پاکستان کی پہلی فلم ’’تیری یاد‘‘ کے ہیرو ناصرخان
دلیپ کمارکے چھوٹے بھائی نے بالی ووڈاور لالی ووڈ دونوں جگہ بہترین کام کیا۔
ایک ہی بطن سے پیدا ہونے والے دوبھائی جو ہندی فلم صنعت میں قسمت آزمائی کرنے لگے توایک بام عروج کو پہنچ گیا اور دوسرا باوجود محنت اور لگن کے صرف اپنی پہچان ہی بناسکا جسے ہم قسمت بھی کہہ سکتے ہیں۔
جی ہاں ہم ذکر ان دوہستیوں کا کر رہے ہیں جنہوں نے نا صرف ہندی فلم انڈسٹری کو الگ پہچان دی بلکہ اپنی جائے پیدائش خطہ پشاورکو بھی چار دانگ عالم میں روشناس کرایا جی آپ سمجھ چکے ہوں گے کہ ہم عظیم اداکار یوسف خان المعروف دلیپ کمار اور ان کے خوبرو چھوٹے بھائی ناصرخان کی بات کر رہے ہیں جو پشاور میں پیدا ہوئے اور پھر بمبئی جا کر اداکاری کی ایسی پرتیں کھولتے گئے کہ فلم بین عش عش کر اٹھے،
ہندوستان کی فلمی صنعت میں جن اداکار بھائیوں کی جوڑی سب سے زیادہ مشہور ہوئی ان میں دلیپ کمار اور ناصر خان کا نام سرفہرست دکھائی دیتا ہے، دلیپ کمارکے بھائی ناصرخان نے بھی کئی فلموں میں کام کیا ۔ وہ پاکستان میں بننے والی پہلی فلم ''تیری یاد'' کے ہیرو تھے۔
دلیپ کمارکی یادگار فلموں میں ''داغ، نیادور، دیوداس، مغل اعظم،گنگاجمنا، رام اورشیام، شکتی، امر، آن، مشعل، ودھاتا اورکئی دیگر فلمیں شامل ہیں۔ اداکاری کے اس آفتاب کی کرنوں سے آج بھی ہندوستان کی فلمی صنعت کے نئے اداکار مستفید ہو رہے ہیں ۔ ناصرخان کی سب سے مشہور فلم ''گنگاجمنا'' تھی جس میں انہوں نے اپنے بھائی دلیپ کمارکے ساتھ کام کیا تھا ۔ ''گنگا جمنا'' کے فلمساز بھی دلیپ کمار تھے ۔
قارئین نے تودلیپ کمارکے بارے میں بہت کچھ پڑھا،سنا اوردیکھا ہوگا لیکن ان کے چھوٹے بھائی ناصرخان کے بارے میں کم ہی پڑھااور سنا ہو گا، توآئیے آج ہم ناصرخان کی ابتدائی زندگی اور ان کے فلمی کیرئیر پر ایک نظر ڈالتے ہیں،
سر زمین پشاورکی مٹی سے جنم لینے والے خوبرو اداکار ناصرخان11جنوری 1924 کو پشاور شہرکے قصہ خوانی بازارکے ایک محلہ خداداد میں پیدا ہوئے، والدہ کا نام عائشہ بیگم اوروالدکا نام محمد سرورخان تھا، ان کے والد پشاور میں پھلوں کی آڑھت کا کاروبار کرتے تھے، ناصرخان اپنے والدین کی چھٹی اولاد تھے، ان کے کل تیرہ بہن بھائی تھے، ان سے بڑے تین بھائی نورمحمد ، ایوب خان اور یوسف خان المعروف دلیپ کمار تھے جب کہ چھوٹے بھائیوں میں محمد احسن اور محمد اسلم شامل ہیں۔
ناصرکے دادا حاجی محمدکو فارسی شاعری سے بڑی محبت تھی وہ گھر میں فارسی بولاکرتے تھے، ناصرکو ابتدائی تعلیم کے لیے پہلے مسجد اور بعدازاںگھر کے نزدیک انجمن اسلامیہ سکول خداداد میں داخل کرایا گیا، ناصرخان کا بچپن پشاور کے گلی محلوں میں کھیلتے ہوئے گزرا، پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد ان کے والدکا کاروبار مندے کا شکار ہو گیا چنانچہ وہ بہترمستقبل کے لیے پشاور سے بمبئی چلے گئے جہاں انہوں نے کرافورڈ مارکیٹ میں ایک دکان خرید لی اور نئے سرے سے کاروبارکاآغازکیا جب ان کاکاروبار جم گیا تو انہوں نے پشاور سے اپنے بیوی بچوں کو بھی اپنے پاس بلا لیا، جہاں ناصر خان کو بمبئی کے انجمن اسلام ہائی سکول میں داخل کرایا گیا۔
اس دوران جب ان کی والدہ شدید بیمارہو گئیں تو وہ دیولائی کے علاقے میں منتقل ہوگئے، والدین کی خواہش کے باوجود ناصر اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کر سکے، گرمیوں کی چھٹیوں میں وہ پشاورآجایا کرتے تھے، دوسری جنگ عظیم کے دوران ایک بار پھر ان کے والدکاکاروبار مندے کا شکار ہوگیا۔
ناصرکسی موزوں جاب کی تلاش میں تھے،کئی ایک جگہ انہوں نے قسمت آزمائی کی، ایک دن وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ فلمستان سٹوڈیو ایک فلم کی شوٹنگ دیکھنے گئے جہاں ان کی ملاقات نامورہداہت کار نتن بوس سے ہوئی جنہیں اپنی فلم کے لیے ایک نئے چہرے کی تلاش تھی، نتن بوس ناصرکے مردانہ حسن و وجاہت سے بڑے متاثر ہوئے اور انہیں اپنی فلم میں کام کرنے کی پیشکش کر دی تاہم وہ اپنے والدکی ناراضگی سے خائف تھے، انہوں نے ڈرتے ہوئے معاہدے پردستخط توکر دئیے لیکن اس سوچ میں تھے کہ والدکوکیا بہانہ کریں گے۔
