خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم
ناقص تفتیش کرنے والے پولیس تفتیشی کو بھی احتساب کے دائرے میں لانے کے لیے قانون سازی ضروری ہے۔
لاہور میں مینار پاکستان کے پارک جسے سرکار نے گریٹر اقبال پارک کا نام دے رکھا ہے، وہاں چند روز پیشتر ایک نوجوان لڑکی کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے، اس کے بارے میں پورے ملک ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں بحث ومباحثے ہو رہے ہیں۔
ہمارے ملک میں کسی خاتون کے ساتھ یہ قابل شرم واقعہ پہلی بار پیش نہیں آیا، پورے پاکستان کے شہروں، قصبوں اور دیہات میں جوان خواتین، چھوٹی معصوم بچیوں اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں، انھیں ظالمانہ انداز میں قتل کرنے اور انھیں اغوا کرکے فروخت کرنے کے واقعات تسلسل سے ہو رہے ہیں لیکن لگتا ہے کہ حکمران اور ریاستی اداروں کے کرتا دھرتا بے حس ہو چکے ہیں۔ ان کے لیے یہ روزمرہ کا معمول ہے، اس لیے وہ کسی ایسے قابل شرم واقعہ کا اس وقت تک سخت نوٹس نہیں لیتے جب تک میڈیا اور سوشل میڈیا پر کہرام برپا نہ ہوجائے۔
پھرحکومت عوامی غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے میدان میں آ جاتی ہے، وزراء جوشیلے بیانات جاری کرنا شروع کردیتے ہیں ورنہ ملک بھر میں روز ہی کئی گھناونے واقعات رونما ہوتے ہیں جن کا کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا اور نہ سفاکانہ اور دیگر جرائم کو روکنے کے لیے کوئی پالیسی تیار کی جاتی ہے۔
مینار پاکستان کے احاطے میں ہونے والے واقعہ کی بازگشت ابھی جاری ہے کہ لاہور میں ایک اور شرمناک واقعہ کی ویڈیو سامنے آ گئی ہے جس میں ایک اوباش نوجوان نے چنگ چی رکشے میں سوار لڑکی کے ساتھ بدتمیزی کر دی۔ پھر ایک اور ویڈیو منظر پر آئی جس میں نوجوانوں کا جتھہ ایک لڑکی پر تشدد کر رہا ہے اور عمر رسیدہ خاتون لڑکی کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔
گریٹر اقبال پارک کیس میں درجنوں افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔پولیس نے ویڈیوز میں نظر آنے والے ملزمان سے متعلق اشتہار بھی جاری کر دیا ہے۔ اس اشتہار میں عوام کو ملزمان کے بارے اطلاع دینے کی اپیل کرتے ہوئے یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ ملزمان کے بارے میں بتانے والے کا نام راز میں رکھا جائے گا۔
ادھر گزشتہ روز وزیراعلیٰ آفس میں اعلیٰ سطح کا اجلاس بھی ہوا۔ روایت کے مطابق اس بار بھی وزیراعلیٰ نے مینار پاکستان کے احاطے میں خاتون سے دست درازی اور لاہور میں پیش آنے والے بعض دیگر واقعات پر سخت تشویش کا اظہار کیا۔ پنجاب حکومت نے فرائض میں غفلت برتنے پر ڈی آئی جی آپریشنز لاہور کو او ایس ڈی بنا دیا ہے جب کہ ایس ایس پی آپریشنز اور ایس پی سٹی کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا اور ڈی ایس پی اور ایس ایچ او تھانہ لاری اڈہ لاہورکو معطل کر دیا گیا ہے۔ گریٹراقبال پارک کے پراجیکٹ ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر کو بھی معطل کر دیا گیا ۔
