64 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ایک ملک کی کہانی

اگر نوجوان طبقہ محفوظ و مضبوط ہے تو قوم و ملت کی حفاظت پر آنچ تک نہیں آسکتی


احسن اقبال خان August 25, 2021
نوجوانوں کو درپیش مسائل میں تعلیم، روزگار اور سماجی مصروفیات کی عدم دستیابی ہے۔ (فوٹو: فائل)

پوری دنیا میں نوجوانوں کی تعداد 1 ارب 20 کروڑ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے، مگر ہم ایک ایسے ملک کی کہانی لکھنے جارہے ہیں جس کی 46 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ ملک اپنی مکمل آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں ملک ہے۔ 2020 میں اس کی آبادی بائیس کروڑ نواسی لاکھ بانوے ہزار تین سو چالیس (220,892,340) تھی۔ یوں یہ دنیا کی آبادی کا 2.83 فیصد حصہ ہے۔ اس میں 64 فیصد نوجوانوں کی تعداد چودہ کروڑ تیرہ لاکھ اکہتر ہزار اٹھانوے (141,371,098) بنتی ہے، اور 2050 تک اس میں تسلسل سے اضافے کی پیش گوئی بھی موجود ہے۔

نوجوانوں کی اس قدر کثیر تعداد کے متعلق کچھ ایسے اعداد و شمار ہمارے سامنے آئے ہیں جو انتہائی پریشان کن ہیں۔ خواندگی و ناخواندگی کے اعتبار سے 100 میں سے 29 نوجوان ناخواندہ ہیں۔ ناخواندہ ہونے کا مطلب جنہوں نے سرے سے تعلیم ہی حاصل نہیں کی، انہیں اپنا نام تک لکھنا یا پڑھنا نہیں آتا، جبکہ ہر 100 میں سے صرف 6 نوجوان ایسے ہیں جنہوں نے 12 سال سے زائد تعلیم حاصل کر رکھی ہے، جس میں بیچلر، ماسٹرز، ایم فل، پی ای ڈی کی سطح تک کی تعلیم شامل ہے۔ اور 100 میں سے بقیہ 65 نوجوان ایسے ہیں جن کی تعلیم 12 سال یعنی انٹر یا ایف اے، ایف ایس سی کی سطح سے نیچے ہے، جس میں پرائمری اور مڈل کی سطح تک کی تعلیم شامل ہے۔

روزگار و معاش کے اعتبار سے 100 میں سے 39 نوجوان ملازم ہیں۔ ان 39 میں سے 7 خواتین، جب کہ 32 مرد ہیں۔ پھر ان 100 افراد میں سے 57 افراد جن میں 41 خواتین اور 16 مرد ایسے ہیں جو نہ تو نوکری کر رہے ہیں اور نا ہی نوکری کی تلاش میں ہیں، صرف 4 فیصد بے روزگار نوجوان ایسے ہیں جو ملازمت کی تلاش میں ہیں۔

ان نوجوانوں میں سے 15 فیصد کو نیٹ تک رسائی حاصل ہے۔ 52 فیصد نوجوان اپنا موبائل فون رکھتے ہیں۔ 94 فیصد کو لائبریری کی سہولت میسر نہیں، اور 93 فیصد کو کھیلنے کےلیے میدان میسر نہیں۔

اس ملک میں نوجوان طبقے کی حالت زار کے اظہار کےلیے یہ اعداد و شمار کافی ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ یہ ملک نوجوانوں کی اس قدر کثیر افرادی قوت کے باوجود ترقی کی راہوں میں ڈگمگاتا دکھائی دیتا ہے۔ ہر آئے روز کوئی نہ کوئی ہنگامہ برپا ہوتا ہے، مگر اس ملک کی عہدے دار، ذمے دار، سیاسی و سماجی شخصیات نے ان کے مسائل اور ان کی بنیادی ضروریات کو اپنی ترجیحی کتاب کی جلد آخر کے صفحہ آخر میں مٹے نقوش اور دھندلاتے الفاظ میں چھپا رکھا ہے۔

