طالبان نے خاتون نیوز اینکر کو کام کرنے سے روک دیا
امور مملکت میں شامل کرنے اور دفاتر میں کام کرنے کی اجازت کیلیے خواتین نے احتجاج بھی کیا
افغانستان کے ٹی وی چینل پر نیوز اینکر کے فرائض انجام دینے والی خاتون صحافی کو طالبان نے کام کرنے سے یہ کہہ کر روک دیا ہے کہ اب نظام بدل گیا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق افغانستان کا کنٹرول سنبھالتے ہی طالبان نے خلاف توقع پہلا اعلان خواتین سرکاری ملازمین کو واپس محکمے میں آنے اور اپنی خدمات انجام دینے کی ہدایت کی تھی جب کہ کابل پر قبضے کے بعد طلوع نیوز پر طالبان رہنما مولوی عبدالحق حمد نے خاتون اینکر بہشتا ارغند کو انٹرویو دیکر سب کو حیران کردیا تھا۔
یہ خبر بھی پڑھیں : طالبان نے صحافی کے نہ ملنے پر ایک رشتہ دار کو قتل اور دوسرے کو گولی مار دی
تاہم ریڈیو ٹیلی وژن افغانستان کی نیوز اینکر شبنم دوران نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ویڈیو پیغام میں کہا گیا ہے کہ حالات معمول پر آنے کے بعد میں اپنے چینل گئی تھی لیکن وہاں موجود طالبان نے میرے مرد کولیگز کو جانے دیا اور مجھے دفتر میں داخل ہونے سے روک دیا۔
شبنم دوران کا مزید کہنا تھا کہ میں نے اپنا آفس کارڈ بھی دکھایا اور میں حجاب میں بھی تھی لیکن اس کے باجود وہاں موجود طالبان نے کہا کہ اب نظام بدل گیا ہے اس لیے اب آپ واپس گھر جائیں۔ خاتون صحافی نے یہ بھی کہا کہ ہمیں دھمکیاں مل رہی ہیں جس پر عالمی طاقتوں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی خواتین کے ایک گروہ نے امور مملکت میں خواتین کو شامل کرنے اور سرکاری و نجی دفاتر میں کام کرنے کی اجازت کے لیے دارالحکومت میں مظاہرہ کیا۔
خواتین کا کہنا تھا کہ گزشتہ 20 برسوں میں خواتین نے اہم شعبوں میں ترقی کی ہے اور ملک کے لیے خدمات انجام دی ہیں۔ اس ساری محنت کو یوں رائیگاں نہیں کیا جا سکتا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق افغانستان کا کنٹرول سنبھالتے ہی طالبان نے خلاف توقع پہلا اعلان خواتین سرکاری ملازمین کو واپس محکمے میں آنے اور اپنی خدمات انجام دینے کی ہدایت کی تھی جب کہ کابل پر قبضے کے بعد طلوع نیوز پر طالبان رہنما مولوی عبدالحق حمد نے خاتون اینکر بہشتا ارغند کو انٹرویو دیکر سب کو حیران کردیا تھا۔
یہ خبر بھی پڑھیں : طالبان نے صحافی کے نہ ملنے پر ایک رشتہ دار کو قتل اور دوسرے کو گولی مار دی
تاہم ریڈیو ٹیلی وژن افغانستان کی نیوز اینکر شبنم دوران نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ویڈیو پیغام میں کہا گیا ہے کہ حالات معمول پر آنے کے بعد میں اپنے چینل گئی تھی لیکن وہاں موجود طالبان نے میرے مرد کولیگز کو جانے دیا اور مجھے دفتر میں داخل ہونے سے روک دیا۔
شبنم دوران کا مزید کہنا تھا کہ میں نے اپنا آفس کارڈ بھی دکھایا اور میں حجاب میں بھی تھی لیکن اس کے باجود وہاں موجود طالبان نے کہا کہ اب نظام بدل گیا ہے اس لیے اب آپ واپس گھر جائیں۔ خاتون صحافی نے یہ بھی کہا کہ ہمیں دھمکیاں مل رہی ہیں جس پر عالمی طاقتوں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی خواتین کے ایک گروہ نے امور مملکت میں خواتین کو شامل کرنے اور سرکاری و نجی دفاتر میں کام کرنے کی اجازت کے لیے دارالحکومت میں مظاہرہ کیا۔
خواتین کا کہنا تھا کہ گزشتہ 20 برسوں میں خواتین نے اہم شعبوں میں ترقی کی ہے اور ملک کے لیے خدمات انجام دی ہیں۔ اس ساری محنت کو یوں رائیگاں نہیں کیا جا سکتا۔