس چیرمین پاکستان بار کونسل خوش دل خان نے ایکسپریس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا اعلی عدلیہ کی جانب سے وکلا کے خدشات کے سدباب کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے جا رہے ۔سپریم کورٹ کے ججز ہی سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کر رہے ۔ وکلا نہ کسی جج اور نہ ہی کسی ادارے کے خلاف ہیں اور نہ ہی عدلیہ سے کوئی بھی غیر قانونی ڈیمانڈ کر رہے ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ صرف آئین و قانون کے مطابق فیصلے کئے جائیں ، ملک بھر کے وکلا کا اصولی موقف ہے کہ سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی کیلئے طریقہ کار واضح ہونا چاہیئے ۔ خوش دل خان نے کہا کہ غلط فیصلوں کو تسلیم نہیں کریں گے اور پر امن احتجاج کرتے رہیں گے ۔
ایکسپریس نیوز سے گفتگو میں جنرل سیکریٹری سپریم کورٹ باراحمد فاروق رانا نے موقف اپنایا کہ آئین میں ججز کی تقرری کیلئے کوئی میرٹ نہیں، نہ ججز کی پرفارمنس جانچی جا سکتی ہے اور نہ ہی ججز کے احتساب کیلئے سپریم جوڈیشل کونسل کوئی فعال کردار ادا کر رہی ہے ، اگر ہائیکورٹ میں ہی ججز کی تقرری کا طریقہ کار واضح ہو جائے تو سپریم کورٹ میں ججز کی تقرریوں پر کوئی جھگڑا ہی نہ رہے، اعلی عدلیہ کے ججز کو ملنے والی تنخواہوں اور مراعات بھی کمی ہونی چاہیے۔