حکومتوں کی بنیادیں ڈالنے میں جس طبقے کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے بدقسمتی سے حکومتوں کے قیام کے بعد انہیں پوچھا تک نہیں جاتا۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی نظر میں نوجوان طبقے کی حیثیت ایک آلہ کار کی سی ہے، جسے وہ وقت پڑنے پر اپنے مقاصد کےلیے استعمال کرتے ہیں۔ اپنی کامیابی کےلیے ان سے نعرے لگوائے جاتے ہیں، اپنی رسمی تقاریر کو ان کے حقوق سے مزین کیا جاتا ہے اور پھر ان سے اس قدر غفلت برتی جاتی ہے کہ اضافی تو درکنار انہیں ان کے بنیادی حقوق سے بھی محروم کرنے کی ہر ممکن سعی کی جاتی ہے۔ باوجود اس کے کہ صاحب حل و عقد جانتے ہیں کہ نوجوان طبقہ، بچپن کا مستقبل، بڑھاپے کا ماضی، اور اقوام عالم کا حال ہے۔ یہ معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ اقوام کی کامیابی میں ان کا کلیدی کردار ہے۔

اگر نوجوان طبقہ محفوظ و مضبوط ہے تو قوم و ملت کی حفاظت پر آنچ تک نہیں آسکتی، اور اگر اس طبقہ میں کوئی کج روی پائی جائے تو قوم و ملت کا شیرازہ درہم برہم ہوکر رہ جاتا ہے۔ نوجوان ایک بپھرے ہوئے گھوڑے کی مانند ہوتا ہے۔ اس کی لگام جب تک صحیح ہاتھوں میں نہ ہوگی یہ بے لگامی کے نشے میں تباہی و بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی طرح اگر نوجوانوں کے بنیادی مسائل، حقوق و ضروریات کا خیال نہ رکھا جائے تو یہ معاشرے اور اقوام کی تنزلی کا باعث بھی بنتے ہیں۔

اگر ہم ان اعداد و شمار پر غور کریں تو نوجوانوں کو درپیش مسائل جو امڈ کر ہمارے سامنے آتے ہیں ان میں تعلیم، روزگار اور سماجی مصروفیات کی عدم دستیابی ہے۔ یہ وہ امور ہیں جن کے متعلق اعداد و شمار موجود ہیں، مگر اخلاقی و تہذیبی طور پر ایک نوجوان کتنا پانی میں ہے، بدقسمتی سے اس کے اعداد و شمار ہمیں تلاش کرنے سے بھی نہیں مل پائے۔

جن امور کے متعلق اعدادوشمار موجود ہیں ان میں تعلیم صف اول کا درجہ رکھتی ہے۔ تعلیم نوجوانوں کا وہ بنیادی حق ہے جس سے انہیں محروم رکھنا کسی بھی معاشرے کو زیب نہیں دیتا۔ ہمیں یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ نوجوانوں کی ایک تعداد ایسی ہے جو علمی ذوق و شوق سے محروم ہے، مگر اس کے علاوہ کثیر تعداد ایسے نوجوانوں کی ہے جو تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں مگر ان کے حصولِ تعلیم میں آڑے آنے والے دیگر عوامل کے علاوہ دو قوی وجوہ زبان اور دام ہیں۔

انہیں علوم اپنی آشنا زبان میں میسر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے نوجوان اعلیٰ علوم و فنون میں ڈگریاں حاصل کرلینے کے باوجود بھی ملک و ملت کےلیے کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔ اور کچھ نوجوان ایسے ہیں جو تعلیم کی قیمت ادا نہیں کرسکتے۔ سائنسی علوم کے علاوہ آرٹس کے مضامین کی فیسیں بھی آسمانوں کو چھوتی ہیں۔ اس لیے اس ملک کی حکومت کو چاہیے کہ نوجوانوں کو درپیش تعلیمی مسائل حل کرنے کےلیے وہ ماہانہ، ششماہی اور سالانہ بھاری فیسیں وصول کرنے والے اداروں کو لگام دے، اور غیرملکی زبان کو ضرورت کی حد تک محدود رکھے، تاکہ اس ملک کے کسی بھی خطے میں مقیم اور کسی بھی طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان علم سے محروم نہ رہیں۔