لاہور کے واقعے پر وفاقی و صوبائی وزراء، پیپلزپارٹی، مسلم لیگ کی قیادت اور دیگر مکاتب فکر کے حامل افراد نے بھی حسب معمول تشویش کا اظہار کیا اور مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان میں برسوں سے ایسا ہی ہوتا آ رہا ہے۔ ہر وزیر، مشیر، ترجمان اور معاون خصوصی اپنے اپنے انداز میں نوٹس لیتے ہیں، ٹی وی پر شکل دکھا کر اور اخبار میں بیان چھپوا کر اپنا فرض پورا کر دیتے ہیں۔ لاہور بلکہ پنجاب بھر میں جرائم کا گراف بڑھ گیا ہے، خصوصاً خواتین اور بچوں کے ساتھ زیادتی، ظلم و بریت کے ساتھ انھیں قتل کر دینے کے جرائم غیرمعمولی طور پر بڑھ چکے ہیں۔
موجودہ حکومت جب سے برسراقتدار آئی ہے، پنجاب میں کئی آئی جی تبدیل ہوئے ہیں، سی پی اوز اور دیگر پولیس افسر تبدیل ہوئے لیکن بہتری آنے کے بجائے جرائم کی صورت حال سنگین سے سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ گریٹر اقبال پارک واقعہ کے پس منظر میں کئی پولیس افسر تبدیل کیے گئے ہیں، جب بھی کوئی سنگین جرم یا واقعہ ہوجائے تو چند پولیس اہلکاروں کو معطل کردیا جاتا۔ اس بارے بھی ایسا ہی ہوا لیکن پنجاب پولیس کے سربراہ کے بارے میں خاموشی اختیار کی گئی ہے۔
میڈیا کے مطابق پولیس افسران کی معطلی کے پس منظر میں دیگر واقعات بھی شامل ہیں۔ چند روز قبل ایک صوبائی وزیر کا بھائی شادی کی تقریب میں قتل کردیا گیا، وزیراعلیٰ پنجاب اور کئی اور اہم شخصیات اس تقریب میں شریک تھیں لیکن قاتل باآسانی اسلحہ لے کر تقریب میں بلاروک ٹوک آگیا۔ گریٹر اقبال پارک میں تشدد اور بدتمیزی کا نشانہ بننے والی لڑکی کی میڈیکل کی رپورٹ کے مطابق اس کے پورے جسم پر نیلگوں اور سکریچز کے نشانات ہیں۔ پورے جسم پر 13 نشانات واضع ہیں جب کہ درجنوں نیلگوں نشانات ہیں۔ متاثرہ خاتون نے ایس پی سٹی انویسٹی گیشن کے سامنے پیش ہوکر اپنا بیان ریکارڈ کرا دیا۔
میڈیا کے مطابق گریٹر اقبال پارک میں سیف سٹی کے لگے ہوئے کیمرے بھی خراب نکلے ، پولیس نے ملزمان پکڑنے کے لیے اقبال پارک انتظامیہ اور سوشل میڈیا کی فوٹیجز سے استفادہ کیا ۔ کہا جارہا ہے کہ گریٹر اقبال پارک میں لگے کیمروں کے بارے میں انکوائری ہو رہی ہے، اگر شہر میں لگے کیمروں کا جائزہ لیا جائے تو اصل صورت حال سامنے آ جائے گی کہ کتنے کیمرے خراب ہیں اور انھیں ٹھیک کرنے کی جانب کوئی توجہ مبذول نہیں کی گئی۔
حیرت انگیز امر یہ ہے کہ حکومتی اداروں نے اپنی کارکردگی بہتر بنانے اور عوامی مسائل کو بروقت اور درست انداز میں حل کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی بلکہ جب بھی کوئی سانحہ رونما ہو جائے تو ڈنگ ٹپاؤ اقدامات کر کے معاملے کو ٹالنے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ مؤقف اختیار کیا جاتا ہے کہ چند روز بعد لوگوں کی توجہ کسی اور طرف ہو جائے گی اور یہ معاملہ ٹھنڈا ہو جائے گا۔
