کورونا وبا کے دوران بزرگ شہریوں کی خدمتگار

وبا کے دوران علینا نے دوستوں کے ساتھ بزرگ شہریوں کو ان کے گھروں میں ان کی ضرورت کاسامان پہنچانے کا کام شروع کیاتھا

معاوضے کے بغیر بزرگوں کو خدمات فراہم کرنے والوں کا دائرہ کار محدود ہے فوٹو: فائل

کورونا وبا کے دوران ایسے بزرگ شہری جن کے بچے بیرون ملک مقیم ہیں اور یہاں ان کی دیکھ بھال کرنے والاکوئی نہیں تھا، ایسے شہریوں کو کسی بھی ہنگامی صورتحال میں سروسز فراہم کرنیوالے ادارے بھی سامنے آئے ہیں جن کی طرف سے شہریوں کو گھرکی صفائی، کھانے کی تیاری سے لیکران کی دیکھ بھال، ادویات کی فراہمی جیسی خدمات فراہم کی جارہی ہیں۔ ان میں سے بعض ادارے توان خدمات کی فراہمی کامعاوضہ لے رہے ہیں تاہم بعض ایسے نوجوان رضاکار بھی ہیں جو یہ خدمات کسی معاوضے کے بغیرسرانجام دیتے ہیں لیکن ان کی خدمات کا دائرہ کارمحدود ہے۔

80 سالہ محمد سرفرازخان شادمان لاہور کے رہائشی ہیں،وہ اپنے بڑے سے شاندارگھرمیں اپنی اہلیہ کے ساتھ رہائش پذیرہیں جبکہ ان کے دوبیٹے اورایک بیٹی بیرون ملک اپنی اپنی فیملیزکے ساتھ مقیم ہیں۔ محمد سرفرازخان نے ٹربیون کوبتایا کہ دوماہ پہلے وہ کورونا کاشکار ہوگئے تھے ، ان کی اہلیہ خود بھی بیمار رہتی ہیں ۔ انہوں نے گھرمیں کام کاج کے لئے ایک خاتون ملازمہ رکھی ہے مگر کورونا کی وجہ سے اس نے آناچھوڑ دیا تھا ۔ ان حالات میں ہمارے معمولات متاثرہوگئے۔ بچے روزانہ فون پر بات کرتے ، حال احوال پوچھتے، لیکن وبا کی وجہ سے وہ پاکستان نہیں آسکتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ ان حالات میں انہیں ادارے سے متعلق معلوم ہوا جو گھروں میں مختلف خدمات فراہم کرتاہے۔ اس سے ہمارے لئے آسانی پیداہوگئی، ایک فون کال پربازارسے اگرکوئی چیزمنگواناہوتی تووہ گھرپہنچ جاتی تھی۔ گھرکی صفائی، کھانے پکانے اورکپڑے دھونے کے لئے ملازم آجاتاتھا۔ اسی طرح ایک نرس کی سہولت بھی میسرآگئی ۔ سرفرازخان کہتے ہیں یہ سب خدمات معمول سے کچھ مہنگی پڑرہی تھیں لیکن ایسے وقت میں جب ہمارے بچے بھی ہمارے پاس نہیں آسکتے تھے اور کوئی ملازم بھی کام کرنے کوتیارنہیں تھا ایسے میں اس ادارے نے جوتعاون کیا وہ ہماری زندگیوں سے مہنگانہیں ہے