جب فلم کی شوٹنگ شروع ہوئی تو ناصر دیر سے گھر آنے لگے،گھر والے بھی فکرمند تھے، جب ناصرکو اپنی پہلی تنخواہ ملی تو وہ بڑے خوش ہوئے،انہوں نے ساڑھے تین سوروپے اپنے والدکو دئیے تو والد نے ان سے پوچھا کہ''اتنے پیسے کہاں سے آئے ہیں'' تو ناصر نے کہا کہ ''میں نے فلموں میں اداکاری شروع کر دی ہے '' ناصرکاخیال تھا کہ اتنی رقم دیکھ کراس کے والد خوش ہو جائیں گے لیکن ان کے والد غصے میں آگئے اورکہا کہ ''سرورخان کے بیٹے ہوکر فلموں میں کام کرو گے'' انہوں نے نوٹوں کا لفافہ پھاڑ دیا اوراس کے ٹکڑے باہرگلی میں پھینک دئیے۔
پھر وہ ایک عرصہ تک ناصرسے ناراض رہے ، ناصرکی پہلی فلم کا نام ''مزدور'' تھا، اس فلم میں ان کی ہیروئن ویرا تھی، ہداہت کارنتن بوس اور موسیقار ایچ پی داس تھے، یہ فلم 1945میں ریلیز ہوئی لیکن کوئی خاص کامیابی حاصل نہ کر سکی تاہم انہیں زیادہ شہرت فلمستان کی دوسری فلم ''شہنائی ''سے ملی، اس فلم میں ان کی ہیروئن ریحانہ، ہدایت کار پی ایل سنتوشی اور موسیقار سی رام چندر تھے ، فلم 1947میں ریلیز ہوئی، اس فلم میں ان پر فلمایا ہوا یہ گیت بے حد مقبول ہوا ۔
سنڈے کے سنڈے چلی آنا میری جان
معروف لکھاری اورمحقق ابراہیم ضیاء اپنی کتاب پشاورکے فن کار میں لکھتے ہیں کہ تقسیم ہندکے بعد ناصرخان لاہور آگئے اور پاکستان میں بننے والی پہلی فلم ''تیری یاد'' میں آشاپوسلے کے ساتھ بطور ہیروکام کیا، فلم سازدیوان سرداری لال کی اس فلم کے ہدایت کارداؤد چاند اور موسیقار ماسٹرناتھ تھے، یہ فلم سات اگست 1948 کو ریلیز ہوئی لیکن بری طرح ناکام ہوگئی۔
اس دوران ناصر نے اداکار نذیرکی بیٹی ثریا سے شادی کر لی اور میکلوڈ روڈ رتن سینماکے سامنے ایک بلڈنگ میں اپنا ڈسٹری بیوشن آفس بھی کھول لیا،1949میں ناصر خان نے ایک اورفلم ''شاہدہ ''میں شمیم کے مقابل ہیروکا کردار نبھایا، اس فلم کے ہدایت کار لقمان اور موسیقار ماسٹر غلام حیدر اور جی اے چشتی تھے۔
بدقسمتی سے ان کی یہ فلم بھی فلاپ ہوگئی، پاکستان میں اپنی فلموں کے فلاپ ہو جانے پر ناصر خان دل برداشتہ ہوگئے اور انہوں نے واپس بمبئی جانے کی ٹھان لی، ان کی بیوی ثریا بمبئی جانے کوتیار نہ تھی، چنانچہ ناصر نے ثریا کو طلاق دے دی اور خود لاہور سے بمبئی روانہ ہوگئے۔
بمبئی میں انہوں نے کچھ عرصہ بے روزگاری کے عالم میں گزارا اور مختلف نگارخانوں کے چکرکاٹتے رہے،آخرکار قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہوگئی اور1951میں ان کی پانچ فلمیں ریلیز ہوئیں جوکامیاب ہوئیں ، وہ آل انڈیا پکچرزکی فلم نازنین اور بخشی برادرزکی فلم خزانہ میں مدھوبالاکے ساتھ ہیروآئے، فلم نازنین کے ہدایت کار فرزند پشاور نذیرخان زیری اور موسیقار غلام محمد جب کہ فلم خزانہ کے ہدایت کار ایم صادق اور موسیقار سی رام چندر تھے۔
پنچولی پکچرزکی فلم نگینہ میں ان کی ہیروئن نوتن، پاروپکچرزکی فلم نخرے میں گیتا بالی اور ویسٹ اینڈ پکچرزکی فلم سوداگر میں ان کی ہیروئن ریحانہ تھی، ان فلموں کے گیت بے حد مقبول ہوئے تھے ، ان کے بعد کا دور ناصر کے عروج کا دور تھا، اب وہ فلم سازوں کی ضرورت بن گئے تھے، اس کے بعد ناصر نے متعدد فلموںآسمان اور شریمتی جی میں شیاما، ہنگامہ، آغوش اور شیشم میں نوتن، خوبصورت، انعام اور لال کنور میں ثریا، دائرہ میں میناکماری، انگارے میں نرگس، سوسائٹی میں نمی، جواب میں گیتابالی ، چارمینار میں جبین اور سمندری ڈاکو میں نادرہ کے ساتھ مرکزی کردار نبھائے ۔
1956میں ناصرخان کی زندگی میں خوبرو اور بے باک اداکارہ بیگم پارہ نے قدم رکھا ، ان دونوں کی پہلی ملاقات پنچولی کی فلم''لٹیرا'' کے سیٹ پر ہوئی، بیگم پارا اس فلم میں ڈاکو عورت کا کردارکر رہی تھی، ناصرخان فلم کے ہیرو تھے، اس فلم کے ہدایت کار رویندر دوے اور موسیقار سی رام چندر تھے۔
فلم بندی کے دوران وہ ایک دوسرے کے قریب آگئے اور ان کا رومانس شروع ہوگیا، اس کے بعد ناصر اور بیگم پارا نے بھگوان برادرزکی فلم کربھلا اور پچکرز پرائیڈ پروڈکشنزکی فلم آدمی میں مرکزی کردار ادا کئے، فلم کربھلا کے ہدایت کار بھگوان، موسیقار نثاربزمی جب کہ فلم آدمی کے ہدایت کارنونیت رائے اور موسیقار رام ناتھ تھے۔
ان فلموں کی تکمیل کے دوران ناصر نے بیگم پارا سے شادی کر لی، ان دونوں کی شادی میں ناصرکے گھر والے شریک نہ ہوئے، بیگم پارا بھی اپنی روشن خیالی اور بے باکی کی وجہ سے ان کے گھر والوں سے ایڈجسٹ نہ کر سکی،شادی کے بعد بیگم پارا نے فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیارکر لی،1958میں ناصر اور دلیپ کمارکی مشترکہ فلم گنگا جمنا کاآغازہوا، اس فلم میں دلیپ نے گنگا اور ناصر نے چھوٹے بھائی جمنا کاکردارادا کیا تھا، فلم کی ہیروئن وجنتی مالا تھی۔
