امریکی شکست کا ذمے دار بھارت ہے
طالبان نے این ڈی ایس کے کئی اعلیٰ افسران کے دفاتر سے پاکستانی کرنسی کثیر تعداد میں برآمد کی ہے۔
امریکی صدرجوبائیڈن نے افغان فوجیوں کے طالبان کے آگے سرنڈر ہونے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ انھوں نے انھیں جدید اسلحے اور اعلیٰ تربیت سے ضرور مزین کردیا تھا مگر انھیں لڑنے کا جذبہ اور حوصلہ نہ دے سکے جو کسی بھی فوج کے لیے دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
طالبان کے آگے افغان فوجیوں کے سرنڈر ہونے کے بارے میں کچھ اور لوگ اور بھی تاویلات پیش کرسکتے ہیں مگر وطن کی محبت کے لیے کسی انسان کا دل نہیں دھڑکتا۔ ہر ذی شعور شخص اپنے وطن کی آزادی کے لیے ہر وقت جان دینے کے لیے تیار رہتا ہے۔ طالبان کی طرح افغان فوجی بھی اپنی پیدائش سے ہی اپنے وطن کو دوسروں کا غلام دیکھتے چلے آ رہے تھے۔
طالبان کی طرح یہ سوال ان کے ذہن میں بھی ضرور گردش کرتا رہا ہوگا کہ آخر ان کا ملک کب تک غیروں کا غلام بنا رہے گا وہ کب آزاد فضاؤں میں سانس لیں گے، کب دوسری قوموں کی طرح سر اٹھا کر چل سکیں گے اور غیروں کے ہاتھوں وطن کے بگڑے ہوئے حالات اور معاملات کو اپنی روایات شناخت اور دینی اصولوں کے تحت استوار کرسکیں گے۔
طالبان انھی مقاصد کے حصول کے لیے تو ایک سپرپاور سے ٹکرا رہے تھے تو وہ کیوں ان کے راستے میں رکاوٹ بنتے، بس یہی وہ حب الوطنی کا جذبہ تھا جس نے افغان فوجیوں کو طالبان سے لڑنے سے روکا اور وہ ہر صوبے میں طالبان کے آگے ہتھیار ڈالتے رہے مگر یہ ہتھیار ڈالنا ہرگز بزدلی نہیں تھی بلکہ اپنے ملک کو غیروں کی غلامی سے آزاد کرانے کا انمول جذبہ تھا۔
جہاں تک افغان قوم میں بہادری کے جذبے کا تعلق ہے تو وہ کبھی بہادری کے جذبے سے عاری نہیں رہی۔ کیا طالبان کی بہادری دنیا کے سامنے نہیں ہے۔ پھر اگر ماضی کے افغانوں پر نظر ڈالیں تو وہ ہندوستان پر بار بار کامیاب حملے کرتے رہے۔ شہاب الدین غوری سے لے کر احمد شاہ ابدالی تک ہندوستان افغانوں کے پیروں تلے روندھا جاتا رہا۔
پاکستان کے ایک سابق وزیر خارجہ محمد علی بوگرہ نے ایک موقع پر بھارتی حکمرانوں کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارتیو! یاد رکھو ہندوستان پر جتنے بھی حملے ہوئے ہیں وہ تمام مغرب کی جانب سے ہوئے ہیں اور یاد رکھو، پاکستان بھی مغرب میں واقع ہے، چنانچہ پاکستان کو کبھی بھی کمزور نہ سمجھا جائے۔
امریکا افغانستان پر القاعدہ کو ختم کرنے اور اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کی غرض سے حملہ آور ہوا تھا۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے افغانستان میں القاعدہ کا قلع قمع کرکے اور اسامہ کو ہلاک کرکے اپنا مشن پورا کرلینا تھا۔
سوال یہ ہے کہ جب وہ اپنا مشن پورا کرچکا تھا تو اسی وقت افغانستان سے اسے اپنی اور نیٹو فوجوں کو واپس بلا کر افغانوں کی جان چھوڑ دینا چاہیے تھی مگر وہ اس کے بعد بھی وہاں قابض رہا جس کا سراسر مقصد بھارتی مفادات اور اس کی پاکستان کے خلاف جاری دہشت گردی کو تحفظ دینا تھا۔