شہریوں کو خدمات فراہم کرنے والے ایک ادارے محافظ کے لاہور میں موجود نمائندے ابوبکر نے ٹربیون کوبتایا کہ وہ لوگ فی الحال لاہور،اسلام آباد اورکراچی میں خدمات فراہم کررہے ہیں، خاص طور پر ان بزرگ شہریوں کو پریمیئر سروسز فراہم کرتے ہیں جو پاکستان میں اکیلے رہتے ہیں، ان کے بچے اوردیگر رشتہ داربیرون ملک یا دوسرے شہروں میں مقیم ہیں۔ چوبیس گھنٹے سروسز کے دوران کسی بھی ہنگامی صورتحال سے لیکر انتہائی گھریلو کاموں تک کی سروس دی جاتی ہیں۔ ہمارے کلائنٹ زیادہ تربیرون ملک مقیم وہ پاکستانی ہیں جن کے والدین یہاں مقیم ہیں اوروہ سفری پابندیوں کی وجہ سے اپنے والدین کے پاس نہیں آسکتے ہیں اورانہیں اپنے والدین کی خدمت کے لئے قابل اعتماد ملازمین کی ضرورت ہوتی ہے۔

ابوبکر نے بتایا ان کے ادارے نے مختلف ڈاکٹروں ، نرسوں، پیرامیڈیکس ، گھریلوملازمین، پلمبر،نوکرانیوں ، باورچی ،ڈرائیور، آؤٹ ڈورسروسزفراہم کرنیوالے رائیڈرز کے اپنے ساتھ رجسٹرڈکیاہے۔ ہم اپنے کلائنٹ کی ایک کال پرچوبیس گھنٹے میں کسی بھی وقت انہیں خدمات فراہم کرتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ ان کے ادارے سے خدمات حاصل کرنے کے لئے 50 امریکی ڈالررجسٹریشن فیس ہے جبکہ 50 امریکی ڈالر بطور سیکیورٹی جمع کئے جاتے ہیں،سروس سوداسلف ،سامان کی قیمت اور سروس چارجزجوانتہائی کم ہوتے ہیں وہ کلائنٹ خدمت حاصل کرتے ہوئے ادا کردیتا ہے۔بحریہ ٹاؤن لاہور اور ڈی ایچ اے میں بھی ایسے کئی ادارے سروس فراہم کررہے ہیں لیکن ان کی خدمات فی الحال اپنی سوسائٹیز کی حدتک محدود ہیں۔

دوسری طرف وباکے دوران کئی نوجوان رضاکار بھی سامنے آئے ہیں جو بغیر کسی معاوضے کے اپنے محلے اور سوسائٹی میں موجود بزرگ شہریوں کی خدمت کررہے ہیں۔ آسرا نامی این جی او کی سربراہ علینا اظہر نے بتایا کہ وبا کے دوران انہوں نے اپنی دوستوں کے ساتھ مل کر بزرگ شہریوں کو ان کے گھروں میں ان کی ضرورت کاسامان پہنچانے کا کام شروع کیاتھا۔ ہم نے تقریبا پچاس کے قریب ایسے افراد کوخدمات فراہم کی ہیں جو اکیلے ہیں یا پھر ان کے بچے بیرون ملک ہیں۔ ان افراد سے مل کرہم نے انہیں اپنا رابطہ نمبر دیا اور بتایا کہ کسی بھی ایمرجنسی میں اورضرورت کی کوئی چیز منگوانے کے لئے وہ فون کرسکتے ہیں۔ جب کسی بزرگ شہری کو بازار سے کوئی دوائی، کچن کاسامان، گراسری منگوانا ہوتی تو وہ فون کرتے ہمارا جو ساتھی ان کے نزدیک ترین ہوتا ہے وہ یہ خدمت سرانجام دے دیتا ہے۔

علینا کہتی ہیں کہ جو بزرگ شہری کسی معاشی مجبوری کی وجہ سے ضرورت کاسامان منگوانے کی سکت نہیں رکھتے ہیں ہم انہیں اپنی حیثیت کے مطابق وہ سامان خرید کر ان کے گھر پہنچادیتے ہیں۔ اس کے علاوہ دن میں تھوڑی دیر کے لئے ان کا حال احوال پوچھنے ان کے گھر بھی چلے جاتے ہیں اس سے انہیں ہمت اور حوصلہ ملتا ہے۔
Load Next Story