اس فلم کے ہدایت کار نتن بوس اور موسیقار نوشاد تھے جب کہ عکاسی وی بابا صاحب نے کی تھی، ناصر نے اس فلم میں پولیس انسپکٹرجمنا کا کردارادا کیا تھاجوقانون کی رکھوالی کے لیے اپنے بڑے بھائی گنگا جو ڈاکوئوں کا سردار تھا، کوگولی مار دیتا ہے، اس فلم میں فرض اور محبت کی کشمکش کو بڑے خوب صورت انداز میں اجاگرکیا گیا تھا، تاہم جب فلم سنسر بورڈ میں پیش ہوئی تو سنسر بورڈ نے اس فلم کو پاس کرنے سے انکارکر دیا۔
بورڈ نے فلم میں فحاشی اور تشدد کا الزام لگا کر اسے نمائش کے لیے مسترد کر دیا، بعد ازاں ایک طویل قانونی جنگ کے بعد اس فلم کو نمائش کی اجازت مل گئی اور یوں یہ فلم دس نومبر1961کو ریلیز ہوئی اور سال کی بہترین فلم ثابت ہوئی، اس فلم نے بہترین اداکاری، بہترین مکالمات اور بہترین فوٹوگرافی پر تین فلم فئیر ایوارڈ حاصل کئے، اس کے علاوہ بوسٹن امریکہ کے فلمی میلے میںگنگاجمنا نے ''سلور بائول''حاصل کیا تھا، اسی سال ناصر خان کی بطور ہیرو آخری فلم''سایہ''ریلیز ہوئی جس میں اس کی ہیروئن نگارسلطانہ تھی، اس فلم کے ہدایت کار شری رام اور موسیقار رام گنگولی تھے،
جس وقت سنسربورڈ سے طویل رسہ کشی کے بعد ناصرکی فلم گنگا جمنا ریلیز ہوئی اس وقت تک ناصر بالکل کھوکھلے ہو چکے تھے، بھائی سے علیحدگی نے انہیں الگ پریشان کر رکھا تھا، اس ذہنی پریشانی اور تنائو کے باعث ان کے سر کے بال بھی جھڑ گئے تھے چنانچہ انہوں نے فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیارکر لی اور بمبئی کے علاقے ناسک سے کچھ دور ٹرم کیشورکے مقام پر پچاس ایکڑ اراضی حاصل کی اور اس پر ایک پولٹری فارم بنا لیا وہاں نہ تو بجلی تھی نہ ہی کوئی اور سہولت دستیاب تھی، فارمنگ کے لیے متواتر پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کے پاس اتنا پیسہ بھی نہ تھا، ناصر پانچ چھ برس تک اس کاروبار سے وابستہ رہے آخرکار اپنا فارم انکم ٹیکس کے بقایاجات کی ادائیگی کے بدلے دینا پڑ گیا ۔
بمبئی واپس آکر ناصر خان نے ایک فلم ''ضد'' بنانے کا اعلان کیا، اس فلم میں مرکزی کرداروں کے لیے سائرہ بانو، سنجے خان اور انور حسین کا انتخاب کیا، ناصر اس فلم کی ڈلہوزی میں آئوٹ ڈور شوٹنگ میں مصروف تھے کہ ان پر دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا اور 3 مئی 1974 کو نئی دہلی میں ان کا انتقال ہو گیا۔
ان کی زندگی کی آخری فلم''بیراگ'' ان کی وفات کے بعد 1976 میں ریلیز ہوئی جس میں انہوں نے سائرہ بانو اور دلیپ کمار کے ساتھ ''ڈاکٹر مشرا'' کا کردار نبھایا تھا، ناصر کے انتقال کے بعد بیگم پارا کی دنیا میں بھی اندھیرا چھا گیا، وہ اپنے بچوں کے ہمراہ پاکستان آگئی، کراچی میں اس کی والدہ اوردیگررشتے دار رہتے تھے ، کراچی میں بیگم پارا نے ایک بار پھر اپنے شوہر کی نامکمل فلم ''ضد'' کاآغازکیا ، کراچی کے ماڈرن سٹوڈیو میں اس فلم کا افتتاح ہوا لیکن پاکستان کے انتہائی مشرقی ماحول اور پردے کی پابندی والے معاشرے میں وہ ایڈجسٹ نہ ہو سکی۔
بمبئی میں تو وہ جینز پہن کر لانگ ڈرائیو پر نکل جایا کرتی لیکن یہاں وہ زبردست گھٹن کا شکار ہوگئی تھی چنانچہ وہ اپنے بچوں کو لے کر واپس بمبئی چلی گئی جہاں اس نے اپنی پوری توجہ بچوں کی تعلیم پر مرکوزکر دی تھی ۔ ناصر سے بیگم پارا کی دوبیٹیاں ناہید اور لبنیٰ شادی شدہ ہیں۔
ناہید امریکہ میں ہے اور لبنیٰ جے پور میں، ان کا بڑا بیٹا نادر خان ایک وقت تک ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی چلا رہا تھا جب کہ چھوٹا بیٹا ایوب خان انڈین فلم انڈسٹری سے وابستہ رہا تاہم کئی فلموں میں مرکزی کردار ادا کرنے کے باوجود اپنے باپ کی طرح نامور اداکار نہ بن سکا جس کے بعد اس نے ٹی وی ڈراموں میں بھی قسمت آزمائی کی ۔
دلیپ کمارکے بھائی ناصرخان کی بات کرتے ہوئے جے پرکاش کہتے ہیں کہ ناصرکی ایک فلم 50 کی دہائی میں آئی تھی جس کانام نگینہ تھا ۔ یہ ایک اے سرٹیفیکیٹ فلم تھی اور شنکرجی کرشن کی موسیقی کی وجہ سے سپرہٹ ہوئی تھی ۔ فلم میں ہیروئین نوتن تھی اور یہ فلم کافی چلی بھی، فلم ''نگینہ'' کامیاب ثابت ہوئی اور یوں ناصرخاں کو فلمی دنیا میں نئی زندگی مل گئی ۔ فلم کے ایک سین میں ناصر خان نوتن کواٹھائے ہوئے تھے جس کی وجہ سے بھارتی سنسر بورڈ نے فلم کو بالغوں کے لئے سرٹیفکیٹ جاری کر دیا ۔ اس سرٹیفکیٹ کے جاری ہونے کے بعد فلم کو دیکھنے کے لئے 18سال سے کم عمرکی خواتین سنیما نہیں جا سکتی تھیں، نوتن جب اپنی فلم کا پہلا شو دیکھنے گئیں تو ان کی عمر اس وقت 16سال تھی جس کی وجہ سے انہیں سنیما کے گیٹ کیپر نے روک دیا جس کے بعد انہیں اپنی فلم دیکھنے کے لئے برقع پہننا پڑا ۔
