مضبوط حکومت کو درپیش چیلنجز
عمران خان کو سب سے بڑا چیلنج عالمی دنیا سے ہے۔ ایک تاثر بن گیا ہے کہ امریکا پاکستان اور بالخصوص عمران خان سے ناراض ہے۔
عمران خان کی حکومت اس وقت ایک ایسے دور میں ہے ،جہاں وہ سب سے زیادہ مضبوط ہیں۔ منظر نامہ بدل گیا ہے۔ پی ڈی ایم ٹوٹ گئی ہے۔ اپوزیشن آپس میں تقسیم ہو گئی ہے۔ اس صورتحال نے عمران خان کو سیاسی اعتبار سے سب سے زیادہ فائدہ دیا ہے۔
پیپلزپارٹی کی جانب سے استعفوں سے انکار نے عمران خان کو کمزور سے طاقتور کر دیا ہے۔ ن لیگ میں بیانیہ کی جنگ نے بھی عمران خان کو طاقت دی ہے۔ جب تک ن لیگ میں بیانیہ کی جنگ رہے گی عمران خان کو بالواسطہ فائدہ ہوتا رہے گا۔ اگر ن لیگ مزاحمت کی طرف چلی جاتی ہے پھر بھی عمران خان کو فائدہ ہی ہوگا۔
وہ اسٹبلشمنٹ کی واحد چوائس بن جاتے ہیں۔ یہی ان کی طاقت ہے۔ اس لیے کہیں نہ کہیں عمران خان کی کوشش ہے کہ ن لیگ مزاحمت کے بیانیہ پر قائم رہے۔ اسی لیے وہ مفاہمت کے حامی ن لیگ کے رہنماؤں کو خاص طور پر نشانہ پر رکھتے ہیں تا کہ ان کو کھلی سیاست کا موقع نہ مل سکے۔ ترین گروپ کے خاتمہ نے بھی عمران خان کو مضبوط کیا ہے۔
اگر جہانگیر ترین کسی نہ کسی شکل میں اپنے گروپ کو برقرار اور فعال رکھتے تو عمران خان کے لیے خطرہ برقرار رہتا۔ یہ تاثر بھی پیدا ہو رہا ہے کہ اگلی باری بھی عمران خان کی ہے۔ اس وقت ملک میں عمران خان کی سیاسی طاقت کے سامنے باقی تمام سیاسی قوتیں سرنگوں نظر آرہی ہیں۔
اگر ن لیگ کمزور ہوئی ہے تو پیپلزپارٹی کو بھی کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا ہے۔ وہ بھی کمزور ہوئے ہیں۔ اس لیے جیسے جیسے عمران خان مضبوط ہو رہے ہیں اس کا سب کو نقصان ہو رہا ہے۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ پھر یہ ماحول بن رہا ہے کہ ابھی تک مقتدر حلقوں کی چوائس عمران خان ہی ہیں۔ ایک صفحہ پر ہونے کی موجودگی عیاں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو اس حو الہ سے اپنی پالیسی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جب کہ پیپلزپارٹی کو پالیسی تبدیل کرنے کے باوجود بھی ابھی وہ نتائج نہیں مل رہے ہیں جن کی اسے توقع تھی۔ اسے اگلے انتخابات کی امید دی جا رہی ہے لیکن ابھی فی الحال اس کے لیے کچھ نہیں۔
اس سارے منظر نامہ میں عمران خان کو عوامی حمایت پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک تاثر یہ ہے کہ ان کا ووٹ بینک کم ہوا ہے۔ لیکن یہ ووٹ بینک اتنا کم نہیں ہوا کہ کہا جائے کہ عمران خان گیم سے باہر ہیں۔ اگر وہ اپنی حکومت کی باقی مدت میں عوامی خدمت بہتر کر لیتے ہیں تو ان کا ووٹ بینک بہتر ہو سکتا ہے۔ مہنگائی عمران خان کی بڑی اپوزیشن بن گئی ہے۔ اگر عمران خان نے مہنگائی پر قابو نہ پایا تو سارے مثبت حالات بھی منفی میں تبدیل ہو جائیں گے۔
عمران خان کو سب سے بڑا چیلنج عالمی دنیا سے ہے۔ ایک تاثر بن گیا ہے کہ امریکا پاکستان اور بالخصوص عمران خان سے ناراض ہے۔ بے شک افغانستان کے معاملہ پر عمران خان اور برطانوی وزیر اعظم کے درمیان بات چیت ہوئی ہے۔ لیکن برطانیہ اور عمران خان کے درمیان تعلقات اچھے نظر نہیں آرہے۔ عمران خان کا دورہ برطانیہ ملتوی ہو چکا ہے۔ اور برطانیہ نے پاکستان کو ریڈ لسٹ میں بھی رکھا ہوا ہے۔ اسی طرح فیٹف جیسے معاملات بتاتے ہیں کہ یورپ سے بھی اچھے تعلقات نہیں ہیں۔ ابھی تک عمران خان یورپ سے اچھے تعلقات نہیں بنا سکے ہیں۔
عرب بھی ناراض ہیں۔ چین کی ناراضگی کی بھی باتیں عام ہیں۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کے سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں پاکستان کو شرکت سے روکنا بھی اس کا ثبوت ہے۔اگر عالمی طاقتیں چاہتیں تو آپ کو شرکت کی اجازت دے سکتی تھیں۔ لیکن اقوام متحدہ میں افغانستان پر پاکستان سے زیادہ ابھی بھارت اہم نظر آرہا ہے۔ ہم خوشی کے جشن منا رہے ہیں لیکن دنیا ہمارے ساتھ نہیں ہے۔ یہ کمزوری عمران خان کے لیے بہت سے خطر ناک مسائل پیدا کر سکتی ہے۔ پاکستان میں ماضی میں بھی بین الاقوامی دباؤ کے تحت حکومتیں تبدیل ہوئی ہیں۔ اس لیے عمران خان اپنی اس کمزوری کو نظر انداز نہیں کر سکتے ہیں۔