بھارت کے افغانستان میں ایک درجن سے زیادہ قونصل خانوں کے نام پر دہشت گردوں کی تربیت کے مراکز ہرگز امریکی اجازت کے بغیر قائم نہیں ہوسکتے تھے۔ اب طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد ان مراکز کے واضح ثبوت سامنے آچکے ہیں۔ وہاں کی خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کے بھارت کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی ''را'' کی ذیلی شاخ ہونے کے بھی ثبوت مل چکے ہیں۔
طالبان نے این ڈی ایس کے کئی اعلیٰ افسران کے دفاتر سے پاکستانی کرنسی کثیر تعداد میں برآمد کی ہے جو یقینا پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں کو انعام کے طور پر دی جاتی ہوگی ورنہ ایک خفیہ ایجنسی کے اعلیٰ افسران کے دفاتر میں اتنی بڑی تعداد میں پاکستانی کرنسی نوٹوں کی موجودگی کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
کیا یہ پاکستان کے خلاف بھارتی دہشت گردی کا واضح ثبوت نہیں ہے، کاش کہ ایف ایف اے ٹی ایف لاہور بم دھماکے اور داسو ڈیم پر کام کرنے والے چینی اور پاکستانی انجینئرز کی ہلاکت میں بھارتی دہشت گردی کے واضح ثبوتوں اور اب افغانستان میں بھارت کی پاکستان مخالف دہشت گردی کے ثبوتوں کا نوٹس لیتے ہوئے فوراً بھارت کو بلیک لسٹ میں ڈالنے کا اعلان کردے تو یہ یقینا حق و انصاف کی فتح ہوگی اور اس سے اس ادارے کی گرتی ہوئی ساکھ کو بھی سنبھالا مل سکے گا، جہاں تک امریکا کا معاملہ ہے تو اسے ویتنام کے بعد افغانستان میں بھی اپنی انتہائی ہزیمت آمیز شکست سے سبق لیتے ہوئے اب چھوٹے ممالک، خصوصاً اسلامی ممالک پر جارحیت کرنے سے توبہ کرلینی چاہیے۔
بائیڈن نے کھلے دل سے افغانستان میں امریکی شکست کو تسلیم کرلیا ہے اور افغانستان کو سپرپاور کا قبرستان قرار دے دیا ہے۔ دنیا کے اکثر غیر جانبدار مبصرین پہلے ہی امریکا کے جارحانہ رویے پر تنقید کر رہے تھے، اب خود امریکی عوام اپنی حکومت کی جارحانہ پالیسی کے خلاف آواز بلند کرنے لگے ہیں۔ سابق صدر ٹرمپ نے بھی افغانستان میں صدر بائیڈن کی ناکامی پر انھیں فوراً مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ ٹرمپ کا مطالبہ ہے تو درست مگر انھیں خود اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ اس ناکامی کے لیے وہ خود کتنے ذمے دار ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ جارج ڈبلیو بش اور اوباما بھی اس شکست کے ذمے دار ہیں اس لیے کہ ان دونوں ادوار میں بھی بھارت افغانستان میں اپنی پاکستان مخالف کارروائیوں کو اتنے بڑے پیمانے پر چلاتا رہا کہ لگتا ہے امریکی اعلیٰ فوجی کمانڈر بھی طالبان کو شکست دینے کے مشن کو بھول کر بھارت کے پاکستان مخالف مشن کا حصہ بنے رہے۔
پہلے کرزئی اور بعد میں اشرف غنی وہاں بھارت کے وائسرائے کے طور پر کام کرتے رہے دراصل بھارت نے افغانستان پر امریکی قبضے کی آڑ میں اپنی حکومت قائم کرلی تھی۔ اس نے افغانستان میں جو بھی ترقیاتی کام کرائے وہ دراصل وہاں اپنے مستقل پیر جمانے کے لیے رشوت کے طور پر کرائے مگر چونکہ شکست کا اصل ذمے دار بھارت ہی ہے کہ اس کی سو ارب کی منڈی کے سحر میں جکڑ کر اور پاک چین دوستی سے تپ کر امریکیوں نے افغانستان کو بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا اور بھارتی مفادات کا تحفظ اپنا مشن بنا لیا۔