اگر تھانوں اور عدالتوں کے ریکارڈز چیک کیے جائیں تو ایسے سیکڑوں افسوس ناک واقعات ملیں گے جن کے رونما ہونے کے وقت حکمرانوں اور ریاستی اداروں نے روایتی پھرتیاں دکھائیں اور پھر معاملے کو فائلوں میں دبا دیا گیا۔ کبھی کوئی ایسی پالیسی نہیں بنائی گئی کہ ایسے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں یا ان کی تعداد میں خاطرخواہ کمی آ جائے۔ دوسری جانب یہ بھی تشویش ناک ہے کہ ایسے شرمناک واقعات ایک تسلسل کے ساتھ کیوں رونما ہو رہے ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کی ذہنی پستی اور اخلاقی گراوٹ کی عکاسی کرتے ہیں۔
شہری اور پبلک مقامات کو دیہات اور قصبوں کے مقابل محفوظ تصور کیا جاتا ہے مگر گریٹر اقبال جیسے پرہجوم مقام پر نوجوانوں کے ایک گروہ نے جو شرمناک حرکت کی اس نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ دوسری جانب آزادی کا جش منانے کے نام پر راہ چلتی خواتین سے جس دیدہ دلیری کے ساتھ بدتمیزی کی گئی وہ امر پر دلالت کرتا ہے کہ لوگوں کے دل سے قانون کی گرفت اور سزا کا خوف ختم ہو گیا ہے۔
یہ سوچ بھی جرائم کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اوباش اور جرائم پیشہ افراد جانتے ہیں کہ وہ اگر پکڑے بھی گئے تو پولیس کو رشوت دے کر یا عدالتوں میں تگڑا وکیل کر کے سزا سے بچ جائیں گے اور کوئی بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے۔ اگر محکمہ پولیس اور عدالتی نظام کو درست کر دیا جائے اور ہر شخص کو یہ خوف ہو کہ کسی بھی جرم کے ارتکاب پر وہ سزا سے نہیں بچ سکے گا تو وہ کوئی بھی نازیبا حرکت کرنے سے پیشتر کئی بار سوچے گا۔ اس سے معاشرے میں جرائم کی تعداد میں واضح کمی ہو گی۔ وزیراعلیٰ نے سارا ملبہ پولیس افسران پر ڈال کر ان کے خلاف کارروائی تو کر دی ہے مگر کیا اس سے معاملات درست ہو جائیں گے اور آیندہ ایسے شرمناک واقعات رونما نہیں ہوں گے۔
ناگزیر ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے واضح پالیسی بنائی جائے۔ اداروں پر چیک اینڈ بیلنس کے نظام کو مضبوط کیا جائے۔اس کے علاوہ نظریاتی ابہام پیدا نہ کیا جائے۔خواتین کے حقوق کے حوالے سے ملک کا ایک بااثر طبقہ ایسے نظریات کا کھلم کھلا اظہار کرتا رہتا ہے جس اس طبقے کے نظریات سے متاثر ہونے والے نوجوان جنونیت کا شکار ہوکر خواتین کے خلاف ایسی حرکات کرجاتے ہیں جن کا انھیں احساس اور شعور نہیں رکھتے کہ وہ کسی کی عزت سے کھیل رہے اور یہ ناقابل معافی جرم ہے۔
پاکستان میں فرسودہ پولیس سسٹم اور عدالتی نظام، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھایا جانے والا فرسودہ نصاب اور معاشرے میں پھیلی نظریاتی کنفیوژن نے نوجوان نسل کو بے سمت اور محض جبلی خواہشات کے تابع بنا دیا ہے۔ پولیس کا نظام تفتیش کو درست کرنا بہت ضروری ہے۔ ناقص تفتیش کرنے والے پولیس تفتیشی کو بھی احتساب کے دائرے میں لانے کے لیے قانون سازی ضروری ہے۔ اسی طرح ایک عدالت فوری طور پر ضمانت لے لیتی ہے جب کہ دوسری عدالت ضمانت منسوخ کردیتی ہے۔
اس حوالے سے بھی کوئی ضابطہ بننا چاہیے۔ خواتین کے بارے میں نظریاتی بحث کو نیکی اور بدی کے تناظر میں دیکھنے والوں کی حوصلہ شکنی کرنے کی ضرورت ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض اہم شخصیات بھی خواتین کے بارے میں متعصبانہ سوچ کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اگر ملک کے حکمرانوں، پالیسی سازوں، بیورو کریسی، سیاسی قیادت اور اہل علم نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو پورا ملک ایک ایسے جنگل میں تبدیل ہو جائے گا جہاں طاقت ور اپنے سے کمزور کو چیر پھاڑ دے گا۔