ہدایت کار و فلم سازنذیرکی بیٹی ثریا سے شادی
فلم''لیلیٰ مجنوں '' 1945ء میں ریلیز ہوئی تھی اور بمبئی کی فلم کہلاتی تھی مگر بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ اس کی کافی شوٹنگ لاہور میں بھی کی گئی تھی ۔ ملک باری نے فلمی تقسیم کاری کاآغاز لاہور میں نذیر صاحب کی فلم ''لیلیٰ مجنوں '' کو ریلیز کر کے ہی کیا تھا بعد میں ''دامق عذرا'' بھی انہوں نے ہی ریلیزکی تھی ۔ وہ ایک غریب گھرانے کے نوجوان تھے اور رشتے میں نذیر صاحب کے بھانجے تھے مگر حسن وجمال میں بے مثال، نذیر کی نظر میں آئے تو وہ ملک باری پر مہربان ہو گئے ۔
اس مہربانی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ نذیر صاحب اپنی پہلی بیوی سے جنم لینے والی بیٹی ثریا کی شادی ملک باری سے کرنے کے خواہش مند تھے۔ پاکستان بننے کے بعد بھی نذیر صاحب کی فلمیں ملک باری ہی ریلیزکرتے رہے اور صحیح معنوں میں ملک باری کو غربت سے نکال کر دولت مندوں کی صف میں شامل کرنے والے نذیر ہی تھے مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ ثریاکی شادی ملک باری سے نہ ہو سکی ۔ قیام پاکستان کے بعد ثریا نے ناصر خان سے شادی کر لی لیکن یہ شادی بھی زیادہ عرصے تک قائم نہ رہ سکی ۔ ناصر خان نے کچھ عرصہ بعد بیگم پارہ سے شادی کر لی، بیگم پارہ عبدالحفیظ پیرزادہ کی سالی تھی ۔
پاکستان کی پہلی فلم ''تیری یاد'' کی کہانی
14 اگست1947ء کو پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے ساتھ ہی لاہور میں فلمی صنعت کی بنیاد رکھتے ہوئے فلم ساز دیوان سرداری لال نے پہلی فلم ''تیری یاد'' کا آغاز کر دیا جس کے لیے انہوں نے دلیپ کمار کے بھائی ناصر خان اور آشاپوسلے کو مرکزی کرداروں کے لیے چنا، تقسیم سے قبل لاہور کا شمار بمبئی اور کلکتہ کے بعد تیسرے بڑے فلمی مرکز میں ہوتا تھا، یہاں بننے والی فلمیں پْورے ہندوستان میں کام یاب رہیں ۔
فسادات کے دوران لاہور کے نگار خانے نذرِآتش کر دیے گئے، خاص طور پر پنچولی آرٹ اسٹوڈیو، جولاہورکا ایک بڑا اہم اسٹوڈیو تھا، شرپسندوں نے جان بوجھ کر اسے جلادیا تاکہ یہاں فلمی صنعت نہ قائم ہو سکے لیکن آنجہانی دیوان سرداری لال نئے ملک پاکستان میں فلم سازی کاخواب لے کر میدان میں کود پڑے ، وہ محکمہ انکم ٹیکس میں وکیل بھی تھے ۔ انہوں نے پنچولی آرٹ کے ٹوٹے ہوئے سامان کو اکٹھا کیا ، کیمرہ اور سائونڈ سسٹم اسٹوڈیوکے باتھ روم میں ٹوٹی ہوئی حالت میں ملے ۔ ان تمام ایکوپمنٹ کو چند گنے چنے ٹیکنیشن نے دوبارہ استعمال کے قابل بنایا ۔ ان تمام ہنرمندوں نے حْب الوطنی کے جذبے سے کام کرتے ہوئے یہاں فلمی صنعت کی داغ بیل ڈالی ۔ اس دور میں بھارتی فلموں کا پاکستانی سنیما ہائوسز پر قبضہ تھا۔
اس قبضے سے سنیماہائوسزکوآزادکرانے کے لیے دیوان سرداری لال ، لقمان ، دائود چاند ، فوٹوگرافررضامیر، بھائیا حمید ، جعفرشاہ بخاری ، ایم عبداللہ ، میاں رشید کاردار ، تدوین کار ایم اے لطیف ، موسیقار ناتھ ، غلام حیدر ،کہانی نویس خادم محی الدین نے فلم میکنگ کی بنیاد رکھی ۔ فلم ''تیری یاد'' کے آغازکے ساتھ چند اور فلمیں بھی شروع ہوئیں جن میں ہدایت کار لقمان کی فلم شاہدہ، ہچکولے، جہاد، ہیر رانجھا ، کندن اور کروٹ نامی فلمیں بھی ابتدائی مرا حل میں شروع ہو گئی تھیں ۔ 9 مارچ 1948ء کو پنچولی آرٹ پکچرز کے جنرل مینجردیوان سرداری لال نے لاہورکے صحافیوں کو پنچولی آرٹ اسٹوڈیو میں ایک عشائیہ دیا جس کے بعد انہوں نے صحافیوں کو اپنی فلم ''تیری یاد'' کی شوٹنگ بھی دکھائی ۔ یہ فلم ہفتہ 7 اگست عیدالفطر 1948 کو لاہورکے پربھات سنیما میں ریلیز ہوئی ۔
پاکستان کی یہ اولین فلم 90 دن کی شب وروزکی محنت سے پایہ تکمیل کو پہنچی ۔ بلاشبہ اس فلم کے تمام فن کار اور ٹیکنیشنز قابل ستائش ہیں جنہوں نے حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہو کر اس پہلی فلم میں اپنی تمام خدمات بلامعاوضہ پیش کر کے ایک ایسی مثال قائم کی جس نے پاکستان میں فلمی صنعت کی بنیادوں میں خلوص ، محبت اور قربانی جیسے جذبات کو شامل کر کے یہاں فلم سازی کاپودا لگایا جو بعد میں تناور درخت کی صورت میں پروان چڑھا اور جس کے سائے تلے ان گنت فن کاروں اور ٹیکنیشنز کا فن اس کی مضبوطی اور حسن میں اضافے کا باعث بنا ۔