پیپلزپارٹی کی جانب سے استعفوں سے انکار نے عمران خان کو کمزور سے طاقتور کر دیا ہے۔ ن لیگ میں بیانیہ کی جنگ نے بھی عمران خان کو طاقت دی ہے۔ جب تک ن لیگ میں بیانیہ کی جنگ رہے گی عمران خان کو بالواسطہ فائدہ ہوتا رہے گا۔ اگر ن لیگ مزاحمت کی طرف چلی جاتی ہے پھر بھی عمران خان کو فائدہ ہی ہوگا۔
وہ اسٹبلشمنٹ کی واحد چوائس بن جاتے ہیں۔ یہی ان کی طاقت ہے۔ اس لیے کہیں نہ کہیں عمران خان کی کوشش ہے کہ ن لیگ مزاحمت کے بیانیہ پر قائم رہے۔ اسی لیے وہ مفاہمت کے حامی ن لیگ کے رہنماؤں کو خاص طور پر نشانہ پر رکھتے ہیں تا کہ ان کو کھلی سیاست کا موقع نہ مل سکے۔ ترین گروپ کے خاتمہ نے بھی عمران خان کو مضبوط کیا ہے۔
اگر جہانگیر ترین کسی نہ کسی شکل میں اپنے گروپ کو برقرار اور فعال رکھتے تو عمران خان کے لیے خطرہ برقرار رہتا۔ یہ تاثر بھی پیدا ہو رہا ہے کہ اگلی باری بھی عمران خان کی ہے۔ اس وقت ملک میں عمران خان کی سیاسی طاقت کے سامنے باقی تمام سیاسی قوتیں سرنگوں نظر آرہی ہیں۔
اگر ن لیگ کمزور ہوئی ہے تو پیپلزپارٹی کو بھی کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا ہے۔ وہ بھی کمزور ہوئے ہیں۔ اس لیے جیسے جیسے عمران خان مضبوط ہو رہے ہیں اس کا سب کو نقصان ہو رہا ہے۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ پھر یہ ماحول بن رہا ہے کہ ابھی تک مقتدر حلقوں کی چوائس عمران خان ہی ہیں۔ ایک صفحہ پر ہونے کی موجودگی عیاں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو اس حو الہ سے اپنی پالیسی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جب کہ پیپلزپارٹی کو پالیسی تبدیل کرنے کے باوجود بھی ابھی وہ نتائج نہیں مل رہے ہیں جن کی اسے توقع تھی۔ اسے اگلے انتخابات کی امید دی جا رہی ہے لیکن ابھی فی الحال اس کے لیے کچھ نہیں۔
اس سارے منظر نامہ میں عمران خان کو عوامی حمایت پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک تاثر یہ ہے کہ ان کا ووٹ بینک کم ہوا ہے۔ لیکن یہ ووٹ بینک اتنا کم نہیں ہوا کہ کہا جائے کہ عمران خان گیم سے باہر ہیں۔ اگر وہ اپنی حکومت کی باقی مدت میں عوامی خدمت بہتر کر لیتے ہیں تو ان کا ووٹ بینک بہتر ہو سکتا ہے۔ مہنگائی عمران خان کی بڑی اپوزیشن بن گئی ہے۔ اگر عمران خان نے مہنگائی پر قابو نہ پایا تو سارے مثبت حالات بھی منفی میں تبدیل ہو جائیں گے۔
عمران خان کو سب سے بڑا چیلنج عالمی دنیا سے ہے۔ ایک تاثر بن گیا ہے کہ امریکا پاکستان اور بالخصوص عمران خان سے ناراض ہے۔ بے شک افغانستان کے معاملہ پر عمران خان اور برطانوی وزیر اعظم کے درمیان بات چیت ہوئی ہے۔ لیکن برطانیہ اور عمران خان کے درمیان تعلقات اچھے نظر نہیں آرہے۔ عمران خان کا دورہ برطانیہ ملتوی ہو چکا ہے۔ اور برطانیہ نے پاکستان کو ریڈ لسٹ میں بھی رکھا ہوا ہے۔ اسی طرح فیٹف جیسے معاملات بتاتے ہیں کہ یورپ سے بھی اچھے تعلقات نہیں ہیں۔ ابھی تک عمران خان یورپ سے اچھے تعلقات نہیں بنا سکے ہیں۔
عرب بھی ناراض ہیں۔ چین کی ناراضگی کی بھی باتیں عام ہیں۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کے سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں پاکستان کو شرکت سے روکنا بھی اس کا ثبوت ہے۔اگر عالمی طاقتیں چاہتیں تو آپ کو شرکت کی اجازت دے سکتی تھیں۔ لیکن اقوام متحدہ میں افغانستان پر پاکستان سے زیادہ ابھی بھارت اہم نظر آرہا ہے۔ ہم خوشی کے جشن منا رہے ہیں لیکن دنیا ہمارے ساتھ نہیں ہے۔ یہ کمزوری عمران خان کے لیے بہت سے خطر ناک مسائل پیدا کر سکتی ہے۔ پاکستان میں ماضی میں بھی بین الاقوامی دباؤ کے تحت حکومتیں تبدیل ہوئی ہیں۔ اس لیے عمران خان اپنی اس کمزوری کو نظر انداز نہیں کر سکتے ہیں۔