ہمارے ملک میں کسی خاتون کے ساتھ یہ قابل شرم واقعہ پہلی بار پیش نہیں آیا، پورے پاکستان کے شہروں، قصبوں اور دیہات میں جوان خواتین، چھوٹی معصوم بچیوں اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں، انھیں ظالمانہ انداز میں قتل کرنے اور انھیں اغوا کرکے فروخت کرنے کے واقعات تسلسل سے ہو رہے ہیں لیکن لگتا ہے کہ حکمران اور ریاستی اداروں کے کرتا دھرتا بے حس ہو چکے ہیں۔ ان کے لیے یہ روزمرہ کا معمول ہے، اس لیے وہ کسی ایسے قابل شرم واقعہ کا اس وقت تک سخت نوٹس نہیں لیتے جب تک میڈیا اور سوشل میڈیا پر کہرام برپا نہ ہوجائے۔
پھرحکومت عوامی غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے میدان میں آ جاتی ہے، وزراء جوشیلے بیانات جاری کرنا شروع کردیتے ہیں ورنہ ملک بھر میں روز ہی کئی گھناونے واقعات رونما ہوتے ہیں جن کا کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا اور نہ سفاکانہ اور دیگر جرائم کو روکنے کے لیے کوئی پالیسی تیار کی جاتی ہے۔
مینار پاکستان کے احاطے میں ہونے والے واقعہ کی بازگشت ابھی جاری ہے کہ لاہور میں ایک اور شرمناک واقعہ کی ویڈیو سامنے آ گئی ہے جس میں ایک اوباش نوجوان نے چنگ چی رکشے میں سوار لڑکی کے ساتھ بدتمیزی کر دی۔ پھر ایک اور ویڈیو منظر پر آئی جس میں نوجوانوں کا جتھہ ایک لڑکی پر تشدد کر رہا ہے اور عمر رسیدہ خاتون لڑکی کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔
گریٹر اقبال پارک کیس میں درجنوں افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔پولیس نے ویڈیوز میں نظر آنے والے ملزمان سے متعلق اشتہار بھی جاری کر دیا ہے۔ اس اشتہار میں عوام کو ملزمان کے بارے اطلاع دینے کی اپیل کرتے ہوئے یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ ملزمان کے بارے میں بتانے والے کا نام راز میں رکھا جائے گا۔
ادھر گزشتہ روز وزیراعلیٰ آفس میں اعلیٰ سطح کا اجلاس بھی ہوا۔ روایت کے مطابق اس بار بھی وزیراعلیٰ نے مینار پاکستان کے احاطے میں خاتون سے دست درازی اور لاہور میں پیش آنے والے بعض دیگر واقعات پر سخت تشویش کا اظہار کیا۔ پنجاب حکومت نے فرائض میں غفلت برتنے پر ڈی آئی جی آپریشنز لاہور کو او ایس ڈی بنا دیا ہے جب کہ ایس ایس پی آپریشنز اور ایس پی سٹی کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا اور ڈی ایس پی اور ایس ایچ او تھانہ لاری اڈہ لاہورکو معطل کر دیا گیا ہے۔ گریٹراقبال پارک کے پراجیکٹ ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر کو بھی معطل کر دیا گیا ۔
