افغانستان کے حالات کا پاکستان پر گہرا اثر پڑتا ہے تسنیم اسلم

بہتری مذاکرات سے ہی ممکن ہے،عارفہ خالد، پاکستان کو واضح فیصلے کرنا ہوں گے،امتیاز عالم


Monitoring Desk January 28, 2014
یہ واضع نہیں ہے کہ امریکا افغانستان سے مکمل طورپر جارہا ہے یا نہیں،ترجمان دفترخارجہ۔ فوٹو: فائل

دفترخارجہ ترجمان تسنیم اسلم نے کہا ہے کہ پاکستان ایک مستحکم اور پرامن افغانستان کا حامی ہے افغانستان ہمارا ہمسایہ ہے اور وہاں کے حالات کا پاکستان پر بھی بہت گہرااثر پڑتا ہے۔

ایکسپریس نیوزکے پروگرام اچھا لگے برا لگے میں گفتگو کرتے ہوئے تسنیم اسلم نے کہا کہ یہ واضع نہیں ہے کہ امریکا افغانستان سے مکمل طورپر جارہا ہے یا نہیں کیونکہ ابھی تک امریکی حکام بھی اس معاملے میں کلیئر نہیںہیں کہ ان کو خطے سے مکمل طورپر جانا چاہیے یا نہیں ۔ پاک امریکا تعلقات کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ملکوں کے تعلقات اپنے اپنے مفادات پر مبنی ہوتے ہیں ہمارا فوکس ٹریڈ پر ہے امریکا نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ ٹریڈ اور انرجی کے بحران پر تعاون کریگا۔پاکستان اور افغانستان کا بارڈر بہت طویل ہے دونوں اطراف سے نقل وحمل ہوتی ہے پاکستان میں جتنے بھی افغان ہیں سب کو واپس جانا چاہیے اور ان کو وہاں سیٹل کرنا چاہیے کسی کے ماتھے پر تو نہیں لکھا کہ یہ حقانی گروپ کا ہے یا کسی اور گروپ کا ہے۔ مسلم لیگ ن کی رہنما عارفہ خالد نے کہا کہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں مجھے بات کرنے کا زیادہ موقع تو نہیں ملا لیکن میں نے وہاں یہ ہی کہاکہ ہمیں مذاکرات کرنے چاہئیں۔کیونکہ آج کل کی دنیا مذاکرات کی دنیا ہے اگر ہم مذاکرات کے ذریعے امن لاسکتے ہیں توپھر ہمیں مذاکرات ہی کرنے چاہئیں ۔

اختلاف رائے کسی سے بھی ہوسکتا ہے لیکن میں سمجھتی ہوں کہ بہتری مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔سینئر تجزیہ کارامتیاز عالم نے کہا کہ جب حکومت کو ئی اسٹینڈ نہیں لے رہی تھی تو طالبان کارروائیاں کررہے تھے اور جب فوج نے کارروائیاںکیں تو طالبان نے لچک دکھائی ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ قومی اتفاق رائے کوطالبان نے ختم کیا ہے، پہلے اے پی سی میں اتفاق رائے بنا سب مذاکرات کی بات کرتے تھے اب آپریشن پر اتفاق ہورہا ہے۔ اے این پی ، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم آپریشن کی رائے کو مان سکتے ہیں ۔طالبان کا بیان اچھا ہے کہ مسجدوں اور بازاروں میں ہونے والے دھماکے غیر اسلامی ہیں ۔ یہ بات سچ ہے کہ حکومت سے پالیسی نہیں بن رہی تھی حکومت کی پالیسی چوں چوں کا مربہ تھی جب حملہ ہوا تو جنرل راحیل نے بتایا کہ ہم یہ کرنے جارہے ہیں اور یہ پاک فورسز کا فیصلہ ہے۔اور ہم نے جوابی کارروائی کرنی ہے۔

 photo 3_zpsd5509e7b.jpg

افغانستان میں امریکا نوے ارب روپے خرچ کرچکا ہے، افغانستان کے سارے دفاتر اورادارے امریکی فنڈز سے چلتے ہیں امریکا کے خروج کا ٹائم قریب ہے لیکن پاکستان کی پالیسی واضع نہیں ہے۔ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں بیٹھ کر افغانستان میں کارروائی کی منصوبہ بندی ہوتی ہے اور افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے علاقوں میں کارروائی کی منصوبہ بندی ہوتی ہے۔علاقے سے امریکا کے جانے کے بعد بہت بڑی تشدد کی لہر آئیگی اورپاکستان کو واضع فیصلے کرنا ہوں گے۔ تجزیہ کار منیزے جہانگیر نے کہا کہ پہلے امریکا اور پاکستان افغانستان کے معاملے پر ایک پیج پر تھے لیکن امریکا اور افغانستان ایک ہیں ۔افغان تجزیہ کاربھی یہی کہتے ہیں کہ افغانستان سے امریکا کے جانے کے بعد حالات ایکدم تبدیل ہوجائیںگے، افغانستان میں جمہوری ادارے امریکا نے منظم نہیں کیے۔

روزنامہ ''ایکسپریس '' کے سینئر ایڈیٹر ایازخان نے کہا کہ اگر وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں آنا ہی نہیں ہے تو سیٹ کوہٹا دینا چاہیے۔میاں صاحب کے پیچھے کوئی نہیں پڑا وہ خود اپنے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔پارلیمنٹ کا اجلاس تین گھنٹے چلا ہے جس میںنوے فی صد اراکین نے آپریشن کی حمایت کی ہے باقی دس فی صد میں سے دو نے مذاکرات کی بات کی ہے جن میں عارفہ خالد پرویزاور رفیق احمد رجوانہ شامل تھے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اجلاس میں کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا جس کا قوم کو بہت شدت سے انتظار تھا ۔ حکومت نے اپنی پالیسی کوئی نہیں بنانی ان کو بنی بنائی ہوئی پالیسی مل جانی ہے اور یہ پالیسی وہیں سے آئیگی جہاں وزیراؑعظم جاکر صلاح ومشورے کرتے ہیں۔مجھے عمران خان کی بات بہت اچھی لگی ہے کہ اگر مذاکرات کرنے ہیں تو مجھے وزیراعظم بنادیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