نوجوانوں کا دوسرا بنیادی مسئلہ ان کا ذریعہ معاش ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 100 میں سے 57 افراد بے روز گار ہیں، مگر ان میں سے صرف 4 نوجوان روزگار کی تلاش میں ہیں۔ غیر تعلیم یافتہ کے علاوہ ڈگری ہولڈر نوجوانوں کی کثرت ہے جو بے روزگار ہیں اور وہ اس موقع کی تلاش میں ہیں کہ اپنے ملک سے کہیں ہجرت کر جائیں۔ ہمارے ہم نام ایک سینئر سیاسی رہنما کے بقول ''گزشتہ تین برس کے دوران جس قدر تیزی سے پڑھے لکھے نوجوان بیرون ملک آباد ہونے کی خاطر وطن سے ہجرت کر رہے ہیں وہ انتہائی خوفناک اور لرزہ خیز ہے اور تاریخ کے سب سے بڑے Brain Drain کا باعث ہے۔" دعا ہے کہ مستقبل میں کبھی اس ملک کی باگ ڈور اگر ان کے ہاتھ لگے تو انہیں اپنے یہ خدشات اسی جذبے سے یاد رہیں جیسے آج ہیں۔

اس ملک کی موجودہ حکومت نے نوجوانوں پر خصوصی توجہ دینے پر زور دیا تھا، یہی وجہ ہے کہ بہت سے نوجوان اس سے متاثر ہوئے۔ اور وہ آج بھی اپنے معاش کے لیے حکومت وقت کے منتظر ہیں۔ انہیں ملازمتوں میں ہونے والی خوردبرد پر بھی تشویش ہے۔ وہ ان ایک کروڑ نوکریوں کے بھی شدت سے منتظر ہیں جس کا وعدہ بڑی شد و مد سے کیا گیا تھا۔ نوجوانوں کے اس مسئلے پر بھی سنجیدہ توجہ کی ضرورت ہے، جس کا ایک حل یہ بھی ہے کہ اداروں میں موجود بزرگوں کی ریٹائرمنٹ کی مدت پر غور کیا جائے، تاکہ اس ملک کی نوجوان نسل کو زیادہ سے زیادہ مواقع میسر ہوں۔

تیسرا مسئلہ سماجی مصروفیات کی عدم دستیابی ہے۔ شہروں میں تو پھر بھی تلاش سے کوئی ایک آدھ لائبریری، کھیل کا میدان کہیں نا کہیں نظر آ ہی جاتا ہے، مگر نواحی علاقوں میں کتب خانے اور کھیلوں کے میدان ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ اس مسئلے کے حل کےلیے ہر ضلع کی سطح پر لائبریریوں کے قیام اور کھیل کے میدانوں میں اضافہ ناگزیر ہے۔ نواحی علاقوں سے برتے جانے والے اس امتیازی سلوک پر بھی نظرثانی ہونی چاہیے، تاکہ شہروں کے علاوہ دیہاتوں کے نوجوان بھی ملک و ملت کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔

علامہ اقبالؒ نے کہا تھا:

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں


مگر اس عقابی روح کی بیداری کے اسباب کی طرف توجہ دینا وقت کی اشد ضرورت ہے۔ نوجوان تعلیم سے کوسوں دور ہوں، انہیں معاش کے ذرائع اور مفید سماجی مصروفیات تک رسائی ممکن نہ تو ان معاشروں میں نوجوانوں کی عقابی روح کی بیداری عنقا ہوجاتی ہے۔ اور نتیجتاً کچھ ایسے احوال کا سامنا کرنا مجبوری بن جاتا ہے جو کسی معاشرے کو زیب نہیں دیتے۔

اب یہ نہیں پوچھیے گا کہ اس ملک کا نام کیا ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں