وزیر اعظم کا دورہ کراچی اور عوامی توقعات
وفاقی حکومت کو یہ سوچنا چاہیے کہ باہر سے آنے والوں کو کس طرح ریگولیٹ کیا جاسکتا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان مہینوں بعد کراچی آئے۔ ان کا ایک دن سے کم مدت کا دورہ انتہائی مصروفیت کا تھا۔ وزیر اعظم صاحب نے اس دن کاکچھ حصہ کراچی کے ٹرانسفارمیشن پلان جو گیارہ Trillionمالیت پر محیط ہے، اس کے کچھ منصوبوں کے بارے میں افسران سے بریفنگ لیتے ہوئے گزارا۔
وزیر اعظم کے سامنے بس ریپڈ ٹرانسپورٹ، کراچی کو پانی کی فراہمی کے K-IV کا منصوبہ، کیماڑی پپری ریل، مال برداری منصوبے اور کراچی کے تین بڑے نالوں کی صفائی اور ان نالوں کے گرد آبادیوں کی منتقلی کے منصوبوں کا جائزہ لیا۔ سرکاری اعلامیہ میں وزیر اعظم نے ان منصوبوں کی تکمیل اور کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا۔ سندھ کے گورنر عمران اسماعیل نے صحافیوں کو بتایا کہ سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف کے دور سے شروع ہونے والا گرین لائن پروجیکٹ اکتوبر تک فعال نہیں ہوگا۔
گورنر صاحب نے فرمایا کہ اس سڑک پر دوڑنے والی بسیں اکتوبر تک کراچی کی بندرگاہ پہنچ جائیں گی، یوں اس سال کے اختتام یا اگلے سال کراچی سے عوام گرین لائن پر چلنے والی ایئرکنڈیشنڈ بسوں سے مستفید ہوں گے۔
گرین لائن بس ریپڈ سسٹم کا منصوبہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دور میں شروع ہوا تھا اور 2018 کے انتخابات کے بعد جب وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی اس منصوبہ کا ابتدائی اسٹرکچر تعمیر ہوچکا تھا۔ تحریک انصاف کے اچھی طرزِ حکومت کے نعروں سے کچھ لوگوں کو توقع تھی کہ چونکہ یہ وفاق کا منصوبہ ہے تو اس بناء پر وفاقی حکومت جلدازجلد اس منصوبہ کو مکمل کرے گی مگر وفاقی حکومت کے وزراء ہر چھ مہینے بعد اس منصوبہ کی تکمیل کی پیشگوئی کرتے رہے اور Deadlines دیتے رہے البتہ وفاقی حکومت اب تک اپنی کسی Deadline تک کام مکمل نہ کرسکی۔
تحریک انصاف کے منشور میں گرین لائن کے علاوہ اس طرح کی دیگر لائن کی تعمیر کے وعدے موجود ہیں مگر اب وزیر اعظم کے اس دورہ کے بعد ذرائع ابلاغ کو بتایا گیا کہ ریڈ لائن منصوبہ کی فزیبلٹی کا جائزہ لیا گیا۔ ابھی یہ منصوبہ کاغذوں پر ہے، یہ منصوبہ کب شروع ہوگا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ وفاقی حکومت نے حسبِ روایت سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کو اس دفعہ بھی کسی اجلاس میں مدعو نہیں کیا اور کراچی کے ٹرانسفارمیشن پروجیکٹ کے لیے جو خطیر رقم مختص کی گئی ہے اور حکومت سندھ کی زمینوں پر جو تعمیرات ہورہی ہیں یا مستقبل میں ہونگی ان کے بارے میں وزیر اعلیٰ کی رائے کو نظرانداز کیا گیا۔
کراچی کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس شہر کی سندھ حکومت نے سرپرستی کی، نہ اسلام آباد کی وفاقی حکومت نے شہر کے حالات کو بہتر بنانے کا سوچا۔ تحریک انصاف 1999 سے کراچی میں متحرک ہے مگر 2010 سے تحریک انصاف نے کراچی میں جڑیں پھیلانا شروع کیں۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں نے کراچی کے انفرااسٹرکچر کی تباہی پر رائے عامہ ہموار کرنا شروع کی۔
تحریک انصاف میں بعد میں شامل ہونے والے عالمگیر خان نے کراچی میں کوڑے سے پیدا ہونے والے مسائل پر بھرپور آواز اٹھائی، پھر وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ کچھ عرصہ قبل وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے کوڑا پھینک کر احتجاج کرنے پر گرفتار بھی ہوئے۔
ملک کے صدر ڈاکٹر عارف علوی گزشتہ کئی عرصوں سے کراچی کے مسائل کا بغور جائزہ لیتے رہے ہیں اور کراچی کے مسائل پر آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف کراچی سے قومی اسمبلی کی چودہ نشستیں حاصل کر کے سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔ 2018کے انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدوار شکور شاد کی لیاری سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو شکست دینا لیاری کی تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ تھا مگر اقتدار میں آنے کے بعد تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی سے مایوسی ظاہر ہونے لگی۔
