سماعت بحال کرنے والا کان کا تھری ڈی پردہ فروخت کے لیے تیار
ہارورڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ’فونوگرافٹ‘ نامی مصنوعی طبلِ گوش بنایا ہے جو لاکھوں کو سماعت دے سکتا ہے
دنیا بھر میں دسیوں لاکھوں افراد ایسے ہیں جن کے کان کا پردہ کسی چوٹ، انفیکشن یا بیماری سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ اب ہارورڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے تھری ڈی پرنٹر سے چھاپا گیا ایک مصنوعی کان کا پردہ (ایئرڈرم) بنایا ہے۔ اسے ہم اب طبلِ گوش کہیں گے۔
ہم جانتے ہیں کہ کان کے اندرایک باریک جھلی ہوتی ہے جس سے آواز کی لہریں ٹکراتی ہیں تو پردے پر دباؤ پڑتا ہے ۔ اسے دماغ پروسیس کرکے ہمیں وہ آواز سناتا ہے۔ اگر اسے نقصان پہنچ جائے تو طبلِ گوش کو بحال کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ اسی لیے ہارورڈ کے ماہرین نے فونوگرافٹ نامی تھری ڈی پرنٹڈ پردہ بنایا ہے جس کی تجارتی پیمانے پر تیاری شروع ہوگئی ہے۔
طبلِ گوش کو ٹمپینگ میمبرین (جھلی) بھی کہا جاتا ہے جو بہت باریک اور گول بافت کی طرح ہوتا ہے۔ بہت زوردار آواز سے بھی طبلِ گوش متاثرہوکر انسان کو بہرہ بنا دیتا ہے۔ یہاں تک کہ بیکٹیریا یا کسی اور خارجی شے کا اثر اسے تباہ کردیتا ہے۔ اسی طرح مرض کا انفیکشن بھی سماعت چھین سکتا ہے۔
اس کا روایتی علاج تو ٹمپینوپلاسٹی ہے جس میں مریض کے اپنے جسم کی کھال سے کان کے پردے کی مرمت کی جاتی ہے۔ لیکن ہر دفعہ اس سے فائدہ نہیں ہوتا ہے۔ دوم اس آپریشن میں کان کے پیچھے سے باریک سوراخ بھی کیا جاتا ہے اور کئی دفعہ پورا آپریشن ہی ناکام ہوجاتا ہے۔
ان مسائل کو حل کرنے کے لیے فونوگرافٹ بنایا گیا ہےجس میں سائیکل کے پہیوں کے تاروں کی طرح ڈیزائن بنایا گیا ہے۔ اسے قدرتی ایئرڈرم کی شکل دینے کے لیے پولیمر والی روشنائی میں ڈبوکرتیار کیا گیا ہے۔ پھر اس پر مریض کے اپنے خلیات لگائے جاتے ہیں جو ازخود بڑھنے لگتے ہیں۔ اس طرح پیوند لگانے پر سماعت بحال ہوجاتی ہے۔ تجرباتی طور پر اسے خاص طرح کے چوہوں پر آزمایا گیا ہے جن کا کان انسان سے مشابہہ ہوتا ہے۔ ان پر یہ تجربات بہت کامیاب رہے ہیں۔
اس کی تجارتی پیمانے پر تیاری کے لیے ایک ایک اسپن آف کمپنی بھی بنائی گئی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ کان کے اندرایک باریک جھلی ہوتی ہے جس سے آواز کی لہریں ٹکراتی ہیں تو پردے پر دباؤ پڑتا ہے ۔ اسے دماغ پروسیس کرکے ہمیں وہ آواز سناتا ہے۔ اگر اسے نقصان پہنچ جائے تو طبلِ گوش کو بحال کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ اسی لیے ہارورڈ کے ماہرین نے فونوگرافٹ نامی تھری ڈی پرنٹڈ پردہ بنایا ہے جس کی تجارتی پیمانے پر تیاری شروع ہوگئی ہے۔
طبلِ گوش کو ٹمپینگ میمبرین (جھلی) بھی کہا جاتا ہے جو بہت باریک اور گول بافت کی طرح ہوتا ہے۔ بہت زوردار آواز سے بھی طبلِ گوش متاثرہوکر انسان کو بہرہ بنا دیتا ہے۔ یہاں تک کہ بیکٹیریا یا کسی اور خارجی شے کا اثر اسے تباہ کردیتا ہے۔ اسی طرح مرض کا انفیکشن بھی سماعت چھین سکتا ہے۔
اس کا روایتی علاج تو ٹمپینوپلاسٹی ہے جس میں مریض کے اپنے جسم کی کھال سے کان کے پردے کی مرمت کی جاتی ہے۔ لیکن ہر دفعہ اس سے فائدہ نہیں ہوتا ہے۔ دوم اس آپریشن میں کان کے پیچھے سے باریک سوراخ بھی کیا جاتا ہے اور کئی دفعہ پورا آپریشن ہی ناکام ہوجاتا ہے۔
ان مسائل کو حل کرنے کے لیے فونوگرافٹ بنایا گیا ہےجس میں سائیکل کے پہیوں کے تاروں کی طرح ڈیزائن بنایا گیا ہے۔ اسے قدرتی ایئرڈرم کی شکل دینے کے لیے پولیمر والی روشنائی میں ڈبوکرتیار کیا گیا ہے۔ پھر اس پر مریض کے اپنے خلیات لگائے جاتے ہیں جو ازخود بڑھنے لگتے ہیں۔ اس طرح پیوند لگانے پر سماعت بحال ہوجاتی ہے۔ تجرباتی طور پر اسے خاص طرح کے چوہوں پر آزمایا گیا ہے جن کا کان انسان سے مشابہہ ہوتا ہے۔ ان پر یہ تجربات بہت کامیاب رہے ہیں۔
اس کی تجارتی پیمانے پر تیاری کے لیے ایک ایک اسپن آف کمپنی بھی بنائی گئی ہے۔