پی ڈی ایم خود توڑنے کے ذمے دار
مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی پی ڈی ایم کے ٹوٹنے کے اصل ذمے دار ہیں۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم کے بیانیے سے اختلاف کرنے والے فارغ ہو چکے ہیں جب کہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے بھی واضح کردیا ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کو پارلیمنٹ کی حد تک متحد رکھنا چاہتے ہیں اور جب پی ڈی ایم بنی وہ جیل میں تھے۔
میاں شہباز شریف کی اس بات سے لگتا ہے کہ انھیں پی ڈی ایم میں پیپلز پارٹی کی واپسی سے کوئی دلچسپی نہیں اور پارلیمنٹ سے باہر اپوزیشن کے اختلاف سے انھیں سروکار نہیں وہ صرف پارلیمنٹ تک اپوزیشن کو متحد رکھنا چاہتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا یہ بھی کہنا ہے کہ پی ڈی ایم موجودہ حکومت کے خاتمے تک اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔
مولانا فضل الرحمن اور میاں شہباز شریف کے بیانات سے تو لگتا ہے کہ وہ موجودہ پی ڈی ایم ہی کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور انھیں پی ڈی ایم میں پیپلز پارٹی کی واپسی کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہو رہی جب کہ حکومت کے نزدیک پی ڈی ایم دفن اور اپوزیشن بکھر کر کمزور ہو چکی ہے جو حکومت کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی اور حکومت پہلے سے زیادہ مضبوط ہے۔
حقیقت میں پی ڈی ایم سے متعلق حکومتی موقف درست ہے کیونکہ چھ ماہ متحد رہ کر پی ڈی ایم نے عوام کو حکومت کے خلاف متحرک کیا تھا اور ملک میں بڑے بڑے جلسے کرکے عوام کو حکومت کے خلاف سڑکوں پر لانے کی کامیاب جدوجہد کی تھی مگر پارلیمنٹ سے استعفوں کے سوال پر پیپلز پارٹی نے جواب طلبی کو شوکاز نوٹس کو بنیاد بنا کر پی ڈی ایم سے علیحدگی اختیار کرلی تھی جس کی فوری ابتدا اے این پی نے کی تھی جو صرف کے پی کے اور بلوچستان تک محدود ہے۔
پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا یہ کہنا درست ہے کہ پی ڈی ایم حکومت کے خلاف اتحاد تھا اور استعفے نہ دینے پر پی ڈی ایم کو انھیں شوکاز نوٹس نہیں دینا چاہیے تھا۔ چھ ماہ میں پی ڈی ایم کے متحد رہنے کے دوران اپوزیشن جماعتوں نے تمام ضمنی انتخابات جیتے تھے اور شوکاز نوٹس دے کر پی ڈی ایم نے غلط کیا جس پر پی ڈی ایم معافی مانگے۔
انھوں نے پی پی اجلاس میں شوکاز نوٹس پھاڑ کر پی ڈی ایم میں انتشار بھی بڑھا دیا تھا۔ پی ڈی ایم ٹوٹنے کے چار ماہ میں اپوزیشن آزاد کشمیر اور سیالکوٹ میں انتخابات بری طرح ہاری اور مسلم لیگ (ن) بڑے بڑے جلسے وہاں کرکے بھی ناکام رہی، البتہ کراچی میں قومی اسمبلی کی پی ٹی آئی کے فیصل واوڈا کی قومی اسمبلی کی ایک اہم نشست پیپلز پارٹی نے اپنی حکمت عملی سے ضرور جیت لی اور سندھ کے تمام ضمنی الیکشن پی پی جیتی اور مسلم لیگ (ن) سیالکوٹ کے مضبوط گڑھ میں اپنی نشست سات ہزار کے بڑے فرق سے ہار گئی۔
پیپلز پارٹی اور اے این پی کے پی ڈی ایم چھوڑنے کا سب سے بڑا فائدہ حکومت کو اور نقصان مسلم لیگ (ن) کو ہوا ہے جو اپنے دو بیانیوں کے باعث بھی باہمی اختلافات کا شکار ہے جب کہ پیپلز پارٹی کو کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ فائدہ ہوا ہے۔ پی پی کی سندھ کی حکومت برقرار، قومی اسمبلی کی ایک نشست میں اضافہ اور آزادکشمیر میں پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) سے ڈبل نشستیں جیت لی ہیں۔