جی ہاں ہم ذکر ان دوہستیوں کا کر رہے ہیں جنہوں نے نا صرف ہندی فلم انڈسٹری کو الگ پہچان دی بلکہ اپنی جائے پیدائش خطہ پشاورکو بھی چار دانگ عالم میں روشناس کرایا جی آپ سمجھ چکے ہوں گے کہ ہم عظیم اداکار یوسف خان المعروف دلیپ کمار اور ان کے خوبرو چھوٹے بھائی ناصرخان کی بات کر رہے ہیں جو پشاور میں پیدا ہوئے اور پھر بمبئی جا کر اداکاری کی ایسی پرتیں کھولتے گئے کہ فلم بین عش عش کر اٹھے،
ہندوستان کی فلمی صنعت میں جن اداکار بھائیوں کی جوڑی سب سے زیادہ مشہور ہوئی ان میں دلیپ کمار اور ناصر خان کا نام سرفہرست دکھائی دیتا ہے، دلیپ کمارکے بھائی ناصرخان نے بھی کئی فلموں میں کام کیا ۔ وہ پاکستان میں بننے والی پہلی فلم ''تیری یاد'' کے ہیرو تھے۔
دلیپ کمارکی یادگار فلموں میں ''داغ، نیادور، دیوداس، مغل اعظم،گنگاجمنا، رام اورشیام، شکتی، امر، آن، مشعل، ودھاتا اورکئی دیگر فلمیں شامل ہیں۔ اداکاری کے اس آفتاب کی کرنوں سے آج بھی ہندوستان کی فلمی صنعت کے نئے اداکار مستفید ہو رہے ہیں ۔ ناصرخان کی سب سے مشہور فلم ''گنگاجمنا'' تھی جس میں انہوں نے اپنے بھائی دلیپ کمارکے ساتھ کام کیا تھا ۔ ''گنگا جمنا'' کے فلمساز بھی دلیپ کمار تھے ۔
قارئین نے تودلیپ کمارکے بارے میں بہت کچھ پڑھا،سنا اوردیکھا ہوگا لیکن ان کے چھوٹے بھائی ناصرخان کے بارے میں کم ہی پڑھااور سنا ہو گا، توآئیے آج ہم ناصرخان کی ابتدائی زندگی اور ان کے فلمی کیرئیر پر ایک نظر ڈالتے ہیں،
سر زمین پشاورکی مٹی سے جنم لینے والے خوبرو اداکار ناصرخان11جنوری 1924 کو پشاور شہرکے قصہ خوانی بازارکے ایک محلہ خداداد میں پیدا ہوئے، والدہ کا نام عائشہ بیگم اوروالدکا نام محمد سرورخان تھا، ان کے والد پشاور میں پھلوں کی آڑھت کا کاروبار کرتے تھے، ناصرخان اپنے والدین کی چھٹی اولاد تھے، ان کے کل تیرہ بہن بھائی تھے، ان سے بڑے تین بھائی نورمحمد ، ایوب خان اور یوسف خان المعروف دلیپ کمار تھے جب کہ چھوٹے بھائیوں میں محمد احسن اور محمد اسلم شامل ہیں۔
ناصرکے دادا حاجی محمدکو فارسی شاعری سے بڑی محبت تھی وہ گھر میں فارسی بولاکرتے تھے، ناصرکو ابتدائی تعلیم کے لیے پہلے مسجد اور بعدازاںگھر کے نزدیک انجمن اسلامیہ سکول خداداد میں داخل کرایا گیا، ناصرخان کا بچپن پشاور کے گلی محلوں میں کھیلتے ہوئے گزرا، پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد ان کے والدکا کاروبار مندے کا شکار ہو گیا چنانچہ وہ بہترمستقبل کے لیے پشاور سے بمبئی چلے گئے جہاں انہوں نے کرافورڈ مارکیٹ میں ایک دکان خرید لی اور نئے سرے سے کاروبارکاآغازکیا جب ان کاکاروبار جم گیا تو انہوں نے پشاور سے اپنے بیوی بچوں کو بھی اپنے پاس بلا لیا، جہاں ناصر خان کو بمبئی کے انجمن اسلام ہائی سکول میں داخل کرایا گیا۔
اس دوران جب ان کی والدہ شدید بیمارہو گئیں تو وہ دیولائی کے علاقے میں منتقل ہوگئے، والدین کی خواہش کے باوجود ناصر اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کر سکے، گرمیوں کی چھٹیوں میں وہ پشاورآجایا کرتے تھے، دوسری جنگ عظیم کے دوران ایک بار پھر ان کے والدکاکاروبار مندے کا شکار ہوگیا۔
ناصرکسی موزوں جاب کی تلاش میں تھے،کئی ایک جگہ انہوں نے قسمت آزمائی کی، ایک دن وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ فلمستان سٹوڈیو ایک فلم کی شوٹنگ دیکھنے گئے جہاں ان کی ملاقات نامورہداہت کار نتن بوس سے ہوئی جنہیں اپنی فلم کے لیے ایک نئے چہرے کی تلاش تھی، نتن بوس ناصرکے مردانہ حسن و وجاہت سے بڑے متاثر ہوئے اور انہیں اپنی فلم میں کام کرنے کی پیشکش کر دی تاہم وہ اپنے والدکی ناراضگی سے خائف تھے، انہوں نے ڈرتے ہوئے معاہدے پردستخط توکر دئیے لیکن اس سوچ میں تھے کہ والدکوکیا بہانہ کریں گے۔
جب فلم کی شوٹنگ شروع ہوئی تو ناصر دیر سے گھر آنے لگے،گھر والے بھی فکرمند تھے، جب ناصرکو اپنی پہلی تنخواہ ملی تو وہ بڑے خوش ہوئے،انہوں نے ساڑھے تین سوروپے اپنے والدکو دئیے تو والد نے ان سے پوچھا کہ''اتنے پیسے کہاں سے آئے ہیں'' تو ناصر نے کہا کہ ''میں نے فلموں میں اداکاری شروع کر دی ہے '' ناصرکاخیال تھا کہ اتنی رقم دیکھ کراس کے والد خوش ہو جائیں گے لیکن ان کے والد غصے میں آگئے اورکہا کہ ''سرورخان کے بیٹے ہوکر فلموں میں کام کرو گے'' انہوں نے نوٹوں کا لفافہ پھاڑ دیا اوراس کے ٹکڑے باہرگلی میں پھینک دئیے۔