لاہور کے واقعے پر وفاقی و صوبائی وزراء، پیپلزپارٹی، مسلم لیگ کی قیادت اور دیگر مکاتب فکر کے حامل افراد نے بھی حسب معمول تشویش کا اظہار کیا اور مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان میں برسوں سے ایسا ہی ہوتا آ رہا ہے۔ ہر وزیر، مشیر، ترجمان اور معاون خصوصی اپنے اپنے انداز میں نوٹس لیتے ہیں، ٹی وی پر شکل دکھا کر اور اخبار میں بیان چھپوا کر اپنا فرض پورا کر دیتے ہیں۔ لاہور بلکہ پنجاب بھر میں جرائم کا گراف بڑھ گیا ہے، خصوصاً خواتین اور بچوں کے ساتھ زیادتی، ظلم و بریت کے ساتھ انھیں قتل کر دینے کے جرائم غیرمعمولی طور پر بڑھ چکے ہیں۔
موجودہ حکومت جب سے برسراقتدار آئی ہے، پنجاب میں کئی آئی جی تبدیل ہوئے ہیں، سی پی اوز اور دیگر پولیس افسر تبدیل ہوئے لیکن بہتری آنے کے بجائے جرائم کی صورت حال سنگین سے سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ گریٹر اقبال پارک واقعہ کے پس منظر میں کئی پولیس افسر تبدیل کیے گئے ہیں، جب بھی کوئی سنگین جرم یا واقعہ ہوجائے تو چند پولیس اہلکاروں کو معطل کردیا جاتا۔ اس بارے بھی ایسا ہی ہوا لیکن پنجاب پولیس کے سربراہ کے بارے میں خاموشی اختیار کی گئی ہے۔
میڈیا کے مطابق پولیس افسران کی معطلی کے پس منظر میں دیگر واقعات بھی شامل ہیں۔ چند روز قبل ایک صوبائی وزیر کا بھائی شادی کی تقریب میں قتل کردیا گیا، وزیراعلیٰ پنجاب اور کئی اور اہم شخصیات اس تقریب میں شریک تھیں لیکن قاتل باآسانی اسلحہ لے کر تقریب میں بلاروک ٹوک آگیا۔ گریٹر اقبال پارک میں تشدد اور بدتمیزی کا نشانہ بننے والی لڑکی کی میڈیکل کی رپورٹ کے مطابق اس کے پورے جسم پر نیلگوں اور سکریچز کے نشانات ہیں۔ پورے جسم پر 13 نشانات واضع ہیں جب کہ درجنوں نیلگوں نشانات ہیں۔ متاثرہ خاتون نے ایس پی سٹی انویسٹی گیشن کے سامنے پیش ہوکر اپنا بیان ریکارڈ کرا دیا۔
میڈیا کے مطابق گریٹر اقبال پارک میں سیف سٹی کے لگے ہوئے کیمرے بھی خراب نکلے ، پولیس نے ملزمان پکڑنے کے لیے اقبال پارک انتظامیہ اور سوشل میڈیا کی فوٹیجز سے استفادہ کیا ۔ کہا جارہا ہے کہ گریٹر اقبال پارک میں لگے کیمروں کے بارے میں انکوائری ہو رہی ہے، اگر شہر میں لگے کیمروں کا جائزہ لیا جائے تو اصل صورت حال سامنے آ جائے گی کہ کتنے کیمرے خراب ہیں اور انھیں ٹھیک کرنے کی جانب کوئی توجہ مبذول نہیں کی گئی۔
حیرت انگیز امر یہ ہے کہ حکومتی اداروں نے اپنی کارکردگی بہتر بنانے اور عوامی مسائل کو بروقت اور درست انداز میں حل کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی بلکہ جب بھی کوئی سانحہ رونما ہو جائے تو ڈنگ ٹپاؤ اقدامات کر کے معاملے کو ٹالنے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ مؤقف اختیار کیا جاتا ہے کہ چند روز بعد لوگوں کی توجہ کسی اور طرف ہو جائے گی اور یہ معاملہ ٹھنڈا ہو جائے گا۔
اگر تھانوں اور عدالتوں کے ریکارڈز چیک کیے جائیں تو ایسے سیکڑوں افسوس ناک واقعات ملیں گے جن کے رونما ہونے کے وقت حکمرانوں اور ریاستی اداروں نے روایتی پھرتیاں دکھائیں اور پھر معاملے کو فائلوں میں دبا دیا گیا۔ کبھی کوئی ایسی پالیسی نہیں بنائی گئی کہ ایسے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں یا ان کی تعداد میں خاطرخواہ کمی آ جائے۔ دوسری جانب یہ بھی تشویش ناک ہے کہ ایسے شرمناک واقعات ایک تسلسل کے ساتھ کیوں رونما ہو رہے ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کی ذہنی پستی اور اخلاقی گراوٹ کی عکاسی کرتے ہیں۔