ادھر طالبان موقعہ غنیمت جان کر اپنی طاقت بڑھاتے رہے اور بالآخر امریکی و نیٹو افواج کے انخلا کے فوراً بعد ہی افغانستان پر دوبارہ اپنا پرچم لہرانے میں کامیاب ہوگئے۔ اب طالبان کو افغانستان میں موجود اپنے دشمنوں اور بالخصوص بھارت سے خبردار رہنا ہوگا ساتھ ہی اپنی حکومت کو کامیاب اور دیرپا بنانے کے لیے عالمی برادری کے ساتھ چلنا ہوگا۔
طالبان کے آگے افغان فوجیوں کے سرنڈر ہونے کے بارے میں کچھ اور لوگ اور بھی تاویلات پیش کرسکتے ہیں مگر وطن کی محبت کے لیے کسی انسان کا دل نہیں دھڑکتا۔ ہر ذی شعور شخص اپنے وطن کی آزادی کے لیے ہر وقت جان دینے کے لیے تیار رہتا ہے۔ طالبان کی طرح افغان فوجی بھی اپنی پیدائش سے ہی اپنے وطن کو دوسروں کا غلام دیکھتے چلے آ رہے تھے۔
طالبان کی طرح یہ سوال ان کے ذہن میں بھی ضرور گردش کرتا رہا ہوگا کہ آخر ان کا ملک کب تک غیروں کا غلام بنا رہے گا وہ کب آزاد فضاؤں میں سانس لیں گے، کب دوسری قوموں کی طرح سر اٹھا کر چل سکیں گے اور غیروں کے ہاتھوں وطن کے بگڑے ہوئے حالات اور معاملات کو اپنی روایات شناخت اور دینی اصولوں کے تحت استوار کرسکیں گے۔
طالبان انھی مقاصد کے حصول کے لیے تو ایک سپرپاور سے ٹکرا رہے تھے تو وہ کیوں ان کے راستے میں رکاوٹ بنتے، بس یہی وہ حب الوطنی کا جذبہ تھا جس نے افغان فوجیوں کو طالبان سے لڑنے سے روکا اور وہ ہر صوبے میں طالبان کے آگے ہتھیار ڈالتے رہے مگر یہ ہتھیار ڈالنا ہرگز بزدلی نہیں تھی بلکہ اپنے ملک کو غیروں کی غلامی سے آزاد کرانے کا انمول جذبہ تھا۔
جہاں تک افغان قوم میں بہادری کے جذبے کا تعلق ہے تو وہ کبھی بہادری کے جذبے سے عاری نہیں رہی۔ کیا طالبان کی بہادری دنیا کے سامنے نہیں ہے۔ پھر اگر ماضی کے افغانوں پر نظر ڈالیں تو وہ ہندوستان پر بار بار کامیاب حملے کرتے رہے۔ شہاب الدین غوری سے لے کر احمد شاہ ابدالی تک ہندوستان افغانوں کے پیروں تلے روندھا جاتا رہا۔
پاکستان کے ایک سابق وزیر خارجہ محمد علی بوگرہ نے ایک موقع پر بھارتی حکمرانوں کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارتیو! یاد رکھو ہندوستان پر جتنے بھی حملے ہوئے ہیں وہ تمام مغرب کی جانب سے ہوئے ہیں اور یاد رکھو، پاکستان بھی مغرب میں واقع ہے، چنانچہ پاکستان کو کبھی بھی کمزور نہ سمجھا جائے۔
امریکا افغانستان پر القاعدہ کو ختم کرنے اور اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کی غرض سے حملہ آور ہوا تھا۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے افغانستان میں القاعدہ کا قلع قمع کرکے اور اسامہ کو ہلاک کرکے اپنا مشن پورا کرلینا تھا۔
سوال یہ ہے کہ جب وہ اپنا مشن پورا کرچکا تھا تو اسی وقت افغانستان سے اسے اپنی اور نیٹو فوجوں کو واپس بلا کر افغانوں کی جان چھوڑ دینا چاہیے تھی مگر وہ اس کے بعد بھی وہاں قابض رہا جس کا سراسر مقصد بھارتی مفادات اور اس کی پاکستان کے خلاف جاری دہشت گردی کو تحفظ دینا تھا۔
بھارت کے افغانستان میں ایک درجن سے زیادہ قونصل خانوں کے نام پر دہشت گردوں کی تربیت کے مراکز ہرگز امریکی اجازت کے بغیر قائم نہیں ہوسکتے تھے۔ اب طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد ان مراکز کے واضح ثبوت سامنے آچکے ہیں۔ وہاں کی خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کے بھارت کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی ''را'' کی ذیلی شاخ ہونے کے بھی ثبوت مل چکے ہیں۔