تحریک انصاف نے لیاری سے قومی اسمبلی کی نشست پر تاریخی کامیابی حاصل کی تھی ،مگر گزشتہ 3برس گزرجانے کے باوجود محسوس ہوتا ہے کہ لیاری وفاقی حکومت کی ترجیحات میں بھی شامل نہیں ہے۔ سیورج کا پانی اور صاف پانی کی فراہمی کی ذمے داری تو صوبائی حکومت کی ہے مگر بجلی اور گیس کی فراہمی کی ذمے داری جن اداروں کے پاس ہے ان کو وفاقی حکومت کنٹرول کرتی ہے مگر لیاری میں گھنٹوں بجلی کا لاپتہ ہونا عام سی بات ہے۔ سردیوں میں لیاری والے سوئی گیس سے بھی محروم ہوگئے۔ لیاری کی عورتوں کو علی الصبح ناشتہ بنانے اور پانی گرم کرنے کے لیے گیس دستیاب نہیں تھی۔
شہر کے کچھ علاقوں میں ایک آدھ گھنٹے گیس غائب ہوتی ہے مگر لیاری میں تو گھنٹوں گیس نہیں ملتی۔ لیاری کے منتخب رکن اسمبلی شکور شاد کی آواز اسلام آباد میں سنائی دیتی ہے۔ وہ قومی اسمبلی میں آواز اٹھاتے ہیں اور ذرائع ابلاغ پر اپنا موقف بیان کرتے ہیں۔ کئی دفعہ انھوں نے مستعفی ہونے کی خبریں شائع کرائیں مگر اسلام آباد کی حکومت منتخب نمایندہ کی آواز سننے کو تیار نہیں ہے۔
18ویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومت بااختیار ہے۔ وفاقی حکومت اگر سندھ بھر میں کوئی ترقیاتی منصوبہ شروع کرنا چاہتی ہے تو اس کو زمین اور دیگر لوازمات کی ضرورت پڑے گی۔ یہ سب کچھ صوبائی حکومت کے ترقیاتی منصوبوں میں مشاورت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
وزیر اعظم کا کراچی کے ترقیاتی منصوبوں کے بارے میں بریفنگ میں وزیر اعلیٰ سندھ کو مدعو نہ کرنے کا یہ مطلب لیا جاسکتا ہے کہ حکومت کراچی کی پسماندگی دور کرنے کے لیے فنڈز خرچ کرنا نہیں چاہتی۔ کراچی کے کچھ مسائل صوبائی طرزِ حکومت سے متعلق ہیں جب کہ کچھ کا تعلق وفاقی حکومت سے ہے۔
وفاقی وزیرتوانائی بار بار اعلان کرتے ہیں کہ ملک میں بجلی کی قلت نہیں ہے مگر کراچی میں بجلی کی فراہمی کی ذمے دار کے الیکٹرک شہر کے مختلف علاقوں میں مسلسل لوڈ شیڈنگ کرتی ہے، یہ زیادہ تر غریبوں کے علاقے ہیں جہاں روزانہ لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ بجلی کمپنی کے افسر کہتے ہیں کہ جن علاقوں میں بجلی چوری ہوتی ہے اور بلوں کی ادائیگی کا تناسب کم ہوتا ہے وہاں لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ان علاقوں کے مکین ہر ماہ بلوں کی ادائیگی کی سکت نہیں رکھتے، یوں ان کے لیے باقاعدہ بل ادا کرنا یا قانونی طریقہ سے کنکشن لینا بڑا مشکل کام ہے۔
بجلی اب بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے۔ بجلی والوں نے کراچی شہر کو طبقاتی طور پر تقسیم کردیا ہے۔ حکومت ہر ماہ بجلی کے ٹیرف میں بھی اضافہ کردیتی ہے۔ وفاقی حکومت اگر واقعی غریبوں کے حالات بہتر بنانے میں سنجیدہ ہے تو پڑوسی ممالک کی طرح اس مسئلہ کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ بھارت اور بنگلہ دیش میں دو کمروں کے گھر میں اتنا کرنٹ فراہم کیا جاتا ہے کہ دو بلب، دو پنکھے اور ایک فرج چل سکے۔ اس طرح کم از کم فکس رقم کے پیکیج سے کم آمدنی کے افراد بل ادا کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔
کراچی کے مسائل کی ایک اور اہم اور بڑی وجہ دیگر ممالک اور دیگر صوبوں سے آنے والے لوگوں کا دباؤ ہے۔ وفاقی حکومت کو یہ سوچنا چاہیے کہ باہر سے آنے والوں کو کس طرح ریگولیٹ کیا جاسکتا ہے۔
اقتصادی ماہرین کہتے ہیں کہ اگر وفاقی حکومت آبادی کے دباؤ کو روک نہیں سکتی تو جتنے لوگ ہر سال کراچی میں آتے ہیں ان کے مطابق سندھ کے این ایف سی ایوارڈ میں اضافہ ہونا چاہیے۔ وفاقی حکومت کا ایک کارنامہ پاکستان کوارٹر کے مکینوں کو لیز دینا ہے مگر جہانگیر کوارٹر اور مارٹن کوارٹر کے مکینوں کو اس سہولت سے محروم کردیا گیا ہے۔
ان کوارٹروں میں 50ء کی دہائی میں سرکاری ملازمین کو آباد کیا گیا تھا۔ اب ان کی اولادیں یہاں رہ رہی ہیں۔ ان میں سے کچھ مکانوں کی حالت انتہائی مخدوش ہے، ان علاقوں میں بڑی تجاوزات بھی قائم ہیں۔ سابق صدر غلام اسحاق خان کے دور میں معمولی وجوہات کی بناء پر ان کوارٹروں کے مکینوں کو مالکانہ حقوق دینے سے انکار کر دیا گیا، اب اس مسئلے کا مستقل حل نکل آنا چاہیے۔