شہری اور پبلک مقامات کو دیہات اور قصبوں کے مقابل محفوظ تصور کیا جاتا ہے مگر گریٹر اقبال جیسے پرہجوم مقام پر نوجوانوں کے ایک گروہ نے جو شرمناک حرکت کی اس نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ دوسری جانب آزادی کا جش منانے کے نام پر راہ چلتی خواتین سے جس دیدہ دلیری کے ساتھ بدتمیزی کی گئی وہ امر پر دلالت کرتا ہے کہ لوگوں کے دل سے قانون کی گرفت اور سزا کا خوف ختم ہو گیا ہے۔
یہ سوچ بھی جرائم کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اوباش اور جرائم پیشہ افراد جانتے ہیں کہ وہ اگر پکڑے بھی گئے تو پولیس کو رشوت دے کر یا عدالتوں میں تگڑا وکیل کر کے سزا سے بچ جائیں گے اور کوئی بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے۔ اگر محکمہ پولیس اور عدالتی نظام کو درست کر دیا جائے اور ہر شخص کو یہ خوف ہو کہ کسی بھی جرم کے ارتکاب پر وہ سزا سے نہیں بچ سکے گا تو وہ کوئی بھی نازیبا حرکت کرنے سے پیشتر کئی بار سوچے گا۔ اس سے معاشرے میں جرائم کی تعداد میں واضح کمی ہو گی۔ وزیراعلیٰ نے سارا ملبہ پولیس افسران پر ڈال کر ان کے خلاف کارروائی تو کر دی ہے مگر کیا اس سے معاملات درست ہو جائیں گے اور آیندہ ایسے شرمناک واقعات رونما نہیں ہوں گے۔
ناگزیر ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے واضح پالیسی بنائی جائے۔ اداروں پر چیک اینڈ بیلنس کے نظام کو مضبوط کیا جائے۔اس کے علاوہ نظریاتی ابہام پیدا نہ کیا جائے۔خواتین کے حقوق کے حوالے سے ملک کا ایک بااثر طبقہ ایسے نظریات کا کھلم کھلا اظہار کرتا رہتا ہے جس اس طبقے کے نظریات سے متاثر ہونے والے نوجوان جنونیت کا شکار ہوکر خواتین کے خلاف ایسی حرکات کرجاتے ہیں جن کا انھیں احساس اور شعور نہیں رکھتے کہ وہ کسی کی عزت سے کھیل رہے اور یہ ناقابل معافی جرم ہے۔
پاکستان میں فرسودہ پولیس سسٹم اور عدالتی نظام، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھایا جانے والا فرسودہ نصاب اور معاشرے میں پھیلی نظریاتی کنفیوژن نے نوجوان نسل کو بے سمت اور محض جبلی خواہشات کے تابع بنا دیا ہے۔ پولیس کا نظام تفتیش کو درست کرنا بہت ضروری ہے۔ ناقص تفتیش کرنے والے پولیس تفتیشی کو بھی احتساب کے دائرے میں لانے کے لیے قانون سازی ضروری ہے۔ اسی طرح ایک عدالت فوری طور پر ضمانت لے لیتی ہے جب کہ دوسری عدالت ضمانت منسوخ کردیتی ہے۔
اس حوالے سے بھی کوئی ضابطہ بننا چاہیے۔ خواتین کے بارے میں نظریاتی بحث کو نیکی اور بدی کے تناظر میں دیکھنے والوں کی حوصلہ شکنی کرنے کی ضرورت ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض اہم شخصیات بھی خواتین کے بارے میں متعصبانہ سوچ کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اگر ملک کے حکمرانوں، پالیسی سازوں، بیورو کریسی، سیاسی قیادت اور اہل علم نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو پورا ملک ایک ایسے جنگل میں تبدیل ہو جائے گا جہاں طاقت ور اپنے سے کمزور کو چیر پھاڑ دے گا۔