طالبان نے این ڈی ایس کے کئی اعلیٰ افسران کے دفاتر سے پاکستانی کرنسی کثیر تعداد میں برآمد کی ہے جو یقینا پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں کو انعام کے طور پر دی جاتی ہوگی ورنہ ایک خفیہ ایجنسی کے اعلیٰ افسران کے دفاتر میں اتنی بڑی تعداد میں پاکستانی کرنسی نوٹوں کی موجودگی کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
کیا یہ پاکستان کے خلاف بھارتی دہشت گردی کا واضح ثبوت نہیں ہے، کاش کہ ایف ایف اے ٹی ایف لاہور بم دھماکے اور داسو ڈیم پر کام کرنے والے چینی اور پاکستانی انجینئرز کی ہلاکت میں بھارتی دہشت گردی کے واضح ثبوتوں اور اب افغانستان میں بھارت کی پاکستان مخالف دہشت گردی کے ثبوتوں کا نوٹس لیتے ہوئے فوراً بھارت کو بلیک لسٹ میں ڈالنے کا اعلان کردے تو یہ یقینا حق و انصاف کی فتح ہوگی اور اس سے اس ادارے کی گرتی ہوئی ساکھ کو بھی سنبھالا مل سکے گا، جہاں تک امریکا کا معاملہ ہے تو اسے ویتنام کے بعد افغانستان میں بھی اپنی انتہائی ہزیمت آمیز شکست سے سبق لیتے ہوئے اب چھوٹے ممالک، خصوصاً اسلامی ممالک پر جارحیت کرنے سے توبہ کرلینی چاہیے۔
بائیڈن نے کھلے دل سے افغانستان میں امریکی شکست کو تسلیم کرلیا ہے اور افغانستان کو سپرپاور کا قبرستان قرار دے دیا ہے۔ دنیا کے اکثر غیر جانبدار مبصرین پہلے ہی امریکا کے جارحانہ رویے پر تنقید کر رہے تھے، اب خود امریکی عوام اپنی حکومت کی جارحانہ پالیسی کے خلاف آواز بلند کرنے لگے ہیں۔ سابق صدر ٹرمپ نے بھی افغانستان میں صدر بائیڈن کی ناکامی پر انھیں فوراً مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ ٹرمپ کا مطالبہ ہے تو درست مگر انھیں خود اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ اس ناکامی کے لیے وہ خود کتنے ذمے دار ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ جارج ڈبلیو بش اور اوباما بھی اس شکست کے ذمے دار ہیں اس لیے کہ ان دونوں ادوار میں بھی بھارت افغانستان میں اپنی پاکستان مخالف کارروائیوں کو اتنے بڑے پیمانے پر چلاتا رہا کہ لگتا ہے امریکی اعلیٰ فوجی کمانڈر بھی طالبان کو شکست دینے کے مشن کو بھول کر بھارت کے پاکستان مخالف مشن کا حصہ بنے رہے۔
پہلے کرزئی اور بعد میں اشرف غنی وہاں بھارت کے وائسرائے کے طور پر کام کرتے رہے دراصل بھارت نے افغانستان پر امریکی قبضے کی آڑ میں اپنی حکومت قائم کرلی تھی۔ اس نے افغانستان میں جو بھی ترقیاتی کام کرائے وہ دراصل وہاں اپنے مستقل پیر جمانے کے لیے رشوت کے طور پر کرائے مگر چونکہ شکست کا اصل ذمے دار بھارت ہی ہے کہ اس کی سو ارب کی منڈی کے سحر میں جکڑ کر اور پاک چین دوستی سے تپ کر امریکیوں نے افغانستان کو بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا اور بھارتی مفادات کا تحفظ اپنا مشن بنا لیا۔
ادھر طالبان موقعہ غنیمت جان کر اپنی طاقت بڑھاتے رہے اور بالآخر امریکی و نیٹو افواج کے انخلا کے فوراً بعد ہی افغانستان پر دوبارہ اپنا پرچم لہرانے میں کامیاب ہوگئے۔ اب طالبان کو افغانستان میں موجود اپنے دشمنوں اور بالخصوص بھارت سے خبردار رہنا ہوگا ساتھ ہی اپنی حکومت کو کامیاب اور دیرپا بنانے کے لیے عالمی برادری کے ساتھ چلنا ہوگا۔