افغان امورکے نام نہاد ماہرین

پورے ملک میں افغان امور کے ماہر ہیں جنھیں سند تسلیم کیا جاتا ہے

ashfaqkhan@express.com.pk

فتح کابل کے ساتھ ہی امارت اسلامی افغانستان کے ذمے داران پوری دنیا کے ہر ملک اور ہر پارٹی کی مشوروں کے طوفان اور یلغار کی زد میں ہیں ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ مشوروں کی یہ بوچھاڑ ان سیاسی جماعتوں اور میڈیا کے دیسی لبرلز کی طرف سے ہے جنہوں نے کبھی طالبان کے بارے میں کلمہ خیر ادا نہیں کیا اور نہ آج ان کے حق میں ہیں ، بعض دانشوروں کو جتنی فکر ہے اتنی تو امارت اسلامیہ افغانستان کے ذمے داران اور کارکنان کو نہیں جنہوں نے 20 سال ننگے پاؤں اور خالی پیٹ ، زمینی اور فضائی حملوں کو اپنے سینوں پر روکا ، ان میں سے کوئی ایسا نہیں جس کے گھر سے جنازہ نہ اٹھا ہو ، ہر گھر میں کوئی نہ کوئی مستقل معذور ہوا اور ان کے کٹے ہوئے اعضا روز ان کو دشمن کی سفاکی کی کہانی سنا رہے ہیں۔

پورے ملک میں افغان امور کے ماہر ہیں جنھیں سند تسلیم کیا جاتا ہے مگر چند دانشوروں اور ماہرین ایسے ایسے تجزیے اور مشورے دے رہے ہیں کہ ہر وہ شخص جس کو معمولی سوجھ بوجھ اور افعانستان سے آگاہی ہو تو وہ نہ اپنی ہنسی روک سکتا نہ ہنس سکتا ہے۔

افغانستان اور طالبان کے بارے ہمارے اکثر دانشور اتنے بے خبر اور لاعلم ہیں کہ دانشوری بھی شرم سے ڈوب مرے ، دوسری طرف افعان امور کے ماہرین کا ''لشکر'' بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے جن لوگوں نے پوری زندگی افغانستان میں قدم نہیں رکھا ،جو پشتو کا ایک لفظ نہیں بول سکتے، جنہوں نے فارسی زندگی میں کبھی سنی بھی نہیں، دوسری علاقائی زبانوں کا کیا ذکر کروں، جو طالبان کے بارے میں خدشات کا اظہار اور دنیا کو خبردار اور خدا ترسی میں طالبان کو مفت مشورے دے رہے وہ طالبان کے کسی نامی گرامی لیڈر تو دور کی بات کسی مجاہد اور عام طالب سے بھی نہیں ملے۔ اب اگر افعان امور کا کوئی ماہرایسا ہے جیسا میں نے بیان کیا تو یہ سوال تو بنتا ہے نا کہ بھائی کس اہلیت کی بنیاد پر افعان امور کے ماہر بن کے نام نہاد ماہرین کے اس لشکر میں شامل ہوگئے ہو؟

دانشوروں اور افعان امور کے ماہرین کے علاوہ پاکستان کی چند سیکولر سیاسی پارٹیاں جن میں پختونوں کے حقوق کی علمبردار اے این پی سر فہرست ہے، ان مذکورہ تینوں گروپوں کی فکر ، تشویش کی اصل وجہ ایک اور درد، دکھ اور غم سانجھا ہے اور وہ ہے' ''طالبان پھر آئے اور اتنے پرامن طریقے سے پورے ملک کے فاتح بن کر آئے''۔

طالبان کے یہ تینوں ناقد اور خود ساختہ مشیر مستقبل کے بارے میں خدشات ماضی کی جھوٹی کہانیوں کو بنیاد بناکر ایک لمبی فہرست روزانہ سناتے رہتے ہیں۔

یہ تینوں ایسا کیو ں کرتے ہیں؟ دانشوروں اور افعان امور کے ماہرین کے لشکروں کا معاملہ تو بڑا آسان ہے اور عام فہم ہے لہٰذا میں اس پر وقت ضایع کرنا مناسب نہیں سمجھتا مگر اے این پی ایسا کیوں کررہی ہے؟ میں یہاں واضح کرتا چلوں کہ لر او بر یو افعان یہ اے این پی والوں کا نعرہ ہے جس کا مطلب ہے کہ پاکستان اور افغانستان کا افعان (پشتون ) ایک ہی ہے۔ حقیقت میں اس کے پیچھے پختونستان کا وہ نظریہ اور نعرہ کارفرما ہے کہ جہلم تک کا علاقہ افعانستان کے ساتھ ملے گا تو پختونستان بنے گا مگر اب اے این پی کی یہ حیثیت نہیں رہی کہ پختونستان کا نعرہ لگائے' اس لیے اب وہ لر او بر یو افعان کے نعرے پر گزارا کررہی ہے۔ یہ موضوع زیادہ حساس اور وقت طلب ہے تو اس پر ایک مکمل اور مدلل آرٹیکل لکھنے کی کوشش کرونگا۔

