پولیس اہلکاروں کے جرائم اور معاشی مجبوریاں
پولیس میں سیاسی بھرتیوں کے خاتمے کے ساتھ کالی بھیڑوں کا صفایا کیا جائے
پولیس کا ایک اعلیٰ عہدیدار جب پنجاب کے دور دراز علاقے میں واقع تھانے میں پہنچا تو منظر کچھ یوں تھا کہ تھانے میں موجود واحد سپاہی ٹانگ پر ٹانگ رکھے آرام فرما رہا تھا۔ آفیسر نے اپنی حیرانی دور کرنے کےلیے پوچھا کہ آپ نے میرے استقبال میں کھڑا ہونے تک زحمت گوارا نہ کی؟
سپاہی مسکرایا اور بولا کہ سر اس تھانے کے بعد پنجاب کا کوئی اور تھانہ نہیں ہے اور سپاہی سے چھوٹا رینک نہیں ہے۔ (میں نے آپ کے استقبال کی ضرورت اس لیے محسوس نہیں کہ آپ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے)۔
بلاشبہ سپاہی سب سے چھوٹا رینک ہوتا ہے، لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس چھوٹے رینک کے ساتھ تمام تر انسانی ضروریات وابستہ ہوتی ہیں۔ بدقسمتی سے سپاہی کو ملنے والی تنخواہ اس کی تمام ضروریات پوری کرنے کےلیے ناکافی ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے سیکیورٹی نظام کا یہ سب سے چھوٹا پرزہ اپنی ضروریات پوری کرنے کےلیے ایسے کام کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے ہمارا تمام سیکیورٹی سسٹم درست کام کرنے کے باوجود ناکام ہوجاتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال لاہور بم دھماکا اور وزیراعلیٰ کی موجودگی میں نامزد وزیر کے بھائی پر قاتلانہ حملے کی ہے۔ ان دونوں واقعات میں اگر کوئی ناکام ہوا تو وہ سپاہی تھا۔ باقی تمام تر نظام درست کام کررہا تھا۔
جی ہاں تمام تر نظام کے متحرک ہونے کے باوجود صرف ایک سپاہی کی غفلت سے دشمن اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوگیا۔ یاد رہے کہ لاہور بم دھماکے میں ملوث گاڑی صرف اس سپاہی کی غفلت سے لاہور میں داخل ہونے میں کامیاب ہوسکی جس نے 5000 روپے رشوت لے کر بغیر چیک کیے گاڑی کو چھوڑ دیا تھا۔ وزیراعلیٰ کی موجودگی میں قتل کرنے والا مجرم بھی داخلی دروازے پر مامور اہلکاروں کی لاپرواہی اور غیر پیشہ ورانہ رویے کی وجہ سے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوسکا۔ دونوں واقعات سپاہی کی اہمیت کو ثابت کرتے ہیں۔ بلاشبہ یہ بات قابل تحسین ہے کہ ہمارے اداروں کی شاندار کارکردگی کی بدولت ہم دونوں واقعات میں ملوث مجرموں کو ریکارڈ وقت میں پکڑنے میں کامیاب ہوگئے، لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس تمام تر شاندار کارکردگی کے باوجود ہم جو کچھ ہوچکا اسے واپس نہیں لاسکتے۔ مستقبل میں اگر ہم ایسے واقعات سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں سپاہی کو اہمیت دینا ہوگی۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ ایک روپیہ لاکھ نہیں ہوتا، لیکن لاکھ میں سے روپیہ نکل جائے تو لاکھ، لاکھ نہیں رہتا۔ اسی طرح سپاہی سب کچھ نہیں ہوتا لیکن سپاہی ایمانداری سے کام نہ کرے تو تمام محکمہ ناکام ہوجاتا ہے۔
سپاہی جس کی بھرتی اکثر و بیشتر سیاسی بنیادوں پر ہوتی ہے، اسے اس قدر غیر اہم سمجھا جاتا ہے کہ ترقی کےلیے برسوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اگر کوئی کارنامہ سر انجام دے، اول تو اس کا ذکر ہی نہیں آتا، اور اگر آجائے تو انعامی رقم اتنی کم ہوتی ہے کہ حوصلہ افزائی کے بجائے حوصلہ شکنی محسوس ہوتی ہے۔ اگر کوئی سپاہی فوت یا شہید ہوجائے تو ورثا کو بمشکل ہی بقایا جات مل پاتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سیکیورٹی اداروں میں تمام تر بھرتیاں میرٹ پر کی جائیں۔ سپاہی کو اتنی تنخواہ دی جائے کہ اسے زندہ رہنے کےلیے رشوت کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ نہ صرف تربیتی عمل کے دوران بلکہ تربیت کے بعد بھی ایمانداری سے کام کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے۔ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر شاندار طریقے سے خراج تحسین پیش کیا جائے تاکہ باقی لوگوں میں ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ پیدا ہوسکے۔ سپاہی کی بروقت ترقی کا نظام وضع کیا جائے اور سیاسی بھرتیوں کے خاتمے کے ساتھ کالی بھیڑوں کا خاتمہ کیا جائے۔ بصوررت دیگر ہم غیر متوقع صورت حال کا شکار ہونے کے بعد مجرموں کو پکڑ کر کامیابی کا راگ الاپتے رہیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