پھر وہ ایک عرصہ تک ناصرسے ناراض رہے ، ناصرکی پہلی فلم کا نام ''مزدور'' تھا، اس فلم میں ان کی ہیروئن ویرا تھی، ہداہت کارنتن بوس اور موسیقار ایچ پی داس تھے، یہ فلم 1945میں ریلیز ہوئی لیکن کوئی خاص کامیابی حاصل نہ کر سکی تاہم انہیں زیادہ شہرت فلمستان کی دوسری فلم ''شہنائی ''سے ملی، اس فلم میں ان کی ہیروئن ریحانہ، ہدایت کار پی ایل سنتوشی اور موسیقار سی رام چندر تھے ، فلم 1947میں ریلیز ہوئی، اس فلم میں ان پر فلمایا ہوا یہ گیت بے حد مقبول ہوا ۔
سنڈے کے سنڈے چلی آنا میری جان
معروف لکھاری اورمحقق ابراہیم ضیاء اپنی کتاب پشاورکے فن کار میں لکھتے ہیں کہ تقسیم ہندکے بعد ناصرخان لاہور آگئے اور پاکستان میں بننے والی پہلی فلم ''تیری یاد'' میں آشاپوسلے کے ساتھ بطور ہیروکام کیا، فلم سازدیوان سرداری لال کی اس فلم کے ہدایت کارداؤد چاند اور موسیقار ماسٹرناتھ تھے، یہ فلم سات اگست 1948 کو ریلیز ہوئی لیکن بری طرح ناکام ہوگئی۔
اس دوران ناصر نے اداکار نذیرکی بیٹی ثریا سے شادی کر لی اور میکلوڈ روڈ رتن سینماکے سامنے ایک بلڈنگ میں اپنا ڈسٹری بیوشن آفس بھی کھول لیا،1949میں ناصر خان نے ایک اورفلم ''شاہدہ ''میں شمیم کے مقابل ہیروکا کردار نبھایا، اس فلم کے ہدایت کار لقمان اور موسیقار ماسٹر غلام حیدر اور جی اے چشتی تھے۔
بدقسمتی سے ان کی یہ فلم بھی فلاپ ہوگئی، پاکستان میں اپنی فلموں کے فلاپ ہو جانے پر ناصر خان دل برداشتہ ہوگئے اور انہوں نے واپس بمبئی جانے کی ٹھان لی، ان کی بیوی ثریا بمبئی جانے کوتیار نہ تھی، چنانچہ ناصر نے ثریا کو طلاق دے دی اور خود لاہور سے بمبئی روانہ ہوگئے۔
بمبئی میں انہوں نے کچھ عرصہ بے روزگاری کے عالم میں گزارا اور مختلف نگارخانوں کے چکرکاٹتے رہے،آخرکار قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہوگئی اور1951میں ان کی پانچ فلمیں ریلیز ہوئیں جوکامیاب ہوئیں ، وہ آل انڈیا پکچرزکی فلم نازنین اور بخشی برادرزکی فلم خزانہ میں مدھوبالاکے ساتھ ہیروآئے، فلم نازنین کے ہدایت کار فرزند پشاور نذیرخان زیری اور موسیقار غلام محمد جب کہ فلم خزانہ کے ہدایت کار ایم صادق اور موسیقار سی رام چندر تھے۔
پنچولی پکچرزکی فلم نگینہ میں ان کی ہیروئن نوتن، پاروپکچرزکی فلم نخرے میں گیتا بالی اور ویسٹ اینڈ پکچرزکی فلم سوداگر میں ان کی ہیروئن ریحانہ تھی، ان فلموں کے گیت بے حد مقبول ہوئے تھے ، ان کے بعد کا دور ناصر کے عروج کا دور تھا، اب وہ فلم سازوں کی ضرورت بن گئے تھے، اس کے بعد ناصر نے متعدد فلموںآسمان اور شریمتی جی میں شیاما، ہنگامہ، آغوش اور شیشم میں نوتن، خوبصورت، انعام اور لال کنور میں ثریا، دائرہ میں میناکماری، انگارے میں نرگس، سوسائٹی میں نمی، جواب میں گیتابالی ، چارمینار میں جبین اور سمندری ڈاکو میں نادرہ کے ساتھ مرکزی کردار نبھائے ۔
1956میں ناصرخان کی زندگی میں خوبرو اور بے باک اداکارہ بیگم پارہ نے قدم رکھا ، ان دونوں کی پہلی ملاقات پنچولی کی فلم''لٹیرا'' کے سیٹ پر ہوئی، بیگم پارا اس فلم میں ڈاکو عورت کا کردارکر رہی تھی، ناصرخان فلم کے ہیرو تھے، اس فلم کے ہدایت کار رویندر دوے اور موسیقار سی رام چندر تھے۔
فلم بندی کے دوران وہ ایک دوسرے کے قریب آگئے اور ان کا رومانس شروع ہوگیا، اس کے بعد ناصر اور بیگم پارا نے بھگوان برادرزکی فلم کربھلا اور پچکرز پرائیڈ پروڈکشنزکی فلم آدمی میں مرکزی کردار ادا کئے، فلم کربھلا کے ہدایت کار بھگوان، موسیقار نثاربزمی جب کہ فلم آدمی کے ہدایت کارنونیت رائے اور موسیقار رام ناتھ تھے۔
ان فلموں کی تکمیل کے دوران ناصر نے بیگم پارا سے شادی کر لی، ان دونوں کی شادی میں ناصرکے گھر والے شریک نہ ہوئے، بیگم پارا بھی اپنی روشن خیالی اور بے باکی کی وجہ سے ان کے گھر والوں سے ایڈجسٹ نہ کر سکی،شادی کے بعد بیگم پارا نے فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیارکر لی،1958میں ناصر اور دلیپ کمارکی مشترکہ فلم گنگا جمنا کاآغازہوا، اس فلم میں دلیپ نے گنگا اور ناصر نے چھوٹے بھائی جمنا کاکردارادا کیا تھا، فلم کی ہیروئن وجنتی مالا تھی۔