طالبان کے ناقدین اور خود ساختہ مشیروں نے مستقبل کے بارے میں جو خدشات ظاہر کیے وہ محض ماضی کے جھوٹی کہانیوں کی بنیادپر ہیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ہم ان کی تفصیل میں جائے بغیر صرف ان چار کو لیتے ہیں جن پر یہ خود اور ان کی ڈور ہلانے والے سب متفق ہیں۔

1) طالبان کو سولو فلائٹ نہیں کرنی چاہیے' تمام سیاسی پارٹیوں، علاقائی گروپس ، ہر مذہب اور فرقے کو حکومت میں حصہ دینا چاہیے۔

2)خواتین کو مکمل آزادی اور حقوق ملنے چاہئیں۔


3) سخت سزائیں، پھانسی، ہاتھ کاٹنا، سنگسار کرنا اور ایسی دوسری سزائیں نہیں ہونی چاہئیں۔

4) طالبان کو یہ گارنٹی دینی پڑے گی کہ افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اور تمام دہشت گرد گروپوں کو افغانستان سے نکالنا پڑیگا۔

ان کا خیال ہے کہ ان میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہ ہوا تو طالبان کی حکومت چلے گی نہ افغانستان میں امن قائم ہوگا۔

سب سے پہلے میں ان دانشوروں اور افعان امور کے خود ساختہ ماہرین کو مشورہ دیتا ہوں پہلے اسلامی امارت کے اصول و قواعد کو سمجھے پھر بات کریں تو مناسب اور وزن دار ہوگا۔ اسلامی امارت کوئی سیاسی پارٹی نہیں کہ بندہ منہ اٹھا کر ایک اخباری بیان دے کر یا پارٹی لیڈر کے لیے جلسہ کرکے یا پریس کانفرنس کرکے رکن بن جائیگا۔ شرعی اسلامی امارت کا رکن بننے کے لیے کچھ شرائط اور قرآن و سنت کی روشنی میں ایک مسلمہ شرعی طریقہ کار ہے جس کے بنیادی شرائط مندرجہ ذیل ہیں۔

1) پہلی شرط یہ کہ ہر فرد امیرالمومنین یا امیر المومنین کے نامزد نمائندے کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر یا شرعی بیعت کرے گا اور یہ بیعت امیر یا بیعت کرنے والے کی موت یا کسی شرعی عذر پر امیر بدلنے پر ختم ہوتی ہے۔

2) دوسری شرط یہ کہ امر اور حکم صرف اور صرف امیر کا چلے گا اورہر ایک کو حکم ماننا پڑے گا شرعی بیعت کے بعد اختلاف کی گنجائش نہیں۔

3) اسلامی امارت یا خلافت دونوں میں اہل رائے کی ایک شوریٰ (کونسل ) ہوتی ہے جو ہر معاملے پر اپنی رائے امیر کو دیتی ہے، شوریٰ کا ہر فرد اس کا پابند ہے کہ وہ اپنی فہم و فراست کے مطابق مشورہ اور رائے شوریٰ میں قرآن و سنت کی روشنی میں دے۔ شور یٰ شرعی تقاضوں پر مشاورت کے بعدامیر المومنین کو مشورہ دیگی۔

4) امیر المومنین کو شرعی طور پر یہ حق ہے کہ شوریٰ کے فیصلے کو مان لے یا بدل دے یا اس پر دوبارہ غور و فکر کر کے پیش کرے۔

اپنی بات سمجھانے کے لیے میں یہی کہونگا کہ شرعی امارت میں آخری فیصلہ اور حکم صرف امیر کا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت جزوی شقیں ہیں مگر ہم نے اگر یہی بنیادی اصول سمجھ لیا تو دانشوروں اور ماہرین کے لشکر کی مشکل آسان ہو یا نہ ہو مگر سامعین اور تبدیلی کے قارئین کی مشکل ضرور حل ہوگی ،کیونکہ دونوں بریگیڈ یہ سمجھنا ہی نہیں چاہتیں ۔ دانشوروں اور ماہرین کو تو پروگرام کی طوالت اور اگلے پروگرام اور کالم میں بحث کے لیے ابہام چاہیے اگر سامعین کی سمجھ میں بات آجائے تو یہ ماہرین کل کیا کریں گے۔

اب اگر یہی ایک بات کہ شرعی امارت میں آخری فیصلہ اور حکم صرف امیر المومنین کا ہوتا ہے تواسی میں ہر سوال کا جواب مل جائیگا کہ حکمران کون ہوگا اور کس کا حکم چلے گا، طرزحکمرانی کیا ہوگا ، بھائی جس طرح ماضی میں ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ علیہ حکمران اور پیشوا تھے۔ بالکل اسی طرح آج امیر المومنین شیخ الحدیث مولانا ہیبت اللہ اخونزادہ حکمران اور پیشوا ہونگے اور حکومت کو اپنی شوریٰ کے مشوروں سے چلائیں گے ، اور سب کو اہلیت کی بنیاد پر ذمے داری دیگا، مرکزی شوریٰ کے علاوہ ہر شعبے کے لیے ذیلی کونسلز موجود ہے۔ابھی بہت کچھ کہنا باقی ہے' جسے میں کسی اور کالم میں بیان کروں گا' فی الحال اتنا ہی بہت ہے۔
Load Next Story