پی ڈی ایم میں ہوتے ہوئے گلگت بلتستان کے انتخابات متحد ہو کر لڑنے کے بجائے الگ الگ الیکشن لڑ کر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے شکست کھائی اور پی ٹی آئی کو جتوایا تھا۔ پی ڈی ایم میں ہوتے ہوئے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے پی ٹی آئی کا مقابلہ کیا اور آپس میں لڑ کر پی ٹی آئی کو حکومت بنانے کا خود موقعہ دیا تھا۔
پی ڈی ایم ٹوٹنے کے بعد بھی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے اپنے اختلافات ختم کرکے مل کر آزاد کشمیر کا الیکشن لڑنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور بڑے بڑے دعوے حقائق کو نظرانداز کرکے ضرور کیے تھے جب کہ دونوں کو حقائق کا پورا علم تھا مگر جان بوجھ کر دونوں نے آپس میں لڑ کر پی ٹی آئی کو واضح اکثریت دلانے میں اہم کردار ادا کیا اور جان بوجھ کر شکست کھائی اور دونوں نے گلگت بلتستان کی شکست سے سبق نہیں سیکھا۔
موجودہ پی ڈی ایم کی جدوجہد ہے ہی نہیں محض مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی موجودہ حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں اس سلسلے میں مولانا فضل الرحمن کا بیان ایک خواب ہی ہو سکتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی پالیسی سے ظاہر ہے کہ اسے موجودہ وفاقی اور پنجاب حکومت کے خاتمے سے اب کوئی دلچسپی نہیں اور وہ موجودہ حکومت کو 5 سالہ مدت پوری کرنے کا پورا موقعہ دے رہی ہے جب کہ بلاول زرداری کو جلد عام انتخابات کی توقع ہے مگر وزیر اعظم عمران خان قبل ازوقت انتخابات کا خطرہ مول نہیں لیں گے۔
مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی پی ڈی ایم کے ٹوٹنے کے اصل ذمے دار ہیں۔ پیپلز پارٹی کو صرف قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے پر قائل کیا جاتااور پی ٹی آئی کی طرح پیپلز پارٹی کو سندھ حکومت برقرار رکھنے کا موقعہ دیا جاتا تو پی ڈی ایم کو برقرار رکھا جا سکتا تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا اور پیپلز پارٹی کو شوکاز نوٹس دے کر مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی نے اپنی ضد اور انا کے لیے پی ڈی ایم تڑوانے میں اہم کردار ادا کیا۔
میاں شہباز شریف کی اس بات سے لگتا ہے کہ انھیں پی ڈی ایم میں پیپلز پارٹی کی واپسی سے کوئی دلچسپی نہیں اور پارلیمنٹ سے باہر اپوزیشن کے اختلاف سے انھیں سروکار نہیں وہ صرف پارلیمنٹ تک اپوزیشن کو متحد رکھنا چاہتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا یہ بھی کہنا ہے کہ پی ڈی ایم موجودہ حکومت کے خاتمے تک اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔
مولانا فضل الرحمن اور میاں شہباز شریف کے بیانات سے تو لگتا ہے کہ وہ موجودہ پی ڈی ایم ہی کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور انھیں پی ڈی ایم میں پیپلز پارٹی کی واپسی کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہو رہی جب کہ حکومت کے نزدیک پی ڈی ایم دفن اور اپوزیشن بکھر کر کمزور ہو چکی ہے جو حکومت کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی اور حکومت پہلے سے زیادہ مضبوط ہے۔
حقیقت میں پی ڈی ایم سے متعلق حکومتی موقف درست ہے کیونکہ چھ ماہ متحد رہ کر پی ڈی ایم نے عوام کو حکومت کے خلاف متحرک کیا تھا اور ملک میں بڑے بڑے جلسے کرکے عوام کو حکومت کے خلاف سڑکوں پر لانے کی کامیاب جدوجہد کی تھی مگر پارلیمنٹ سے استعفوں کے سوال پر پیپلز پارٹی نے جواب طلبی کو شوکاز نوٹس کو بنیاد بنا کر پی ڈی ایم سے علیحدگی اختیار کرلی تھی جس کی فوری ابتدا اے این پی نے کی تھی جو صرف کے پی کے اور بلوچستان تک محدود ہے۔
پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا یہ کہنا درست ہے کہ پی ڈی ایم حکومت کے خلاف اتحاد تھا اور استعفے نہ دینے پر پی ڈی ایم کو انھیں شوکاز نوٹس نہیں دینا چاہیے تھا۔ چھ ماہ میں پی ڈی ایم کے متحد رہنے کے دوران اپوزیشن جماعتوں نے تمام ضمنی انتخابات جیتے تھے اور شوکاز نوٹس دے کر پی ڈی ایم نے غلط کیا جس پر پی ڈی ایم معافی مانگے۔
انھوں نے پی پی اجلاس میں شوکاز نوٹس پھاڑ کر پی ڈی ایم میں انتشار بھی بڑھا دیا تھا۔ پی ڈی ایم ٹوٹنے کے چار ماہ میں اپوزیشن آزاد کشمیر اور سیالکوٹ میں انتخابات بری طرح ہاری اور مسلم لیگ (ن) بڑے بڑے جلسے وہاں کرکے بھی ناکام رہی، البتہ کراچی میں قومی اسمبلی کی پی ٹی آئی کے فیصل واوڈا کی قومی اسمبلی کی ایک اہم نشست پیپلز پارٹی نے اپنی حکمت عملی سے ضرور جیت لی اور سندھ کے تمام ضمنی الیکشن پی پی جیتی اور مسلم لیگ (ن) سیالکوٹ کے مضبوط گڑھ میں اپنی نشست سات ہزار کے بڑے فرق سے ہار گئی۔
پیپلز پارٹی اور اے این پی کے پی ڈی ایم چھوڑنے کا سب سے بڑا فائدہ حکومت کو اور نقصان مسلم لیگ (ن) کو ہوا ہے جو اپنے دو بیانیوں کے باعث بھی باہمی اختلافات کا شکار ہے جب کہ پیپلز پارٹی کو کوئی نقصان نہیں ہوا بلکہ فائدہ ہوا ہے۔ پی پی کی سندھ کی حکومت برقرار، قومی اسمبلی کی ایک نشست میں اضافہ اور آزادکشمیر میں پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) سے ڈبل نشستیں جیت لی ہیں۔
پی ڈی ایم میں ہوتے ہوئے گلگت بلتستان کے انتخابات متحد ہو کر لڑنے کے بجائے الگ الگ الیکشن لڑ کر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے شکست کھائی اور پی ٹی آئی کو جتوایا تھا۔ پی ڈی ایم میں ہوتے ہوئے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے پی ٹی آئی کا مقابلہ کیا اور آپس میں لڑ کر پی ٹی آئی کو حکومت بنانے کا خود موقعہ دیا تھا۔
پی ڈی ایم ٹوٹنے کے بعد بھی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے اپنے اختلافات ختم کرکے مل کر آزاد کشمیر کا الیکشن لڑنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور بڑے بڑے دعوے حقائق کو نظرانداز کرکے ضرور کیے تھے جب کہ دونوں کو حقائق کا پورا علم تھا مگر جان بوجھ کر دونوں نے آپس میں لڑ کر پی ٹی آئی کو واضح اکثریت دلانے میں اہم کردار ادا کیا اور جان بوجھ کر شکست کھائی اور دونوں نے گلگت بلتستان کی شکست سے سبق نہیں سیکھا۔
موجودہ پی ڈی ایم کی جدوجہد ہے ہی نہیں محض مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی موجودہ حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں اس سلسلے میں مولانا فضل الرحمن کا بیان ایک خواب ہی ہو سکتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی پالیسی سے ظاہر ہے کہ اسے موجودہ وفاقی اور پنجاب حکومت کے خاتمے سے اب کوئی دلچسپی نہیں اور وہ موجودہ حکومت کو 5 سالہ مدت پوری کرنے کا پورا موقعہ دے رہی ہے جب کہ بلاول زرداری کو جلد عام انتخابات کی توقع ہے مگر وزیر اعظم عمران خان قبل ازوقت انتخابات کا خطرہ مول نہیں لیں گے۔
مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی پی ڈی ایم کے ٹوٹنے کے اصل ذمے دار ہیں۔ پیپلز پارٹی کو صرف قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے پر قائل کیا جاتااور پی ٹی آئی کی طرح پیپلز پارٹی کو سندھ حکومت برقرار رکھنے کا موقعہ دیا جاتا تو پی ڈی ایم کو برقرار رکھا جا سکتا تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا اور پیپلز پارٹی کو شوکاز نوٹس دے کر مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی نے اپنی ضد اور انا کے لیے پی ڈی ایم تڑوانے میں اہم کردار ادا کیا۔