سپاہی مسکرایا اور بولا کہ سر اس تھانے کے بعد پنجاب کا کوئی اور تھانہ نہیں ہے اور سپاہی سے چھوٹا رینک نہیں ہے۔ (میں نے آپ کے استقبال کی ضرورت اس لیے محسوس نہیں کہ آپ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے)۔
بلاشبہ سپاہی سب سے چھوٹا رینک ہوتا ہے، لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس چھوٹے رینک کے ساتھ تمام تر انسانی ضروریات وابستہ ہوتی ہیں۔ بدقسمتی سے سپاہی کو ملنے والی تنخواہ اس کی تمام ضروریات پوری کرنے کےلیے ناکافی ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے سیکیورٹی نظام کا یہ سب سے چھوٹا پرزہ اپنی ضروریات پوری کرنے کےلیے ایسے کام کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے ہمارا تمام سیکیورٹی سسٹم درست کام کرنے کے باوجود ناکام ہوجاتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال لاہور بم دھماکا اور وزیراعلیٰ کی موجودگی میں نامزد وزیر کے بھائی پر قاتلانہ حملے کی ہے۔ ان دونوں واقعات میں اگر کوئی ناکام ہوا تو وہ سپاہی تھا۔ باقی تمام تر نظام درست کام کررہا تھا۔
جی ہاں تمام تر نظام کے متحرک ہونے کے باوجود صرف ایک سپاہی کی غفلت سے دشمن اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوگیا۔ یاد رہے کہ لاہور بم دھماکے میں ملوث گاڑی صرف اس سپاہی کی غفلت سے لاہور میں داخل ہونے میں کامیاب ہوسکی جس نے 5000 روپے رشوت لے کر بغیر چیک کیے گاڑی کو چھوڑ دیا تھا۔ وزیراعلیٰ کی موجودگی میں قتل کرنے والا مجرم بھی داخلی دروازے پر مامور اہلکاروں کی لاپرواہی اور غیر پیشہ ورانہ رویے کی وجہ سے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوسکا۔ دونوں واقعات سپاہی کی اہمیت کو ثابت کرتے ہیں۔ بلاشبہ یہ بات قابل تحسین ہے کہ ہمارے اداروں کی شاندار کارکردگی کی بدولت ہم دونوں واقعات میں ملوث مجرموں کو ریکارڈ وقت میں پکڑنے میں کامیاب ہوگئے، لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس تمام تر شاندار کارکردگی کے باوجود ہم جو کچھ ہوچکا اسے واپس نہیں لاسکتے۔ مستقبل میں اگر ہم ایسے واقعات سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں سپاہی کو اہمیت دینا ہوگی۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ ایک روپیہ لاکھ نہیں ہوتا، لیکن لاکھ میں سے روپیہ نکل جائے تو لاکھ، لاکھ نہیں رہتا۔ اسی طرح سپاہی سب کچھ نہیں ہوتا لیکن سپاہی ایمانداری سے کام نہ کرے تو تمام محکمہ ناکام ہوجاتا ہے۔
سپاہی جس کی بھرتی اکثر و بیشتر سیاسی بنیادوں پر ہوتی ہے، اسے اس قدر غیر اہم سمجھا جاتا ہے کہ ترقی کےلیے برسوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اگر کوئی کارنامہ سر انجام دے، اول تو اس کا ذکر ہی نہیں آتا، اور اگر آجائے تو انعامی رقم اتنی کم ہوتی ہے کہ حوصلہ افزائی کے بجائے حوصلہ شکنی محسوس ہوتی ہے۔ اگر کوئی سپاہی فوت یا شہید ہوجائے تو ورثا کو بمشکل ہی بقایا جات مل پاتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سیکیورٹی اداروں میں تمام تر بھرتیاں میرٹ پر کی جائیں۔ سپاہی کو اتنی تنخواہ دی جائے کہ اسے زندہ رہنے کےلیے رشوت کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ نہ صرف تربیتی عمل کے دوران بلکہ تربیت کے بعد بھی ایمانداری سے کام کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے۔ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر شاندار طریقے سے خراج تحسین پیش کیا جائے تاکہ باقی لوگوں میں ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ پیدا ہوسکے۔ سپاہی کی بروقت ترقی کا نظام وضع کیا جائے اور سیاسی بھرتیوں کے خاتمے کے ساتھ کالی بھیڑوں کا خاتمہ کیا جائے۔ بصوررت دیگر ہم غیر متوقع صورت حال کا شکار ہونے کے بعد مجرموں کو پکڑ کر کامیابی کا راگ الاپتے رہیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