افغان طالبان نے ٹی ٹی پی سے متعلق پاکستان کی شکایات پر کمیشن تشکیل دے دیا
تحریکِ طالبان پاکستان ہو یا کوئی اور تنظیم ان کی اب افغانستان میں کوئی جگہ نہیں، طالبان ترجمان
افغان طالبان نے افغانستان سے پاکستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے دہشت گردی کی شکایات کے ازالے کے لیے ایک اعلیٰ سطح کمیشن قائم کیا ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے 'وائس آف امریکا' کے مطابق افغان طالبان کے سربراہ ملا ہبت اللہ اخونزادہ کی ہدایت پر 3 رکنی کمیشن تشکیل دیا گیا ہے جو پاکستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے دہشت گردی کی شکایات کے ازالہ کرے گا، کمیشن نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے رہنماؤں کو خبردار کیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنے معاملات حل کریں اور پاکستانی حکومت کی جانب سے عام معافی کے بدلے پاکستان چلے جائیں۔
پاکستان اور افغان طالبان نے کمیشن کے قیام سے متعلق کسی قسم کی تصدیق یا تردید نہیں کی تاہم طالبان کے دوحا دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ یہ تحفظات جائز ہیں، ہماری یہ واضح پالیسی ہے کہ ہم کسی کو بھی افغان سرزمین کسی بھی ہمسایہ ملک بشمول پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ چاہے وہ تحریکِ طالبان پاکستان ہے یا کوئی اور تنظیم، ان کی اب افغانستان میں کوئی جگہ نہیں ہے اور یہ سب کے لیے واضح پیغام ہے۔
اسلام آباد میں موجود اہم ذرائع نے امریکی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بات کا امکان کم ہے کہ پاکستان ٹی ٹی پی کے مطالبات تسلیم کر لے گا تاہم ملکی قانون کے مطابق ہتھیار ڈالنے اور پاکستان کے خلاف آئندہ کسی بھی سرگرمی میں ملوث نہ ہونے کی یقین دہانی پر انہیں معافی مل سکتی ہے۔ اگر افغان طالبان انسدادِ دہشت گردی سے متعلق اپنے وعدوں پر قائم نہ رہے تو نا صرف پاکستان بلکہ چین، روس، ایران اور وسطی ایشیائی ریاستیں بھی اُن سے بدظن ہو جائیں گی۔
واضح رہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) بین الاقوامی طور پر ایک کالعدم دہشت گرد تنظیم ہے، یہ تنظیم پاکستان میں درجنوں دہشت گردی کے واقعات میں ہزاروں افراد کی ہلاکت کی ذمے داری قبول کر چکی ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے 'وائس آف امریکا' کے مطابق افغان طالبان کے سربراہ ملا ہبت اللہ اخونزادہ کی ہدایت پر 3 رکنی کمیشن تشکیل دیا گیا ہے جو پاکستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے دہشت گردی کی شکایات کے ازالہ کرے گا، کمیشن نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے رہنماؤں کو خبردار کیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنے معاملات حل کریں اور پاکستانی حکومت کی جانب سے عام معافی کے بدلے پاکستان چلے جائیں۔
پاکستان اور افغان طالبان نے کمیشن کے قیام سے متعلق کسی قسم کی تصدیق یا تردید نہیں کی تاہم طالبان کے دوحا دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ یہ تحفظات جائز ہیں، ہماری یہ واضح پالیسی ہے کہ ہم کسی کو بھی افغان سرزمین کسی بھی ہمسایہ ملک بشمول پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ چاہے وہ تحریکِ طالبان پاکستان ہے یا کوئی اور تنظیم، ان کی اب افغانستان میں کوئی جگہ نہیں ہے اور یہ سب کے لیے واضح پیغام ہے۔
اسلام آباد میں موجود اہم ذرائع نے امریکی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بات کا امکان کم ہے کہ پاکستان ٹی ٹی پی کے مطالبات تسلیم کر لے گا تاہم ملکی قانون کے مطابق ہتھیار ڈالنے اور پاکستان کے خلاف آئندہ کسی بھی سرگرمی میں ملوث نہ ہونے کی یقین دہانی پر انہیں معافی مل سکتی ہے۔ اگر افغان طالبان انسدادِ دہشت گردی سے متعلق اپنے وعدوں پر قائم نہ رہے تو نا صرف پاکستان بلکہ چین، روس، ایران اور وسطی ایشیائی ریاستیں بھی اُن سے بدظن ہو جائیں گی۔
واضح رہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) بین الاقوامی طور پر ایک کالعدم دہشت گرد تنظیم ہے، یہ تنظیم پاکستان میں درجنوں دہشت گردی کے واقعات میں ہزاروں افراد کی ہلاکت کی ذمے داری قبول کر چکی ہے۔