اس فلم کے ہدایت کار نتن بوس اور موسیقار نوشاد تھے جب کہ عکاسی وی بابا صاحب نے کی تھی، ناصر نے اس فلم میں پولیس انسپکٹرجمنا کا کردارادا کیا تھاجوقانون کی رکھوالی کے لیے اپنے بڑے بھائی گنگا جو ڈاکوئوں کا سردار تھا، کوگولی مار دیتا ہے، اس فلم میں فرض اور محبت کی کشمکش کو بڑے خوب صورت انداز میں اجاگرکیا گیا تھا، تاہم جب فلم سنسر بورڈ میں پیش ہوئی تو سنسر بورڈ نے اس فلم کو پاس کرنے سے انکارکر دیا۔
بورڈ نے فلم میں فحاشی اور تشدد کا الزام لگا کر اسے نمائش کے لیے مسترد کر دیا، بعد ازاں ایک طویل قانونی جنگ کے بعد اس فلم کو نمائش کی اجازت مل گئی اور یوں یہ فلم دس نومبر1961کو ریلیز ہوئی اور سال کی بہترین فلم ثابت ہوئی، اس فلم نے بہترین اداکاری، بہترین مکالمات اور بہترین فوٹوگرافی پر تین فلم فئیر ایوارڈ حاصل کئے، اس کے علاوہ بوسٹن امریکہ کے فلمی میلے میںگنگاجمنا نے ''سلور بائول''حاصل کیا تھا، اسی سال ناصر خان کی بطور ہیرو آخری فلم''سایہ''ریلیز ہوئی جس میں اس کی ہیروئن نگارسلطانہ تھی، اس فلم کے ہدایت کار شری رام اور موسیقار رام گنگولی تھے،
جس وقت سنسربورڈ سے طویل رسہ کشی کے بعد ناصرکی فلم گنگا جمنا ریلیز ہوئی اس وقت تک ناصر بالکل کھوکھلے ہو چکے تھے، بھائی سے علیحدگی نے انہیں الگ پریشان کر رکھا تھا، اس ذہنی پریشانی اور تنائو کے باعث ان کے سر کے بال بھی جھڑ گئے تھے چنانچہ انہوں نے فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیارکر لی اور بمبئی کے علاقے ناسک سے کچھ دور ٹرم کیشورکے مقام پر پچاس ایکڑ اراضی حاصل کی اور اس پر ایک پولٹری فارم بنا لیا وہاں نہ تو بجلی تھی نہ ہی کوئی اور سہولت دستیاب تھی، فارمنگ کے لیے متواتر پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کے پاس اتنا پیسہ بھی نہ تھا، ناصر پانچ چھ برس تک اس کاروبار سے وابستہ رہے آخرکار اپنا فارم انکم ٹیکس کے بقایاجات کی ادائیگی کے بدلے دینا پڑ گیا ۔
بمبئی واپس آکر ناصر خان نے ایک فلم ''ضد'' بنانے کا اعلان کیا، اس فلم میں مرکزی کرداروں کے لیے سائرہ بانو، سنجے خان اور انور حسین کا انتخاب کیا، ناصر اس فلم کی ڈلہوزی میں آئوٹ ڈور شوٹنگ میں مصروف تھے کہ ان پر دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا اور 3 مئی 1974 کو نئی دہلی میں ان کا انتقال ہو گیا۔
ان کی زندگی کی آخری فلم''بیراگ'' ان کی وفات کے بعد 1976 میں ریلیز ہوئی جس میں انہوں نے سائرہ بانو اور دلیپ کمار کے ساتھ ''ڈاکٹر مشرا'' کا کردار نبھایا تھا، ناصر کے انتقال کے بعد بیگم پارا کی دنیا میں بھی اندھیرا چھا گیا، وہ اپنے بچوں کے ہمراہ پاکستان آگئی، کراچی میں اس کی والدہ اوردیگررشتے دار رہتے تھے ، کراچی میں بیگم پارا نے ایک بار پھر اپنے شوہر کی نامکمل فلم ''ضد'' کاآغازکیا ، کراچی کے ماڈرن سٹوڈیو میں اس فلم کا افتتاح ہوا لیکن پاکستان کے انتہائی مشرقی ماحول اور پردے کی پابندی والے معاشرے میں وہ ایڈجسٹ نہ ہو سکی۔
بمبئی میں تو وہ جینز پہن کر لانگ ڈرائیو پر نکل جایا کرتی لیکن یہاں وہ زبردست گھٹن کا شکار ہوگئی تھی چنانچہ وہ اپنے بچوں کو لے کر واپس بمبئی چلی گئی جہاں اس نے اپنی پوری توجہ بچوں کی تعلیم پر مرکوزکر دی تھی ۔ ناصر سے بیگم پارا کی دوبیٹیاں ناہید اور لبنیٰ شادی شدہ ہیں۔
ناہید امریکہ میں ہے اور لبنیٰ جے پور میں، ان کا بڑا بیٹا نادر خان ایک وقت تک ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی چلا رہا تھا جب کہ چھوٹا بیٹا ایوب خان انڈین فلم انڈسٹری سے وابستہ رہا تاہم کئی فلموں میں مرکزی کردار ادا کرنے کے باوجود اپنے باپ کی طرح نامور اداکار نہ بن سکا جس کے بعد اس نے ٹی وی ڈراموں میں بھی قسمت آزمائی کی ۔
دلیپ کمارکے بھائی ناصرخان کی بات کرتے ہوئے جے پرکاش کہتے ہیں کہ ناصرکی ایک فلم 50 کی دہائی میں آئی تھی جس کانام نگینہ تھا ۔ یہ ایک اے سرٹیفیکیٹ فلم تھی اور شنکرجی کرشن کی موسیقی کی وجہ سے سپرہٹ ہوئی تھی ۔ فلم میں ہیروئین نوتن تھی اور یہ فلم کافی چلی بھی، فلم ''نگینہ'' کامیاب ثابت ہوئی اور یوں ناصرخاں کو فلمی دنیا میں نئی زندگی مل گئی ۔ فلم کے ایک سین میں ناصر خان نوتن کواٹھائے ہوئے تھے جس کی وجہ سے بھارتی سنسر بورڈ نے فلم کو بالغوں کے لئے سرٹیفکیٹ جاری کر دیا ۔ اس سرٹیفکیٹ کے جاری ہونے کے بعد فلم کو دیکھنے کے لئے 18سال سے کم عمرکی خواتین سنیما نہیں جا سکتی تھیں، نوتن جب اپنی فلم کا پہلا شو دیکھنے گئیں تو ان کی عمر اس وقت 16سال تھی جس کی وجہ سے انہیں سنیما کے گیٹ کیپر نے روک دیا جس کے بعد انہیں اپنی فلم دیکھنے کے لئے برقع پہننا پڑا ۔
ہدایت کار و فلم سازنذیرکی بیٹی ثریا سے شادی
فلم''لیلیٰ مجنوں '' 1945ء میں ریلیز ہوئی تھی اور بمبئی کی فلم کہلاتی تھی مگر بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ اس کی کافی شوٹنگ لاہور میں بھی کی گئی تھی ۔ ملک باری نے فلمی تقسیم کاری کاآغاز لاہور میں نذیر صاحب کی فلم ''لیلیٰ مجنوں '' کو ریلیز کر کے ہی کیا تھا بعد میں ''دامق عذرا'' بھی انہوں نے ہی ریلیزکی تھی ۔ وہ ایک غریب گھرانے کے نوجوان تھے اور رشتے میں نذیر صاحب کے بھانجے تھے مگر حسن وجمال میں بے مثال، نذیر کی نظر میں آئے تو وہ ملک باری پر مہربان ہو گئے ۔
اس مہربانی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ نذیر صاحب اپنی پہلی بیوی سے جنم لینے والی بیٹی ثریا کی شادی ملک باری سے کرنے کے خواہش مند تھے۔ پاکستان بننے کے بعد بھی نذیر صاحب کی فلمیں ملک باری ہی ریلیزکرتے رہے اور صحیح معنوں میں ملک باری کو غربت سے نکال کر دولت مندوں کی صف میں شامل کرنے والے نذیر ہی تھے مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ ثریاکی شادی ملک باری سے نہ ہو سکی ۔ قیام پاکستان کے بعد ثریا نے ناصر خان سے شادی کر لی لیکن یہ شادی بھی زیادہ عرصے تک قائم نہ رہ سکی ۔ ناصر خان نے کچھ عرصہ بعد بیگم پارہ سے شادی کر لی، بیگم پارہ عبدالحفیظ پیرزادہ کی سالی تھی ۔
پاکستان کی پہلی فلم ''تیری یاد'' کی کہانی
14 اگست1947ء کو پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے ساتھ ہی لاہور میں فلمی صنعت کی بنیاد رکھتے ہوئے فلم ساز دیوان سرداری لال نے پہلی فلم ''تیری یاد'' کا آغاز کر دیا جس کے لیے انہوں نے دلیپ کمار کے بھائی ناصر خان اور آشاپوسلے کو مرکزی کرداروں کے لیے چنا، تقسیم سے قبل لاہور کا شمار بمبئی اور کلکتہ کے بعد تیسرے بڑے فلمی مرکز میں ہوتا تھا، یہاں بننے والی فلمیں پْورے ہندوستان میں کام یاب رہیں ۔
فسادات کے دوران لاہور کے نگار خانے نذرِآتش کر دیے گئے، خاص طور پر پنچولی آرٹ اسٹوڈیو، جولاہورکا ایک بڑا اہم اسٹوڈیو تھا، شرپسندوں نے جان بوجھ کر اسے جلادیا تاکہ یہاں فلمی صنعت نہ قائم ہو سکے لیکن آنجہانی دیوان سرداری لال نئے ملک پاکستان میں فلم سازی کاخواب لے کر میدان میں کود پڑے ، وہ محکمہ انکم ٹیکس میں وکیل بھی تھے ۔ انہوں نے پنچولی آرٹ کے ٹوٹے ہوئے سامان کو اکٹھا کیا ، کیمرہ اور سائونڈ سسٹم اسٹوڈیوکے باتھ روم میں ٹوٹی ہوئی حالت میں ملے ۔ ان تمام ایکوپمنٹ کو چند گنے چنے ٹیکنیشن نے دوبارہ استعمال کے قابل بنایا ۔ ان تمام ہنرمندوں نے حْب الوطنی کے جذبے سے کام کرتے ہوئے یہاں فلمی صنعت کی داغ بیل ڈالی ۔ اس دور میں بھارتی فلموں کا پاکستانی سنیما ہائوسز پر قبضہ تھا۔
اس قبضے سے سنیماہائوسزکوآزادکرانے کے لیے دیوان سرداری لال ، لقمان ، دائود چاند ، فوٹوگرافررضامیر، بھائیا حمید ، جعفرشاہ بخاری ، ایم عبداللہ ، میاں رشید کاردار ، تدوین کار ایم اے لطیف ، موسیقار ناتھ ، غلام حیدر ،کہانی نویس خادم محی الدین نے فلم میکنگ کی بنیاد رکھی ۔ فلم ''تیری یاد'' کے آغازکے ساتھ چند اور فلمیں بھی شروع ہوئیں جن میں ہدایت کار لقمان کی فلم شاہدہ، ہچکولے، جہاد، ہیر رانجھا ، کندن اور کروٹ نامی فلمیں بھی ابتدائی مرا حل میں شروع ہو گئی تھیں ۔ 9 مارچ 1948ء کو پنچولی آرٹ پکچرز کے جنرل مینجردیوان سرداری لال نے لاہورکے صحافیوں کو پنچولی آرٹ اسٹوڈیو میں ایک عشائیہ دیا جس کے بعد انہوں نے صحافیوں کو اپنی فلم ''تیری یاد'' کی شوٹنگ بھی دکھائی ۔ یہ فلم ہفتہ 7 اگست عیدالفطر 1948 کو لاہورکے پربھات سنیما میں ریلیز ہوئی ۔
پاکستان کی یہ اولین فلم 90 دن کی شب وروزکی محنت سے پایہ تکمیل کو پہنچی ۔ بلاشبہ اس فلم کے تمام فن کار اور ٹیکنیشنز قابل ستائش ہیں جنہوں نے حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہو کر اس پہلی فلم میں اپنی تمام خدمات بلامعاوضہ پیش کر کے ایک ایسی مثال قائم کی جس نے پاکستان میں فلمی صنعت کی بنیادوں میں خلوص ، محبت اور قربانی جیسے جذبات کو شامل کر کے یہاں فلم سازی کاپودا لگایا جو بعد میں تناور درخت کی صورت میں پروان چڑھا اور جس کے سائے تلے ان گنت فن کاروں اور ٹیکنیشنز کا فن اس کی مضبوطی اور حسن میں اضافے کا باعث بنا ۔